شیطان اور نفس کی ایذا رسانی (چوبیسواں باب)

شیطان اور نفس کی ایذا رسانی کے عنوان سےچوبیسویں باب میں  حکمت نمبر 236 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اور تم یہ جان لو :- مخلوق کی ایذا رسانی بھی ، ولایت سے روکنے والی اشیا میں سے ایک رو کنے والی شے ہے اور اس پر صبر، صرف صدیقین ہی کرتے ہیں۔ اس لئے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی حکمت اور اس کا راز بیان فرمایا :- اور ولایت کو روکنے والی اشیاء میں سے :- شیطان اور نفس ہے۔ لہذا مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے شیطان کی ایذا رسانی کو دور کرنے کی کیفیت کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے :-
236) إِذَا عَلِمْتَ أَنَّ الشَّيْطَانَ لا يَغْفُلُ عَنْكَ ، فَلاَ تَغْفُلْ أَنْتَ عَمَّنْ نَاصِيَتُكَ بِيَدِهِ .
جب تم کو یہ معلوم ہو گیا کہ شیطان تم کو گمراہ کرنے سے بھی غافل نہیں ہوتا ہے۔ تو تم اس ذات پاک سے کبھی غافل نہ رہو، جس کے قبضہ قدرت میں تمہاری پیشانی ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں : اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے شیطان اور نفس اور آدمیوں کو اپنی بارگاہ کا محافظ ( پہرے دار ) مقرر کیا ہے۔ تا کہ کوئی شخص اس وقت تک بارگاہ میں داخل نہ ہو سکے ۔ جب تک ان سے جنگ نہ کرے اور ان کو شکست دے کر ان سے آگے نہ بڑھے۔ کیونکہ وو دروازے پر کھڑے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی بارگاہ کے دروازے پر مقرر فرما دیا ہے اور ان کو یہ حکم دیا ہے ۔ تم کسی شخص کو بارگاہ میں داخل نہ ہونے دو۔ مگر صرف اس شخص کو جو تم سے جنگ کر کے تمہارے اوپر غالب ہو جائے۔ لہذا وہ تینوں ، دروازے پر کھڑے ہیں اور جب کوئی ایسا شخص آتا ہے، جو بارگاہ الہٰی میں داخل ہونا چاہتا ہے۔ تو پہلے مخلوق اس کے سامنے آتی ہے۔ پھر وہ لوگ بارگاہ الہٰی تک پہنچنے کا راستہ اس کے لئے خراب کرتے ہیں اور بارگا ہ الہٰی کو پہچاننے والے شیخ کا بھی وہ لوگ انکار کرتے ہیں ۔ لیکن جب وہ شخص لوگوں پر غالب آ جاتا ہے۔ جب اس کے پاس شیطان آتا ہے۔ اور اس کو دروازہ کھلنے کی مدت دراز ہونے کا یقین دلاتا ہے۔ اور اس کومحتاجی سے خوف دلاتا ہے ۔ اور کہتا ہے ۔ معلوم نہیں، اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر دروازہ  کھولے گا، یانہیں کھولے گا۔ کچھ لوگ اس سے کہتے ہیں کہ دروازہ کھلتا ہے اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نہیں کھلتا ہے۔ لیکن جب وہ شیطان پر بھی غالب آ کر آگے بڑھتا ہے۔ تو اس کے مقابلے میں اس کا نفس آتا ہے۔ اور اس سے کہتا ہے :- ایک ایسی شے کے لئے جس کے ہونے اور نہ ہونے میں شک ہے۔ تم اپنی دنیا اور اپنی شان وشوکت اور اپنی عزت کیوں چھوڑ دو گے؟ لیکن جب وہ نفس پر بھی غالب آ جاتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اس سے فرماتا ہے۔
مرحباً بك اهلا شاباش تمہارے لئے کشادہ جگہ ہے ۔ تم اپنے گھر میں آئے ہو۔ لیکن تینوں جدا کرنے والے یعنی مخلوق اور شیطان اور نفس ان کی حرص اس کو بارگاہ الہٰی سے دور کرنے کی ختم نہیں ہوتی جب تک وہ بارگاہ الہٰی میں مضبوطی سے سکونت نہ اختیار کرے۔ اسی لئے عارفین نے فرمایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی قسم، جو شخص بھی لوٹا ہےوہ راستے ہی سے لوٹا ہے۔ لیکن جو شخص بارگاہ الہٰی میں پہنچ گیا، وہ پھرکبھی نہیں لوٹا۔ ایک عارف نے فرمایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی قسم اپنے مقام سے نکالا ہوا شخص قابل شکر نہیں ہے۔ خود وہ مدہوش ہو ، یا ہوش میں ہو ۔ یہاں تک کہ وہ گروہ میں شامل ہو کر راستہ طے کرے اور چکی پھرنے کی طرح چکر لگائے ۔ اگر ثابت قدم ہو جائے گا۔ تو پہنچ جائے گا۔
لہذا اے فقیر یا اے انسان ! جب تم نے یہ معلوم کر لیا کہ شیطان ایک لمحہ کے لئے تمہاری طرف سے غافل نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ تمہارے سینے میں بائیں طرف اس کا گھر ہے۔ جب تم اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہوتے ہوتو وہ تمہارے قلب میں وسوسہ پیدا کرتا ہے اور جب تم اس کا ذکر تے ہو، تو وہ تم سے پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ لہذا تم اس سےغافل نہ رہو، جس کےقبضہ قدرت میں تمہاری اور شیطان کی پیشانی ہے۔ اور وہ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہے۔ کیونکہ جب تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مشغول رہو گے ۔ تو وہ شیطان کو تم سے لوٹادے گا اور اس کا حکم تمہارے لئے کافی ہوگا ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :-
إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا بے شک شیطان کا مکر و فریب کمزور ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قران مجید میں شیطان سے ڈرایا ہے۔ جیسا کہ فرمایا۔
إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوٌّا بے شک شیطان تم لوگوں کا دشمن ہے۔ لہذ ا تم لوگ بھی اس کو دشمن کہو۔
لہذا کچھ لوگوں نے سمجھا کہ شیطان ان کا دشمن ہے۔ تو وہ اس کے ساتھ جنگ کرنے میں مشغول ہو گئے اور حقیقی دوست کی محبت ان سے فوت ہوگئی ۔ اور کچھ لوگوں نے یہ سمجھا کہ شیطان ان کا دشمن ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ان کا دوست ہے۔ لہذا وہ دوست کی محبت میں مشغول ہو گئے ۔ تو اللہ تعالیٰ شیطان کی دشمنی سے ان کی حفاظت کےلئے کافی ہو گیا۔ جیسا کہ حضرت شیخ ابو العباس نے فرمایا ہے۔
اور ہمارے شیخ الشیوخ سیدی علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ۔ دشمن کی سچی د شمنی یہ ہے کہ تم دوست کی سچی محبت میں مشغول ہو جاؤ کیونکہ اگر تم دشمن کی دشمنی میں مشغول ہو جاو گے تو محبوب حقیقی کی محبت تم سے فوت ہو جائے گی اور تمہارا دشمن تم سے اپنا مقصد حاصل کرے گا۔ مخلوق سے ایذارسانی کی شکایت اور شیخ کا جواب حضرت شعرانی رضی اللہ عنہ نے اپنے شیخ کے پاس جو مغرب میں رہے تھے خط لکھا اور ان سے مخلوق کی ایذارسانی کی شکایت کی۔ ان کے شیخ نے ان کو جواب لکھا:۔ تم ہرگز ان لوگوں کی طرف توجہ نہ کرو، جو تم کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ بلکہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مشغول رہو ۔ اللہ تعالیٰ خود ہی ان لوگوں کو تم سے دور کر دے گا۔
اور اس معاملے میں اکثر لوگ غلطی میں مبتلا ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہونے کے بجائے ان کے ساتھ مشغول ہو جاتے ہیں ، جوان کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ اور اگر وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے تو وہ تکلیف پہنچانے والوں کے معاملے میں ان کے لئے کافی ہوتا اور ان سے تکلیف پہنچانے والوں کو بخیر و خوبی دور کر دیتا۔
حضرت شیخ زروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :- شیطان صرف تو کل اور ایمان سے دور ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَان عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ بیشک شیطان کو ان لوگوں پر قدرت حاصل نہیں ہے۔ جو ایمان لائے اور اپنے رب تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہیں۔
بیان کیا گیا ہے۔ شیطان کتا ہے۔ اگر تم اس سے مقابلہ کرنے میں مشغول ہو جاو گے تو وہ چمڑے کو پھاڑ دے گا ۔ اور کپڑے کوٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے گا۔ اور اگر تم اپنے رب تعالیٰ کی طرف متوجہ رہو گے ۔ تو وہ اس کو آسانی کے ساتھ تم سے ہٹا دے گا۔
حضرت ذوالنون مصری رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ۔ اگر شیطان ہم کو اس طرح دیکھتا ہے کہ ہم اس کو نہیں دیکھتے تو اللہ تعالیٰ شیطان کو اس طرح دیکھتا ہےکہ شیطان اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھتا ہے۔ لہذا تم شیطان کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو۔ میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں : جو شخص اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کر لیتا ہے۔ اس کے نور سے شیطان پگھل جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے سوا پہچاننے کے لئے کچھ باقی نہیں رہتا ہے۔
اسی لئے بعض عارفین نے فرمایا ہے ۔ ہم ایسے لوگ ہیں ، کہ شیطان کو ہم لوگ نہیں جانتے ہیں ۔ ان سے دریافت کیا گیا :- کیا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں شیطان کاذکرنہیں کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا ۔ ہاں کیا ہے۔ لیکن ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مشغول ہو گئے ۔ لہذا شیطان کے معاملے میں اللہ تعالیٰ ہمارے لئے کافی ہو گیا۔ یہاں تک کہ ہم اس کو بھول گئے۔وباللہ التوفیق ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں