سیر مجازی (پچیسواں باب)

سیر مجازی کے عنوان سے پچیسویں باب میں  حکمت نمبر 244 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سیر مجازی ہے۔ یعنی تعلقات اور قاطعات کے ختم کرنے کا نام سیر ہے۔ ورنہ حقیقت ویسی ہی ہے، جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا ہے:۔
، إذ لا مَسَافَةَ بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ حَتَّى تَطْوِيَهَا رِحْلَتُكَ ، وَلاَ قَطِيعَةَ بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ حَتَّى تَمْحُوَهَا وُصْلَتُكَ .
تمہارے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہے، جس کو تم طے کرو ۔ اور تمہارے اور اس کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہے، جس کو تمہارا پہنچنا دور کر دے۔ میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔
یہاں یہ سوال بحث سے مقدر ہے۔ گویا کہ کسی شخص نے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) سے سوال کیا۔ کیا ہمارے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی فاصلہ ہے۔ جس کے طے کرنے کے لئے اس کی طرف سائرین کی سیر واقع ہوتی ہے؟ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے جواب دیا :- تمہارے اور اس کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہے ۔ مگر کثیف نفس کا حجاب ، اور قلب کے دنیاوی تعلقات ۔ لہذا نفس کی عادات کے خلاف کرنا ، اور اس کی خواہشات کو ختم کرنا ، اور تعلقات اور قاطعات کو منقطع کرنا:۔ یہی اللہ تعالیٰ کی طرف سیر ہے۔ لہذا جس شخص نے نفس کی عادات کے خلاف کیا ، اس کے اوپر سے ظلمانی حجابات دور ہو گئے ۔ اور جس نے قلب کے تعلقات کو ختم کیا اس کے اوپر علوم ربانی کا فیضان ہوا۔ اور اس کے اوپر عرفان کے سورج روشن ہو گئے ۔ اور یہی اللہ تعالیٰ تک پہنچنا ہے۔ لہذا تمہارے اور اس کے درمیان کوئی محسوس فاصلہ نہیں ہے۔ جس کی تمہاری سیر طے کرے ۔ اور تمہارے اور اس کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہے ۔ جس کو تمہارا پہنچنا دور کرے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلٍ الْوَريدُ
اور ہم نے انسان کو پیدا کیا۔ اور اس کا نفس اس کے اندر جو وسوسہ پیدا کرتا ہے۔ ہم اس کو جانتے ہیں ۔ اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔
لہذا ہمارے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان صرف ہمارے نفس کے وجود کا وہم حائل ہے۔ اور اس کے علاوہ کوئی دوسری شے حائل نہیں ہے۔ لہذا اگر ہم نفس سے گم ہو جائیں۔ تو ہم اپنے کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پائیں گے ۔ اور نفس سے گم ہونا، اس وقت تک ممکن نہیں ہے، جب تک وہ مردہ نہ ہو جائے ۔ اور اس کی موت ، اس کی عادات کی مخالفت میں ہے۔ حضرت شیخ ابو مدین نے فرمایا ہے ۔ جو شخص مرتا نہیں ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھتا ہے۔
اور حضرت شیخ ابو العباس صدسی نے فرمایا ہے :۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں داخل ہونے کے لئے صرف دو دروازے ہیں ۔ ایک دروازہ فنائے اکبر ہے ۔ یعنی طبیعی موت ۔ دوسرا درواز ہ فنائے اصغر ہے۔ جس کو حضرات صوفیائے کرام مراد لیتے ہیں اور ایک عارف نے فرمایا ہے :۔ انسان اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس وقت تک نہیں داخل ہوتاہے جب تک وہ چار موتوں سے نہ مر جائے ۔
پہلی سرخ موت اور وہ نفس کی مخالفت ہے۔
دوسری ، سیاہ موت :- اور وہ مخلوق کی ایذارسانی کو برداشت کرنا ہے۔
تیسری ، سفید موت : ۔ اور وہ فاقہ کرنا ہے۔
چوتھی ، نیلی موت :۔ اور وہ گدڑیوں کا پہننا ہے۔
حضرت شطیبی نے فرمایا ہے :۔ تم یہ جان لو کہ اللہ تعالیٰ کا راستہ ایسا نہیں ہے، جس میں کوئی جنگل اور میدان ہو، یا کوئی بھلا دینے والا مقام ہو۔ بلکہ وہ منزلیں اور احوال ہیں۔ اللہ تعالیٰ نےسیرمنزل اور ہر حال کے لئے معین و مددگار بنا دئیے ہیں۔ اور اللہ سبحانہ تعالیٰ اپنے وعدے کو پورا کرتا ہے۔ اور اپنے بندے کی مدد کرتا ہے۔ اور تنہا مخالف جماعتوں کو شکست دیدیتا ہے۔
اور میدان اور فاصلے : صرف مرغوب اشیاء کی طرف مائل ہونے ، اور عادتوں کی پیروی کرنے ، اور نفس کے ساتھ صلح کرنے ، اور حس اور عقل اور وہم کے ساتھ ٹھہر جانے میں ہے ۔ اور حجاب اٹھ جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کا راستہ واضح ہو جاتا ہے۔
جیسا کہ مباحث اصلیہ میں مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا ہے :۔
وَإِنَّمَا الْقَوْمُ مُسَافِرُونَ لِحَضْرَةِ الْحَقِّ وَ ظَاعِنُونَ
اور در حقیقت صوفیائے کرام مسافر ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کی طرف سفر کر رہے ہیں۔
فَاقْتَقَرُوا فِيهَا إِلَى دَليل ذِي بَصَر با السَّبر وَ الْمُقِيل
لہذاوہ لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ پر چلنے کے لئے ایسے صاحب بصیرت رہنما کے محتاج ہیں جو سیر اور سکون کی حالت سے آگاہ ہو ۔
قَدْ سَلَكَ الطَّرِيقَ ثُمَّ عَادَ لِيُخْبِرَ الْقَوْمَ بِمَا اسْتَفَادَ
جس نے راستہ طے کیا ہو ۔ پھر لوٹ آیا ہو ۔ تا کہ جو فوائد اس نے حاصل کئے ہیں ، ان سےصوفیائے کرام اور طالبین کو آگاہ کرے ۔ نیز حضرت شطیبی نے فرمایا ہے :۔ آدمیوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جن کو مجاہد ہ مشاہدے سے روک دیتا ہے۔ تو ان کے اوپر احوال غالب ہو جاتے ہیں۔ اور ان کے اور آخری منزل کے درمیان حائل ہو جاتے ہیں۔ اور مخلوق کے راستے جدا جدا ہیں۔ ہر شخص ایک ہی راستے پر نہیں چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:-
لِكُلّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَ مِنْهَاجًا ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے ایک شریعت اور راستہ بنا دیا ہے۔
وَلِكُلِّ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلَيهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ اور ہر شخص کے لئے ایک طرف اور قبلہ ہے جس کی طرف وہ منہ کرتا ہے۔ لہذا تم لوگ نیکیوں میں سبقت کرو۔
اور ہر شخص اس طرف سے گذرتا ہے، جس طرف کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس کو مخصوص کیا ہے۔ اور اسی وجہ سے کتا بیں دیکھنے سے بہت سے مسلک نظر آتے ہیں۔ اس لئے کہ ہمتیں مختلف ہونے کی وجہ سے مسلکوں کی زیادتی ہو گئی ہے۔ خاص کر وہ لوگ جن کی طبیعت ظاہری علم پر پیدا کی گئی ہے ۔ وہ لوگ سب لوگوں سے زیادہ سیدھے راستے سے دور ہوتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ دروازہ کھول کر ان کی دستگیری نہ فرمائے ۔
کیونکہ شریعت سراپا حکمت ہے۔ اور اس کے ماتحت بہت سی حکمتیں ہیں ۔ لہذا جو شخص ان کو نہیں سمجھتا ہے۔ اس کے باغیچے میں پھول تو آتے ہیں مگر پھل نہیں لکھتے ہیں۔
اور اسی بنا پر انکار (اعتراض و اختلاف ) واقع ہوا ہے ۔ یہانتک کہ اللہ تعالیٰ نے علمائے ظاہر کے ہاتھوں بہت سے صوفیائے کرام رضی اللہ عنہم کا امتحان لیا۔ جبکہ علمائے ظاہر نے کفر و بے دینی ، اور بدعت و گمراہی کے ساتھ صوفیائے کرام کو منسوب کیا ۔ اور خصوصیت کے سر کا لازمی تقاضا یہی ہے
سُنَّةُ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلاً
یہ اللہ تعالیٰ کی وہ سنت ہے، جو پہلے بھی گذر چکی ہے۔ اور تم اللہ تعالیٰ کی سنت میں کوئی تبدیلی ہرگز نہ پاؤ گے۔
وَلَوْ جَعَلْنَاهُ مَلَكًا لَجَعَلْنَاهُ رَجُلًا وَ لَلبَسْنَا عَلَيْهِمْ مَا يَلْبِسُونَ اور اگر ہم کسی فرشتے کو رسول بناتے ، تو اس کو بھی آدمی ہی بنا کر بھیجتے ۔ اور ہم ان لوگوں پر وہ شےمشتبہ کر دیتے، جس کو وہ مشتبہ کر رہے ہیں۔
اور پہلی امتیں اس قول کے باعث ہلاک ہو ئیں:۔
إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَ نَا عَلَى أُمَّةٍ وَ أَنَا عَلَى آثَارِهِمْ مُّقْتَدُونَ
ہم نے اپنے آبا ؤ اجداد کو ایک راستے پر پایا۔ اور ہم انہیں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ۔ لہذا حاصل یہ ہوا ۔ انسان جب نفس کے ساتھ اس کے میدان میں چکر لگاتا ہے۔ پھر وہ اس کے ساتھ جہاد کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس کو درست کر لیتا ہے۔ اور اس کو ان اوصاف سے جو اس کو روکنے والی ہیں ، پاک کر لیتا ہے ۔ تو اس وقت اس کا نفس اپنی اصل کی طرف رجوع کرتا ہے ۔ اور اس کا اصلی مقام بارگاہ الہٰی ہے ۔ جس میں وہ مقیم تھا۔ اس لئے کہ نفس اور بارگاہ الہٰی کے درمیان ظلمانی حجابوں کے سوا کوئی ہے حائل نہیں ہے ۔ لہذا جب وہ ظلمانی حجابات سے نکل جاتا ہے تو وہ ظلمانی جسم میں روشن نور بن کر اپنی اصل کی طرف لوٹتا ہے ۔ لہذا وہ اس کے نزدیک ایسا پوشیدہ یا قوت بن جاتا ہے۔ جس کو حقوق کی سیپیاں ڈھانپے ہوتی ہیں۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں