صحبت صالحین

 عَنْ أَبَی بُرْدَۃَ بْنَ أَبِی مُوسَی عَنْ أَبِیہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَثَلُ الْجَلِیسِ الصَّالِحِ وَالْجَلِیسِ السَّوْءِ کَمَثَلِ صَاحِبِ الْمِسْکِ وَکِیرِ الْحَدَّادِ لَا یَعْدَمُکَ مِنْ صَاحِبِ الْمِسْکِ إِمَّا تَشْتَرِیہِ أَوْ تَجِدُ رِیحَہُ وَکِیرُ الْحَدَّادِ یُحْرِقُ بَدَنَکَ أَوْ ثَوْبَکَ أَوْ تَجِدُ مِنْہُ رِیحًا خَبِیثَۃً (صحیح بخاری)

ابوبردہ بن ابی موسی، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھے اور برے ساتھی کی مثال ایسی ہے جیسے مشک والا اور لوہاروں کی بھٹی تو مشک والے کے پاس سے تم بغیر فائدے کے واپس نہ ہوگے یا تو اسے خریدو گے یا اس کی بو پاؤ گے اور لوہار کی بھٹی تیرے جسم کو یا تیرے کپڑے کو جلادے گی یا تم اس کی بدبو سونگھو گے۔

                صحبت کا اثر بہرحال ہوتا ہوتا صحبت کی تعریف عربی زبان میں یہ ہے کہ تھوڑا یا زیادہ کسی کے ساتھ رہنا چاہے اس میں کلام یا بات چیت نہ بھی ہواسی طرح کسی صاحب کمال کے ساتھ اﷲ کے فیوض برکات کے حصول کیلئے بیٹھنا آناجاناصحبت کہلاتاہے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اسی لئے کہا جاتا ہے کہ رسول اﷲ ﷺکی صحبت نصیب ہوئی’’ صاحب‘‘ صحبت میں بیٹھنے والے کو کہا جاتا ہے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قرآن پاک میں اس صحبت کا حقدار فرمایا گیا إِذْ یَقُولُ لِصَاحِبِہِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّہَ مَعَنَا(التوبۃ :40)جب کہ رسول اﷲ ا فرما رہے تھے اپنے ساتھی سے، کہ غم نہ کرو، یقینا اﷲ ہمارے ساتھ ہے۔

                صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں کو دیکھیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی ایسی خوشبو تھی جس کی تڑپ اور طلب انہیں کشاں کشاں کوچہ محبوب کی طرف لے جاتی یہی خوشبو ان کے نفس کا تزکیہ بھی کرتی اور علم معرفت و علم لدنی کے ماہر بھی بن جاتے جبکہ اس کے حصول کا کوئی ظاہری طریقہ موجود نہ تھا یہ صحبت مرشد کامل تھی جو انہیں صاحب علم بناتی تھی آج جو لوگ بغیر صحبت کامل علم سیکھتے ہیں ان کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب کے سب عالم فاضل نہ تھے لیکن کوئی کتنا ہی بڑا عالم ،محدث، فقیہہ یا ولی ہو ادنیٰ صحابی کے درجے کو نہیں پہنچ سکتافضیلت علم سے نہیں فرق صحبت رسول ﷺ کا ہے انہوں نے سب کچھ صحبت رسول سے ہی حاصل کیا تھا۔

               اسی صحبت کے اثرات اہل اﷲنے محسوس کئے تواس صحبت کوبہت لازمی قرار دیا گیا ۔جبکہ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں اس کا مقام بہت ہی بلند ہے

 الوصول إلی اﷲ لا یمکن أن یتم بغیر صحبۃ العالم العارف، بل ہو المظہر الذی عینہ اﷲ للمرید(أوراد الذاکرین ازمحمد الحبش)

جب تک کوئی کسی عارف اور جاننے والے کی صحبت میں نہ بیٹھے ﷲ تک پہنچنا ممکن ہی نہیں بلکہ شیخ مظہر ہے اس بات کا کہ مرید کو اﷲ کی نظروں میں پہنچا دیتاہے ۔

                اس صحبت کا سب سے زیادہ فیض سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حاصل کیاجنہوں نے رسول اﷲﷺکی صحبت کے حصول کیلئے گھر بار بیوی بچے حتیٰ کہ اپنا سب کچھ قربان کر دیاجب مدینہ منورہ ہجرت کا حکم ہوا تو حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بھی مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی تیاری کی جب اجازت لینے گئے تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم کچھ ٹھہرو کیونکہ مجھے امید ہے کہ مجھے بھی ہجرت کی اجازت مل جائے گی حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے (فرط مسرت سے) عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان کیا آپ کو ایسی امید ہے ( کہ اﷲ تعالیٰ آپ کے ساتھ مجھے رہنے کی اجازت فرمائیگا )پھر حضرت ابوبکر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی رفاقت کی وجہ سے رک گئے اور دو اونٹنیاں جو ان کے پاس تھیں انہیں چار مہینہ تک کیکر کے پتے کھلاتے رہے اور جب وہ ہجرت کی مبارک ساعت آئی تو حدیث مبارکہ کے الفاظ ہیں۔۔

                فَلَمَّا دَخَلَ عَلَیْہِ قَالَ لأَبِی بَکْرٍ أَخْرِجْ مَنْ عِنْدَکَ قَالَ یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّمَا ہُمَا ابْنَتَایَ یَعْنِی عَائِشَۃَ وَأَسْمَاء َ قَالَ أَشَعَرْتَ أَنَّہُ قَدْ أُذِنَ لِی فِی الْخُرُوجِ قَالَ الصُّحْبَۃَ یَا رَسُولَ اللَّہِ قَالَ الصُّحْبَۃَ . (صحیح بخاری کتاب البیوع)

                 جب آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو ان سے فرمایا کہ جو لوگ تمہارے پاس ہیں ان کو ہٹا دو ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا یا رسول اﷲﷺ یہ دونوں میری بیٹیاں عائشہ اور اسماء رضی اﷲ عنھما ہیں آپ نے فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ مجھ کو ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔ ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا یا رسول اﷲﷺ کیا میں بھی تمہارے ساتھ رہوں گا، آپ نے فرمایا تم بھی ساتھ رہو گے۔

                اور اس خبر کے سنتے ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رونا شروع ہو گئے حالانکہ ظاہری طور پر مشکل مرحلہ رسول اﷲﷺکا ساتھ تھا لیکن حصول صحبت کی خوشی میں یہ آنسو بہہ رہے تھے

                . قالت: فواﷲ ما شعرت قط قبل ذلک الیوم ان أحداً یبکی من الفرح حتی رأیت أبا بکر یبکی یومئذ

 حضرت عائشہ فرماتی ہیں اﷲ کی قسم مجھے اس دن سے پہلے یہ معلوم نہ تھاکہ کوئی بندہ شدت خوشی سے بھی روتا ہے جب تک میں نے حضرت ابوبکر کونہ دیکھا ۔

                اسی لئے عقل و شعور کی کی پہچان یہ کہ اﷲ والوں کی صحبت سے آشنائی حاصل ہو جائے ۔

                قال ابو حاتم العاقل یلزم صحبۃ الاخیار ویفارق صحبۃ الاشرار (روضۃ العقلاء)

                 ابو حاتم نے فرمایا عقلمند کیلئے لازم ہے کہ نیکوکار لوگوں کی صحبت اختیار کرے اور شریر لوگوں کی صحبت سے علیحدہ رہے ۔

                 العاقل لا یصاحب الاشرارلأن الصحبۃ صاحب السوء قطعۃ من النار(روضۃ العقلاء)

                عقلمند بروں کی صحبت اختیار نہیں کرتا کیونکہ برے بندے کی صحبت آگ کا ایک ٹکڑا ہے ۔

                یہی فرق علوم ظاہر وعلوم باطن میں بھی ہے ظاہری علم کی افادیت مسلم ہے لیکن جو اثرات باطنی علم سے مرتب ہوتے ہیں ظاہری علم اس کا عشر عشیر بھی نہیں رکھتا مثال کے لئے حضرت امام احمد حنبل صسے پوچھا گیا کہ کونسے علم کو حاصل کرنے کیلئے حضرت بشر حافی صکے پاس جاتے ہیں تو فرمایا اﷲ کی معرفت کا علم ان کے پاس مجھ سے زیادہ ہے۔

چنگے بندے دی صحبت یارو جیویں دکان عطاراں

سودا بھانویں مول نہ لئیے حلے آوون ہزاراں

برے بندے دی صحبت اینویں جیویں دکان لوہاراں

کپڑے بھانویں کنج کنج بہئے چنڑکاں پین ہزاراں

                عقلاء پر واجب ہے کہ اہل شک کی مجالس سے اجتناب کرے اس سے پہلے کہ وہ خود شک والا بنے کیونکہ جس طرح صلحاء کی صحبت بھلائی کا وارث بناتی ہے اسی طرح اشرار کی صحبت بھی بُرائی وارث بناتی ہے ۔

                حضرت سفیان بن عیینہ ؒفرماتے ہیں من احب رجلا صالحا فانما یحب اﷲ تبارک و تعالیٰ(حلیۃالاولیاء)

                جو نیک آدمی سے محبت کرے اﷲ تعالیٰ اس سے محبت فرماتا ہے ۔

                حضرت مالک بن دینار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں انک تنقل الحجارۃ مع الابرار خیر من ان تأکل الثمر مع الاشرار

                اگر تجھے نیک لوگوں کی معیت میں پتھر کے ساتھ لڑھکنا پڑے اس سے بہتر ہے کہ برے لوگوں کے ساتھ پھل کھانا پڑے

                عقلمند کیلئے ضروری ہے کہ ہر اس صحبت سے پناہ مانگے جو اﷲکو یاد کرنے میں معاونت نہ کرے اور وہ غافل ہو تو اسے ذکر کی طرف راغب نہ کرے بلکہ ایسی صحبت سے سے اکیلے رہنا بہتر ہے رسول اﷲ اکا ارشاد گرامی ہے

                الوحدۃ خیر من جلیس السوء ، والجلیس الصالح خیر من الوحدۃ (مستدرک حاکم )

                 بری صحبت سے اکیلا رہنا بہتر ہے اور نیک لوگوں کی مجلس اکیلے رہنے سے بہتر ہے

                علامہ آلوسی اپنی تفسیر روح المعانی میں سورہ طٰہٰ کی آیت 14کے تحت فرماتے ہیں کہ فرعون کے دربار سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے اہل مدین میں حضرت شعیب علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا جس سے ان کی صحبت میں رہ کر تربیت مقصود تھی اور اﷲ تعالیٰ نے ایک رسول کی صحبت کے ذریعے موسیٰ علیہ السلام کو اخلاق اﷲسے مزین کیا

                صحبۃ الاخیار تورث الخیر وصحبۃ الشر تورث الشرکاالریح اذا مرت بالطیب حملت طیبا واذا مرت بالنتن حملت نتنا

                 نیک لوگوں کی صحبت تجھے خیر کا وارث بناتی ہے اور برے بندے کی صحبت شر کا وارث بناتی ہے ہوا کی طرح جب کسی پاکیزہ جگہ سے گذر کر آتی ہے تو پاکیزگی ساتھ لاتی ہے اور بد بو جگہ سے بدبو ساتھ لے کر آتی ہے ۔

                 نبی کریم اکا ارشاد گرامی ہے۔

                لاَ تَصْحَبْ إِلاَّ مُؤْمِناً وَلاَ یَأْکُلْ طَعَامَکَ إِلاَّ تَقِی(مسند احمد )

                مومن کی صحبت کے علاوہ کسی کی صحبت میں نہ بیٹھ اور تیرا کھانا صرف متقی شخص ہی کھائے ۔

                اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اﷲ کے ولیوں کو کھانا کھلانا ان کی خدمت کرنا عام لوگوں کی نسبت زیادہ سعادت و برکت کا سبب ہے۔

                اس صحبت کا اصلی مقصد ان فیوض و برکات کا حصول ہے جو اﷲ والوں کے پاس ہوتے ہیں جب یہ فیوض حاصل ہو جائیں تو اﷲ کی قربت کاذریعہ بنتے ہیں اور یہ صحبت کا اثر ہے کہ حضرت سلمان جو دنیاوی رشتے میں کوئی قرب نہ رکھتے تھے ان کے متعلق رسول اﷲا نے فرمایا

                 سَلْمَانُ مِنَّا أَہْلَ الْبَیْتِ سلمان میرے اہل بیت سے ہے

                جبکہ بری صحبت کا نتیجہ کہ حضرت نوح علیہ السلام کاحقیقی بیٹا بھی اﷲ کے ارشاد کے مطابق اہل بیت سے نہ رہا

                 قَالَ یَا نُوحُ إِنَّہُ لَیْسَ مِنْ أَہْلِکَ إِنَّہُ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ ارشاد ہواے نوح! بیشک وہ تیرے گھر والوں میں شامل نہیں کیونکہ اس کے عمل اچھے نہ تھے۔

                وقد قالت العلماء فی أشیاء لیس لھا ثبات ولا بقاء ظل الغمام وصحبۃ الاشراروعشق النساء وثناء الکاذب والمال الکثیر

                ان چیزوں کے متعلق علماء نے فرمایا ہے کہ ان میں کوئی ثبات اور بقا نہیں بادل کے سائے میں ،بروں کی صحبت،عورتوں کے عشق جھوٹے کی تعریف ،اور مال کی کثرت میں ۔

                ایسی مجالس جو اﷲ کے ذکر کیلئے مخصوص ہوں اصل میں تصوف و سلوک کا خاصہ ہیں جس سے آخرت سنور جاتی ہے یہ مجالس اس قابل ہیں جن میں بیٹھ کر انسان کچھ ضائع نہیں کرتا بلکہ سب کچھ پا لیتا ہے انہی میں رسول اﷲ ﷺنے بیٹھنے کا حکم دیا۔

                عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قِیلَ : یَا رَسُولَ اﷲِ ، أَیُّ جُلَسَائِنَا خَیْرٌ ؟ قَالَ : مَنْ ذَکَّرَکُمْ بِاﷲ رُؤْیتَہُ ، وَزَادَ فِی عِلْمِکُمْ مَنْطِقَہُ ، وَذَکَّرَکُمْ بِالآخِرَۃِ عَمَلُہُ“(شعب الایمان:مسند ابی یعلی:مجمع الزوائد)

                حضرت ابن عباس صسے مروی ہے عرض کیا گیا یا رسول اﷲﷺ کونسی صحبت ہمارے لئے اچھی ہے تو آپ نے فرمایاجن کا دیکھنا تمہیں ﷲ کی یاد دلائے،جن کا بولنا تمہارے علم میں زیادتی کرے ،اور جن کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے ۔

                عن الحسن عن داود النبی علیہ السلام قال اﷲم إنی أسألک الاخوان والاصحاب والجیران والجلساء من إن نسیت ذکرونی ، وإن ذکرت أعانونی ، وأعوذ بک من الاصحاب والاخوان والجیران والجلساء من أن نسیت لم یذکرونی ، وإن ذکرت لم یعینونی.(مصنف ابن ابی شیبہ)

                حضرت داؤوعلیہ السلام کی یہ دعا تھی ’’اے اﷲ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ایسے بھائیوں دوستوں ہمسائیوں اور صحبت میں بیٹھنے والوں کی جب میں تجھے بھول جاؤں تو یاد کرائے اور جب یاد کراؤں تو معاونت کرے اورتیری پناہ مانگتا ہوں ایسے بھائیوں دوستوں ہمسائیوں اور صحبت میں بیٹھنے والوں سے جب میں تجھے بھول جاؤں توتیری یاد نہ کرائے اور جب تیرا ذکر کروں تو معاونت نہ کرے ‘‘

                اور یہ صحاح کی حدیث ہے کہ اﷲ کے چند فرشتے ہیں جو رستوں میں گھومتے ہیں، اور ذکر کرنے والوں کو ڈھونڈتے ہیں فرشتے ان کو اپنے پروں سے ڈھک لیتے ہیں، اور آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہیں، ان کا رب پوچھتا ہے کہ میرے بندے کیا کر رہے ہیں اگر وہ اسے دیکھ لیتے تو اس سے بہت زیادہ بھاگتے، اور بہت زیادہ ڈرتے، آپ نے فرمایا، اﷲ فرماتا ہے کہ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انہیں بخش دیا آپ نے فرمایا کہ ان فرشتوں میں سے ایک فرشتہ کہتا ہے کہ ان میں فلاں شخص ان (ذکر کرنے والوں) میں نہیں تھا بلکہ وہ کسی ضرورت کے لئے آیا تھا اﷲ فرماتا ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جن کے ساتھ بیٹھنے والامحروم نہیں رہتا

                وَقَالَ بَعْضُ الْبُلَغَاء ِ صُحْبَۃُ الْأَشْرَارِ تُورِثُ سُوء َ الظَّنِّ بِالْأَخْیَارِ .(أدب الدنیا والدین)

                بروں کی صحبت نیک لوگوں کے متعلق بد گمانی پیدا کریگی

                وَقَالَ بَعْضُ الْبُلَغَاء ِ : مِنْ خَیْرِ الِاخْتِیَارِ صُحْبَۃُ الْأَخْیَارِ ، وَمِنْ شَرِّ الِاخْتِیَارِ صُحْبَۃُ الْأَشْرَارِ .(أدب الدنیا والدین)

                 بہترین اختیار(اپنی مرضی کا کام) نیک لوگوں کی صحبت اور بد ترین اختیار برے لوگوں کی صحبت اختیا رکرنا ہے

                لقمان: یا بنی: إیاک وصاحب السوء ، فإنہ کالسیف یعجبک منظرہ، ویقبح أثرہ.(ربیع الابرار)

                حضرت لقمان علیہ السلام نے بیٹے کو نصیحت کی کہ برے کی صحبت سے بچو یہ تلوار کی طرح ہے جسکا دیکھنا بڑا ہی اچھا جبکہ اس کا اثر بڑا قبیح ہو تا ہے

                صحبت شیخ سے انوارو تجلیات کا ظہور مرید کی طرف ہوتا ہے جس سے اس کا قلب انوار الٰہیہ سے روشن ہوتا ہے اور یہی صحبت کاملین کا ثمرہ ہے شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے خوشبو دار مٹی سے پوچھا کہ تو مشک ہے یا عنبر تیری خوشبو مجھے دیوانہ بنا رہی ہے تواس نے کہا میں کچھ عرصہ پھولوں کی صحبت میں رہی

جمال ہم نشین در من اثر کرد وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم

میرے ہم نشین کی صحبت کی خوبی نے مجھ میں اثرکیا ورنہ میں تو پہلے بھی خاک تھی اب بھی وہی ہوں

علیک بالصحبۃ فہی التی … تحیا فتحییک إذا المکرمات

اچھی صحبت اختیار کرنا بہت ضروری ہے جو زندوں کو عزت کی حیات عطا کرتی ہے


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں