سختیاں بھی رحمت ہیں (چوبیسواں باب)

سختیاں بھی رحمت ہیں کے عنوان سےچوبیسویں باب میں  حکمت نمبر 230 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے۔
230) عَلِمَ أَنَّكَ لا تَقْبَلُ النُّصْحَ (المجرّد) لِمُجَرَّدِ القَوْلِ ، فَذَوَّقَكَ مِنْ ذَوَاقِهَا مَا سَهَّلَ عَلَيْكَ فِرَاقَهَا.
اللہ تعالیٰ نے معلوم کیا کہ صرف کہنے سے تم نصیحت کو نہ قبول کرو گے۔ تو اس نے تم کو دنیا کی سختیوں کا مزہ چکھایاتا کہ اس کا چھوڑ نا تمہارے لئے آسان ہو۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: اللہ تعالیٰ نے یہ معلوم کیا کہ اس کے بندوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں، جو صرف کہنے سے نصیحت نہ قبول کریں گے۔نہ وہ وعظ ونصیحت سن کرد نیا میں زہد اختیار کریں گے ۔ اس لئے کہ ا کثر علم اور سمجھ والے قرآن کریم سنتے ہیں۔ جو ان کو دنیا کی برائی پرتنبیہ کرتا اور اس کےفریب سے ڈراتا ہے۔ لیکن وہ اس نصیحت سے غافل رہتے ہیں۔ اور انہی چیزوں میں مشغول رہتے ہیں، جن کی وجہ سے ان کے قلوب کے لئے نصیحت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہذا جب اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ اپنی بارگاہ اقدس کے لئے اپنے بندوں میں سے جس کو مناسب سمجھے منتخب کرے ۔ تو اس نے ان کے لئے دنیا کو خراب اور تلخ بنا دیا۔ اور ان کے اوپر سخت بلا ئیں اور تکلیفیں نازل کیں اور ان کے ظاہری اعضائے جسمانی کو آزمائشوں کی جگہ بنائی اور یہ سب اللہ سبحانہ تعالیٰ کی عنایت اور احسان ہے۔ تا کہ وہ دنیا کے باطن کی تلخی کو چکھیں اور وہ اس کی ظاہری خوبصورتی اور لذت سے فریب نہ کھا ئیں ۔
حضرت نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام سے دریافت کیا گیا:-
‌مَنْ ‌أَوْلِيَاءِ ‌اللَّهِ ‌الَّذِينَ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ فَقَالَ: الَّذِينَ نَظَرُوا إِلَى بَاطِنِ الدُّنْيَا حِينَ نَظَرَ النَّاسُ إِلَى ظَاهِرِهَا، وَاهْتَمُّوا بِآجِلِ الدُّنْيَا حِينَ اهْتَمَّ النَّاسُ بِعَاجِلِهَا. وہ اولیاء اللہ کون لوگ ہیں، جن کے لئے نہ کوئی خوف ہے، اور نہ غم میں مبتلا ہوں گے ۔ (نہ دنیا میں نہ آخرت میں ) حضرت ﷺ نے فرمایا :- اولیاء اللہ وہ لوگ ہیں ، جنھوں نے دنیا کے باطن کو دیکھا۔ جبکہ لوگوں نے اس کے ظاہر کو دیکھا۔ اور انہوں نے دنیاوی اعمال کے مقررہ وقت پر ملنے والے اجر اور نفع کا اہتمام کیا۔ جبکہ لوگوں نے اس کے فورا ملنے والے اجر ونفع کا اہتمام کیا ۔
اور اس سے پہلے حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے اس موضوع میں :۔ کائنات کا ظاہر دھوکا وفریب ہے اور اس کا باطن عبرت اور نصیحت ہے یہ بحث گزر چکی ہے۔ لہذا ان تعرفات جلالیہ میں سے جو اس کے نفس کو متغیر اور مغلوب کرتے ہیں، جو کچھ ولی کے اوپر نازل ہوتا ہے۔ وہ ولی کے حق میں بہت ہی بہتر ہوتا ہے۔ عارفین نے فرمایا ہے : ۔ امتحان ، طاقت کے مطابق ہوتا ہے اور ہر تکلیف مرتبہ کوبڑھاتا ہے اور باقی رہنے والے اللہ تعالیٰ کا امتحان ، بندے کے باقی رہنے کو ختم کر دیتا ہے ۔ لہذا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ولی کے قلب میں اس دنیا کے کسی شے کی محبت کا کچھ حصہ ، یا اس دنیا کی کسی شے پر بھروسہ باقی رہ جاتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اس کے او پرایسی شے کو مسلط کر دیتا ہے۔ جو اس کو اس محبت اور بھروسہ کی بنا پر پریشان کر دیتا ہے۔ اور اس شے کو اس کے لئے تلخ بنادیتا ہے۔ یہ سب اس کے اوپر اللہ تعالیٰ کی عنایت اور احسان ہے۔ تا کہ وہ اس عالم سے عالم ملکوت کی طرف سیر کرے۔ پھر جب اس کی سیر ثابت و قائم ہو جاتی ہے، تو اس کے نزدیک شیرین وو تلخ عزت وذلت غناو فقر برابر ہو جاتا ہے۔ کیونکہ وہ اس حقیقت تک پہنچ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس جو کچھ بھی آتا ہے، سب اس کے ماسوی ہیں۔ اور سب برابر ہیں۔ اور یہی حقیقی علم ہے۔ اور اسی کو علم نافع کہتے ہیں۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں