روحانی حقائق کا چھپانا (بیسواں باب)

روحانی حقائق کا چھپانا کے عنوان سے بیسویں باب میں  حکمت نمبر 189 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اسرار کی پوشیدگی کو اپنے اس قول میں واضح فرمایا ہے ۔
189)لا يَنْبَغي لِلسّالِكِ أنْ يُعَبِّرَ عَنْ وارِداتِهِ؛ فإنَّ ذلِكَ يُقِلَّ عَمَلَها في قَلبِهِ وَيَمْنَعْهُ وُجودَ الصِّدْقِ مَعَ رَبِّهِ.
سالک کو واردات الہیہ بیان نہ کرنا چاہیئے ۔ کیونکہ ان کو بیان کرنا ، ان چیزوں میں سے ہے جو واردات کے اثر کو اس کے دل سے کم کر دیتی ہیں۔ اور واردات میں اس کے رب کے ساتھ سچائی اوراخلاص سے اس کو روک دیتی ہیں۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ مرید اپنے سیر کی حالت میں اپنے علم و عمل اور اپنے واردات کے حال کوچھپانے پر مامور ہوتا ہے۔ اس لئے اس کا اپنے عمل کو ظاہر کرنا، اس کے اخلاص کی کمی کی وجہ سے ہے۔ اور اس کا اپنے احوال کو ظاہر کر نا اپنے رب کے ساتھ اس کی سچائی کی کمی کی وجہ سے ہے۔
نیز یہ کہ احوال : اللہ قہار کی بارگاہ سے آتے ہیں۔ اس وجہ سے وہ قلوب کو خوف سے ہلا دیتے ہیں اور شوق میں بے تاب کر دیتے ہیں۔ لیکن جب مرید ان کو ظاہر کر دیتا ہے، تو و و احوال ٹھنڈے ہو جاتے ہیں اور ان کا نور بجھ جاتا ہے۔
اس کی مثال :- اس شخص کی طرح ہے ۔ جس کی دیگچی چو لہے پر جوش کھارہی ہو ۔ جب وہ اس میں پھر پانی ڈال دیتا ہے، تو وہ دوبارہ ابلنے لگتی ہے۔ لیکن اگر وہ اس کی آگ کو کم کر دیتا ہے اور دیگچی کو ہلا دیتا ہے تو اس کا سالن ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔
اسی طرح واردات الہیہ کا حال ہے۔ وہ قلوب کو ان کے مولائے حقیقی اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ تو جب مرید ان کو ظاہر کرتا اور لوگوں سے بیان کر دیتا ہے۔ تو اس کے قلب میں ان واردت کا اثر کم ہو جاتا ہے۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے ، کہ اس کو ان واردات میں اپنے رب کے ساتھ سچائی کم ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ اسی طرح ان احوال کا استعمال کرنا ہے۔ جن کا ظاہر کرنا مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ ان کا ظاہر کرنا، قلوب کو مردہ کرتا ہے۔ اس لئے کہ ان کے بیان کرنے میں نفس کا فائدہ ہے۔ کیونکہ نفس کی فطرت یہی ہے کہ وہ تعریف اور اچھے ذکر کو پسند کرتا ہے۔ اگر چہ وہ دوستوں اور بھائیوں ہی کی طرف سے ہو۔ اکثر تم دیکھتے ہو کہ بعض فقراء احوال کو بیان کرتے اور اس پر فخر کرتے ہیں ۔ حالانکہ یہ درست نہیں ہے۔ ہاں ، اگر لوگ اس کی پیروی کرتے ہوں اور وہ پیروی کرنے اور فقرا کو آگے بڑھانے کے لئے بیان کرے، تو اس اچھی نیت کے ساتھ بیان کرنا بہتر ہے ۔ اور اکثر یہ احوال سوال کرنے کی حالت میں استعمال کئے جاتے ہیں ۔ اسی لئے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کے فورا ہی بعد سوال کا بیان کیا۔
یا تم اس طرح کہو :۔ چونکہ واردات الہیہ کا بیان کرنا ، ان امور سے ہے، جولوگوں کی توجہ، اور تقسیم کا سبب بنتے ہیں۔ اور توجہ اور تعظیم اس درجے پر پہنچاتا ہے کہ لوگ نذرانہ پیش کریں۔ لہذا فقیر کو قبض کے آداب کی ضرورت ہوتی ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں