غیر فانی ہستی (تیئسواں باب)

غیر فانی ہستی کے عنوان سےتیئسویں باب میں  حکمت نمبر 218 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
جب ماسوی ختم اور فنا ہو جاتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ باقی رہ جاتا ہے۔ ، جوکبھی فنانہیں ہو گا۔ اور ایسا ظاہر ہے، جو بھی پوشیدہ نہ ہوگا ۔ جیسا کہ حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے اس کو بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے۔ ان کی نظر کتنی گہری اور باریک بین ہے ۔ کہ ہر مقام کےمناسب اور مختصر کلام بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ فرمایا:-
218) كَيْفَ يَحْتَجِبُ الحَقُّ بِشَيْءٍ ، وَالَّذِي يَحْتَجِبُ بِهِ هُوَ فِيهِ ظَاهِرٌ وَمَوْجُودٌ حَاضِرٌ
حق سبحانہ تعالیٰ کسی شے سے کس طرح محجوب ہو سکتا ہے حالانکہ وہ جس شے سے محجوب ہوگا۔ وہ اس میں ظاہر اور موجود حاضر ہے
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس مفہوم کو اپنی اس کتاب میں جمع پر امادہ کرنے اور فرق سے محفوظ کرنے کے لئے بار بار بیان کیا ہے۔ جمع :۔ اس حالت کو کہتے ہیں کہ آدمی کا ظاہر اور باطن یکساں ہو ۔ اور وہ ہرشے کو ایک دیکھے ۔ اور فرق ۔ اس حالت کو کہتے ہیں کہ آدمی کا ظاہر اور باطن یکساں نہ ہو ۔ اور وہ ہرشے کو جدا جداد یکھے ۔ اور ان میں امتیاز کرے۔
لہذ ا متواتر بیانات سے یہ بات یقینی طور پر ثابت ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ کسی سے محجوب نہیں ہے۔ اور یہ خیال باطل ہے کہ وہ کسی شے سے محجوب ہے ۔ کیونکہ اگر وہ کسی وجودی شے سے محجوب ہوگا۔ تو یہ اس کی قدرت کے اثر سے ہوگا۔ اور اس کی قدرت ، اس کی ذات سے جدا نہیں ہے۔ اس لئے کہ صفت اپنے موصوف سے جدا نہیں ہوتی ہے۔ لہذا جو شے جبروت کے سمندر سے ظاہر ہوئی ، وہ اس کے انوار میں سے ایک نور ہے اور اس کی صفات کے آثار میں سے ایک اثر ہے۔ عینیہ کے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا ہے:۔
فَأَوْصَالُهُ وَالْإِسمُ وَالأثرُ الَّذِي هُوَ الْكَوْنُ عَيْنُ الذَّاتِ وَاللَّهُ جَامِعُلہذا اس کے اوصاف اور اسم اور اثر جو مخلوق ہیں،عین ذات ہیں اور اللہ سب کو جامع ہے۔
اسی وجہ سے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اللہ تعالیٰ کے محجوب ہونے کے تصور پر تعجب ظاہر کیا ہے۔ کیونکہ ہر وہ شے جو قدرت کے عنصر سے نکلتی ہے۔ وہ سب کی سب اس کے ملکوت کے انوار میں سے ایک نور ہے۔ جو اس کے جبروت کے سمندر سے پہنچتی اور اچھلتی ہے۔ لہذا وحدت ثابت ہو گئی اور حجاب کی بالکل نفی ہو گئی۔ پس ہر موجود کے اندر اللہ تعالیٰ کا نور موجود حاضر ہے۔ پھر چونکہ واردات احوال ہیں اور احوال اعمال کے نتائج ہوتے ہیں۔ اسی لئے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے قول کو بیان کیا۔ اور تم کو حکم دیا کہ تم اس وجہ سے عمل کو نہ چھوڑو کہ تم نے اس کی لذت نہیں دیکھی۔
اور عمل کرنے والا عمل سے جو پھل پاتا ہے۔ وہی حال اور لذت ہے اور بعض عمل ایسا ہے، جس کا پھل عمل کرنے والا فورا نہیں پاتا ہے۔ لہذا اس کو وہ عمل ترک نہ کرنا چاہیئے ۔ اور اس کا پھل ہے مایوس نہ ہونا چاہیئے ۔ اور نہ اس کی قبولیت سے نا امید ہونا چاہیئے ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں