غیوب کے میدان (پچیسواں باب)

غیوب کے میدان کے عنوان سے پچیسویں باب میں  حکمت نمبر 247 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس حقیقت کو اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے۔
247) – الَكائِنُ فِي الكَوْنِ وَلَمْ تُفْتَحُ لَهُ مَيَادِينُ الغُيُوبِ ، مَسْجُونٌ بِمُحِيَطاتِهِ مَحْصُورٌ فِي هَيْكَلِ ذَاتِهِ .
مخلوق میں رہنے والا ، جب کہ اس کے لئے غیوب کے میدان نہ کھولے گئے ہوں ۔ اپنی گھیر نے والی اشیاء کی قید میں مقید ، اور اپنی ذات کی شکل میں گھرا ہوا ہے
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ غیوب کے میدان : وہ ہیں ۔ جن کو روح اس وقت محسوس کرتی ہے، جب وہ اجسام کی تنگی سے نکل کر عالم ارواح میں پہنچتی ہے۔ اور شہود کی وسیع فضاسے گزر کر بادشاہ معبوداللہ تعالیٰ کی معرفت تک پہنچتی ہے۔ لہذا جب تک انسان اس حیثیت سے کائنات میں ہے، کہ وہ صرف کا ئنات کو دیکھتا ہے اور صرف ظاہر کو محسوس کرتا ہے۔ اور اس کے لئے غیوب کے میدان نہیں کھلے ہیں۔ اس وقت تک وہ اپنے کو گھیر نے والی کائنات کی قید میں مقید ہے۔ جیسے کہ آسمان ، اور اس کے چکر لگانے والے افلاک ۔ لہذا وہ کائنات کے قید خانے، نیز اپنی بشریت کی شکل، اور اپنے جسم کی کثافتوں کی قید میں گھرا ہوا ہے۔ پھر جب اس کی روحانیت اس کی بشریت پر غالب ہو جاتی ہے تو وہ بشریت کی شکل کے گھیرے سے نکل جاتا ہے۔ اور جب اس کی بصیرت ملکوت کی فضا کی طرف یا جبروت کے سمندر کی طرف بڑھتی ہے تو وہ مخلوق کی قید سے نکل کر خالق کے شہود میں پہنچ جاتا ہے۔ اس وقت وہ کائنات کی غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے اور شہود وعیاں کی نعمت سے فیضیاب ہوتا ہے۔ لیکن جب تک انسان بشریت کی شکل میں گھرا ہوا ، کائنات کی قید میں مقید ہوتا ہے۔ اس وقت تک وہ اللہ تعالیٰ سے محجوب رہتا ہے۔ اگر چہ وہ رسمی علوم کا متبحر عالم ہو ۔ اس لئے کہ رسمی علوم کی مشغولیت ، اللہ تعالیٰ سے اس کا حجاب زیادہ کرتی ہے۔
حضرت شیخ ابوالحسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے۔ علم ظاہر میں مشغول ہونا ، عالم کو خصوصیت کا علم حاصل کرنے میں نقصان پہنچاتا ہے۔ یا ایسی ہی بات فرمائی جس کا مفہوم یہی ہے۔
قوت القلوب میں اس کے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا ہے۔ جس شخص کے لئے علم ظاہر کی وجہ سے علم باطن کا دروازہ نہ کھلے۔ وہ اہل یمین (دائیں طرف دالوں) میں سے ہے۔ اور جس شخص کے لئے علم باطن کا دروازہ کھل جاتا ہے وہ مقربین سابقین میں سے ہے۔ اور یہ ظاہر بات ہے کہ علم رسوم( کتابی علم ) مخلوق کے قید خانے سے اس کو نہیں نکالتا ہےلہذا وہ ہمیشہ مخلوق ہی کے ساتھ رہتا ہے۔ اور چونکہ وہ مخلوق کے ساتھ رہتا ہے۔ اس لئے وہ خالق کے شہود سے محروم ہو جاتا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں