علم اورخوف الہی (چوبیسواں باب)

علم اورخوف الہی کے عنوان سےچوبیسویں باب میں  حکمت نمبر 232 اور 233 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے:۔
232) خَيْرُ العِلْمِ مَا كَانَتِ الخَشْيَةُ مَعَهُ.
بہترین علم وہ ہے، جس کے ساتھ خوف الہٰی ہو ۔
لہذا اگر علم سے اللہ تعالیٰ کا خوف نہ پیدا ہو تو اس میں کچھ بھلائی نہیں ہے۔ کیونکہ ایسا علم،اہل علم پر حجت ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے :-
233) العِلْمُ إِنْ قَارَنَتهُ الخَشْيَةُ فَلَكَ ، وَإِلاَّ فَعَلَيْكَ.
اور علم کے ساتھ اگر اللہ تعالیٰ کا خوف شامل ہو، تو وہ تمہارے لئے ہے۔
یعنی تمہارے لئے مفید ہے۔ ور نہ وہ تمہارے اوپر ہے۔ یعنی وہ تمہارے اوپر حجت اور تمہارے لئے مواخذہ اور عذاب کا باعث ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ جس علم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا خوف شامل ہوتا ہے وہ اہل علم کو غفلت اور اس کے اسباب سے روکتا ہے اور اس کو ہر اس شے سے جدا کر دیتا ہے ، جو اس کو اس کے علم پر عمل کرنے سے روکتی ہے اور ہر اس شے میں اس کو رغبت دلاتا ہے ، جو اس کو اس کے رب سے قریب کرتی ہے۔ لہذا وہ علم اللہ تعالیٰ کی معرفت تک پہنچنے میں اس کا مددگار ہوتا ہے۔ اور رضائے الہٰی کے میدان کے قریب پہنچنے میں اس کا معاون ہوتا ہے۔ لیکن اگر علم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا خوف شامل نہیں ہے۔ تو وہ علم اس کے اوپر وبال ہے۔ کیونکہ وہ اب اس کے اوپر حجت ہے۔ کیونکہ علم کے ہوتے ہوئے نافرمانی ، اس نافرمانی سے بدتر ہے، جو جہالت کے ساتھ ہو۔ حدیث شریف میں حضرت رسول کریم ﷺ سے روایت ہے ۔
وَيْلٌ لِلْجَاهِلِ مَرَةٌ ، وَوَيْلٌ لِلْعَالِمِ إِذَا لَمْ يَعْمَلْ عَشْرَ مَرَّاتٍ جاہل کے لئے ایک مرتبہ تباہی ہے اور عالم کے لئے اگر اس نے عمل نہیں کیا۔ دس مرتبہ تباہی ہے۔ اس حدیث شریف کوحضرت امام غزالی نے بیان فرمایا ہے۔
اور حضرت شیخ ابو الحسن رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے حزب کبیر میں اسی طرح فرمایا ہے ۔ اس شخص کے لئے خرابی ہے جس نے تجھ کو نہیں پہچانا۔ لیکن خرابی پرخرابی اس شخص کے لئے ہے ۔ جس نے تیری وحدانیت کا اقرار کیا لیکن تیرے احکام پر راضی نہیں ہوا۔ اگر تم یہ اعتراض کرو:۔ بعض احادیث شریف میں وارد ہوا ہے :۔ جاہل کا ایک گناہ معاف کرنے سے پہلے، عالم کے چالیس گنا ہوں کواللہ تعالیٰ معاف کر دیتا ہے۔ یا معاف کردے گا۔
اس کا جواب یہ ہے :۔ پہلی حدیث شریف اس عالم اور جاہل کے بارے میں وارد ہوئی ہے، جو اپنے گناہ پر اصرار کرتے ہوئے مر جائیں۔ اس صورت میں بلاشبہ عالم کے لئے عذاب زیادہ ہو گا ۔ کیونکہ حدیث میں وارد ہے:۔ عالم کو ناک کے بل ، آگ میں گھسیٹا جائے گا۔ اور جہنم میں وہ چکی میں گردش کرے گا۔
لیکن جاہل کے بارے میں ایسی کوئی حدیث وارد نہیں ہوتی ہے۔ اور دوسری حدیث شریف ، ان دو عالم اور جاہل کے بارے میں ہے۔ جن کی تو بہ ثابت ہو چکی ہے۔ اس لئے کہ عالم کے ہاتھ میں علم کا چراغ ہے۔ جب وہ توبہ کرلے گا تو اپنے فوت شدہ اعمال کو جاہل سے زیادہ حاصل کرے گا۔ لہذا عالم ایک ماہ میں اپنا نقصان اتنا پورا کر لے گا ، جتناجاہل ایک سال یا اس سے زیادہ میں پورا کرے گا۔ حاصل یہ ہے :۔ پہلی حدیث شریف ان دو عالم اور جاہل کے بارے میں ہے، جو اپنےگناہوں پر قائم رہتے ہوئے مرجائیں۔ اور دوسری حدیث شریف ان دو عالم اور جاہل کے بارے میں ہے، جو توبہ کر کے اپنی اصلاح کریں۔ والله تعالى اعلم
حضرت شیخ ابوالحسن شاذلی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے۔ یہ علم ، دیناروں اور درہموں کی طرح ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا ہے، تو تم کو ان سے فائدہ پہنچاتا ہے۔ اور اگر چاہتا ہے تو تم کوان سے نقصان پہنچاتا ہے۔ حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے لطائف المنن میں فرمایا ہے ۔ اس علم کا گواہ ، جو اپنے بندوں سے اللہ تعالیٰ کا مقصود ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا خوف ہے اور اللہ تعالیٰ کے خوف کا گواہ ۔ اس کے احکام کے موافق عمل کرنا ہے۔
لیکن وہ شخص ، جو علم کے ساتھ دنیا کی طرف رغبت رکھتا ہے اور اہل دنیا کی خوشامد کرتا ہے اور دنیا کو حاصل کرنے کے لئے اپنی ہمت صرف کرتا ہے، اور مال کو جمع کرکے ذخیرہ اندوزی کرتا ہے اور فخر و تکبر کرتا ہے اور لمبی لمبی تمنا ئیں رکھتا ہے اور آخرت کو بھولا ہوا ہے۔ وہ ان صفتوں کی وجہ سے انبیا ﷺ کے وارث ہونے سے کتنا دور ہو گیا ہے۔ اور موروث شے ورثہ کی چیز وارث کے پاس اس صفت کے ساتھ منتقل ہوتی ہے، جس صفت کے ساتھ وہ مورث کے ساتھ تھی۔
اوران علما کی مثال، جومذ کورہ بالا صفات سے موصوف ہوں ، اس شمع ( موم بتی ) کی طرح ہے۔ جو دوسروں کو روشنی پہنچاتی اور اپنے کو جلا دیتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس علم کو ایسے عالم پر جس کے اندریہ صفات ہوں ، حجت بنائی اور اپنے یہاں اس کو زیادہ عذاب دینے کا سبب بنایا ہے۔ حضرت شیخ زروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے، کہ غیر متقی عالم انبیاء علیھم السلام کا وارث نہیں ہے۔ لیکن اس میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ موروث شے کو خراب کرنا اور اس کو نا حق استعمال کرنا وارث کو وارث ہونے سے خارج نہیں کرتا ہے۔ کیونکہ نافرمانی نسب کی نفی نہیں کرتی ہے۔ (بیٹا ، باپ ہی کا ر ہے گا، خواہ وہ فرماں بردار ہو یا نافرمان ) ہاں، اگر وہ نا فرمان ہے، تو اس کو بدترین وارث کہا جائے گا۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے لئے بھی علم کو ثابت کیا ہے ، جو اس سے نہیں ڈرتا ہے اور اس نے اس شخص سے علم کی نفی نہیں کی ہے، جو اس سے نہیں ڈرتا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں – انبیاء علیہم السلام کی موروث شے ( وراثت ) جس شے کو کہی جاتی ہے۔ وہ علم کا مقصد اور اس کا پھل اور نتیجہ ہے۔ اور وہ مقصد : اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کی معرفت ہے۔ نہ کہ صرف لفظی عبارتیں۔ کیونکہ لفظی عبارتیں صرف واسطہ ہیں۔ اور جب مقصد حاصل نہ ہو تو واسطہ کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔ لہذا انکی عبارتوں کے عالم کے لئے وراثت نہیں ہے۔ اس لئے کہ عبارت مقصود بالذات نہیں ہے۔
حضرت شیخ ولی کبیر ابن ابو جمرہ اپنے زمانہ کے علماء کے بارے میں فرماتے تھے ۔ یہ لوگ علم کے ہنر کو صرف ایک ہنر کی حیثیت سے سیکھنے والے لوگ ہیں۔ لہذا یہ لوگ صناع (اہل ہنر ) ہیں علیم نہیں ہیں۔ والله تعالیٰ اعلم
حضرت شیخ ابن عباد نے اس موضوع پر سیر حاصل بحث فرمائی ہے۔ لہذا جو شخص اپنے آپ کو ، اپنے او پر علم کے حجت ہونے سے بچانا چاہتا ہے۔ اس کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیئے ۔و بالله التوفيق
اور علم نافع کی علامات میں سے اللہ تعالیٰ کے علم پر قناعت کرنا اور اس کے دیکھنے کو کافی سمجھنا ہے اور قناعت کا نتیجہ : لوگوں کے بد گوئی کرنے اور تعریف کرنے اور عقیدت سے سامنے آنے نفرت سے پیچھے ہٹنے کی پرواہ نہ کرنا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں