فوت شدہ لوگوں کی قربانی

û عَنْ حَنَشٍ قَالَ رَأَیْتُ عَلِیًّا یُضَحِّی بِکَبْشَیْنِ فَقُلْتُ مَا ہَذَا فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَوْصَانِی أَنْ أُضَحِّیَ عَنْہُ فَأَنَا أُضَحِّی عَنْہُ.(سنن ابو داؤد کتاب الضحایا باب الاضحیۃ عن المیت)

 حضرت خنش ص فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کو دو دنبے قربانی کرتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ یہ کیا؟ یعنی جب ایک دنبہ کی قربانی کافی ہے تو دو دنبوں کی قربانی کیوں کرتے ہیں ؟ ) انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے یہ وصیت فرمائی تھی کہ (ان کے وصال کے بعد ) میں ان کی طرف سے قربانی کروں لہٰذا میں ان کی طرف سے قربانی کرتا ہوں۔

تشریح

 اس حدیث مبارکہ میں دونوں ہی احتمال ہیں یا تو حضرت علی المرتضیٰ ص اپنی قربانی کے علاوہ دو دنبے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے قربان کرتے ہوں گے جیسا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی زندگی میں دو دنبوں کی قربا نی فرماتے تھے، یا پھر یہ کہ حضرت علی المرتضیٰ صایک دنبہ کی قربانی تو اپنی طرف سے کرتے ہوں گے اور ایک دنبہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی المرتضیٰص کا یہ ہمیشہ کا معمول تھا کہ وہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے ہر سال قربانی کرتے تھے۔

یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے جسے صدقہ پر قیاس کیا گیا ہے اور صدقہ کا جواز سنت نبوی سے ثابت ہے اگرچہ بعض علماء نے اسے جائز نہیں کہا ۔ کیونکہ ان کے بقول قربانی زندوں پر ہے فوت شدہ پر نہیں ۔

 بہرحال فوت شدہ افرادکی قربانی تین قسم کی ہے۔

 پہلی قسم ایسی قربانی جس کی فوت شدہ نے وصیت کی ہواور اس وصیت پر عمل بھی فوت شدہ کے مال سے ہی ہو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے جبکہ فوت شدہ کے تہائی مال سے ادا کی جا رہی ہو ۔ ایک اور حدیث میں ہے

عَنْ حَنَشٍ عَنْ عَلِیٍّ أَنَّہُ کَانَ یُضَحِّی بِکَبْشَیْنِ أَحَدُہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالآخَرُ عَنْ نَفْسِہِ فَقِیلَ لَہُ فَقَالَ أَمَرَنِی بِہِ یَعْنِی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلاَ أَدَعُہُ أَبَدًا.(مسند احمد )

حضرت حنشص، حضرت علی صسے روایت ہے کہ وہ ہمیشہ دو مینڈھوں کی قربانی کیا کرتے تھے۔ ایک نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے اور ایک اپنی طرف سے ان سے پوچھا گیا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں تو انہوں نے فرمایا نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے اس کا حکم دیا ہے پس میں اسے کبھی نہیں چھوڑوں گا۔

دوسری قسم کہ کوئی شخص اپنی اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے قربانی کرے اور نیت اپنے عزیزو اقارب کے ثواب کی ہووہ زندہ ہوں یا فوت شدہ یہ بھی جائز ہے کیونکہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے (اﷲم إن ہذا عن محمد وآل محمد)یہ اس خاندان میں ہونے سے ہے مستقل نہیں قربانی عبادت مالیہ ہے یہ نمازروزہ کی طرح عبادت نہیں ۔اس کا ثواب عام ہے جیسا کی ہماری فقہ حنفی میں اس کی صراحت موجود ہے۔

الْأَفْضَلُ لِمَنْ یَتَصَدَّقُ نَفْلًا أَنْ یَنْوِیَ لِجَمِیعِ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ؛ لِأَنَّہَا تَصِلُ إلَیْہِمْ وَلَا یَنْقُصُ مِنْ أَجْرِہِ شَیْء ٌ ۔(رد المحتار کتاب الحج باب الحج عن الغیر)

جو کوئی نفل صدقہ کرے اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ تمام مومنین ومومنات کی نیت کرے اس لیے کہ ثواب ان سب کو ملے گا اور اس کے اجر سے کچھ نہ گھٹے گا ۔

 لہذا ایصال ثواب میں حضور اقدس صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم کے طفیل تمام انبیاء واولیاء ومومنین ومومنات جو گزرگئے اور جو موجود ہیں اور جو قیامت تک آنے والے ہیں سب کو شامل کرسکتا ہے اور یہی افضل ہے۔

اس کے جواز کی دلیل البدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع کتاب التضحیہ میں ہے

’’جب سات آدمی کسی جانور میں شریک ہوں اور ذبح سے پہلے ہی ایک شخص فوت ہو جائے اور اس کے ورثاء اس پہ راضی ہوں کہ فوت ہونے والے کی قربانی کی جائے تو استحسانا ًتو جائز ہے جبکہ قیاسا ًجائز نہیں۔

 قیاس تو یہ ہے کہ جب و ہ فوت ہوا تو اس سے قربانی بھی ساقط ہوگئی لہذا جب اس کا وارث اس کی طرف سے قربانی کرے گا تو مقصد قربانی نہیں بلکہ گوشت کا حصول ہے جو جائز نہیں کیونکہ اگر وہ زندگی میں بھی گوشت کے حصول کیلئے قربانی کرے تو باقی لوگوں کی قربانی بھی جائز نہ ہو تی۔

استحسان کی رو سے اس لئے جائز ہے کہ موت کے بعدبھی تقرب الی اﷲ کا حصول ممکن ہے چاہے صدقہ کی صورت میں ہو یا حج کی صورت میں جیسا کہ رسول اﷲ انے اپنی امت کیلئے قربانی فرمائی جو تقرب الی اﷲ کیلئے ہے لہذا اگر فوت شدہ کی طرف سے تقرب کیلئے قربانی کی گئی تو یہ بھی جائز ہے اور باقی حصہ داروں کی قربانی بھی صحیح ہو گی‘‘۔

تیسری قسم کہ خاص طورپر فوت شدہ کی طرف سے بغیر وصیت کے کرے یہ قربانی کے طور نہیں بلکہ بطور صدقہ کے جائز ہے کیونکہ قربانی واجب صرف ایک ہوتی ہے باقی ساری نفلی یا صدقہ ہوتی ہیں بغیر وصیت کے صدقہ کرنا قربانی سے افضل ہے

 وَقَالَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ أَحَبُّ إِلَیَّ أَنْ یُتَصَدَّقَ عَنْہُ وَلاَ یُضَحَّی عَنْہُ وَإِنْ ضَحَّی فَلاَ یَأْکُلْ مِنْہَا شَیْئًا وَیَتَصَدَّقْ بِہَا کُلِّہَا.

ابن مبارک کا قول یہ ہے کہ ” میں اسے پسند کرتا ہوں کہ فوت شدہ کی طرف سے اﷲ کی راہ میں خرچ کیا جائے۔ اس کی طرف سے قربانی نہ کی جائے، ہاں اگر فوت شدہ کی طرف سے قربانی کی ہی جائے تو اس کا گوشت بالکل نہ کھایا جائے بلکہ سب کا سب اﷲ کے نام پر تقسیم کر دیا جائے

 اسی حدیث کے ضمن میں جو ابتداء میں درج ہے علامہ انور شاہ کشمیری لکھتے ہیں

 الأضحیۃ عن المیت إثابۃ جائزۃ ولا تنوب إلا بالوصیۃ ، وإذا أوصی فیلزم وإلا حکمہا حکم أضحیۃ الحی ، (العرف الشذی شرح السنن الترمذی)

 فوت شدہ کی طرف سے قربانی ثابت اور جائز ہے جبکہ یہ وصیت کی وجہ سے ہو تو جب وصیت ہے تو وصیت کا پورا کرنا لازم ہے اور اس کا حکم زندہ کی قربانی کے حکم میں ہے۔

شرح سنن ابو داؤد میں ہے سوال ہوا کہ کیا فوت شدہ کی طرف سے قربانی جائز ہے یااس کی طرف سے صدقہ کیا جائے؟توجواب میں کہا گیا قربانی جائز ہے لیکن زیادہ بہتر یہ ہے کہ قربانی زندہ شخص اپنی طرف سے کرے اور اپنے فوت شدہ لوگوں کی طرف سے بھی کرے اور اگر صرف اپنے فوت شدہ لوگوں کی طرف سے ہی کریگا تو اس کی مجھے کوئی خاص دلیل نہیں ملی سوائے اس کے کہ کوئی عام حالت میں وقت دعا اپنے زندوں اور فوت شدہ لوگوں کو اس کے ثواب میں شریک کرلے تو ان کیلئے فائدہ مند ہے اور اگر قربنی بھی فوت شدہ کیلئے کرے تو اس میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں کیونکہ یہ صدقہ میں شمار ہوتی ہے ۔

ویسے بھی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے اپنی امت اور اپنی آل کی طرف سے قربانی فرنا ثابت ہے حدیث مبارکہ ہے

عَنْ أَبِی طَلْحَۃَ ، أَنّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ضَحَّی بِکَبْشَیْنِ أَمْلَحَیْنِ ، فَقَالَ عِنْدَ الأَوَّلِ : عَنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ، وَقَالَ عِنْدَ الثَّانِی : عَمَّنْ آمَنَ بِی وَصَدَّقَنِی مِنْ أُمَّتِی ( معجم الکبیر الطبرانی)

رسول اﷲ انے دو سینگوں والے دو دنبے قربان کئے پہلے کو ذبح کرتے وقت دعا فرمائی یہ محمد و آل محمد کی طرف سے ہے اور دوسرے کو ذبح کرتے دعا فرمائی جو شخص میری امت سے ایمان لایا اور میری تصدیق کی اس کی طرف سے ہے

دوسری حدیث میں ہے :عَنْ النَّبِیِّ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ أَنَّہُ ضَحَّی بِکَبْشَیْنِ أَمْلَحَیْنِ أَحَدُہُمَا عَنْ نَفْسِہِ وَالْآخَرُ عَنْ أُمَّتِہ (مسند امام ابو حنیفہ: فتح القدیر: نصب الرایہ فی تخریج الھدایۃ)

نبی کریم صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے دو مینڈھوں کی ، جن کے رنگ سفیدی سیاہی ملے ہوئے تھے، قربانی کی، ایک کی اپنی طرف سے ، دوسرے کی اپنی امت کی طرف سے۔

ابن ماجہ میں یہ اضافہ ہے

فَذَبَحَ أَحَدَہُمَا عَنْ أُمَّتِہِ لِمَنْ شَہِدَ لِلَّہِ بِالتَّوْحِیدِ وَشَہِدَ لَہُ بِالْبَلاَغِ وَذَبَحَ الآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَعَنْ آلِ مُحَمَّدٍ -صلی اﷲ علیہ وسلم

 ایک اپنی امت کی طرف سے قربان کیا ہر اس شخص کی طرف سے جس نے کلمہ طیبہ کی شہادت کی اور حضور اکرم کے لیے تبلیغ رسالت کی گواہی دی ور دوسرا حضرت محمد اور آلِ محمد صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے نام سے ذبح کیا

(سنن ابن ماجہ ا بواب الاضاحی باب اضاحی رسول اﷲصلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم )

 قربانی کے وقت حضور صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے یوں فرمایا

اللَّہُمَّ مِنْکَ وَلَکَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِہِ

: اے اﷲ! تیرے لیے اورتجھ سے، یہ محمد اور اس کی امّت کی جانب سے ہے۔

 فقہ حنفی کی مشہور کتاب بحرالرائق شرح کنز الدقائق میں ہے

:مَنْ صَامَ أَوْ صَلَّی أَوْ تَصَدَّقَ وَجَعَلَ ثَوَابَہُ لِغَیْرِہِ مِنْ الْأَمْوَاتِ وَالْأَحْیَاء ِ جَازَ وَیَصِلُ ثَوَابُہَا إلَیْہِمْ عِنْدَ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ کَذَا فِی الْبَدَائِعِ وَبِہَذَا عُلِمَ أَنَّہُ لَا فَرْقَ بَیْنَ أَنْ یَکُونَ الْمَجْعُولُ لَہُ مَیِّتًا أَوْ حَیًّا

جو کوئی روزہ رکھے نماز پڑھے یا صدقہ کرے اور اس کا ثواب اپنے علاوہ کسی دوسرے کو دے وہ زندہ ہو یا فوت شدہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک جائز ہے جیسے بدائع میں ہے اس میں کوئی فرق نہیں کہ جس دوسرے کے لیے اپنا ثواب ہدیہ کرے وہ وفات پاچکا ہو یا زندہ ہو۔

اسطرح کی کئی مثالیں موجود ہیں جیسے علامہ مفتی محمد امین حنفی المشہور ابن عابدین کتاب ردالمحتار میں فرماتے ہیں

 :أَلَا تَرَی أَنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ یَعْتَمِرُ عَنْہُ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عُمُرًا بَعْدَ مَوْتِہِ مِنْ غَیْرِ وَصِیَّۃٍ .وَحَجَّ ابْنُ الْمُوَفَّقِ وَہُوَ فِی طَبَقَۃِ الْجُنَیْدِ عَنْہُ سَبْعِینَ حَجَّۃً ، وَخَتَمَ ابْنُ السِّرَاجِ عَنْہُ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَکْثَرَ مِنْ عَشَرَۃِ آلَافٍ خَتْمَۃٍ ؛ وَضَحَّی عَنْہُ مِثْلَ ذَلِکَ .ا ہـ .

قُلْت : رَأَیْت نَحْوَ ذَلِکَ بِخَطِّ مُفْتِی الْحَنَفِیَّۃِ الشِّہَابِ أَحْمَدَ بْنِ الشَّلَبِیِّ شَیْخِ صَاحِبِ الْبَحْرِ نَقْلًا عَنْ شَرْحِ الطَّیِّبَۃِ لِلنُّوَیْرِیِّ ، وَمِنْ جُمْلَۃِ مَا نَقَلَہُ أَنَّ ابْنَ عَقِیلٍ مِنْ الْحَنَابِلَۃِ قَالَ : یُسْتَحَبُّ إہْدَاؤُہَا لَہُ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ا ہـ .

قُلْت : وَقَوْلُ عُلَمَائِنَا لَہُ أَنْ یَجْعَلَ ثَوَابَ عَمَلِہِ لِغَیْرِہِ یَدْخُلُ فِیہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَإِنَّہُ أَحَقُّ بِذَلِکَ حَیْثُ أَنْقَذَنَا مِنْ الضَّلَالَۃِ ، فَفِی ذَلِکَ نَوْعُ شُکْرٍ وَإِسْدَاء ُ جَمِیلٍ لَہُ ، وَالْکَامِلُ قَابِلٌ لِزِیَادَۃِ الْکَمَالِ

حضرت ابن عمر رضی اﷲتعالیٰ عنہما حضور صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم کے وصا ل کے بعد بغیر کسی وصیت کے ان کی طرف سے عمرے کیا کرتے تھے، ابن موفق رحمہ اﷲنے (جو حضرت جنید بغدادی قدس سرہ، کے طبقہ سے ہیں) حضور صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم کی طرف سے ستّر حج کیے، ابن سراج نے حضور صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم کی طرف سے دس ہزار ختم سے زیادہ پڑھے، اور اسی کے مثل سرکار کی جانب سے قربانی بھی کی۔ اسے امام ابن حجر مکی سے انھوں نے امام اجل تقی الملۃ والدین سبکی سے نقل کیا، رحمہما اﷲتعالیٰ، آگے علامہ شامی نے لکھا : اسی جیسا مضمون مفتی حنفیہ شہاب الدین احمد الشلبی شیخ صاحب بحر کی قلمی تحریر میں نویری کی شرح طبیہ کے حوالے سے دیکھا۔ آگے علامہ شامی نے فرمایا ، اور ہمارے علماء کا یہ قول کہ انسان اپنے عمل کا ثواب دوسروں کے لیے کرسکتا ہے، اسی میں نبی صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم بھی داخل ہیں اسی لیے کہ وہ اس سے زیادہ حق دار ہیں کیونکہ حضور ہی نے ہمیں گمراہی سے نکالاتو اس میں ایک طرح کی شکرگزاری اور حسن سلوک ہے او رصاحب کمال مزید کمال کے قابل ہے۔

 نوٹ: اس مسئلہ کی وضاحت کیلئے یہ ساری بات تحریر کی گئی لیکن خیال رہے کہ قربانی بعد از وفات کسی کے نزدیک لازم نہیں، ہاں ان کی طر ف سے کرے تو ان کو ثواب پہنچے گا، یونہی ماں باپ کی طرف سے بعدوفات قربانی کرنا اجر عظیم ہے کرنے والے کے لئے بھی اور اس کے والدین کے لئے بھی اسی طرح اس قربانی کا بھی وہی حکم ہے جو اپنی قربانی کا کہ کھانے، کھلانے، تصدق، سب کا اختیار ہے اور مستحب تین حصے ہیں، ایک اپنا ، ایک اقارب، ایک مساکین کا، ہاں اگرقربانی فوت شدہ کی طر ف سے بحکم فوت شدہ کرے۔ تو سارا گوشت صدقہ کیا جائے۔

ردالمحتارمیں ہے

 :مَنْ ضَحَّی عَنْ الْمَیِّتِ یَصْنَعُ کَمَا یَصْنَعُ فِی أُضْحِیَّۃِ نَفْسِہِ مِنْ التَّصَدُّقِ وَالْأَکْلِ وَالْأَجْرُ لِلْمَیِّتِ وَالْمِلْکُ لِلذَّابِحِ .قَالَ الصَّدْرُ : وَالْمُخْتَارُ أَنَّہُ إنْ بِأَمْرِ الْمَیِّتِ لَا یَأْکُلْ مِنْہَا وَإِلَّا یَأْکُلُ بَزَّازِیَّۃٌ ۔ (ردالمحتار کتاب الاضحیۃ )

 اگرفوت شدہ کی طرف سے قربانی کی تو صدقہ اور کھانے میں اپنی ذاتی قربانی والا معاملہ کیا جائے اور اجر وثواب فوت شدہ کے لئے ہوگا اور ملکیت ذبح کرنے والے کی ہوگی، فرمایا صدر نے اور مختاریہ ہے کہ اگر فوت شدہ کی وصیت پر قربانی اس کے لئے کی تو خود نہ کھائے ورنہ کھائے۔ بزازیہ۔

اعلیٰ حضرت عظیم البرکت الشاہ احمد رضا خان بریلوی فرماتے ہیں

’’ فقیر کا معمول ہے کہ قربانی ہر سال اپنے حضرت والد ماجد خاتم المحققین قدس سرہ، العزیز کی طر ف سے کرتاہے اور اس کا گوشت پوست سب تصدق کردیتاہے اور ایک قربانی حضور اقدس سید المرسلین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف سے کرتا ہے اور اس کا گوشت پوست سب نذر حضرات سادات کرام کرتاہے۔تقبل اﷲ تعالٰی منی ومن المسلمین (آمین) ، (اﷲ تعالٰی میری طرف اور سب مسلمانوں کی طرف سے قبول فرمائے، آمین۔‘‘


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں