ظاہری اور باطنی نعمتیں (باب ہشتم)

ظاہری اور باطنی نعمتیں کے عنوان سے  باب  ہشتم میں  حکمت نمبر74 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے دوسری میزان بیان کی تم اس کے ذریعہ مقربین ، اور شکر گزارغنا والوں کو پہچان سکتے ہو۔ چنانچہ فرمایا۔
74) مَتَى رَزَقَك الطَّاعةَ وَالغِنَى بِهِ عَنْهاَ، فَاعْلَمْ أَنَّهُ قَد أَسْبَغَ علَيكَ نِعَمَهُ ظاهِرةً وباطِنةً.
جب اللہ تعالیٰ نے تم کو طاعت کی ، اور اپنے ساتھ تو کل کی بنا پر طاعت سے بے نیازی کی توفیق عطا کی تو تم یہ جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں تمہارے اوپر مکمل کر دی۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: طاعت، ظاہر میں رسوم شریعت ہیں۔ اور باطن میں اللہ تعالیٰ پر توکل کے باعث طاعت سے بے نیاز ہونا۔ یہ حقیقت کے مشاہدے ہیں۔ تو جب اللہ تعالیٰ نے تمہارے اندر جسمانی اعضاء کی طاعت، اور تمہارے باطن میں اپنے اوپر توکل کے باعث طاعت سے بے نیازی کو جمع کر دیا۔ تو اس نے تمہارے اوپر اپنی ظاہری و باطنی نعمتوں کو مکمل کر دیا۔ اوریہ ان عارفین مقربین کی نشانی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے ماسوی سے بے نیاز ہیں وہ اپنے معبود کے مشاہدے کے باعث اپنی عبادت کے دیکھنے سے، اور اپنے معلوم کے علم کو کافی سمجھنے کے باعث اپنے علم کے دیکھنے سے، اور اپنے اصلاح کرنے والے پر توکل کے باعث اپنی درستی سے بے نیاز ہو گئے
ہیں۔
حضرت شیخ ابوالحسن نے اپنے حزب کبیر میں فرمایا ہے:۔ ہم تجھ سے تیرے ماسوی سے فقر،اور تیرے ساتھ غنا طلب کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم تیرے سوا کچھ مشاہدہ نہ کریں۔ پس یہی لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ غنی ، اور اس کی ذات میں اس کے ماسوا سے غائب ہیں ۔ ان کی عبادت اللہ کے ساتھ ، اور اللہ کے لئے، اور اللہ کی طرف سے نعمت کا شکر قائم کرنے ، اور حکمت کے وظیفوں کو پورا کرنے کے لئے ہے۔ اللہ کے محبوب ترین بندے اور حدیث میں حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے ۔
‌أَحَبُّ ‌العِبَادِ إِلَى اللهِ تَعَالَى الأتقِيَاءُ ‌الأَخْفِيَاءُ
اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب بندے ماسوی سے بے نیاز مخلوق سے پوشیدہ پر ہیز گار لوگ ہیں۔
اور جیسا کہ حضرت نبی کریم ﷺ نے دوسری حدیث میں فرمایا ہے:۔
لَيْسَ ‌الْغِنَى عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ، وَإِنَّمَا الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ
مال اور سامان کی زیادتی غنا نہیں ہے۔ بلکہ غنا صرف نفس کا غنا ہے ۔ اور یہی اللہ تعالیٰ کے ساتھ غنا ہے۔ اور یہی حقیقی نعمت ہے۔
پس ظاہری نعمت:۔ اعضاء کو شریعت کے ساتھ آراستہ کرنا۔ اور باطنی نعمت :۔ حقیقت کے ساتھ اسرار کو روشن کرنا ہے۔ اور کہا گیا ہے۔ ظاہری نعمت : کفایت اور عافیت ہے۔ اور باطنی نعمت:۔ ہدایت اور معرفت ہے۔ اور کہا گیا ہے ظاہری نعمت اس کے حکم کی مخالفت سے بدن کا آرام ہے۔ اور باطنی نعمت: اس کے حکم کی مخالفت سے اس کا محفوظ رہنا ہے۔ اور نعمت ہونے کی حیثیت سے نعمت کی حقیقت یہ ہے کہ وہ کسی رنج کا سبب نہ ہو۔ اور بعد میں اس کا نتیجہ شرمندگی نہ ہو۔ اور کہا گیا ہے: نعمت عظمیٰ نفس کے دیکھنے سے نکل جاتا ہے۔ اور کہا گیا ہے، نعمت : وہ ہے جو تم کو حقیقوں تک پہنچادے۔ اور تعلقات سے تم کو پاک کردے۔ اور مخلوق سے تم کو منقطع کر دے۔ اور اللہ ہی کی طرف سے توفیق ہے۔
یہاں آٹھواں باب ختم ہوا۔ اور اس باب کا حاصل
خلاصه واردات الہٰی کے ساتھ آداب کی تحقیق ہے۔ کیونکہ واردات خاص بخششیں ہیں ۔ پس جو شخص واردات کے انوار کی مدد چاہتا ہے اس کے اوپر ان کے اسرار کا چھپانا واجب ہے تا کہ اس کے ثواب کا بدلہ آخرت کے لئے موقوف ہو ، جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ اور اس حالت میں اس کا اخلاص ثابت ہوتا ہے۔ اور اس کی خصوصیت ظاہر ہوتی ہے۔ تو وہ طاعت اور ایمان کی شیرینی چکھتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی قدر و منزلت بڑی ہوتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اس کو اپنے ماسوا سے غائب کر دیتا ہے اور اس کے اوپر اپنی نعمتوں کو مکمل کر دیتا ہے اور جب وہ تم کو اپنے ساتھ غنی کر دیتا ہے۔ تو تم اس کی طلب سے بے نیاز ہو جاتے ہو۔ اور اگر طلب کرنا ضروری ہو تو تم اس سے وہی طلب کرو جو وہ تم سے طلب کرتا ہے۔ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے نویں باب کی ابتداء میں اس کو بیان کیا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں