قلب میں داخل ہونے والے انوار (بائیسواں باب)

قلب میں داخل ہونے والے انوار کے عنوان سےبائیسویں باب میں  حکمت نمبر 204 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

بائیسواں باب

کدورتوں سے صاف ہو کر انوار کے حاصل کرنے کی ترغیب ، وقت کی حفاظت ، اللہ تعالیٰ کے بندے سے محبت کرنے کے بیان میں حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ۔
204) أَنْوَارٌ أُذِنَ لَها فِي الوُصُولِ ، وَأَنْوَارٌ أٌذِنَ لَهَا فِي الدُّخُولِ .
بعض انوار کو ظاہر قلب تک پہنچنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اور بعض انوار کو قالب میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ وہ انوار جن کو قلوب تک پہنچنے کی اجازت دی جاتی ہے، وہ ایمان کے انوار ہیں۔ اور وہ اہل دلیل و برہان کے لئے ہیں۔ کیونکہ ان کے قلوب اغیار سے خالی نہیں ہوتے ہیں۔ اور ان سے آثار یعنی مخلوق کی صورتیں محو نہیں ہوتی ہے۔ لہذا جب وہ انوار آتے ہیں ، تو وہ قلب کے اندرونی حصے کو آثار کی صورتوں سے بھرا ہوا پاتے ہیں۔ اس لئے وہ ظاہر قلب پرٹھہر جاتے ہیں ۔ اور ایمان کے انوار کو نو رو اصل بھی کہتے ہیں
اور وہ انوار جن کو قلوب میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے۔ وہ احسان کے انوارہیں۔ جن کا تعلق شہود و عیان سے ہے۔ اور یہ اس وجہ سے ہے چونکہ وہ لوگ اپنے قلوب کو اپنے رب کے ماسوا سے خالی کر لیتے ہیں۔ اس لئے انوار ان کے اندر داخل ہو جاتے ہیں اور قلوب کو کشادہ پا کر ان کی گہرائی میں ٹھہر جاتے ہیں۔ اور ان انوار کو نور داخل کہتے ہیں ۔
اور نور واصل اور نور داخل کی پہچان یہ ہے:۔ نور واصل والا ۔ تم کبھی اس کو دنیا کے ساتھ دیکھتے ہو اور کبھی آخرت کے ساتھ کبھی اپنے نفس کے فوائد کے ساتھ دیکھتے ہو اور کبھی اپنے رب کے حق میں مشغول پاتے ہو ۔ کبھی وہ غفلت میں مبتلا رہتا ہے اور کبھی ہوشیار ہوتا ہے۔ نور داخل والا : تم اس کو ہمیشہ اپنے رب اللہ تعالیٰ کے ساتھ دیکھو گے۔ نہ اس کو دنیا کےفوائد اللہ تعالیٰ سے غافل کرتے ہیں، نہ آخرت کے فوائد ۔ وہ اپنے نفس سے غائب ہوتا ہے۔ اور اپنے رب کے ساتھ حاضر ہوتا ہے۔
بعض عارفین نے فرمایا ہے :۔ ایمان ، جب قلب کے ظاہر میں ہوتا ہے ، تو بندہ اپنی آخرت اور اپنی دنیا کو چاہتا ہے۔ لہذا ایسا ایمان والا کبھی اپنے رب کے ساتھ اورکبھی اپنے نفس کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور جس قدر نور قلب میں داخل اور قائم ہوتا ہے۔ اسی قدر بندے کو دنیا سے نفرت ہوتی ہے۔ اور اپنی خواہش کو ترک کرتا ہے۔
اسی مفہوم میں حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے :-
النُّورُ إِذا دَخَلَ الْقَلْبَ انْفَسَحَ وانْشَرَحَ ، قِيلَ : فَهَلْ لَهُ مِنْ عَلَامَةٍ يَارَسُولَ اللهِ قَالَ نَعَمْ ، التجافِي عَنْ دَارِ الْغُرورِ ، وَالإِنابَةُ إلَى دَارِ الخلودِ ، والتزَّوُدُ لِسُنَى الْقُبُور ، والتَّأهب ليوم النشورجب قلب میں داخل ہوتا ہے ، تو قلب کشادہ ہو جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے دریافت کیا: یا رسول اللہ ! کیا نور کے داخل ہونے کی کوئی نشانی (پہچان) ہے؟ حضرت علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: ہاں ہے ۔ بندے کے قلب میں نور کے داخل ہونے کی نشانی ۔ دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنا اور آخرت کی طرف مائل ہونا اور قبر میں رہنے کے لئےسامان مہیا کرنا اور قیامت کے دن کے لئے تیاری کرنا ہے۔
تم یہ جان لو وہ انوار جن کے قلب تک پہنچنے کی اجازت ہے۔ وہ تمام مومنین کے لئے عام ہیں۔ حضرت ابوالحسن رضی اللہ عنہ کا یہ قول پہلے گذرر چکا ہے ۔ اگر گنہ گار مومن کا نور ظاہر کر دیا جائے تو وہ آسمان اور زمین کے درمیان کی تمام چیزوں پر چھا جائے ۔ اور وہ انوار ، جن کے قلب میں داخل ہونے کی اجازت ہے ، وہ ایسے خواص کے لئے مخصوص ہیں ، جو اغیار سے اور انوار کی آلودگی سے پاک ہوتے ہیں۔ لہذا جن لوگوں کو قلب آثار کی صورتوں سے بھر ہوا ہے، وہ ان انوار کے اسرار کو پانے کی طمع نہ کرے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں