قلوب کی پریشانیاں (چوبیسواں باب)

قلوب کی پریشانیاں کے عنوان سےچوبیسویں باب میں  حکمت نمبر 224 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے  اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے
224) مَا تَجِدُهُ القُلُوبُ مِنَ الهُمُومِ وَالأَحْزَانِ فَلأَجْلِ مَا مُنِعَتْه مِنْ وُجُودِ العِيَانِ .
قلوب جن پریشانیوں اور غموں کو محسوس کرتے ہیں۔ وہ اس وجہ سے ہے، کہ ان کو عیاں شہود محروم سے کر دیا گیا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ در حقیقت پریشانیوں اور غموں کا سبب ۔ شہود کا کم ہونا ہے ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ قریب اور نگہبان ہے۔ لہذا جو شخص دوست سے قریب ہو۔ وہ کسی شے کے جدا ہونے یا اس کے کھو جانے کو کیسے محسوس کر سکتا ہے؟ دوست کا مشاہدہ ، ہر دو رو نزدیک سے غائب کر دیتا ہے اور جوشے بھی دوست کے پاس سے آتی ہے، وہ محبوب اور پسندیدہ ہوتی ہے۔ اور ہرشے دوست ہی کی طرف سے آتی ہے۔ لہذا کوئی نا پسندی اس کو لاحق نہیں ہوتی ہے۔ کہ وہاس سے پریشان ہو اور اس کے محبوب حقیقی کے سوا کوئی دو سری شے اس کو محبوب ہی نہیں ہے کہ وہ اس کے کھو جانے پر غم میں مبتلا ہو۔ کیونکہ اس کے محبوب حقیقی میں کل خوبیاں جمع ہیں۔
ایک عارف شاعر نے فرمایا ہے۔
تَذَلَّلْ لَهُ تَحظَى بِرُؤْيَا جَمَالِهِ فَفِي وَجْهِ مَنْ تَهْوَى الْفَرَائِضُ وَالنَّوَافِلُ
تم عاجزی اور فرماں برداری کے ساتھ اس کے سامنے جھک جاؤ۔ تو تم اس کے جمال کے دیدار سے لطف حاصل کرو گے۔ کیونکہ جس ذات اقدس کو تم چاہتے ہو ، اس کے سامنے فرائض اور نوافل ادا کرنا ہے۔
اس مفہوم میں عینیہ کے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا ہے۔
تَلَذُّ لی الآلامُ إِذْ كُنتَ مُسْقِمِي وَإِنْ تَخْتَبِرْنِي فَهُوَ عِنْدِى صَنَائِعُ
جب مجھ کو مصیبت میں مبتلا کرنے والا تو ہے۔ تو مصیبتیں میرے لئے مزے دار ہیں اور جب میری آزمائش تو کرتا ہے، تو وہ میرے نزدیک صنعت ہے۔ ان سب کا حاصل یہ ہے ۔ جس شخص کی نظر محبوب حقیقی کی طرف ہوتی ہے۔ اور وہ اس کے نور اور جمال کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اس کے لئے نہ کوئی فکر باقی رہتی ہے، نہ کوئی غم ۔ جیسا کہ حضرت ابن فارض نے شراب کے بارے میں فرمایا ہے:۔
فَمَا سَكَنَتْ وَالْهُم يَوْمًا بِمَوْضِع كَذَالِكَ لَمْ يَسْكُنُ مَعَ النَّغَمِ الغَم
شراب اور فکر دونوں ایک وقت میں ایک جگہ نہیں ٹھہرتے ہیں ۔ اسی طرح گانے سے ساتھ غم نہیں ٹھہرتا ہے۔
اور یہ شعر بھی انہی نے فرمایا ہے :-
وَلَوخَطَرَتْ يَوْماً عَلَى خَاطِرِ امْرِى أَقَامَتْ بِهِ الْأَفْرَاحُ وَارُ تَحَلَ الْهُمَّ
اور اگر کسی دن کسی شخص کے دل پر تفکر اور غم ہوتا ہے۔ تو اس کے ذریعے خوشیاں قائم ہو جاتی ہیں اورغم چلا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی ۔ اے داود تم میرے غیر کی فکر کو اپنے قلب میں جگہ نہ دو۔ کیونکہ اس سے روحانیوں کی لذت کم ہو جاتی ہے۔ اے داود میں روحانیوں کے قلوب کا چراغ ہوں اور جس شخص کے قلب کا چراغ میں ہوں وہ کبھی فکر مند نہیں ہوتا ہے۔ اے داؤد ! مخلوق سے میری مراد یہی ہے کہ وہ روحانی ہوں ۔
حاصل یہ ہے:۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کے ماسوی سے غائب ہوتا ہے۔ اس کے لئے کچھ فکر باقی نہیں رہتی ہے۔ اس لئے کہ اس کا ساتھی وہ ذات اقدس ہے ۔ جو بندے کے ہر ارادہ کے لئے مدد اور فتح کا سبب ہے۔ کیا تم حضرت رسول اللہ ﷺ کے قول میں، جو حضرت ابوبکر سے اس وقت فرمایا ، جب مشرکین ان کے دیکھ لینے کے قریب ہو گئے تھے۔غور نہیں کرتے ہو۔
لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنا غم نہ کرو ۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔
چونکہ حضرت رسول کریمﷺ عیاں و شہود کے مقام میں تھے ۔ اس لئے ان کو کچھ فکر لاحق نہیں ہوئی۔ اور نہ کوئی غم ان کے مقام کے قریب پہنچا۔ اور اس وقت حضرت ابو بکر صدیق موقن ( یقین کے مقام میں ) تھے ۔ مشاہدہ کے مقام میں نہ تھے۔ لہذا حضرت نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے مقام کمال کی طرف ان کی رہنمائی فرمائی ۔ کیونکہ شہود کا مقام ، یقین کے مقام سے بلند ہے۔ اس حقیقت کے بیان میں کسی عارف کا یہ شعر ہے :-
كَبُرَ الْعَیَانُ عَلَى حَتَّى أَنَّهُ صَارَ الْيَقِينُ مِنَ العَیَانِ تَوَھَّمَا
عیاں و شہود میرے اوپر اتنا غالب ہو گیا کہ اس کے سامنے یقین وہم ہو گیا ۔
اور ان تمام اشیاء میں سے جن کا اہتمام اس شخص کے لئے ضروری ہے۔ جس کا یقین کامل نہیں ہوا ہے۔ روزی کا معاملہ اور مخلوق کا خوف ہے۔ یہاں تک کہ حضرت شیخ ابو الحسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ۔
اگر کوئی شخص مجھ کو ان دونوں چیزوں سے بے فکر ہونے کی ضمانت دے تو میں اس کے لئے ولایت حاصل ہونے کا ضامن ہوں۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں