غالب اور حکم دینے والا(مناجات 16)

یہ سولہویں دعا ہے کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ کی جوتالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

سولہویں مناجات

 اِلٰهِىْ كَيْفَ أَعْزِمُ وَأَنْتَ الْقَاهِرُ أم كَيْفَ لَا أَعْزِمُ وَانْتَ الْأٰمِرُ؟
اے میرے اللہ ! میں عبادت کے لئے کیسے ارادہ کروں ۔ جب کہ تو غالب ہے ؟ یا میں کیسے ارادہ نہ کروں ۔ جب کہ تو نے حکم دیا ہے ؟ عبادت کی محبت ، اور اس کی نیت، اور اس پر عمل ، حقیقتا بندے کی قدرت اور اس کا فعل نہیں ہے۔ لیکن وہ شرعا اس کے لئے حکم دیا گیا ہے۔ تا کہ حجت قائم ہو جائے ۔ اور اعتدال کا راستہ ظاہر ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
قُلْ فَلِلَّهِ الْحَجَّةُ الْبَالِغَةُ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ آپ کہہ دیجئے: کامل حجت اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔ پس اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت عطا فرماتا ۔
إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ بے شک اللہ تعالیٰ ایک ذرہ کے برابر ظلم نہیں کرتا ہے ۔
پس جس نے باطن کی طرف دیکھا۔ اس نے بندے کو مجبور پایا۔ اور جس نے ظاہر کی طرف دیکھا۔ اس نے اس کو غیر معذور پایا۔ لہذا انسان پر اور خصوصا عارف پر یہ واجب ہے کہ وہ حقیقت کی آنکھ سے ان امور کے باطن کی طرف دیکھے۔ اورمخلوق کو معذور سمجھے ۔ اس لئے کہ وہ لوگ صاحب اختیار جسموں کے اندر مجبور ہیں۔ اور شریعت کی آنکھ سے ان امور کے ظاہر کی طرف دیکھے۔ لہذادہ ربوبیت کا راز چھپانے ، اور عبودیت کے وظائف ظاہر کرنے کے لئے حقوق کو نافذ اور حدود کو قائم کرے۔ لیکن ایساوہ مہربانی اور نرمی کے ساتھ کرے۔ اس کا قلب اس کے اوپر مہربان ہو۔ اور اس کا ظاہر اس کے اوپر سخت ہو ۔ جس طرح غلام اپنے آقا کے بیٹے کو ادب کی تعلیم دیتا ہے۔
اور اس مناجات کا یہی مفہوم ہے یعنی میں عبادات کے لئے کیسے ارادہ کروں۔ اور اس کے لئے کیسے عہد کروں۔ جب کہ میرے اوپر تو غالب ہے ؟ لہذا اس کے کرنے کی طاقت اس حال میں مجھ کو نہیں ہے ۔ کہ تو مجھ کو اس کے کرنے سے مغلوب کر دے یعنی روک دے۔ اور یہی حقیقت ہے۔
اور میں عبادت کے لئے کیسے ارادہ نہ کروں جب کہ تو نے مجھ کو اس کا علم دیا ہے۔ تو اگر میں اس کے کرنے کا ارادہ نہ کروں تو تو مجھ پر عذاب کرے گا۔ اور یہی شریعت ہے۔ لبذ اوا جب یہ ہے کہ میں ارادہ کروں، اور یہ دیکھوں کہ تو کیا کرتا ہے ۔ پھر اگر تو مجھ کوعمل
کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، تو تو اہل تقویٰ اور اہل مغفرت (تقوی اور مغفرت کا مالک )ہے۔
اور اگر تو مجھ کوعمل کرنے کی توفیق نہ عطا فرمائے تو تو معاف کرنے اور معذرت قبول کرنے کا مالک ہے۔ اور تو ہی فاعل حقیقی اور مختار مطلق ہے۔ لہذا حکم بھی تیرہی حکم ہے۔ اور بندہ بھی تیرا ہی بندہ ہے۔
وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَنْ فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعاً اور اگر آپ کا رب چاہتا تو جتنے لوگ زمین میں ہیں سب کے سب ایمان لے آتے ۔
وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَهَدَى النَّاسُ اور اگر آپ کا رب چاہتا تو لوگوں کو ہدایت عطا فرماتا
حضرت شطیبی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے یہ ارادہ فرمایا ہے کہ حقیقت اورشریعت کے درمیان جمع کے مقام کی طرف مریدین کی رہنمائی کریں۔ اس لئے کہ شرعاً بندے کی نیت اس سے مطلوب ہے۔ اور وہ نتیجہ جو اس سے سلب کر لیا گیا ہے، حقیقت کے اعتبار سے ہے۔ اور دونوں یعنی شریعت اور حقیقت کے درمیان وہی شخص ثابت قدمی سے قائم ہو سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ قائم کرے۔
اسی لئے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رحمہ اللہ تعالیٰ نے دو متضاد اشیاء کےطالبین پر تعجب ظاہر کیا ہے۔ کیونکہ یہ بشرکی طاقت سے باہر ہے۔ لیکن اس وجہ سے کہ انسان وجود کا نسخہ ہے اور کل موجود سے افضل واشرف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر اپنی حکمت کے اسرار میں سے ایسی حکمت ودیعت فرمائی ہے ۔ جو دومتضاد اشیاء میں محبت پیدا کرتی ہے۔ اور دو ہم جنس اشیاء کو جمع کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
مرج الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لا يَبْغِيَانِ اللہ تعالیٰ نے دو ایسے دریاؤں کو جاری کیا جو ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں ان کے
درمیان ایک برزخ (حائل)ہے۔ دونوں اپنی حد سے تجاوز نہیں کرتے ہیں ۔
لہذا جس شخص کے جسمانی اعضاء پر بر زخیت کا اثر ظاہر ہوا، اس نے دنیا اور آخرت کے اعمال پر عمل کیا۔ اور جس شخص کے قلب پر بر زخیت کا اثر ظاہر ہوا، اس نے آخرت کے اعمال اور بارگاہ قدس کے مشاہدے کے درمیان جمع کیا ۔ اور اس کا نور اس پر روشن ہوا۔ اور جس شخص کی روح پر بر زخیت کا اثر ظاہر ہوا، اس نے مشاہدہ اور محبت کے درمیان جمع کیا۔
پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا: تم یہ جان لو کہ اجسام مرجاتے ہیں اور وہ پھر اٹھائے جائیں گے ، اور زندہ کئے جائیں گے ۔ اور یہی حال نفوس اور ارواح کا ہے ۔
پس اجسام کی موت ۔ دنیا سے نکلنے اور محلوں کی قبروں سے تبدیلی کے وقت واقع ہوتی ہے۔
اور نفوس کی موت: فوائد سے نکلنے اور فوائد کی حقوق میں تبدیلی کے وقت ہوتی ہے۔
اور ارواح کی موت : – نفسانی خیالات سے نکل کر اپنے نورانی عالم میں پہنچنے کے لئے ملاءاعلیٰ کی طرف ان کا رجوع کرنا ہے۔
لہذا جب نفس کی نظر صرف اللہ تعالیٰ کی طرف ہو جاتی ہے اور روح کا تعلق صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ اور مخلوق فنا ہو جاتی ہے۔ اور صرف اللہ حی و قیوم باقی رہ جاتا ہے۔ تو ظاہر باطن کے ساتھ اور باطن ظاہر کے ساتھ جمع ہو جاتا ہے۔ اور ہر طرف سے مشاہدہ متعین ہو جاتا ہے۔ اور ماسوی اللہ کے لئے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے ساتھ اس سے خطاب کیا جاتا ہے۔
كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس کے سوا ہرشے ہلاک ہونے والی اور اس وقت تجرید کا ہاتف تفرید کے مقام سے آواز دیتا ہے۔
لمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ آج کس کی بادشاہت ہے۔ تو بشریت کے عالموں اور مخلوقیت کی صورتوں میں سے کوئی جواب دینے والا اس کو جواب
نہیں دیتا ہے۔ ( کیونکہ کوئی شے باقی ہی نہیں رہتی ہے ) تو وہ اپنی ذات کو خود ہی جواب دیتا ہے۔ اللَّهِ الْوَاحِدُ الْقَهَّارِ آج صرف اللہ واحد قہار کی بادشاہت ہے۔
اس مناجات کا مختصر مفہوم یہ ہے:۔ اللہ تعالیٰ نے عبادت اور اس کی نیت کا حکم اس لئے دیا ہے کہ وہ اس کی طرف اس کی مقرر کردہ حکمت اور شریعت کے مطابق وصول کا سبب ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں