قضاوقدر کا نفاذ (مناجات 03)

یہ تیسری دعا ہے کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ کی جوتالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

تیسری مناجات

اِلٰهِي أَنَّ اخْتِلَافَ تَدْبِيرِكَ ، وَ سُرْعَةَ حُلُولٍ مَقَا دِيْرِكَ ، مَنَعَا عِبَادَكَ الْعَارِفِينَ بِكَ مِنَ السُّكُونِ إِلَى عَطَاءٍ ، وَالْیَاسِ مِنْكَ فِي بَلَاءٍ
اے میرے اللہ ! بیشک تیری تدبیر کے اختلاف ، اور تیری قضا و قدر کے فوری نفوذ نے تیرے عارف بندوں کو کسی عطا میں سکون حاصل کرنے سے، اور کسی بلا میں تجھ سے مایوس ہونے سے روک دیا ہے
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :- تدبیر کا اختلاف :- بندے کا اللہ تعالیٰ کی حکمت مثلا فقر یا غنا ،علم یا جہالت،عزت یا ذلت قبض یابسط ، مرض یا صحت، ایمان یا کفر اور ان کے علاوہ قدرت کے دوسرے آثار کے اختلافات ، اور حکمت کے مظہروں کے اقسام میں اس کے ارادہ اور مشیت کے مطابق قائم ہونا ہے۔
اور قضا و قدر کا فوری نفوذ :- ان احوال کا ایک حال سے دوسرے حال میں مثلا فقر سے غنا میں ، اور غنا سے فقر میں، اور علم سے جہالت میں اور جہالت سے علم میں، اور عزت سے ذلت میں ، اور ذلت سے عزت میں ، اور قبض سے بسط میں ، اور بسط سے قبض میں اور مرض سے صحت میں، اور صحت سے مرض میں اور ایمان سے کفر میں نعوذ باللہ، اور کفر سے ایمان میں جلد منتقل کر دیتا ہے۔ کیونکہ مخلوق کے قلوب اللہ واحد قہار کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ وہ ان کو جس طرح چاہتا اور پسند کرتا پھرتا ہے۔اور ان کے ساتھ جو چاہتا کرتا ہے۔
لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ اللہ تعالیٰ سے اس کے متعلق سوال نہیں کیا جا سکتا ہے جو وہ کرتا ہے اور ان لوگوں سے ان کے اعمال کے متعلق سوال کیا جائے گا
لہذا جب بندہ اس حقیقت کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے تو وہ اس سے رک جاتا ہے کہ وہ اس شے سے سکون حاصل کرے جو اللہ تعالیٰ نے اس کو دیا ہے کیونکہ کبھی وہ اس سے یہ عطیہ ایک گھڑی میں چھین لیتا ہے اور وہ اس سے بھی رک جاتا ہے کہ اپنی سختی اور مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ سے مایوس ہو جائے ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔ فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا بیشک تنگی کے ساتھ آسانی ہے بیشک تنگی کے ساتھ آسانی ہے
اور کسی حال کا ہمیشہ قائم رہنا محال ہے لیکن اس حقیقت کے ساتھ ذوق کی حیثیت سے صرف عارفین ہی قائم ہوتے ہیں اس لیے کہ وہ کسی عطا سے سکون نہیں حاصل کرتے ہیں اور نہ کسی بلا و مصیبت میں مایوس ہوتے ہیں۔ بلکہ وہ اس مقدس ذات سے سکون حاصل کرتے ہیں جس کے قبضہ یہ قدرت میں محروم کرنا اور عطا کرنا ہے اس لیے ان کی بیقراری ہمیشہ رہتی ہے اور ان کو غیر اللہ کے ساتھ قرار نہیں ہوتا ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے:۔
كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ اور اللہ تعالیٰ ہر روز ایک نئی شان ہے
اس آیت کریمہ میں یوم کا مفہوم دن نہیں ہے بالکل وہ ہر لحظہ ایک نئی شان میں ہے۔ وہ کچھ لوگوں کو بلند کرتا ہے اور کچھ لوگوں کو پست کرتا ہے ایک قوم کو عزت عطا فرماتا ہے اور دوسری قوم کو ذلیل کرتا ہے کسی قوم کو مردہ کرتا ہے اور کسی قوم کو زندہ کرتا ہے کسی کو عطا فرماتا ہے ، اور کسی کو محروم کرتا ہے یہ وہ امور ہیں جن کو وہ ظاہر کرتا ہے ابتداء نہیں کرتا ہے۔
بعض مفسرین نے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرمایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہر روز تین لشکر روانہ کرتا ہے۔ ایک لشکر پشت سے رحم کی طرف روانہ کرتا ہے اور ایک لشکر رحم سے دنیا کی طرف روانہ کرتا ہے اور ایک لشکر دنیا سے قبروں کی طرف روانہ کرتا ہے۔ پھر وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف کوچ کرتے ہیں ۔
اور عارف باللہ کی علامات کے بارے میں حضرت شطیبی نے اس سلسلے میں فرمایا ہے:۔ عارفین کے قلوب اللہ تعالیٰ کے نور سے مشاہدہ کرتے ہیں اور عارفین کے سوا اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ کوئی نہیں کر سکتا ہے اور ربوبیت کے مقامات بشریت کے اوصاف سے خارج ہیں۔لہذاعارف کی ایک علامت یہ ہے کہ اس کا قلب آئینہ ہوتا ہے وہ اس میں ان اشیاء کو دیکھتا ہے جو اس کے سوا دوسروں سے غائب ہوتی ہے، اور قلب کی صفائی صرف ایمان اور یقین کے نور سے ہوتی ہے۔ لہذا ایمان کی قوت کے مطابق قلب کو نور ہوتا ہے اور قلب کے نور کے مطابق اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے مشاہدے کے مطابق اس کے اسماء اور صفات کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور اسماء وصفات کی معرفت کے مطابق ذات اقدس کی تعظیم ہوتی ہے اور ذات اقدس کی تعظیم کے مطابق بندے کا کمال ہوتا ہے اور بندے کے کمال کے مطابق عبودیت کے اوصاف میں اس کا استغراق ہوتا ہے اور عبودیت کے اوصاف میں اس کے استغراق کے مطابق ربوبیت کے حقوق کے ساتھ اس کا قیام ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔
وَمَا قَدَرُ وا اللَّهَ حَقٌّ قَدْرِهِاور ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی ایسی قدرنہیں کی جیسا اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ جس قدر وہ ر بوبیت کے حقوق کے ساتھ قائم ہوتا ہے اس قدر الوہیت کے اسرار اس پر منکشف ہوتے ہیں۔ ایک عارف کے اشعار ہیں ۔
كَانَتْ مُحَادَثَةُ الرُّكْبَانِ تُخْبِرْنِى عَنْ فَضْلِكُمْ وَسَنَاكُمْ أَطْيَبَ الْخَبَرِ
حَتَّى الْتَقَيْنَا فَلَا وَاللهِ مَا سَمِعَتْ أُذْنِي بِأَحْسَنِ مِمَّا قَدْرَأَى بَصَرِیْ
سواروں کی گفتگو مجھ کو تمہارے فضل اور بلندی کی بہترین خبر دیتی تھی ۔
یہاں تک کہ ہم نے ملاقات کی تو اللہ تعالیٰ کی قسم جو کچھ میرے کان نے سناتھا وہ اس سے بہتر نہیں تھا جو میری آنکھ نے دیکھا تھا۔
اور فقر اور جہالت کے بعدعبودیت کے اوصاف میں سے خساست (کمتری کمینہ پن ) اور لامت( پستی و بخیلی) ہے۔ جیسا کہ ربوبیت کے اوصاف میں سے غنا اورعلم کے بعد احسان وکرم ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں