ظاہری اعمال دھوکا (باب  نہم)

ظاہری اعمال دھوکا کے عنوان سے  باب  نہم میں  حکمت نمبر 85 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کی سمجھ نہ ہونے کا سبب، اشیاء کے ظاہر کے ساتھ ٹھہر جانا ، یعنی ان کے ظاہر میں مشغول ہو جانا، اور ان کے باطن کی طرف نظر نہ کرنا ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اس کو بیان فرمایا ہے:۔
85) الأَكْوَانُ ظَاهِرًهَا غِرَّةٌ وَبَاطِنُهَا عِبْرَةٌ ،
مخلوقات کا ظاہر دھوکا، اور ان کا باطن نصیحت ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: مخلوقات کا ظاہر دو وجہوں سے دھوکا ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات (دنیا) کے ظاہر میں جو زینت اور خوبصورتی بنائی ہے۔ اور جن کی نفوس خواہش کرتے ہیں۔ مثلا قسم قسم کے کھانے پینے کی چیزیں، پہننے کے کپڑے، سواریاں ، اور نکاحوں اور مکانوں، اور باغوں ، اور باغیچوں کی خواہش ، اور مال و اولاد کی زیادتی ، اور اصحاب و احباب، اور خاندان اور فوجوں کی کثرت وغیرہ ، سب لوگ ان کے حاصل کرنے اور جمع کرنے کی مشغولیت پر منہ کے بل گرتے ہیں۔ اور رات اور دن ، اور مہینے ، اور سال ، اس کوشش میں گزرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے اوپر موت اچانک آ پہنچتی ہے تو شرمندگی اور حسرت ان کا آخری انجام ہوتی ہے اور اب شرمندگی سے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ قلم نامہ اعمال لکھ کر خشک ہو گیا۔ اب وہ بغیر زاد راہ کے سفر کرتے ہیں۔ اور بغیر تیاری اور سامان کے بادشاہ حقیقی اللہ تعالیٰ کے یہاں پہنچتے ہیں ۔ تو وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے بھگانے اور دور کرنے کے لائق ہوتے ہیں ۔ اور اسی وجہ سے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے دنیا کے مکر و فریب ، اور اس کی نمائشی زینت ، اور اس کے ظاہر میں مشغول ہونے سے ڈرایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
‌زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ ٱلشَّهَوَٰتِ مِنَ ٱلنِّسَآءِ وَٱلۡبَنِينَ وَٱلۡقَنَٰطِيرِ ٱلۡمُقَنطَرَةِ مِنَ ٱلذَّهَبِ وَٱلۡفِضَّةِ وَٱلۡخَيۡلِ ٱلۡمُسَوَّمَةِ وَٱلۡأَنۡعَٰمِ وَٱلۡحَرۡثِۗ ذَٰلِكَ مَتَٰعُ ٱلۡحَيَوٰةِ ٱلدُّنۡيَاۖ وَٱللَّهُ عِندَهُۥ حُسۡنُ ٱلۡمَـَٔابِ قُلۡ أَؤُنَبِّئُكُم بِخَيۡرٖ مِّن ذَٰلِكُمۡۖ لِلَّذِينَ ٱتَّقَوۡاْ عِندَ رَبِّهِمۡ جَنَّٰت تَجۡرِي مِن تَحۡتِهَا ٱلۡأَنۡهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَا وَأَزۡوَٰج مُّطَهَّرَة وَرِضۡوَٰن مِّنَ ٱللَّهِۗ وَٱللَّهُ بَصِيرُۢ بِٱلۡعِبَادِ
لوگوں کے لئے خواہشات کی محبت زینت بنا دی گئی ہے۔ یعنی لوگوں کو خوشنما معلوم ہوتی ہے۔ مثلاً عورتیں، اور بیٹے اور سونے، چاندی کے جمع کئے ہوئے ڈھیر، نشان کئے ہوئے گھوڑے،اور دوسرے مویشی، اور کھیتی، یہ سب دنیاوی زندگی کی فائدے کی چیزیں ہیں۔ اور آخرت کی بھلائی تو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔ آپ فرمادیجئے! کیا میں تم لوگوں کو ان چیزوں سے بہتر چیز بتاؤں؟ تو سنو ۔ ایسے لوگوں کے لئے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں۔ ان کے رب کے پاس ایسے باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ وہ لوگ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور ان کے لئے پاک وصاف بیویاں ہیں اور اللہ کی رضا مندی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ بندوں کو دیکھنے والا ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِيْنَةٌ لَهَا لِنبُلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا بے شک ہم نے زمین پر جو کچھ ہے، اس کے لئے زینت بنائی ہے۔ تا کہ ہم ان لوگوں کوآزمائیں کہ ان میں سے کون سب سے بہتر عمل کرتا ہے ۔
یعنی کون سب سے زیادہ زہد اختیار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی کریم ﷺ سے فرمایا:
وَلَا تَمُدَّنَّ عَيۡنَيۡكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعۡنَا بِهِۦٓ أَزۡوَٰجٗا مِّنۡهُمۡ ‌زَهۡرَةَ ٱلۡحَيَوٰةِ ٱلدُّنۡيَا لِنَفۡتِنَهُمۡ فِيهِۚ
آپ ہرگز دنیاوی زندگی کی اس زینت کی طرف اپنی آنکھیں نہ اٹھا ئیں جس سے ہم نے ان میں سے بہت قسم کے لوگوں کو اس لئے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا ہے تا کہ ہم ان کو اس میں آزمائیں۔
حضرت رسول اللہ ﷺ سے ان اولیاء اللہ کے بارے میں دریافت کیا گیا جن کے او پر نہ کوئی خوف ہے، نہ وہ غمگین ہوتے ہیں نہ ہوں گے ۔ تو آنحضرت ﷺے فرمایا:
الَّذِينَ نَظَرُوا إِلَى ‌بَاطِنِ ‌الدُّنْيَا حِينَ نَظَرَ النَّاسُ إِلَى ظَاهِرِهَا، وَاهْتَمُّوا بِآجِلِ الدُّنْيَا حِينَ اهْتَمَّ النَّاسُ بِعَاجِلِهَا، وَأَمَاتُوا مِنْهَا مَا خَشُوا أَنْ يُمِيتَهُمْ، وَتَرَكُوا مِنْهَا مَا عَلِمُوا أَنْ سَيَتْرُكَهُمْ، فَمَا عَرَضَ لَهُمْ مِنْ نَائِلِهَا عَارِضٌ إِلا رَفَضُوهُ، وَلا خَدَعَهُمْ مِنْ رِفْعَتِهَا خَادِعٌ إِلا وَضَعُوهُ، خَلَقَتِ الدُّنْيَا عِنْدَهُمْ فَمَا يُجَدِّدُونَهَا، وَخَرِبَتْ بُيُوتُهُمْ فَمَا يُعَمِّرُونَهَا، وَمَاتَتْ مَحَبَّتُهَا فِي صُدُورِهِمْ فَمَا يُحْيُونَهَا، بَلْ يَهْدِمُونَهَا فَيَبْنُونَ بِهَا آخِرَتَهُمْ، وَيَبِيعُونَهَا فَيَشْتَرُونَ بِهَا مَا يَبْقَى لَهُمْ، وَنَظَرُوا إِلَى أَهْلِهَا صَرْعَى قَدْ خَلَتْ بِهِمُ الْمَثُلاتُ، فَمَا يَرَوْنَ أَمَانًا دُونَ مَا يَرْجُونَ، وَلا خَوْفًا دُونَ مَا يَجِدُوْنَ
اولیاء اللہ وہ ہیں، جنہوں نے دنیا کے باطن کی طرف دیکھا۔ جب کہ لوگوں نے اس کے ظاہر کی طرف دیکھا۔ اور انہوں نے دنیا کے آجل یعنی آخرت کے لئے کوشش کی جب کہ لوگوں نے اس کے عاجل یعنی اسی دنیا کے وقتی فوائد کے لئے کوشش کی۔ پس دنیا کی جس چیزوں کے متعلق ان کو یہ خوف ہوا، کہ وہ انہیں مار ڈالے گی، اس کو انہوں نے مار ڈالا ۔ اور دنیا کی جس چیز کے بارے میں انہوں نے سمجھا کہ وہ ان کو عنقریب چھوڑ دے گی اس کو انہوں نے چھوڑ دیا۔ پس دنیا کے عطیات میں سے ملنے والی کوئی چیز جو انکے سامنے آئی اسکو انہوں نے چھوڑ دیا اور اس کی ترقیوں اور درجات میں سے کوئی فریب دینے والی چیز، جو ان کے فریب دینے کے لئے آئی ۔ تو اس کو انہوں نے رکھ دیا۔ یعنی ہاتھ نہیں لگایا۔ دنیا ان کے دلوں میں بوسیدہ (پرانی ) ہو گئی ۔ تو انہوں نے اس کی تجدید نہیں کی۔ اور اس نے ان کی دیوار گرادی۔ تو وہ تعمیر نہیں کرتے ہیں اور دنیا ان کے سینوں میں مرگئی ۔ تو وہ اس کو زندہ نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ وہ اس کو منہدم کر دیتے ہیں۔ پھر اسی پر اپنی آخرت کی بنیاد رکھتے ہیں۔ اور دنیا کو بیچ کر اس کے بدلے میں وہ چیز خریدتے ہیں جو ان کے لئے باقی رہے گی یعنی آخرت۔ اور دنیا والوں کو وہ پچھاڑ کھا کر گرا ہوا دیکھتے ہیں ان کے اوپر سختیاں گزر چکی ہیں ۔ تو اب وہ اپنی امیدوں میں امن ہی دیکھتے ہیں۔ اور جو کچھ وہ پاتے ہیں ، اس میں کوئی خوف نہیں ہوتا ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہ نے اس خط میں جو انہوں نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کولکھا۔ فرمایا ہے:۔
إنما مثل الدنيا ‌كمثل ‌الحية لين لمسها ويقتل سمها، فأعرض عنها وعن ما يعجبك منها لقلة ما يصحبك منها، ودع عنك همومها لما تيقنت من فراقها، وكن أسر ما تكون فيها أحذر ما تكره منها، فإن صاحبها كلما اطمأن فيها إلى سرور أشخص منها إلى مكروه
فی الحقیقت دنیا کی مثال سانپ کی طرح ہے ۔ چھونے میں نرم محسوس ہوتا ہے۔ لیکن اس کا زہر قاتل ہے۔ پس تم دنیاسے، اور دنیا کی ان تمام چیزوں سے جو تمہیں اچھی معلوم ہوتی ہیں، منہ پھیر لو ۔ اس وجہ سے کہ وہ تمہارے ساتھ تھوڑی ہی مدت تک رہے گی یہ اور دنیا کی فکروں کو اپنے دل سے دور کر دو۔ کیونکہ تم اس کے جدا ہونے کا یقین کر چکے ہو۔ اور جب تک دنیا میں رہو، خوش رہو۔ اور اس کی طرف سے جو کچھ تمہارے سامنے آئے ، اس سے پر ہیز کرو۔ کیونکہ اہل دنیا جب اس کی کسی خوشی سے مطمئن اور پر سکون ہوتا ہے۔ تو وہ کسی برائی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
پس حق سبحانہ تعالیٰ نے دنیا اور دنیا میں شامل ہونے والی تمام چیزوں کے ظاہر کو فتنہ ( آزمائش ) اور اس کے باطن کو نصیحت بنائی ہے۔ تو جو شخص اس کے ظاہر میں مشغول ہوا ۔ وہ دھوکا میں مبتلا ہوا۔ اور جو اس کے باطن تک پہنچا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول ہوا۔ پس غافل اور دنیا پرست لوگ دنیا کے وقتی فوائد ، اور ظاہری زینت میں مشغول ہوئے ۔ تو اس نے ان کو اپنی نمائشی زینت کےفریب میں مبتلا کیا۔ اور اپنے دھوکے میں پھنسائے رکھا۔ یہاں تک کہ موت نے اچانک ان کو پکڑ لیا ۔ اور بیدار اور ہوشیار لوگ اس کے باطن میں پہنچے ۔ تو انہوں نے پہچان لیا۔ کہ وہ جلد چھوٹنے والی اور بہت تھوڑ ا دن ساتھ رہنے والی ہے۔ تو وہ زادراہ ( راستے کا سامان ) جمع کرنے میں مشغول ہو گئے ۔ اور آخرت کے لئے سامان تیار کیا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے اوپر دنیا اور آخرت میں کوئی خوف نہیں ہے۔ اور نہ وہ دنیا میں کسی غم میں مبتلا ہوتے ہیں۔ نہ آخرت میں مبتلا ہوں گے۔
سلف صالحین یعنی بزرگان متقدمین کا معمول یہ تھا:۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہم ۔ جب دنیا ان کے سامنے آتی تو وہ فرماتے تھے: یہ ایسا گناہ ہے جس کی سزا جلد ملے گی ۔ اور جب ان کے سامنے فقر آتا۔ تو وہ فرماتے تھے: مرحبا ( شاباش، مبارک ہو ) یہ صالحین کی سنت ہے۔
دوسری وجہ : اللہ تعالیٰ نے مخلوقات (دنیا) کے ظاہر کو اپنا سر (راز ) چھپانے ، اور اپنی حکمت ظاہر کرنے کے لئے دھو کا بنایا ہے اور یہ اس طرح کہ : جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے مظاہر میں تجلی کی ۔ تو اس کی حکمت کے ظاہر ہونے کے ساتھ ، اس کا سر پوشیدہ ہو گیا۔
یا تم اس طرح کہو : مخلوقات (دنیا) کا ظا ہر ظلمت، اور اس کا باطن نور ہے۔ تو جو شخص ظلمت میں ٹھہر گیا وہ محجوب ہو گیا۔ اور جو شخص نور کے مشاہدہ میں پہنچ گیا۔ وہ عارف اور محبوب ہو گیا ۔ یا اس طرح کہو : مخلوقات کا ظاہر حس ( محسوس) ہے۔ اور اس کا باطن حقیقت۔ پس جو شخص محسوس میں مشغول ہو گیا۔ وہ جاہل رہ گیا۔ اور جو شخص حقیقت میں پہنچ گیا۔ وہ عارف ہو گیا۔ یا تم اس طرح کہو دنیا کا ظاہر ملک ہے۔ اور اس کا باطن ملکوت ہے تو جو شخص ملک میں ٹھہر گیا۔ وہ عوام اہل یمین نے ہے۔ اور جو حکوت کے مشاہدہ میں پہنچ گیا۔ وہ خواص مقربین میں ہو گیا۔
میں نے اپنے قصیدہ تائیہ میں اس کو بیاں کیا ہے۔ جس کے چند اشعار یہ ہیں:
اذا حُبِسَتْ نَفْسٌ فِي سِجْنِ الهوى ا لَذِى تُقَيَّدُ بِهِ الْعَقْلُ فِي قَهْرِ قَبَضَةٍ
جب کوئی نفس خواہش کے قید خانہ میں بند ہو جاتا ہے۔ تو اس کے ساتھ عقل بھی قبضہ کے قہر میں مقید ہو جاتی ہے۔
وَاشْغَلَهَا عِلْمَ الصَّوَانِ لِحِكْمَةٍ فَلَمْ تَرَ إِلَّا الْكُونَ فِى كُلّ وِجْهَۃٍ
اور اس کو حفاظت کا علم حکمت کی بنا پر مشغول کر دیتا ہے۔ تو وہ ہر طرف صرف مخلوق ہی مخلوق دیکھتا ہے۔
فَذالِكَ عَيْنُ الْمُلْكِ وَهُمْ ثَبُوتُهُ وَنَاظِرَهُ مَحْجُوبٌ فِي سِحْنٍ ظَلَمَةٍ
تو یہی حقیقتا ملک ہے۔ اور اس کا وجود وہم ہے۔ اور اس کی طرف دیکھنے والا ظلمت کے قید خانے میں گرفتار ہے۔
وَإِنْ نَفَذَتْ رُوحُ الْمُقَدَّسِ سِرُّهُ إِلَى دَرُكِ نُورِ الْحَقِّ فَاضَ بِقُدْرَةٍ
اور اگر روح جس کا سر پاکیزہ ہے۔ حق سبحانہ تعالیٰ کے نور کے ادر اک تک پہنچ جائے تو وہ قدرت سے فیض یاب ہوتی ہے ۔
فَذا مَلَكُوتُ اللَّهِ يُسْمَى لِوُسْعِهِ وَعَارِفُهُ يَحْظَى بِفَتْحِ بَصِيرَةٍ
پس یہی اللہ تعالیٰ کا ملکوت ہے۔ جس میں وہ اپنی وسعت کے مطابق بلند کی جاتی ہے اور اس کا عارف بصیرت کے کھلنے سے لطف حاصل کرتا ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں