محتاجی کاوسیلہ(مناجات 07)

یہ ساتویں دعا ہے کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ کی جوتالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

ساتویں مناجات

 إِلٰهِيْ كَيْفَ تَكِلُنِى وَقَدْ تَكَفَّلْتَ لِي وَكَيْفَ أَضَامُ وَ أَنْتَ النَّاصِرُ لِي أَمُ كَيْفَ أَخِيْبُ وَاَنْتَ الْحَفِيُّ بِيْ هَا أَنَا أَتَوَسَّلُ بِفَقْرِى إِلَيْكَ، كَيْفَ أَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِمَا هُوَ مَحَالٌ أَنْ یَّصِلَ إِلَيْكَ ، أَمْ كَيْفَ اَشْكُوا إِلَيْكَ حَالِيْ وَهُوَ لَا يَخْفَى عَلَيْكَ ، اَمُ كَيْفَ اَتَرَحَمُ إِلَيْكَ بِمَقَالِي ، وَهُوَ مِنْكَ بَرَزَ أَمْ كَيْفَ تَخِيبُ أَمَالِي وَهِيَ وَفَدَتْ عَلَيْكَ أَمْ كَيْفَ لَا تَحْسُنُ أَحْوَالِي وَبِكَ قَامَتْ
اے میرے اللہ ! تو مجھ کو کیسے سپرد کرے گا جب کہ تو میرا ضامن ہو چکا ہے؟ اور میں ظلم کیسے کیا جاؤنگا جب کہ میرا مددگار تو ہے ؟ یا میں نا کام کیسے ہو سکتا ہوں جب کہ میرے اوپر تو مہربان میں اپنی محتاجی کو تیری بارگاہ میں وسیلہ بنا تا ہوں۔ تیری بارگاہ کے لئے میں اس شے کو وسیلہ کیسے بناؤں جس کا تیری بارگاہ میں پہنچنا محال ہے؟ یا میں تیرے سامنے اپنا حال کیسے ظاہر کروں جب کہ وہ تجھ پر پوشیدہ نہیں ہے؟ یا میں تیرے سامنے اپنے دل کی ترجمانی اپنے قول سے کیسے کروں جبکہ وہ تیری ہی طرف سے ظاہر ہوئی ہے؟ یا میری امیدیں نا کام کیسے ہوں گی جب کہ وہ تیری بارگاہ میں حاضر ہو چکی ہیں۔ یا میرے احوال کیسے بہتر نہ ہوں گے جب کہ وہ تیرے ہی ساتھ قائم اور تیری ہی طرف ان کی انتہا ہو گی۔
إِلٰهِيْ كَيْفَ تَكِلُنِى اے میرے اللہ تومجھ کو کیسے سپر د کرے گا۔ یعنی مجھ کو اپنے غیر کے سپر د کیسے کرے گا ۔ یعنی مجھ کو اپنے غیر کا محتاج کیسے بنائے گا۔
وَقَدْ تَكَفَّلْتَ لِي ۔ جب کہ تومیر اکفیل ( ضامن ) ہو چکا ہے۔ یعنی میرے تمام امور اور احوال میں تو میری ذمہ داری لے چکا ہے۔جیسا کہ تو نے خود فرمایا ہے: (وَمَن يَتَوَكَّلۡ عَلَى ٱللَّهِ فَهُوَ ‌حَسۡبُهُۥ) جو شخص الله تعالى پر بھروسہ کرتا ہے۔ تو وہ اس کے لئے کافی ہے ۔ اور تو نے دوسری جگہ فرمایا ہے:۔
وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا اور زمین میں جتنے چلنے والے جاندار ہیں۔ ان کی روزی ( کی ذمہ داری ) اللہ تعالیٰ پر وكيف اظلَمُ اور میں ظلم کیسے کیا جاؤں گا۔ یعنی میرے اوپر ظلم کیسے کیا جا سکتا ہے اور میری عزت کیسے برباد کی جاسکتی ہے۔ وأنتَ النَّاصِر لی جب کہ میرا مددگار تو ہے، پس تو میری مدد کرتا ہے اور میرے لئے مدد کرتا ہے۔ اور میرے ساتھ مدد کرتا ہے۔
اور تو نے اپنی کتاب حکیم قرآن مجید میں فرمایا ہے۔
إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا بے شک اللہ تعالیٰ ایمان والوں( کی طرف )سے مدافعت کرتا ہے ۔
اور دوسری جگہ تو نے فرمایا ہے۔ اور تیرا فرمان برحق ہے۔ إن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرُكُمْ وَيُثَبِتْ أَقْدَامَكُمْ
اگر تم لوگ اللہ تعالیٰ (کے دین) کی مدد کرو گے ۔ تو وہ تمہاری مدد کرے گا۔ اور تم کو ثابت قدم رکھے گا۔
اور تیسری جگہ تو نے فرمایا ہے:۔ وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصُرُ الْمُؤْمِنِينَ اور مومنین کی مدد کرنا ہمارے اوپر واجب ہے ۔
لہذا اے خیر الناصرین : بہترین مدد کرنے والے)ہماری مدد فرما۔ جس طرح تو نے اپنے انبیاء و مرسلین علیہم الصلاۃ والسلام اور اپنے خاص اولیا ئے مقربین رضی اللہ عنہم کی مددفرمائی ۔ یا ارحم الراحمین۔
أَمُ كَيْفَ أخِيبُ یا میں نا کام ومحروم کیسے ہو سکتا ہوں ۔ یونہی میں بھلائی سے کیسے محروم ہو سکتا ہوں۔ وانت الحقی بی جبکہ میرے اوپر تو مہربان ہے۔
یعنی میرے تمام معاملات کو درست کرنے والا، یا میرے تمام احوال میں میرا رفیق تو ہے ۔
تو نے خود فرمایا ہے ۔
اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا الله تعالیٰ ایمان والوں کا ولی ( دوست یا سر پرست ) ہے۔
اور تو نے دوسرے مقام پر فرمایا ہے:۔
وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ اور وہ یعنی اللہ تعالیٰ صالحین کی سرپرستی کرتا ہے ۔
لہذا اے ہمارے مولا! تو اپنی حفاظت کے ساتھ ہماری سر پرستی فرما۔ اور اپنی عنایت سے ہم کو گھیر لے۔ اور اپنے ساتھ ہم کو مدد پانے والا۔ اور اپنے اوپر توکل کرنے والا بنا۔ اے رب العالمین۔
هَا أَنَا أَتَوَسَّلُ بِفَقْرِى إِلَيْكَ لے، میں اپنے فقر (محتاجی ) کو تیری بارگاہ میں وسیلہ بناتا ہوں ۔
یعنی میں اپنے فقر محتاجی کو تیری بارگاہ قدس میں وسیلہ بناتا ہوں۔ کیونکہ تیرا محتاج ہونے کے سوا تجھ سے میری کوئی نسبت نہیں ہے۔ اس لئے کہ میں ہرشے میں یہاں تک کہ اپنے فقرو محتاجی میں بھی تیرا محتاج ہوں۔ لہذا اگر دولتمندوں نے تیرے حضور میں مال پیش کیا ہے۔ تو میں تیری بارگاہ قدس میں تمام حالات میں اپنی محتاجی پیش کرتا ہوں۔ اور اگر طاقت والوں نے تیرے حضور میں اعمال صالحہ پیش کئے ہیں۔ تو میں تیری بارگاہ قدس میں عاجزی اور گریہ وزاری پیش کرتا ہوں ۔
مَالِي سِوَى فَقْرِى إِلَيْكَ وَسِيلَةٌ فَبِا الْإِفْتِقَارِ إِلَيْكَ رَبِّي أَضْرَعٗ
میرے پاس میری محتاجی کے سوا تیرے حضور میں پہنچنے کا کوئی وسیلہ نہیں ہے۔ لہذا اے میرے رب! میں اپنی محتاجی کے وسیلے سے تیری بارگاہ میں التجا کرتا ہوں ۔
مَالِيْ سِوَى قَرعِىْ لِبَابِكَ حِيلَةٌ فَلَئِنْ رُدِدْتُ فَاَیُّ بَابِ أَقْرَعٗ
تیرا دروازہ کھٹکھٹانے کے سوا میرے پاس کوئی تدبیر نہیں ہے۔ پس اگر میں تیرے دروازے سے واپس کر دیا گیا تو پھر کون سا دروازہ ہے ، جس کو میں کھٹکھٹاؤں۔ اور بندے کی محتاجی کی اس کے مولا کی غنا سے کیا نسبت ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نےفرمایا:۔
كَيْفَ اتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِمَا هُوَ مَحَالٌ أَنْ تَصِلَ إِلَيْكَ
اور تیری بارگاہ کے لئے میں اس شے کو وسیلہ کیسے بناؤں جس کا تیری بارگاہ میں پہنچنا محال ہے۔
اس لئے کہ تو فوائد کے ساتھ فائدہ حاصل کرنے سے بے نیاز ہے۔ لہذا تو ہم کو اپنے ساتھ اپنے غیر کے سامنے محتاجی سے بے نیاز کر دے ۔ یہاں تک کہ میں تجھ سے تیرے ساتھ ملوں ۔ تیرے غیر کے ساتھ نہ ملوں۔ بے شک تو ہرشے پر قادر ہے۔
روایت ہے:۔ ہمارے شیخ الشیوخ قطب جامع مولائی عبدالسلام بن مشیش رضی اللہ عنہ نے حضرت شیخ ابوالحسن رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم اللہ تعالیٰ سے کس شے کے ساتھ ملاقات کرو گے؟ حضرت ابوالحسن نے جواب دیا: میں اپنے فقر کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کروں گا۔
حضرت شیخ نے ان سے فرمایا اللہ کی قسم اگر تم اپنے فقر کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے ملو گے تو تم بہت بڑے بت کے ساتھ اس سے ملو گے تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہو کر اس سے کیوں نہ ملو؟ گویا کہ حضرت شیخ الشیوخ نے حضرت شیخ ابو الحسن کی رہنمائی اس طرف کی کہ وہ اپنے نفس سے اور ہر اس شئی سے جو نفس کی طرف منسوب ہو مثلا فقر و غیرہ سے دور ہو جائیں ۔ حضرت شیخ زروق نے فرمایا حضرت شیخ ابوالحسن کی طرف سے یہ جواب دیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے فقر سے وہ فقر مراد لیا جو ان کی طرف منسوب ہے اور وہ زائل ہونا ہے۔ کیونکہ جب ہرشے سے ان کی محتاجی درست ہوگئی تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہرشے سے ان کی محتاجی درست ہوگئی ۔ تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہر شئے سے ان کی غنا درست ہو گئی اور جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کی غنا درست ہوگئی تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس کے ساتھ ملاقات کریں گے۔ حضرت ہروی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے۔ عوام کا فقر، ترک دنیا ہے۔ اور خواص کا فقر ترک دنیا و آخرت ہے۔ اور خواص الخواص کا فقر : ترک دنیاو آخرت و نفس ہے۔ اور اللہ علیم وخبیر کے سامنے ان امور کا ظاہر کرنا خالص عبودیت ہے۔ اس لئے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا:۔ أم كَيْفَ أَشْكُوا إِلَيْكَ حَالِى وَهُوَ لَا يَخْفَى عَلَيْكَ
یا میں تجھ سے اپنے حال کا اظہار کیسے کروں ۔ جب کہ وہ تیرے او پر پوشیدہ نہیں ہے ۔ اس لئے کہ یہ محال ہے کہ زمین و آسمان میں کوئی شے تجھ سے پوشید ہ ر ہے۔ وَإِنْ تَجْهَرُ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَاخْفَى
اور اگر تو پکار کے بات کہے تو بے شک اللہ تعالیٰ چپکے سے کہی ہوئی بات کو ، اور اس سے بھی پوشیدہ یعنی دل کی بات کو بھی جانتا ہے ۔
وَاسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ اور تم اپنی بات چپکے سے کہو یا پکار کے کہو، بے شک وہ دلوں کے بھید کو جانتا ہے۔ أَلَا يَعۡلَمُ مَنۡ خَلَقَ وَهُوَ ٱللَّطِيفُ ٱلۡخَبِيرُ کیا وہ نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے اور وہ مہربانی کرنے والا اور خبر رکھنے والا ہے ۔
لہذا اس کا میرے حال سے باخبر ہونا ، میرے سوال کرنے سے زیادہ میرے لئے کافی ہے۔
ام كَيْفَ الرَّجمُ إِلَيْكَ بِمَقَالِي ؟ یا میں تیرے سامنے اپنے دل کی ترجمانی اپنے قول سے کیسے کروں یعنی جو کچھ میرے دل میں ہے میں اس کو اپنے قول سے تیرے حضور میں کیسے پیش کروں۔
)وهو) جب کہ وہ یعنی میرے دل کی بات (مِنكَ بُرز) تیری ہی طرف سے ظاہر ہوئی ہے کیونکہ تیرے سوا کوئی ایجاد کرنے والا نہیں ہے ۔
مگر یہ کہ ربوبیت کا مقام، عبودیت کے وظائف کا تقاضا کرتا ہے۔ اور عبودیت کے وظائف:
مقدر شدہ شے کے دفع کرنے کی خواہش کے بغیر ، یا غیر مقدر شدہ شے کے حاصل ہونے کی خواہش کے بغیر ، زبان اور گریہ وزاری سے فاقہ اور محتاجی اور عاجزی کا ظاہر کرتا ہے۔جیسا کہ حضرت شیخ ابوالحسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: ہم تجھ سے اس شے کے دفع کرنے کی التجانہیں کرتے ہیں، جس کا تو نے ارادہ کیا ہے۔ بلکہ ہم تجھ سے یہ التجا کرتے ہیں، کہ اس شے میں جس کا تو نے ارادہ کیا ہے۔ اپنے روح القدس ( تائیدغیبی ) سے میری مددفرما۔ جیسا کہ تو نے اپنی مخلوق میں سے اپنے انبیاء ومرسلین علیہم الصلوۃ والسلام اور اپنے خاص صد یقین رضی اللہ عنہم کی مدد فرمائی۔ بے شک تو ہرشے پر قادر ہے۔ ام كَيْفَ تَخِيبُ امَالِی یا میری امیدیں نا کام کیسے ہوں گی یعنی میری خواہشیں اور حاجتیں نا کام کیسے ہوں گی۔ وَهِي وَفَدَتْ عَلَيْكَ جب کہ وہ تیری بارگاہ میں حاضر ہو چکی ہیں ۔
یعنی تیرے کرم کے صحن میں ، اور تیری بخشش کے سمندر کے ساحل پر اتر چکی ہیں اور انہوں نے اپنا سامان تیرے فضل کے دروازے پر رکھ دیا ہے۔ اور انہوں نے تیری عزت کے قلعہ میں پناہ لی ہے۔ اور تیرے چاہنے والوں کی امیدیں نا کام کیسے ہوں گی ۔ جب کہ تیرے کرم کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ یا تیرا ارادہ کرنے والے محروم کیسے ہوں گے جب کہ تیرے فضل و احسان کا سمندر فیض رساں ہے۔ یا تیرا ہمسایہ عاجز ومظلوم کیسے ہوگا جب کہ تیرے غلبے کا مرتبہ بہت مضبوط ہے
یا تیرا ہمسایہ شرمندہ کیسے ہو گا جب کہ تمام اشیاء میں تیرا حکم سرعت سے نافذ ہے؟ ایک عارف کا شعر ہے:
ايضَامُ عَبْدٌ فِي حِمَاكُمْ قَدْ نَزَلْ يَا مَنْ لَهُمْ كُلَّ الْآمَانِي وَالْأَمَلُ
کیا وہ بندہ جو تمہاری حمایت اور پناہ میں اتر چکا ہے، عاجز اور مظلوم ہو سکتا ہے۔ اے وہ ذات مقدس جس کے سامنے کل تمنا ئیں اور امیدیں ہیں۔
ام كَيْفَ لَا تَحْسَنُ أَحْوَالِي یا میرے احوال بہتر کیسے نہ ہوں گے۔ بلکہ وہ نہایت بہتر و مکمل ہوں گے ۔ (و) جب کہ وہ یعنی احوال (بك قامت) تیرے ساتھ قائم ہیں۔ اس لئے کہ بندے کا وجود صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہے۔ اور اپنی ذات سے اس کی ذات کا وجود نہیں ہے۔ اور ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ متعلق اور اللہ تعالیٰ سے قائم ، اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والا ہو ۔ اس کو کوئی نقص اور خلل کیسے لاحق ہو سکتا ہے۔ اس لئے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا ہے( واليك) اور تیری ہی طرف یعنی تیرے ہی حکم اور ارادے کی طرف ان کی انتہا ہونے والی ہے ۔ کیونکہ تمام امور کا تو یہی مبدا و مصدر ہے۔ اور تیری ہی طرف ان کا منتہی و مرجع ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَإِلَيۡهِ ‌يُرۡجَعُ ٱلۡأَمۡرُ كُلُّهُۥ فَٱعۡبُدۡهُ اور اس کی طرف تمام امور لوٹتے ہیں۔ لہذا آپ اس کی عبادت کیجئے اور اس پر بھروسہ رکھئے
ایک عارف کے اشعار ہیں :
اَقْبِلُ عَلَيْنَا لَا تَخَفْ فَلَنَا الْهُدَى وَلَنَا الْجَلَالُ مَعَ الْجَمَالِ خُذِ الصَّفَا
ہمارے سامنے آؤ۔ خوف نہ کرو۔ کیونکہ ہمارے ہی پاس ہدایت ہے۔ اور جمال اور جلال ہمارے ہی لئے ہے۔ تم صفائی یعنی خلوص اختیار کرو۔
وَاقْصِدُ حِمَانًا مَا آتَانَا مُذْنِبٌ إِلَّا نَجَا لَوْ كَانَ مِنَ الذُّنُوبِ عَلَى الشِّفَا
اور ہماری حمایت اور پناہ میں آنے کا ارادہ کرو ۔ ہمارے پاس جو گنا ہگا ر آتا ہے وہ نجات پا جاتا ہے۔ اگر چہ وہ گناہ کی آخری حد پرپہنچ چکا ہو۔
اے میرا اللہ ! ہم نے خضوع کرتے ہوئے، اور تیری بارگاہ سے نسبت قائم رکھتے ہوئے ، اور تیری ہمسائیگی کی رسی کو مضبوط پکڑتے ہوئے، اور تیرے مرتبے کے غلبے سے غلبہ طلب کرتے ہوئے ، اور تیری فوری مدد سے مدد حاصل کرتے ہوئے تیری حمایت اور پناہ میں آنے کا ارادہ کیا ہے۔ لہذا تو ہماری مدد فرما۔ اور ہمارے مقابلے میں ہمارے دشمنوں کی مدد نہ کر ۔ یا خیر الناصرین
تیرا پورا ہونے والا عہد اور تیری کافی مدد اس سے پاک ہے، کہ تو اس کو رسوا کرے جو تیرے ہمسایہ میں داخل ہو جائے ۔ یا اس کو بھگا دے جو تیرے دروازے پر کھڑا ہو جائے ۔ اے بہترین مسئول اور اے تمام دا تا ؤں سے بڑا داتا! تو ایک ایسے بندے پر رحم فرما۔ جو اپنی ذات کے لئے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا ہے۔ بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں