عارفین کے خوف کی وجہ (باب  نہم)

عارفین کے خوف کی وجہ کے عنوان سے  باب  نہم میں  حکمت نمبر 82 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے بسط کی حالت میں ادب کے مقام پر نہ ٹھہرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا
82) الْبَسْطُ تَأْخُذُ النَّفْسُ مِنْهُ حَظَّهَا بِوُجُودِ الْفَرَحِ ، وَالْقَبْضُ لاَ حَظَّ لِلنَّفْسِ فِيهِ.
بسط میں خوشی کے موجود ہونے کے سبب نفس اپنا فائدہ حاصل کرتا ہے اور قبض میں نفس کے لئے کوئی فائدہ نہیں ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: یہ اس لئے ہے کہ بسط جمال ہے۔ اور قبض جلال ہے۔ اور جمال کی شان یہ ہے کہ پورے جمال کے ساتھ آئے ۔ تو وہ جمال کہاں ہے؟ وہ تو عین جلال ہے۔ وہ تمہا را دوست کہاں ہے؟ وہ تو تمہارا دشمن ہے۔ وہ نفع کہاں ہے؟ وہ تو نقصان ہے۔ اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو جگہ نفس کے لئے موافق اور لائق ہوتی ہے۔ وہی جگہ قلب کے خسارہ اور وح کے حجاب کی ہوتی ہے۔ اس لئے کہ جس مقام میں کہ نفس زندہ ہوتا ہے۔ اس مقام میں قلب مردہ ہو جاتا ہے۔ اور جس مقام میں نفس مردہ ہوتا ہے۔ اس میں قلب اور روح زندہ ہوتی ہے۔ اس کے بارے میں حضرت ابن فارض رضی اللہ عنہ کا کلام ہے:۔
الْمَوْتُ فِيهِ حَيَاتِي وَفِي حَيَاتِي قَتْلِيْ
مرجانے میں میری زندگی ہے ۔ اور میری زندگی میں میری موت ہے۔
حضرت ششتری رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:
إِن تُرِدْ وَصَلَنَا فَمَوْتُكَ شَرْطٌ لَا يَنَالُ الْوِصَالَ مَنْ فِيهِ فَضْلُهُ
اگر تم ہمار اوصال چاہتے ہو تو اس کے لئے تمہاری موت شرط ہے۔ جس شخص کے اندر اس کا کچھ فضل یعنی اس کے نفس کا کچھ شائبہ باقی ہے وہ ہمارے وصال کو نہیں پاسکتا ہے۔
حضرت یوسف بن حسین رازی رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جنید رضی اللہ عنہ کے پاس ایک خط میں تحریر فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے نفس کا مزہ نہ چھکائے ۔ کیونکہ اگر تم نے اس کو چکھ لیا تو پھر اس کے بعدکبھی کسی بھلائی کا مزہ نہ چکھو گے۔
حضرت ابو علی دقاق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے، قبض تمہارے اوپر اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ اوربسط ، اللہ تعالیٰ کے اوپر تمہاراحق ہے۔ اور تمہارا اپنے رب کے حق میں مشغول ہونا، اپنے نفس کے فائدے میں مشغول ہونے سے زیادہ بہتر ہے۔ اور یہ سب سائرین کے لئے ہے۔ لیکن واصلین متمکنین:۔ تو ان کے اندر جلال اور جمال کچھ اثر نہیں کرتے ۔ نہ ان کو قبض حرکت میں لاتا ہے، نہ بسط۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے۔ کیونکہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ، اور اللہ تعالیٰ کے لئے ، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ، اور اللہ تعالیٰ کی طرف ہیں۔ ان کا تصرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ اور ان کی عبودیت اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔ اور ان کاوارد ہونا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اور ان کا صادر ہونا اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔ اس لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں۔ اور اس کے سوا کسی شے کے لئے نہیں۔
حضرت جنید رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: خوف مجھ کو قبض کی حالت میں کرتا ہے۔ یعنی تنگ کرتا ہے، اور رجاء مجھ کو بسط کی حالت میں کرتا ہے، یعنی کشادہ کرتا ہے اور حقیقت، مجھ کو جمع کرتی ہے۔ اور حق ، مجھ کو جدا کرتا ہے جب اللہ تعالیٰ مجھے خوف کے ساتھ قبض کی حالت میں کرتا ہے۔ تو مجھے میرے وجود سے فنا کر دیتا ہے۔ اور جب رجا کے ساتھ مجھے بسط کی حالت میں کرتا ہے ۔ تو وہ میرے وجود کو میری طرف لوٹا دیتا ہے۔ اور جب وہ حقیقت کے مشاہدے کے ساتھ مجھے جمع کرتا ہے۔ تو مجھے اپنے حضور میں حاضر کرتا ہے۔ اور جب وہ اپنے حق کے ساتھ مجھے جدا کرتا ہے تو مجھے میرے غیر کے وجود کا مشاہدہ کراتا ہے۔ تو مجھے اپنے سے حجاب میں کر دیتا ہے۔
پس وہ ان سب حالات میں مجھے حرکت دینے والا ہے۔ نہ کہ سکون دینے والا ۔ اور میرے اندر وحشت پیدا کرنے والا ہے۔ نہ کہ انسیت ۔ اور ایسا میرے اپنے وجود کا مزہ چکھنے کے لئے حاضر ہونے کے باعث ہے۔ پس کاش کہ مجھے میرے وجود سے فنا کر کے مجھے فائدہ پہنچائے ۔ یا مجھے میرے وجود سے غائب کر کے مجھے راحت عطا کرے۔
حضرت جنید رضی اللہ عنہ کا قول خوف مجھے قبض کی حالت میں کرتا ہے ۔ اس لئے ہے که بنده خوف کی حالت میں اس بے ادبی کا مشاہدہ کرتا ہے، جو اس سے اللہ تعالیٰ کی جناب میں سرزد ہوئی ہے تو اس کے لئے غم کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اور رجا کی حالت میں اس احسان کا مشاہدہ کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو عطا کیا گیا ہے تو اس کے لئے رجا اور بسط کا دروازہ کھل جاتاہے۔
اور حضرت جنید کا قول: حقیقت مجھ کو جمع کرتی ہے ۔ یعنی مجھ کو اپنے نفس سے بے نیاز کرتی ، اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ جمع کرتی ہے۔ تو ہم کچھ مشاہدہ نہیں کرتے سوائے اس حالت کے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔ تو نہ قبض ہوتا ہے نہ بسط ۔ اور حضرت جنید کا قول : حق مجھے جدا کرتا ہے ۔ حق سے مراد وہ حقوق ہیں ، جو عبودیت کے لئے لازم ہیں۔ تو حقوق کے ادا کرنے کی طرف بندہ اس وقت سبقت کرتا ہے۔ جب وہ کسی قسم کی جدائی مشاہدہ کرتا ہے۔ اگر چہ اس کی سبقت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہو۔
اور حضرت جنید کا قول : جب وہ مجھے قبض کی حالت میں کرتا ہے۔ تو مجھے میرے وجود سے فنا کرتا ہے ۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ میرے سامنے اپنے اسم پاک جلیل یعنی جلال کی صفت کے ساتھ تجلی کرتا ہے تو میرا جسم تجلی کرنے والے کی ہیبت وخوف سے پگھل جاتا ہے۔ اور جب وہ ر جا کے ساتھ مجھے بسط کی حالت میں کرتا ہے اس طریقے پر کہ میرے سامنے اپنے اسم پاک جمیل یا رحیم یعنی جمال کی صفت کے ساتھ تجلی کرتا ہے۔ تو وہ میرے نفس اور وجود کو میرے اوپر لوتا دیتا ہے۔ اور جب مجھے اپنی طرف حقیقت کے مشاہدہ کے ساتھ جمع کرتا ہے۔ تو وہ مجھے میرے وہم کے زائل ہونے کے باعث اپنے ساتھ حضور عطا کرتا ہے۔ اور جب اپنی حکمت کے وظیفوں سے اس حق کے ساتھ مجھے جدا کرتا ہے، جس کا قائم کرنا اس نے میرے اوپر واجب کیا ہے۔ تو وہ مجھے میرے غیر کا مشاہدہ کراتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے ساتھ میری طرف سے ادب ظاہر ہو جاتا ہے۔ اور کبھی مشاہدہ اتنا قوی ہوتا ہے۔ کہ وہ ادب کا مشاہدہ اس کی طرف سے اس کی طرف کرتا ہے۔ اور حضرت جنید کا قول : تو وہ مجھے اپنے سے حجاب میں کر دیتا ہے۔ اس لئے کہ بند ہ حقوق کے آسمان ، یا فوائد کی زمین کی طرف نزول کی حالت میں کبھی مرتبہ کے مقام کی طرف رجوع کرتا ہے۔ لیکن یہ لازمی نہیں ہے۔ اور عنقریب اس کے بارے میں مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کا بیان آئے گا۔
بلکہ وہ اس حالت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے، اور اللہ تعالیٰ کی طرف نزول کرتے ہیں۔ پس اس صورت میں حق کے لئے نزول کی حالت میں بندے کے لئے مطلق حجاب میں ہے۔
اور حضرت جنید کا قول پس وہ ان سب حالات میں ، مجھے حرکت دینے والا ہے۔ نہ کہ سکون دینے والا یعنی اللہ تعالیٰ جب بندے کو خوف کے ساتھ قبض کی حالت میں کرتا ہے۔ یار جا کے ساتھ بسط کی حالت میں کرتا ہے۔ یا اس کو حقیقت کے ساتھ جمع کرتا ہے یا اس کو حق کے ساتھ جدا کرتا ہے۔ تو وہ اس کو حرکت دیتا ہے تا کہ اس کو اپنی طرف سیر کرائے۔ اور اس کو اپنی طرف جمع کرے۔ نہ یہ کہ اس کو ایک مقام میں ٹھہرا دے۔ اور اس کو اس کے نفس کے عالم سے وحشت یعنی نفرت کرنے والا بنا دیتا ہے۔ نہ کہ اس کے اپنے بشری عالموں میں موجود ہونے کے سبب انسیت کرنے والا ، کہ اس انسیت کے سبب اپنے وجود کا مزہ چھکے۔ تو جب اس کو اس کے وجود سے غائب کر دیتا ہے۔ تو وہ اس کی قدر و منزلت کو پہچانتا ہے، جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اس پر احسان کیا ہے۔ اس لئے فرمایا: کاش کہ وہ مجھ کو میرے وجود سے فنا کر دے۔ یعنی میرے وجود کے مشاہدے سے۔ پھر مجھ کو اپنے مشاہدہ سے فائدہ پہنچائے ۔ یا مجھ کو میرے ظاہر سے غائب کر دے۔۔ تا کہ غائب ہونے کی حالت میں میرے اوپر سے ان حقوق کے ساقط ہونے کے باعث جو مجھ کو اس سے جدا کرتے ہیں، مجھے راحت عطا کرے۔
اور گویا کہ وہ سلامتی کی طلب کی طرف مائل ہوئے ہیں ۔ اس خوف سے کہ کہیں وہ ان چیزوں میں نہ مبتلا ہو جائیں، جو ملامت کا سبب ہوتی ہیں۔ اور کمال:۔ در حقیقت عبودیت اور ربوبیت کے مشاہدے میں جمع ہوتا ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں