علم نافع نور ہے (چوبیسواں باب)

علم نافع نور ہے کے عنوان سےچوبیسویں باب میں  حکمت نمبر 231 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اسی کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے:۔
231) العِلْمُ النَّافِعُ الَّذِي يَنْبَسِطُ فِي الصَّدْرِ شُعَاعُهُ ، وَيَنْكَشِفُ بِهِ عَنِ القَلْبِ قِنَاعُهُ .
علم نافع وہ نور ہے جس کی شعاع، سینے میں پھیل جاتی ہے اور اس سے قلب کا حجاب دور ہو جاتا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :- علم نافع و ہ قلوب کا علم ہے۔ اور اس کا کام : قلوب کو برے اوصاف سے پاک کر کے بہترین اوصاف سے آراستہ کرنا ہے۔ یا تم اس طرح کہو:۔ اس کا کام تخلیہ اور تحلیہ ہے پہلے نفس اور قلب اور روح اور سر کے عیوب کی تحقیق کرتا ہے۔ پھر ہر ایک کو ان کے عیوب سے پاک کرتا ہے۔ پھر جب نفس اور قلب اور روح اور سر تمام عیوب سے پاک ہو جاتے ہیں۔ تو وہ کمال کی صفات سے مثلا ایمان وایقان و اطمینان و مراقبه و مشاهده، حلم و رافت و کرم وسخاوت و ایثار اور تمام اخلاق حسنہ سے آراستہ ہو جاتے ہیں۔ پس علم نافع کی وہ شعاع جو سینے میں پھیلتی ہے۔ وہ یقین کا برف اور رضا و تسلیم کی ٹھنڈک اور ایمان کی شیرینی اور عرفان کا وجدہے اور ان سے اللہ تعالیٰ کا خوف و ہیبت اور حیا و شرم اورسکون و اطمینان قلب اور ان کے علاوہ دوسرے اخلاق حسنہ پیدا ہوتے ہیں۔ اور وہ حجاب جو علم نافع کے ذریعے قلب سے دور ہوتا ہے ۔ وہ غفلت ہے اور غفلت کا سب نفس سے راضی ہونا ہے۔ اور نفس سے راضی ہونے کا سبب – دنیا کی محبت ہے اور دنیا کی محبت :- تمام خطاؤں کی جڑ ہے۔ کیونکہ دنیا ہی کی محبت سے حسد و غرور اور کینہ وغضب اور بخل اور سرداری کی محبت اور سخت دلی اور سخت کلامی اور بے صبری اور ان کے علاوہ دیگر عیوب پیدا ہوتے ہیں۔ لہذا جب یہ عیوب قلب سے دور ہو جاتے ہیں تو اس میں اس علم کی شعاع پھیلتی ہے۔ اور وہ یقین کا برف اور رضا کی ٹھنڈک ہے۔ جس کا بیان پہلے کیا گیا۔
اور علم باللہ ۔ قلب کا نور ہے اور اس سے ایسی شعاع نکلتی ہے ، جو سینے میں پھیل جاتی ہے۔ پھر وہ اس کو تارک الدنیا بنا دیتی ہے۔ اور جب وہ دنیا کو ترک کر دیتا اور اس سے کنارہ کش ہو جاتا ہے۔ تو اس کا سینہ یقین اور رضا و تسلیم اور ان کے علاوہ دوسرے اوصاف حسنہ کے لئے کشادہ ہو جاتا ہے۔ لہذ اعلم نافع کے شعاع پھیلنے پر قلب کے حجاب کا دور ہونا مقدم ہے۔ اس لئے افضل یہی ہے کہ پہلے قلب کے حجاب کو دور کرے۔ کیونکہ تحلیہ پر تخلیہ مقدم ہے۔
لہذا اگر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) اس طرح فرماتے:۔
هُوَ الَّذِي يَنْكَشِفُ عَنِ الْقَلْبِ قِتَاعُهُ وَيَنْبَسِطُ فِي الصَّدْرِ شُعَاعُهُ
علم نافع وہ ہے جس کے ذریعے قلب سے اس کا حجاب دور ہوتا ہے اور سینے میں اس کی شعاع پھیلتی ہے۔
تو زیادہ بہتر ہوتا۔ اور یہ بھی احتمال ہے :۔ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے سینے میں شعاع کے پھیلنے سے اسلام اور ایمان کا نور مراد لیا ہو ۔ اور وہ انوار توجہ ہیں۔ اور قلب سے حجاب دور ہونے سے حس اور مخلوق کی ظلمت کا دور ہونا مراد لیا ہو ۔ کیونکہ اس ظلمت کے دور ہونے کے بعد ہی انوار مواجہت ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور انوار مواجہت کا نام :- انوار احسان اور اسرار عرفان ہے اور اس طریقے پر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کا کلام کی ترتیب درست ہوتی ہے۔ والله تعالى اعلم
حاصل یہ ہے :۔ جو علم اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کرتا ہے۔ وہی علم نافع ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا علم نافع نہیں ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں