طالبین کے قلوب کی غذا (بیسواں باب)

طالبین کے قلوب کی غذا کے عنوان سے بیسویں باب میں  حکمت نمبر 187 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے بیان کا فائدہ اور نتیجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا ۔
187) الْعِبَارَاتُ قُوتٌ لِعَائِلَةِ الْمُسْتَمِعِينَ وَلَيْسَ لَكَ إِلاَّ مَا أَنْتَ لَهُ آَكِلٌ.
بیان – سامعین فقرا کے لئے غذا ہے اور اس غذا میں سے تمہارا حصہ اتنا ہی ہے، جتنا تم کھا سکتے ہو ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ عارفین کا بیان – طالبین فقرا کے قلوب کی غذا ہے ۔ کیونکہ عارفین کے بیان سے طالبین کے قلوب کا یقین زیادہ ہوتا ہے۔ اور ان کے محبوب حقیقی کے مشاہدے میں ترقی ہوتی ہے۔ لہذا وہ ہمیشہ شیوخ اور ان کے خلفا کی تربیت میں رہتے ہیں ۔ یہاں تک کہ ان کا یقین ، کامل ہو جاتا ہے۔ اور ان کے احوال درست ہو جاتے ہیں ۔ پھر وہ بذات خود مستقل ہو جاتے ہیں۔ اور ان کے رشد و ہدایت کی پہچان یہ ہے کہ وہ ہرشے سے اپنا حصہ حاصل کرتے ہیں ۔ اور ان کے حال میں سے کچھ کم نہیں ہوتا ہے۔ وہ ہر شے میں اللہ تعالی کی کچھ اور معرفت حاصل کرتے ہیں ۔ اور ہرشے سے پیتے ہیں اور جب وہ ایسا ہو جاتے ہیں۔ تو وہ بذات خود مستقل ، دوسروں کی ہدایت کے اہل ہوجاتے ہیں۔
بعض عارفین نے فرمایا ہے ۔ جو لوگ دروازے کی آواز اور مچھروں کی بھنبھناہٹ اور کتوں کے بھونکنے کو نہیں سمجھتے ہیں۔ وہ عقلمندوں میں سے نہیں ہیں۔ لیکن جو شخص اس مقام میں نہیں پہنچا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ اس شخص کی تربیت اور نگرانی میں آشیانہ بنا کر رہنا ، اپنے لئے لازم کرے ، جو اس کو روحانی غذا کھلائے اور تربیت کرے۔ کیونکہ بچہ – اگر اپنے بازووں کی درستی اور مضبوطی سے پہلے آشیانے سے اڑ کر باہر آتا ہے تو اس کو کتے اور بازشکار کر لیتے ہیں اور عور تیں اور بچے اس کے ساتھ کھیلتے ہیں ۔
اور جب وہ شیخ کے آشیانہ تربیت میں ہو اور وہ اس کو دوسرے طالبین کے ساتھ روحانی غذا کھلائے ، تو اس کو اس قدر خوراک کھلائے ، جس قدر وہ ہضم کر سکتا ہو۔ ورنہ وہ غذا اس کو مار ڈالے گی ۔ کیونکہ چھوٹے بچے کی غذا، جوان آدمی کی غذا کی طرح نہیں ہوتی ہے۔ ایسے ہی مریدین کے لئے شیوخ کا کلام بھی ہے۔ ہر شخص اپنے حال کے مطابق فیض حاصل کرتا ہے۔ لہذا شیوخ کرام ابتدا اور انتہا اور اوسط درجے کے احوال سب ایک ساتھ بیان کرتے ہیں۔ اور ہر مرید اپنی صلاحیت ولیاقت کے مطابق فیض حاصل کرتا ہے :-
قَدْ عَلِمَ كُلُّ النَّاسِ مَشْرَبَهُم ہرشخص نے اپنے پینے کا گھاٹ پہچان لیا ہے۔
لہذا مبتدی (ابتدائی درجے والا ) منتہی ( انتہائی درجہ ولے ) کے مذاکرات سے تعلق نہ رکھے۔ ورنہ وہ تباہ ہو جائے گا۔ جیسا کہ اگر چھوٹا بچہ، جوان آدمی کا کھانا کھائے گا تو وہ اس کےحلق میں اٹک جائے گا۔ اور اگر جوان آدمی، چھوٹے بچے کا کھانا کھائے گا۔ تو اس کا پیٹ نہ بھرے گا۔ حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے اس قول کا یہی مقصودہے :۔ اس میں سے تمہارا حصہ اتنا ہی ہے، جتنا تم کھا سکتے ہو۔ یعنی بیان کی غذا سے تمہارے لئے اتنا ہی مفید ہے جتنا کھانے کی تم طاقت رکھتے ہو۔ ورنہ تمہارا گلا گھٹ جائے گا مجھ سے میرے بعض احباب نے روحانیت اور بشریت کی غذا کے متعلق دریافت کیا :- میں نے جواب دیا:- بشریت کی غذا تو معلوم ہے اور روحانیت کی غذا ۔ بشریت کی غذا کے مطابق ہے۔ جس طرح بچہ جب تک بڑا نہ ہو ، سخت غذا نہیں کھا سکتا ہے۔ اسی طرح روح کی تربیت بھی بتدریج کی جاتی ہے۔ ایک شے کے بعد دوسری شے دی جاتی ہے۔ لہذا پہلے اس کو فقط زبانی ذکر کی غذا کھلائی جاتی ہے۔ پھر زبانی ذکر کے ساتھ ساتھ قلبی ذکر
پھر فقط قلبی ذکر ، پھر روح کا ذکر اور وہ فکر ہے۔ پھر سر کا ذکر اور وہ غور ہے۔ پھر وہ ہرشے کھاتی اور پیتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ کل کائنات کو نگل جاتی ہے۔ تو اگر تم اس کو فکر وغور جو عارفین واصلین کی غذا ہے پہلے ہی مرتبہ کھلاؤ گے، جبکہ وہ بچوں کے مقام میں ہے۔ تو وہ اس کو اگل دے گی۔ پھر جب روح اس درجے کو پہنچ جائے کہ وہ ہر چیز کھائے اور ہر چیز پیئے، تو اس کے لیےیہ درست ہے، کہ وہ ملکوت اعلی میں پرواز کرے۔ اور جہاں چاہے جائے۔ اور ایک جماعت کے لئے ایک ہی برتن سے ، ان لوگوں کے مقام کے اختلاف کی بنا پر پینے کی حیثیت مختلف ہوتی ہے۔
اس کی مثال :- ان لوگوں کا واقعہ ہے۔ جنھوں نے کسی کہنے والے کو یہ کہتے ہوئے سنا :- ياسعتر برى اور یہ واقعہ اس طرح ہے۔ مکہ معظمہ میں کوہ صفا پر ایک شخص نے’ ياسعتر برى ‘ کہہ کردوسرے شخص کو پکارا۔ اس کا نام یہی تھا۔ یہ آواز تین آدمیوں نے سنی ۔ ہر شخص کے ذہن میں اس کا مفہوم ان کے حال کے مطابق آیا۔ ایک شخص نے سنا کہ پکارنے والا کہہ رہا ہے : ياسعتر برى اور دوسرے شخص نے اس طرح سنا – ترى برى ء اور تیسرے شخص نے یہ سنا – ما أوسع برى تو پہلاشخص مشتشرف ( ترقی کرنے والا ) تھا اور دوسرا مبتدی اور تیسر اواصل تھا۔
اور ایسا ہی واقعہ حضرت علامہ ابن جوزی کا ہے :۔وہ بغداد میں بارہ علوم حاصل کر رہے تھے۔ ایک روز وہ کسی ضرورت سے باہر گئے ۔ ایک شخص کو انہوں نے یہ اشعار پڑھتے ہوئے سنا
إِذَا الْعِشْرُونَ مِنْ شَعْبَانَ وَلَتْ فَوَاصِل شُرْبَ لَيْلِكَ بِالنَّهَارِ
جب شعبان کی بیس تاریخ گزر جائے ۔ تو تم رات کے پینے کو دن سے ملا دو ۔
وَلَا تَشْرَبُ بِاقْدَاحٍ صِغَارٍ فَقَدُ ضَاقَ الزَّمَانُ عَلَى الصِّغَارِ
اور تم چھوٹے پیالوں سے نہ پیو۔ کیونکہ زمانہ چھوٹوں پر تنگ ہو گیا ہے۔
یہ اشعار سنتے ہی وہ پریشان و بدحواس ہو کر مکہ معظمہ روانہ ہو گئے۔ اور وہاں ہمیشہ اللہ تعالی کی عبادت میں مصروف رہے۔ یہاں تک کہ ان کی وفات ہوگئی۔ رحمہ اللہ تعالیٰ
تو انہوں نے شاعر کے ان اشعار سے یہ سمجھا، کہ زندگی ختم ہوگئی اور دنیا کا کل زمانہ تنگ ہو گیا۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے لطائف المنن میں فرمایا :۔ تم کو یہ معلوم ہونا چاہیئے ۔ یہ حقیقی مفہومات جو ظاہری سمجھ سے باہر اور بلند ہیں لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتے ہیں۔ بلکہ وہ عام سمجھ سے زائد سمجھ ہے۔ جو اللہ تعالی اہل قلوب میں عارفین کو عطا فرماتا ہے۔ اور وہ باطنی حکمت ہے۔ ، جو اس کے ظاہر میں اس طرح پوشیدہ ہے، جس طرح بیج میں درخت پوشیدہ ہوتا ہے۔ اور یہ اس طرح کہ مد دنورانی اور فتح ربانی کا کچھ حصہ ظاہری کنارے کے کچھ حصے سے ملتا ہے، اس طریقے پر کہ جہاں قوت ختم ہوتی ہے، وہیں ادر اک ختم ہو جاتا ہے۔ لہذا اکثر اوقات جو کچھ باطنی معنی کے ظاہر کے موافق ہوناہے ، وہ سمجھ میں آجاتا ہے۔ اور اکثر اوقات جو باطنی معنی کے ظاہر کے کسی جہت سے خلاف ہوتا ہے۔ وہ بھی سمجھ میں آجاتا ہے اور اکثر اوقات سمجھ اس کے ظاہر کے خلاف ہوتی ہے۔
حضرت شیخ مکین الدین بن اسمر رضی اللہ علیہ ان لوگوں میں سے تھے، جن کے لئے حضرت شیخ ابوالحسن رضی اللہ علیہ، ولایت کبری اور مکاشفہ عظمیٰ کی شہادت دیتے تھے ۔ ایک شخص نے انکی مجلس میں یہ اشعار پڑھا:-
لَوْ كَانَ لِى مُسْعِدٌ بِالرَّاحِ يَسْعِدُنِي لَمَا انْتَظَرْتُ لِشُرْبِ الرَّاحِ افْطَاراً
اگر میرا کوئی مددگار ہوتا، جو شراب پینے میں میری مددکرتا تو میں شراب پینے کے لئے کسی کا انتظارنہ کرتا ۔
الرَّاحُ شَيْ شَرِيفٌ أَنتَ شَارِبُهُ فَاشْرَبُ وَلَو حَمَّلْتَكَ الرَّاحُ أَوْزَارا
جو شراب تم پیتے ہو ، وہ بہترین شے ہے، لہذا تم پیو۔ اگر چہ شراب تم کو گناہوں پر آمادہ کرے۔
يَا مَنْ يَلُومُ عَلَى صَهْبَاءِ صَافِيَةٍ خُذِ الْجِنَانِ ودَعْنِي اسْكُنُ النَّارَا
اے صاف ستھری شراب پینے پر ملامت کرنے والے تم جنت لے لو۔ اور مجھے کو دوزخ میں رہنےکے لئے چھوڑ دو۔
کسی عالم نے کہا ۔ ان اشعار کا پڑھنا جائز نہیں ہے۔ حضرت شیخ حسین الدین نے فرمایا ۔ اس کو کہہ دو :- شاعر پر اعتراض نہ کرے۔ وہ عالم محجوب آدمی ہے۔ وہ صرف ظاہری شراب کو سمجھتاہے۔ وہ باطن کو نہیں سمجھتا ہے او یہ بے کسی ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں