شریعت +طریقت=حقیقت.

‌الشَّرِيعَةَ ‌أَقْوَالِي ،وَالطَّرِيقَةَأَفْعَالِیْ وَالْحَقِيقَةَحَالِیْ،وَالْمَعْرِفَۃُ رَأْسَ مَالِیْ

(کشف الخفاء فی حرف الشین حدیث نمبر:1532از امام اسماعیل العجلونی)

شریعت میرے اقوال ہیں ،طریقت میرے اعمال ہیں،حقیقت میرا حال ہے اور معرفت میرا اصل سرمایہ ہے۔

سلسلہ طریقت مسلمانوں کی اصلاح،تزکیہ باطن اور اﷲ تک پہنچنے کا بہترین ذریعہ ہے اس کی ضرورت اور اہمیت کا انکار نہ کل تھا اور نہ آج ہے لیکن وقت کا المیہ یہ ہے کہ کچھ بے علم اور بے شرع نام نہاد پیروں نے اس مقدس مشن کی صداقت اور تقدس کو مجروح کررکھا ہے شریعت کی کھلے بندوں مخالفت کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ شریعت الگ ہے اور طریقت الگ چیز ہے جبکہ بعض ظاہری علم والے علم طریقت کا انکار کرتے ہیں اور صرف شریعت کے علم کو کافی سمجھتے ہیں ۔شریعت کو طریقت سے الگ جاننا ایک فکرِ فاسد ہے شریعت کے سوا اﷲ تک پہنچنے کی ہر راہ بند ہے ۔اور طریقت حدودِ شریعت میں رہتے ہوئے قربِ خدا کا نام ہے جیساکہ رسالہ قشیریہ میں ہے کہ ’’شریعت ،طریقت اور حقیقت میں کوئی مخالفت نہیں بلکہ ایک دوسرے کے مددگار ہیں‘‘ علمائے شریعت کبھی طریقت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے بلکہ قدر کرتے اور نگہبان ہوتے ہیں البتہ انہیں جدا کرنے والوں کیلئے علمائے شریعت سدراہ ہوتے ہیں۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شریعت صرف چند احکام (فرض،واجب،حلال،حرام)کا نام ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ شریعت تمام احکامات (جسم وجان ،روح وقلب،علوم ومعارف)کا مجموعہ ہے جبکہ طریقت شریعت میں رہتے ہوئے اعلیٰ درجے کا نام ہے بدنی رغبت سے شریعت کے اعمال، قلبی شوق سے طریقت کے امور اور اشتیاق روح سے رغبت کو حقیقت کا نام دیا گیا۔

                مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندیؔ رحمۃ اﷲ علیہ جن کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ حضرت جنید بغدادی کی طرح تصوف کو اسلامی لباس پہنایااور شریعت و طریقت کو ہم آہنگ کر دیاشریعت کی اساس پر طریقت کا قصر رفیع تعمیر کیا جسے طبقہ علماء اور طبقہ صوفیاء دونوں نے اپنا مسکن بنایا فرماتے ہیں

                ’’شریعت کے تین جزو ہیں علم،عمل اور اخلاص جب تک یہ تینوں جزو متحقق نہ ہوں شریعت متحقق نہیں ہوتی اور جب شریعت حاصل ہو گئی توگویا حق تعالیٰ کی رضامندی حاصل ہو گئی جو دنیا اور آخرت کی تمام سعادتوں سے بڑھ کر ہے ورضوان من اﷲ اکبر

                پس شریعت دنیا اور آخرت کی تمام سعادتوں کی ضامن ہے اور کوئی ایسا مطلب باقی نہیں جس کے حاصل کرنے کیلئے شریعت کے سوا کسی اور چیز کی طرف حاجت پڑے طریقت اور حقیقت جن سے صوفیاء ممتاز ہیں تیسری جزو یعنی اخلاص کے کامل کرنے میں شریعت کی خادم ہیں پس ان دونوں کی تکمیل سے مقصود شریعت کی تکمیل ہے شریعت کے سوا کچھ نہیں‘‘(مکتوباتِ امام ربانی مکتوب نمبر36حصہ اول )

                طریقت کو ہر آن شریعت کی کسوٹی پر پرکھنا چاہیئے اگر کوئی شے شریعت کے معیار پر پوری اترے تو قابل قبول ورنہ اسے رد کیا جائیگا۔

                شریعت مطہرہ ربانی نور کا فانوس ہے جس کے سوا کوئی روشنی نہیں(اسے علم الیقین کہہ سکتے ہیں )اس کی افزائش ہونے کا نام طریقت ہے( جسے عین الیقین کہہ سکتے ہیں) جب یہ دونوں نور مل جائیں تو حقائق تک رسائی ہوتی ہے (جسے حق الیقین کہہ سکتے ہیں ) گویا آسمانِ حقیقت پر اڑنے کیلئے شریعت و طریقت پر وں کا کام دیتے ہیں۔حدود شریعت کی پابندی اور انوار طریقت کی روشنی جمع ہوں تو اسرارِ حقیقت کی سیر ممکن ہے۔

قرآن رہے پیش نظر، یہ ہے شریعت ﷲ رہے پیشِ نظر ،یہ ہے طریقت

شریعت درخت ہے اور طریقت اس کا پھل پھول ،شریعت منبع ہے اور طریقت اس سے نکلا ہوا دریا ،طریقت ہمہ وقت شریعت کی محتاج ہے جب دریا کا اپنے منبع سے تعلق ٹوٹ جائے تو سوکھ جاتا ہے جبکہ طریقت کا شریعت سے تعلق نہ رہے تو یہ آگ بن جاتی ہے جو تمام اعمال کو بھسم کر ڈالتی ہے کاش کوئی ان شعلوں کو ظاہری آنکھ سے دیکھ سکتا ۔

الشریعۃ کالسفینۃوالطریقۃ کالبحروالحقیقۃ کالصدف والمعرفۃ کالدرفمن اراد یرکب السفینۃثم شرع فی البحریصل الی الدرومن ترک ھذا الترتیب لم یصل الی الدر

شریعت مطہرہ کشتی کی طرح ہےاور طریقت دریا کی طرح ہےاور حقیقت صدف کی طرح ہےاور معرفت موتی کی طرح ہےپس جوشخص موتی لینے کا ارادہ رکھتا ہےاسے شریعت کی کشتی میں سوار ہو کرطریقت کے دریا میں اترنا ہوگاتب موتی حاصل کریگا اور جس نے اس ترتیب کو چھوڑ دیاہر گز موتی نہ پائیگا۔

گویابحر حقیقت(بحر عشق و محبت) میں غواصی کرنا ہوگی تاکہ حقیقت کی صدف حاصل ہو جائےپھر شریعت کی کشتی میں آکر اس صدف کو کھولا جائیگا تو وہ در معرفت یعنی ذات پاک محبوب حقیقی کا عرفا ن حاصل ہوگا

                امام مالک ؒ کا قول ہے

                ومن تفقہ ولم یتصوف فقد تفسق ،من تصوف ولم یتفقہ فقد تزندق،ومن جمع بینھما فقد تحقق

(طبقات الکبریٰ فی ذکر شمس الدین الدیروطی از امام الشعرانی ۔ایقاظ الھمم شرح متن الحکم از ابن عجیبۃ۔)

 تصوف کے بغیر فقہ کا حصول فسق ہے فقہ کے بغیر معرفت کا حاصل کرنا زندیقیت ہے اور ان دونوں کو جمع کرنے والا حقیقت تک رسائی کرتا ہے۔

اسکی مزید وضاحت حضرت ابوبکر الوراق ؒکا یہ قول ہے

من اکتفی بالکلام من العمل دون الزہد والفقہ تزندق ،ومن اکتفی بالزھد دون الفقہ والکلام تبدع ،ومن اکتفی بالفقہ دون الزھد والورع تفسق ،ومن تفنن فی الامور کلھا تخلص(شعب الایمان للبیہقی،طبقات الکبریٰ امام الشعرنی )

جس نے فقہ اور زہد کو چھوڑ کر عمل کیلئے صرف علمِ کلام پر اکتفاء کیا اس نے زندیقیت اختیار کی،اور جس نے زہد پر اکتفاء کیا اور علم کلام اور فقہ کوچھوڑا اس نے بدعت کو اپنایا،جس نے فقہ پر اکتفاء کیا بغیر زہد اور ورع کے اس نے فسق کیا اور جس نے ان تمام فنون کو اپنایا خلوص اسی کو حاصل ہو ا۔

                اما م عبد الوہاب الشعرانی کا قول ہے

کل حقیقۃ لا تشھد بھا الشریعۃ فھی باطلۃ (طبقات الکبریٰ امام عبد الوہاب الشعرانی)

جس حقیقت کی شریعت تصدیق نہ کرے وہ حقیقت باطل ہے ۔

                اس کی مزید تصدیق امام ربانیؒ کے اس قول سے ہوتی ہے

’’طریقت اور شریعت ایک دوسرے کی عین ہیں اور بال برابر ان کے درمیان ان میں فرق نہیں ہے فرق صرف اجمال اور تفصیل اور استدلال اور کشف کا ہے وکل ماخالف الشریعۃ مردود وکل حقیقۃ ردتھا الشریعۃ جو کچھ شریعت کے مخالف وہ مردود ہے اور جس حقیقت کو شریعت رد کردے وہ زندقہ ہے۔شریعت کو اپنی جگہ قائم رکھ کر حقیقت کو طلب کرنا بہادروں کا کام ہے‘‘ (مکتوباتِ امام ربانی مکتوب نمبر43حصہ اول )

                شریعت اور طریقت کا آپس میں تعلق جسم اور روح کی طرح ہے شریعت جسم ہے اور طریقت روح کی مانند ہے تو شریعت بغیر طریقت کے ایسے ہے جیسے جسم بلا روح اور طریقت بغیر شریعت ایسے ہے جیسے روح بغیر جسم جس طرح دونوں کے ملنے سے انسان مکمل ہوتا ہے اسی طرح شریعت اور طریقت کے ملنے سے حقیقت تک رسائی ہوتی ہے ۔

وھل ظاہر الشرع وعلم الباطن الا کجسم فیہ روح ساکن

ظاہری شریعت اور باطنی طریقت سوائے اس کے اور کیا ہے جیسے جسم میں ساکن روح ہو

                یہ چیزیں اب نئی نہیں دورِ رسالت اور صحابہ کے دور میں بھی اسی طرح تھیں حضرت الشیخ آفندی فرماتے ہیں

                ’’حضرت ابوبکر صدیق پر معرفت کا غلبہ تھا حضرت عمر فاروق پر شریعت کا ،حضرت عثمان غنی پر طریقت کا اور حضرت علی پر حقیقت کا غلبہ تھا اگر چہ یہ سب حضرات ان چاروں مراتب(معرفت، شریعت،طریقت،حقیقت) میں کامل تھے‘‘

                اعلیٰحضرت عظیم البرکت الشاہ احمد رضا خانؒ فرماتے ہیں

                ’’شریعت،طریقت،حقیقت،معرفت میں کوئی آپس میں مخالفت نہیں اس کا مدعی اگر بے سمجھے کہے تو نرا جاہل ہے اور اگر سمجھ کر کہے تو گمراہ ،بددین۔شریعت حضور اقدس ﷺ کے اقوال ہیں اور طریقت حضور کے افعال۔اور حقیقت حضور کے احوال،اور معرفت حضور کے علوم بے مثال صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ واصحابہ الی ما یزال‘‘(فتاویٰ رضویہ جلد 21صفحہ 460)

شریعت ،طریقت اورحقیقت کا آپس میں تعلق

                اس جگہ اتنی گنجائش نہیں کہ ہر عبارت کی تشریح کی جائے صرف اقوال اور اصل عبارات بطور تصدیق و دلیل پیش کی جاتیں ہیں۔

                یاایھا الذین امنوا اصبروا وصابروا ورابطوالعلکم تفلحون(آل عمران:200)

                ’’اے ایمان والو!صبر کرو (نفس کو پابند کرو)ثابت قدم رہو(ڈٹ جاؤ) کمر بستہ رہو( نفس کو اچھی نیت پر آمادہ کرو) اور ہمیشہ اﷲسے ڈرتے رہو تاکہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاؤ‘‘

                 تفسیر البحر المدیدمیں اس آیت کے تحت لکھا ہے ’’اصبروا رسوماتِ شرعیہ کی حفاظت کرو صابروا انوار طریقت کو حاصل کرو رابطواجو تمہارے دلوں میں اسرارِ حقیقت کی ضمانت بنیں گے‘‘

                جو ظاہری شریعت پر ایمان لائے اور مجاہدہ نفس کرے عمل ِطریقت سے ان پر ہی انوار حقیقت کھلتے ہیں

                علامہ آلوسی ؒسورۃ الفرقان کی آیت74کی تفسیر کے تحت روح المعانی میں فرماتے ہیں

                ’’ابتداء میں مکلف شریعت کا ہونا درمیان میں آدابِ طریقت سے ادب حاصل کرنا اور آخر میں اقتضائے حقیقت ہے ‘‘

                شیطان نفس اور ضلالت ان تینوں کا نشانہ بالترتیب شریعت طریقت اور حقیقت ہوتی ہے حکمت ثمرہ ہے طریقت کااورطریقت خلاصہ ہے شریعت کا ۔

                شریعت زمین ہے طریقت سیڑھی یا چڑھنے کا ذریعہ اور حقیقت آسمان ہے آسمان حقائق تک رسائی طریقت کی سیڑھی کے بغیر ممکن نہیں

جس طرح ہرایک چیز کا دروازہ ہوتا اسی طرح ان تینوں کے بھی دروازے ہیں تفسیر البحر المدید میں ابنِ عجیبیۃ واتوا البیوت من ابوابھا(البقرۃ:189) کی تفسیر میں فرماتے ہیں

                شریعت ایک گھر ہے جس کے تین دروازے ہیں (1)توبہ(2) استقامت(3)تقویٰ

                طریقت بھی گھر ہے جس کے تین دروازے ہیں(1)اخلاص(2)صدق (3)طمانیت

                حقیقت بھی گھر ہے جس کے تین دروازے ہیں(1)مراقبہ(2)مشاہدہ(3)معرفت

                ان تینوں کی تشریح و تفصیل علماء ومفسرین نے مختلف صورتوں میں کی ہے علامہ آلوسی ؒ الٓمٓ کی تفسیر کے تحت روح المعانی میں فرماتے ہیں

                فی الحروف رمزاالی ثلاثۃ أشیاء فالالف الی الشریعۃ واللام الی الطریقۃوالمیم الی الحقیقۃ

                ’’الٓمٓ حروف مقطعات میں تین چیزیں بیان ہوئیں الف سے مراد شریعت لام سے مراد طریقت اور میم سے مراد حقیقت ہے۔ ‘‘

                اور تفسیر النیسابوری میں انہی حروف مقطعات کے ذیل میں ہے ۔

                ’’الف میں اشارہ ہے کہ سب سے پہلے شریعت پر استقامت ضروری ہے لام میں اشارہ ہے مجاہدات کا حصول طریقت کی رعایت سے اور میم میں اشارہ ہے بندے کا مقام محبت میں گم ہو جانا جسے مقامِ فنا کہتے ہیں اور یہ حقیقت کا مقام ہے۔ ‘‘

                کل فی فلک یسبحون(یٰس:40) کے تحت تفسیر النیسابوری میں ہے’’ اہل اسلام شریعت کی کشتی میں ہیں اہلِ ایمان طریقت کی کشتی میں ہیں اور اہل ولایت اطوارِ حقیقت کی کشتی کے سوار ہیں ‘‘۔

                اور لا لشمس ینبغی لھا (یٰس:40)کے تحت فرماتے ہیں’’ ظاہری علوم کے حاملین سفینہ شریعت کے سوار ہیں اور خواص بحرِ حقیقت میں غوطہ زن ہیں اور اہل طریقت ان دونوں کے جامع ہیں‘‘ (شریعت کے عامل اورطریقت کے حامل ،کشتی کے سوار بھی غوطہ زن بھی )سالکین کی سلامتی کیلئے ضروری ہے کہ شریعت کا سفینہ ہو طریقت جاننے والاملاح ہو اس بحرِ حقیقت کو عبور کرنے کیلئے۔

شریعت و طریقت کی حکمت الفاظ سے سمجھائی جا سکتی ہے اس کے مخاطب عوام ہیں جبکہ اسرار حقیقت کی حکمت خاموشی اور سکوت ہوتا ہے اس کے مخاطب خواص ہو تے ہیں جس کی خوبصورت مثال حاشیہ رد المختار میں علامہ ابن عابدین ؒنے دی ہے

                ’’شریعت(ظاہر) اور طریقت(باطن) جب اکٹھی ہوتی ہیں توحقیقت تک رسائی ہوتی ہے جو اصل مقصود ہے اسی طرح جیسے دودھ میں مکھن نظر نہیں آتا جب تک دودھ کو بلو(زور سے ہلا) نہ لیا جائے مراد ان تینوں کا عبدیت پر قائم رہنا ہے شریعت و طریقت کو جمع کرنا اﷲ تک پہنچنا ہے اورشریعت و طریقت کا جوہر یا مغز (مکھن) حقیقت ہے ‘‘

(دودھ(شریعت) کے بغیر دہی (طریقت) ممکن نہیں اور دہی کے بغیر( مکھن) ممکن نہیں )

                سورہ الاعراف آیت 26کے ضمن میں صاحب تفسیر روح المعانی فرماتے ہیں

                اللباس(ڈھانپنے والا) اشارۃ الی الشریعۃاس میں اشارہ شریعت کا ہے وریشا(زینت کی چیز) اشارۃ الی الطریقۃ اس میں اشارہ طریقت کا ہے ولباس التقوی(پرہیز گاری کا لباس) اشارۃ الی الحقیقۃاس میں اشارہ حقیقت کا ہے

                امام فخرالدین الرازی اپنی تفسیر مفاتیح الغیب میں فرماتے ہیں

                ’’جب تو کہے ایاک نعبد تو اس سے مراد عالمِ شریعت ہے جب کہے ایاک نستعین تو اس سے مراد عالمِ طریقت ہے اور جب کہے اھدنا الصراط المستقیم تو اس سے مراد عالمِ حقیقت ہے ‘‘

                امام الرازی موعظۃ من ربکم وشفاء لما فی الصدور وھدی ورحمۃ (یونس:57)کے ذیل میں فرماتے ہیں

                الحاصل یہ کہ اس موعظۃ میں اشارہ ہے ظاہری اعضاء کو پاک کرنے کا یہ شریعت ہے ااور شفاء میں اشارہ ہے اخلاق ذمیمہ اورعقائدِ فاسدہ سے ارواح کو پاک کرنا یہ طریقت ہے اور والھدی میں اشارہ ہے صدیقین کے قلوب میں نور حق کے ظہور کا یہ حقیقت ہے

                اہلِ فن کے نزدیک اعمال کی تین قسمیں ہیں

(1)عمل شریعت اسے اسلام کہا گیا ،ابتدائی لوگوں کے اعمال ،ان اعمال کو عبادت کہتے ہیں ،اثرات میں ظاہری اصلاح، توبہ،تقویٰ اور استقامت ہے،اورثمرہ رجوع الی اﷲہے

(2)عمل طریقت اسے ایمان کہا گیادرمیانی لوگوں کے اعمال ،جنہیں قصدکہتے ہیں،اثرات میں باطنی اصلاح ،اخلاص ،صدق اور طمانیت ہے ،اور ثمرہ اعتماد علی اﷲہے

(3)عمل حقیقت اسے احسان کہا گیاانتہاء تک پہنچے لوگوں کے اعمال ،جنہیں شہادت کہتے ہیں،اثرات میں اسرار کی اصلاح، مراقبہ ،مشاہدہ اور معرفت ہے،اور ثمرہ ادب مع اﷲ ہے(تلخیص از تفسیر روح البیان علامہ اسماعیل حقیؔ)

اور آخر میں امام ربانی مجدد الف ثانی ؒکایہ قول جس میں فرماتے ہیں۔

                ’’ باطن ظاہر کو پورا کرنے والا ہے اور بال برابر ایک دوسرے کی مخالفت نہیں رکھتے مثلاً زبان سے جھوٹ نہ بولنا شریعت ہے اور دل سے جھوٹ کا خطرہ دور کرنا طریقت اور حقیقت ہے یعنی یہ نفی اگر تکلف اور بناوٹ سے ہے تو طریقت اور اگر تکلف کے بغیر حاصل ہے تو حقیقت ہے ‘‘(مکتوباتِ امام ربانی مکتوب نمبر41حصہ اول )

نسأل اﷲ تعالیٰ ان یجعلنا من الصابرین والشاکرین فی الشریعۃ والطریقۃویوصلنا الی ما ھو خیر وکمال فی الحقیقۃ


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں