سب سے بڑی کرامت (بیسواں باب)

سب سے بڑی کرامت کے عنوان سے بیسویں باب میں  حکمت نمبر 180 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اور سب سے بڑی کرامت :- اللہ تعالی کے متعلق سمجھ پیدا ہونا اور اللہ تعالیٰ کی قضا ( فیصلہ ) پر راضی رہنا اور اللہ تعالی پر بھروسہ کر کے اپنے اختیار اور تدبیر کو ترک کر دیتا ، اور جس حال میں اللہ تعالی قائم کر دے ، اس میں قائم رہنا ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے :۔
180) مِنْ عَلاَمَاتِ إِقَامَةِ الْحَقِّ لَكَ فِى الشَّىْءِ : إِقَامَتُهُ إِيَّاكَ فِيهِ مَعَ حُصُولِ النَّتَائِجِ.
تم کو کسی شے میں اللہ تعالیٰ کے قائم کرنے کی علامات میں سے اس شے کے فوائد حاصل ہونے کے ساتھ اللہ تعالی کا تم کو ہمیشہ اسی میں رکھنا ہے۔
(یعنی تم کو کسی شے میں اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے۔ اس کی ایک علامت یہ ہے:۔ کہ اس شے میں قائم ہونے کے فائدے تم کو حاصل ہو رہے ہیں۔ اور اس کے علاوہ کسی دوسری شے میں منتقل ہونے کی صورت بھی سامنے نہیں آتی ہے۔)
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو کسی ایسی حالت میں قائم کرے ، جس کو شریعت بھی منع نہیں کرتی ہے۔ اور عقل سلیم بھی اس کو برا نہیں سمجھتی ہے۔ تو اپنی طبیعت سے اس حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہونا ، بندے کے لئے مناسب نہیں ہے۔جب تک کہ خود اللہ تعالی ، جس نے اس کو اس حال میں قائم کیا ہے۔ اس کے اس حال سے نکلنے کا انتظام نہ کرے ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ وَقُلْ رَّبِّ ادْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَ أَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ آپ کہہ دیجئے اے میرے رب تو مجھے سچائی کے ساتھ داخل کر اور سچائی کے ساتھ نکال
پس مدخل صدق یہ ہے کہ تم کسی شے میں اللہ تعالی کی مرضی سے داخل ہو ، نہ کہ اپنے اختیار سے اور مخرج صدق یہ ہے کہ تم اس شے سے اللہ تعالی کی مرضی سے نکلونہ کہ اپنے اختیار ہے۔ لہذا اگر اللہ تعالی نے تم کو اسباب میں قائم کیا ہے تو تم اس میں سے اپنے اختیار سے نہ نکلو۔ کیونکہ اس طرح تم تکلیف اور پریشانی میں مبتلا ہو جاؤ گے ۔ لہذا تم اسباب ہی میں ٹھہرے رہو۔اور اس وقت تک انتظار کرو کہ اللہ تعالی تمہارے شیخ کی زبان سے واضح اشارہ کے ذریعہ یا تمہارے رب کی طرف سے غیبی آواز کے ذریعہ تم کو اسباب سے نکال کر دوسری شے میں منتقل کر دے اور اس کا بیان کتاب کی ابتدا میں گزر چکا ہے۔ اور تم کو اس شے میں جس میں تم ہو۔ اللہ تعالی کے قائم کرنے کی علامت :- اللہ تعالی کا تم کو اس شے میں فوائد کے حاصل ہونے اور دین کی سلامتی کے ساتھ ہمیشہ رکھنا ہے۔ اور فوائد سے مراد یہ ہے کہ بندے پر جو واجب اور مستحب حقوق عائد ہوتے ہیں۔ ان کو ادا کرتے رہنا۔ مثلا ز کوۃ کا ادا کرنا، بھوکے کو کھانا کھلانا، ننگے کو کپڑا پہنانا مظلوموں اور عاجزوں کی فریا درسی کرنا اور ان کے علاوہ دوسری نیکیاں۔
اور اگر اللہ تعالی بندے کو علم ظاہر کی نشر و اشاعت میں قائم کرے۔ تو اس میں اللہ تعالیٰ کے قائم کرنے کی علامت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کے لئے تعلیم دیتا ہے، اور اس کے بندوں کو فا ئدہ پہنچاتا ہے اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے اور جو کچھ اللہ تعالی کے پاس ہے اس کی خواہش کرتا ہے اور تواضع اختیار کرتا ہے اور طلباء کی گستاخیوں اور بے ادبیوں پر صبر کرتا ہے۔
اسی طرح ہر ظاہری صنعت و حرفت میں :۔ جبکہ وہ اس میں شریعت کے طریقے پر قائم ہو۔تو اپنے اختیار سے نہ منتقل ہو۔
اور اگر اللہ تعالی تم کو تجرید میں قائم کرے۔ تو تم دروازے پر کھڑے رہو اور آداب سے آراستہ رہو، یہاں تک کہ تمہارے لئے دروازہ کھول دیا جائے ۔
اور تم کو تجرید میں اللہ تعالیٰ کے قائم کرنے کی علامت ۔ اس کے فوائد کا حاصل ہونا ہے۔ اور تجرید کے فوائد :- احوال و مقامات میں ترقی کرنا ہے۔ یہانتک کہ تم آخری مقام پر پہنچ جاؤ۔ اور مقامات تو بہ اور تقوی اور استقامت دین ،زہد ورع اور خوف ور جا، اور رضا و تسلیم اور اخلاص و صدق اور اطمینان قلب و مراقبہ اور مشاہد وہ معرفت ہیں ۔
اور ہر مقام کے لئے ۔ علم اور عمل اور حال ہے۔ پہلا درجہ ۔ علم ۔ دوسرا درجہ ۔ عمل اور تیسرا درجہ – حال ہے۔ پھر اس کے بعد مقام ہے۔ پھر جب معرفت کے مقام پر پہنچ جاتا اور اس میں ثابت و قائم ہو جاتا ہے۔ تو سب مقامات ختم ہو جاتے ہیں۔ ایک عارف نے فرمایا :- توحید کے سمندر میں احوال ڈوب جاتے ہیں اور مقامات نیست و نابود ہو جاتے ہیں ۔
وَإِنَّ إِلَى رَبِّكَ الْمُنتَهَى اور بیشک تمہارے رب کے پاس آخری مقام ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں