فنافی اللہ اور بقا باللہ (پچیسواں باب)

فنافی اللہ اور بقا باللہ کے عنوان سے پچیسویں باب میں  حکمت نمبر 242 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں فرمایا ہے۔
242) المُؤْمِنُ يَشْغَلُهُ الثَّناءُ عَلَى اللهِ عَنْ أَنْ يَكُونَ لِنَفْسِهِ شَاكِراً ، وَتَشْغَلُهُ حُقُوقُ اللهِ عَنْ أَنْ يَكُونَ لِحُظُوظِهِ ذَاكِراً .
مؤمن وہ ہے، جس کو اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی مشغولیت اس سے غافل کر دیتی ہے کہ وہ اپنے نفس کے لئے شکر گزار ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ کے حقوق میں مشغولیت اُس کو اس سے غافل کر دیتی ہے کہ وہ نفس کے فوائد کو یاد کرے ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ فتا کے ثابت ہو جانے کے بعدنفس کا وجودہی نہیں رہتا ہے کہ اس کو یاد کیا جائے ۔ نہ اُس کا کوئی فعل باقی رہتا ہے کہ اُس کا شکر ادا کیا جائے ۔ لہذا عارف کو اپنے نفس کی کچھ خبر نہیں رہتی ہے، کہ اس کے کچھ کرنے کی خبر ہو۔ تو اُس کے کسی وصف پر اُس کے شکر ادا کرنے کا کیا ذکر ۔
اُس کو اللہ تعالیٰ کے فعل کے شہود نے اپنے فعل کے شہود سے ، اور اُس کے وصف کے شہود نے اپنے وصف کے شہود سے، اور اُس کی ذات کے نور کے شہود نے اپنی ذات کے شہود سے ، متفرق کر کے بے خبر کر دیا ہے ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اُس کو ماسوی اللہ کی طرف توجہ کرنے سے غافل کر دیتی ہے۔ کیونکہ وہ کائنات میں اس کے سوا کچھ نہیں دیکھتا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کے حقوق اس کو اُس کے نفس کے فوائد کی طرف توجہ کرنے سے غافل کر دیتے ہیں۔ اس لئے کہ فنا کے ساتھ نفس کا وجود ہی باقی نہیں رہتا ہے۔ لہذا فوائد اس کے حق میں حقوق بن جاتے ہیں ۔ کیونکہ عارفین جب بارگاہ الہٰی کے آشیانے سے فوائد کی زمین کی طرف نزول فرماتے ہیں۔ تو وہ اللہ تعالیٰ کی اجازت اور یقین میں تمکین اور رسوخ کے ساتھ نزول فرماتے ہیں ۔ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے، اور اللہ تعالیٰ کی طرف نزول فرماتے ہیں لہذا ان کی نظر اس کے ماسواء کی طرف نہیں ہوتی ہے۔ ان کی ارواح دنیوی ، یا اخروی انسانی یا روحانی فوائد کی طلب سے نجات پا جاتی ہیں ۔ اگر ان سے کوئی عمل صادر ہوتا ہے تو وہ اس کو اللہ تعالیٰ کا احسان کہتے ہیں۔ اس لئے وہ اس میں پر اللہ تعالیٰ سے کوئی معاوضہ یا کوئی فرض چاہنے میں شرم کرتے ہیں۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں