فیضان وجد (بیسواں باب)

فیضان وجدکے عنوان سے بیسویں باب میں  حکمت نمبر 186 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے
186) عِبَارَاتُهُمْ إِمَّا لِفَيَضَانِ وَجْدٍ ، أَوْ لِقَصْدِ هِدَايَةِ مُرِيدٍ
ان کا بیان ، یا تو وجد کے فیضان کی بنا پر ہوتا ہے ، یا مرید کی ہدایت کے ارادے سے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ معارف اور توحید کے اسرار اور پوشیدہ علوم، جو عارفین کے قلوب پر واردہوتے ہیں ، علم اور سمجھ والے ان کے سمجھنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں۔ کیونکہ وہ اللہ تعالی کے اسرار میں سے ہوتے ہیں۔ اور عارفین ان اسرار پر اللہ تعالیٰ کے امین (امانت دار ) ہیں۔ لہذا وہ ان اسرار کی اطلاع انہی کو دیتے ہیں، جن کو ان کا اہل سمجھتے ہیں۔ مگر وہ عارف جس پر حال غالب ہوتا ہے۔ وہ ان کو روکنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے۔ (وہ بے اختیاری کی حالت میں بیان کر دیتا ہے ) اور وہ غلبہ حال کی وجہ سے اسرار الہی کی حفاظت میں متمکن ( مضبوطی سے قائم ) نہیں ہوتا ہے۔ لہذا عارفین کا بیان ، یا تو وجد کے فیضان کی بنا پر ہوتا ہے، جو ان پر غالب ہو جاتا ہے۔
اس وقت وہ ان اسرار الہیہ کو ضبط کرنے کی قدرت نہیں رکھتے ہیں ۔ یا ان کا بیان کسی مرید کی ہدایت اور ارشاد کے لئے اور اس کو اس مقام تک ترقی دینے کے لئے ہوتا ہے۔ جس مقام پر پہنچنے کا وہ مستحق ہوتا ہے۔ ورنہ عارفین ، ان اسرار میں سے نہ کم ظاہر کرتے ہیں ، نہ کم سے بھی زیادہ کم ۔ (یعنی کچھ نہیں ظاہر کرتے ہیں ) اور اس کے بارے میں بعض عارفین کا یہ قول پہلے گزر چکا ہے۔
‌قُلُوبُ ‌الْأَحْرَارِ قُبُورُ الْأَسْرَارِ آزادلوگوں کے قلوب ، اسرار الہیہ کی قبریں ہیں ۔
ایک شاعر نے کہا ہے ۔
لَا يَكْتُمُ السِّرِّ إِلَّا كُلُّ ذِي ثِقَةٍ فَالسِّرُ عِندَ خِیَارِ النَّاسِ مَكْتُوم
قابل اعتماد لوگ ہی راز کو چھپاتے ہیں۔ لہذا بہترین لوگوں کے پاس ہی راز پوشید ہ ر ہتا ہے۔ پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے دونوں گروہ کے لوگوں کا حال اور مقام بیان کرتےہوئے فرمایا :-
، فَالأَوَّلُ حَالُ السَّالِكِينَ ، پہلی حالت، ( یعنی وجد سے مغلوب ہو جانا ) سالکوں کی حالت ہے ۔ اور وہ سائرین میں سے ترقی کرنے والے لوگ ہیں ۔ وہ حقیقت تک تو پہنچے ہیں۔ لیکن تمکین کے مقام تک نہیں پہنچے ہیں۔ وہ لوگ احوال کے قبضے میں غلام کی طرح ہوتے ہیں ۔ جب ان کے اوپر وجد غالب ہوتا ہے، تو وہ فیضیاب ہوتے ہیں۔ لیکن سمجھتے نہیں ہیں۔ لہذا جب وہ اپنے نفوس کی طرف لوٹتے ہیں، تو شرمندہ ہوتے اور استغفار کرتے ہیں۔
پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے دوسرے گروہ کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا:۔
وَالثَّانِى حَالُ أَرْبَابِ الْمُكْنَةِ وَالْمُتَحَقِّقِينَ.اور دوسری حالت، اہل تمکین اور متحققین (حقیقت میں مضبوطی سے قائم ہونے والوں ) کی حالت ہے۔
وہ لوگ اسرار الہیہ کو صرف مریدین کی ہدایت اور سالکین کی تربیت اور سائرین کی ترقی کے لئے بیان کرتے ہیں۔ اور ان کے سوا دوسرے لوگوں کے سامنے وہ کچھ بھی ظاہر نہیں کرتے ہیں ۔ لہذا اگر کوئی سالک، بغیر وجد کے غلبے کے اسرار الہیہ میں سے کچھ بیان کرتا ہے تو یہ ایک قسم کا دعوی ہے۔ اور اگر کوئی متمکن ، ہدایت کے ارادہ کے بغیر کچھ بیان کرتا ہے۔ تو یہ ربوبیت کے اسرار کا افشا ( ظاہر کرنا ) ہے۔
اور وہ اسرار الہیہ عارفین متمکنین کے نزدیک کیمیا سے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں اور کبھی آدمی سالوں سال ان کی خدمت میں رہتا ہے۔ لیکن وہ اس کے سامنے ان اسرار میں سے کچھ نہیں ظاہر کرتے ہیں۔ نہ زیادہ نہ کم۔ یہانتک کہ جب وہ اس کو بخوبی دیکھ لیتے ہیں ، کہ اس نے اپنے نفس اور مال کو بالکل دے دیا۔ اور اپنی روح کو بالکل خرچ کر دیا۔ تب وہ اس کو پوشیدہ اشارے سے اسرار الہیہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
ہمارے شیخ الشیوخ سید نا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے کتاب میں بیان فرمایا ہے :۔ مریدین کی ایک جماعت نے ہمارے شیخ کی خدمت تیس سال کی ۔ پھر ان لوگوں نے شیخ سے عرض کیا :۔ یا حضرت ! ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہم کو ہمارے رب کے ساتھ پہنچوا دیں ۔ (یعنی معرفت الہی تک پہنچا دیں ،) انہوں نے فرمایا: اچھا کل تم لوگ میرے پاس میرے گھر پر آؤ۔ لہذا جب وو لوگ ان کے پاس گئے ۔ تو انہوں نے ان لوگوں کے سامنے ایک چھوٹا سا بچہ لا کر اس کا منہ ان لوگوں کی طرف کر دیا۔ پھر وہ گھر میں چلے گئے ۔ لہذا تم غور کرو :- یہ اشارہ کتنا لطیف اور پوشیدہ ہے۔
اللہ تعالی کا شکر ادا کرو ۔ کہ اس نے اس زمانے کے لوگوں پر ، ایسے اولیائے کرام پیدا کر کے احسان کیا ۔ کہ جو شخص ظاہر و باطن کی سچائی کے ساتھ ان کی صحبت اختیار کرتا ہے۔ تو وہ اس کو تھوڑے زمانہ میں وہ اسرار الہی عطا فرما دیتے ہیں۔ جن کو متقدمین لمبے زمانے میں نہ حاصل کر سکے۔ اللہ تعالیٰ امت محمدیہ ﷺ کی طرف سے ان اولیائے کرام کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔
حضرت شیخ ابوالحسن نے سالکین اور واصلین کے حال پر بھی بحث کی ہے۔ جس کو مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنی کتاب لطائف المنن میں بیان فرمایا ہے ۔ اور حضرت شطیبی نے اس کو نقل فرمایا ہے۔ چنانچہ فرمایا:- اللہ تعالی کے کچھ بندے ایسے ہیں کہ ان کے افعال کو اپنے افعال میں اور ان کے اوصاف کو اپنے اوصاف میں اور ان کی ذات کو اپنی ذات میں اللہ تعالی فنا کر دیتا ہے۔ اور ان کو اپنے اوصاف میں سے ایسا وصف عطا فرماتا ہے ، جس کو سننے اور سمجھنے کی طاقت عام لوگوں کو نہیں ہوتی ہے۔ لہذا وہ لوگ ذات کے سمندر اور صفات کے دریا میں غرق ہوتے ہیں۔ وہ اپنے افعال سے فانی ، پھر اپنی صفات سے فانی ، پھر اپنی ذات سے فانی ہو کر اللہ تعالی کی ذات مقدسہ کے ساتھ باقی ہوتے ہیں۔ پھر ان کے پاس ان کا کچھ نہیں باقی رہتا ہے۔ اور جو شخص اللہ تعالی میں فنا ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالی اس کا قائم مقام ہو جاتا ہے۔ اور جس شخص کی فنا درست ہو جاتی ہے ، اس کی بقا بھی درست ہو جاتی ہے۔
پھر فرمایا: – فنا:- ماسوی اللہ سے غائب ہونے کا سبب ہوتا ہے، میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ یہ سالکوں کا مقام ہے۔ اور بقا :- ہرشے کے اللہ تعالی کے ساتھ موجود ہونے کا سبب ہوتا ہے۔ لہذا ، اہل فنا ، سے اللہ تعالی قائم ہوتا ہے۔ اور اہل بقاء اللہ تعالی کے ساتھ اللہ تعالی سے قائم ہوتا ہے۔ اور یہ دونوں ولایت کی دو قسمیں ہیں۔ لہذا ایک قسم :- ایسے اولیاء اللہ ہیں ، جو اللہ تعالی اور اس کے رسول اور مومنوں کو دوست
رکھتے ہیں۔ اور دوسری قسم :- ایسے اولیاء اللہ ہیں، جن کو اللہ تعالی دوست رکھتا ہے۔
وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ اللہ تعالیٰ صالحین کا دوست اور سر پرست ہوتا ہے۔
حضرت شیخ ابوالحسن نے فرمایا ہے ۔ ولایت کی پہچان :۔ قضائے الہی پر راضی رہنا، بلا پرصبر کرنا اور سختیوں اور مصیبتوں کے وقت اللہ تعالی کی پناہ لینا اور آفتوں کے وقت اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنا ہے۔ لہذا جس شخص کو اعمال و مجاہدے کے خزانے سے یہ چار صفتیں عطا کی گئیں۔ تو بلاشبہ اللہ تعالی اور اس کے رسول اور مومنین کے لئے اس کی ولایت درست ہوگئی۔ اور جس شخص کو یہ چاروں صفتیں احسان اور دوستی کے خزانے سے عطا کی گئیں۔ تو اللہ تعالی کی ولایت اس کے لئے مکمل ہوگئی۔
پہلی ولایت – ولایت صغری ہے اور دوسری ولایت – ولایت کبری۔ ان سے دریافت کیا گیا- لوگ کس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور مومنین کے ولی ( دوست ) ہوتے ہیں ۔ انہوں نے جواب دیا ۔ اللہ تعالی کے ولی مجاہدہ کے ذریعہ ہوتے ہیں :-
وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِ يَنَّهُمْ سُبُلَنَا جو لوگ ہمارے راستے میں مجاہدہ کرتے ہیں۔ (یعنی چلنے کیلئے جد و جہد کرتے ہیں۔ ہم ضروران
کو اپنے راستوں کی رہنمائی کرتے ہیں ۔
اور رسول ﷺ کے ولی ، ان کی اتباع سے ہوتے ہیں۔
قل إن كُنتُمْ تُحِبُّونَ الله ، فَاتَّبِعُونِي يُحْكُمُ الله آپ فرمادیجئے ! اگر تم لوگ اللہ تعالی سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا ۔
مَنْ تُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّه جس شخص نے رسول ﷺ کی اطاعت کی ، اس نے اللہ تعالی کی اطاعت کی
اور مومنین کے ولی ان کی اقتدا کر کے ان کے طریقوں پر چل کے ) ہوتے ہیں۔
یہ ان لوگوں کی نشانیاں ہیں ، جو ولایت کے سمندر میں غوطہ لگاتے ہیں ۔ لیکن وہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے۔ وہ ، وہ لوگ ہیں ، جو اس کی بارگاہ کے لئے موزوں ہیں۔ اور اس کی مخلوق سے غائب ہیں۔ وہ لوگ صرف اللہ تعالی کو موجودیکھتے ہیں ۔ اور اس
کے ماسوی ہرشے کو عدم سمجھتے ہیں ۔
پہلی قسم کی ولایت کا نام ایمان کی ولایت ہے اور دوسری قسم کی ولایت کا نام :۔ یقین کی ولایت ہے۔
پھر ان سے دریافت کیا گیا :- ایمان اور یقین میں کیا فرق ہے؟ انہوں نے جواب دیا ۔ ہر یقین ، ایمان ہے۔ لیکن ہر ایمان ، یقین نہیں ہے۔ کیونکہ ایمان میں اکثر اوقات غفلت داخل ہو جاتی ہے۔ اور یقین میں غفلت داخل نہیں ہوتی ہے۔ مومن کے سامنے اللہ تعالی کی تجلی ہرشے سےعلیحدہ ہوتی ہے۔ اور موقن (یقین والے) کے سامنے اللہ تعالی کی تجلی ہرشے میں ہوتی ہے۔ مومن : ہر شے سے فانی ہوتا ہے۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی شے کو نہیں دیکھتا ہے۔ اور موقن :۔ ہرشے میں باقی ہوتا ہے۔ لہذا وہ ہرشے میں اللہ تعالی کا مشاہدہ کرتا ہے۔ حضرت شیخ ابوالحسن کا کلام ختم ہوا۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں