مخلوق کی قید (پچیسواں باب)

مخلوق کی قید کے عنوان سے پچیسویں باب میں  حکمت نمبر 248 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے:۔
248) أَنْتَ مَعَ الأَكْوَانِ مَا لَمْ تَشْهَدِ المُكَوِّنَ ، فَإِذَا شَهِدْتَهُ كَانَتِ الأَكْوَانُ مَعَكَ .
تم اس وقت تک مخلوق کے ساتھ ہو جب تک تم نے خالق کا مشاہدہ نہیں کیا ہے لیکن جب تم کو خالق کا مشاہدہ حاصل ہو جاتا ہے تو مخلوق تمہارے ساتھ ہو جاتی ہے ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: جب تک بندہ مخلوق کی قید میں مقید ، اور اپنے جسم کی شکل میں گھرا ہوا ہوتا ہے اس وقت تک مخلوقات اس پر حاکم ہوتی ہیں۔ اور وہ ان سے عشق و محبت کرتا ہے۔ اور مخلوقات اس کو قابل نفرت بنا دیتی، اور اللہ تعالیٰ سے دور کر دیتی ہیں۔ وہ مخلوقات کا محتاج رہتا ہے۔ اور مخلوقات اس سے بے نیاز رہتی ہے۔ وہ مخلوقات کی طرف مائل رہتا، اور ان سے حرص رکھتا ہے۔ اور مخلوقات اس سے بھاگتی ہیں ۔ وہ مخلوقات سے ڈرتا ، اور ان سے مرعوب رہتا ہے اور مخلوقات اس کو ڈراتی اور مرعوب کرتی ہیں۔ پھر جب وہ خالق کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اور مخلوقات سے غائب، اور ان کی غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اس وقت مخلوقات اس کی خادمہ بن جاتی ہیں۔ اور وہ ان پر حاکم ہو جاتا ہے۔ اور مخلوقات اس سے محبت کرتی ہیں۔ اور وہ ان کے خالق سے محبت کرتا ہے۔ مخلوقات اس کی محتاج ہوتی ہیں ۔ اور وہ ان سے بے نیاز ہوتا ہے۔ مخلوقات اس سے حرص رکھتی ہیں ۔ اور وہ ان سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے۔ مخلوقات اس سے ڈرتی اور مرعوب رہتی ہیں۔ اور وہ ان سے بے خوف رہتا ہے۔ لہذا جنت بھی اس کی مشتاق ہوتی ہے اور وہ اس سے بے نیاز ہوتا ہے۔
حدیث شریف میں ہے:
اشْتَاقَتِ الْجَنَّةُ إِلَى عَلِي وَصُهَيْبٍ وَّ بِلَالٍ جنت حضرت علی اور حضرت صہیب اور حضرت بلال کی مشتاق ہے۔
یہ حضرات اصحا ب صفہ میں سے تھے۔ اور جہنم عارف سے ڈرتی ہے حالانکہ وہ اس سے غائب ہوتا ہے ۔
حدیث شریف میں واردہے کہ جہنم قیامت کے دن کہے گی:
جُزْ يَا مَؤْمِنٌ فَقَدْ أَطْفَاكَ نُورُكَ لَهَبِيُّ ، أَوْ كَمَا قَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ
اے مومن تو جلدی گزر جا۔ کیونکہ تیرا نور میری آگ کی تیزی کو ٹھنڈی کئے دیتا ہے ۔
یا حضرت نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے جس طرح فرمایا ہو،
تو اے انسان تم عالم اجسام میں مخلوقات کے ساتھ گرفتار ہو ۔ اور ان کی بندشوں میں جکڑے ہوئے ہو۔ لہذا جب تک تم ان سے محبت رکھتے ہو اور ان سے حرص رکھتے ہو اور ان کے مشتاق ہو خواہ وہ حاضر ہوں یا غائب۔ اس وقت تک جو ہوتا ہے ہو ۔ وہ تمہارے اندر جس طرح چاہتی ہیں تصرف کرتی رہتی ہیں۔ لیکن جب تم خالق کا مشاہدہ ، اور اس کی معرفت حاصل کر لیتے ہو۔ تو مخلوقات تمہارے ساتھ ہو جاتی ہیں۔ تم ان سے آزاد ہو جاتے ہو ۔ اور وہ تمہاری کنیز بن جاتی ہیں۔ تم ان کی مخلوق ہونے کی حیثیت سے، ان میں سے کسی شےسے محبت کرتے ہو۔ نہ ڈرتے ہو ۔ کیونکہ تم ان سے رخصت ہو کر عالم ارواح میں پہنچ جاتے ہو۔ لہذا اب وہ تمہارے قبضے میں ہوتی ہے۔ تم ان میں جس طرح چاہتے ہو تصرف کرتے ہو، اس لئے کہ اب تم اللہ تعالیٰ کی زمین میں اس کے خلیفہ ہو جاتے ہو۔ اور کل مخلوقات تمہارے قبضے میں اور تمہاری ہمت کے قریب ہوتی ہیں۔ کیونکہ جب تم اپنی ہمت اللہ تعالیٰ سے متعلق کر دیتے ہو۔ تو کل اشیاء تمہاری ہمت کے قریب ہو جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے روایت کی ہوئی بعض آثار میں ہے: اللہ تعالیٰ نے فرماتا ہے: تم مجھ کو اپنی فکر کی جگہ بناؤ (یعنی صرف میری فکر میں مصروف رہو) میں تمہاری ہر فکر میں تمہارے لئے کافی ہوں گا ۔ جب تک تم اپنے ساتھ رہو گے ۔ اس وقت تک تم دوری کے مقام میں رہو گے ۔ اور جب تم میرے ساتھ ہو جاؤ گے تو قرب کے مقام میں پہنچ جاؤ گے ۔ لہذا تم اپنے لئے دونوں میں سے جس کو چاہو اختیارکرو۔
ایک عارف نے فرمایا ہے: میں بازار جاتا ہوں تو کل اشیاء میری مشتاق ہوتی ہیں ۔ اور مجھے کوان کی پرواہ نہیں ہوتی ہے۔ حضرت ابن جلا رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ جس شخص کی ہمت مخلوقات سے اٹھ جاتی ہے۔ وہ ان کے خالق تک پہنچ جاتا ہے۔ اور جو شخص اپنی ہمت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی شے میں مشغول ہو جاتا ہے وہ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے محجوب ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس سے پاک اور بلندہے کہ اپنے ساتھ کسی شے کے شریک کرنے پر راضی ہو۔ لہذا جس شخص نے مخلوقات سے اپنی ہمت اٹھالی، اور ان کے خالق اللہ تعالیٰ کے شہود سے فیضیاب ہو گیا۔ اس کے لئے ولایت کبری اور ولایت عظمی ثابت ہوگئی۔ اور مخلوقات سے ہمت اٹھا لینے سے ان بشری صفات اور ضروریات سے بے نیاز ہونا اس پر لازم نہیں ہوتا ہے۔ جو اس کی بشریت کے وجود کے لئے لازمی ہیں۔ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے: لا يَنزِمُ مِنْ ثبوتِ الْعُصُومِيَّةِ عَدَمُ وَصْفِ الْبَشَرِيَّةِ خصوصیت کے ثابت ہونے سے بشریت کے اوصاف کا ختم ہو جانا لازم نہیں ہوتا ہے ۔
بشری وصف سے مراد: وہ اوصاف ہیں، جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے انسان کو اس کا وجود قائم رہنے کے لئے حاجتمند بنایا ہے۔ مثلاً کھانا، اور پینا، اور لباس، اور مکان ، اور وہ جائز خواہش جس پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ جیسے نکاح اور غیر محرم کی خواہش ۔ تو یہ اوصاف خصوصیت کے منافی نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء ومرسلین علیہ الصلاۃ والسلام کی شان میں فرمایا ہے:
ومَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِي الاسواق اور ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسولوں کو بھیجا۔ وہ سب کھانا کھاتے تھے ۔ اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے اور دوسری جگہ فرمایا
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّنْ قَبْلِكَ وَجَعَكَ لَهُم أَزْوَاجاً وَ ذُرِّيَّةٌ اور ہم نے آپ سے پہلے بہت سے رسولوں کو بھیجا اور ان کے لئے ہم نے بیویاں اور اولاد بتائی ۔
ہاں، اہل خصوصیت کے لئے بشریت کا وصف دوسرے لوگوں کی طرح نہیں ہے۔ کیونکہ اہل خصوصیت کے کل معاملات اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتے ہیں۔ لہذا ان کے فوائد حقوق بن جاتے ہیں۔ بخلاف دوسرے لوگوں کے کہ ان کے نفوس ان پر غالب ہوتے ہیں۔ لہذا ان کی تمام حرکتیں اپنے نفوس کے فوائد کے لئے ہوتی ہیں۔ اس بیان سے تم کو یہ معلوم ہو گیا کہ خصوصیت یعنی ولایت و معرفت یا آزادی کے ثابت ہونے سے بشریت کے وصف کا خاتمہ ہونا لازم نہیں ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ خصوصیت کا مقام باطن ہے۔ اور بشری وصف کا مقام ظاہر ہے۔ اور ان کے اوپر انہیں ظاہری بشری اوصاف کے ظاہر ہونے کی وجہ سے انبیاء علیہم السلام اور اولیائے کرام رضی اللہ عنہم لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہوئے ۔
کیونکہ تم ایک ایسے شخص کو کس طرح پہچان سکتے ہو، جو تمہاری ہی طرح کھا تا ، اور پیتا، اور تمہاری ہی طرح سوتا، اور عورتوں سے نکاح کرتا ہے، لہذا ان حضرات کو صرف وہی شخص پہچانتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے نیک بخت اور خوش نصیب بنانا چاہا ہے اور انبیاء علیہم السلام اور اولیا و رضی اللہ عنہم سے لوگوں کا انکار صرف ایسی بنا پر واقع ہوا ہے کہ لوگوں نے یہ اعتقاد کر لیا ہے کہ بشریت کے اوصاف خصوصیت کی ضد ہیں ۔
چنانچہ کافروں نے حضرت رسول کریم ﷺ کی شان میں کہا: وَقَالُوا مَا لِهَذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ اور کافروں نے کہا: یہ کیا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے، اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے جواب میں یہ آیہ کریمہ نازل کر کے واضح فرمایا کہ دونوں یعنی خصوصیت ، اور بشریت کا وصف ایک دوسرے سے متضاد نہیں ہے:
وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ الآية – لہذا ان اوصاف سے جو ہم نے بیان کیا ۔ بشری طبیعت ختم نہیں ہوتی ہے وہ نبوت اور ولایت کی خصوصیات کے ساتھ موجود رہتی ہے۔ لیکن برے اوصاف : مثلاً حسد اور تکبر اور بغض ، اور خود پسندی اور ریاء اور غصہ اور قلق، اورمحتاجی کا خوف اور روزی کی فکر، اور تدبیر اور اختیار وغیرہ۔ تو نبوت اور ولایت کی خصوصیت میں ان سے پاک ہونا لازمی اور ضروری ہے۔ حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کا یہ قول پہلے گزر چکا ہے: تم اپنی بشریت کے اوصاف میں سے ہر اس وصف سے نکل جاؤ، جو تمہاری عبودیت کے مخالف ہو ۔ تا کہ تم اللہ تعالیٰ کی پکار کے جواب دینے والے، اور اس کی بارگاہ سے قریب ہو جاؤ۔ لیکن نبی کو ان اوصاف سے پاک سمجھنا واجب ہے ۔ کیونکہ انبیاء علیہم السلام تمام عیوب سے پاک اور معصوم ہیں۔ لیکن ولی کو معصوم سمجھنا واجب نہیں ہے۔ کیونکہ اولیاء اللہ ان اوصاف سے محفوظ ہیں۔ لہذا کبھی ان برے اوصاف میں سے کوئی وصف غلطی اور لغزش کے طریقے پر ان سے صادر ہو جاتا ہے۔ اور یہ ان کی خصوصیت کے وجود کے منافی (ختم کرنے والا ) نہیں ہے لیکن وہ اس پر اصرار نہیں کرتے ہیں (یعنی اس کو دوبارہ نہیں کرتے ہیں ) اور نہ اس میں ہمیشہ مبتلا رہتے ہیں۔ لہذا بھی غضب اور قلق اور تدبیر اور اختیار وغیرہ اولیائے کرام سے صادر ہوتا ہے۔ لیکن وہ ہوا کی طرح آتاہے اور چلا جاتا ہے۔ نصیحت کا فیہ میں بیان کیا ہے:
اولیائے کرام سے بھی غلطی اور غلطیاں ، اور لغزش اور لغزشیں صادر ہوتی ہیں لیکن وہ ان پر اصرار نہیں کرتے ہیں۔ حضرت جنید رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا: کیا عارف زنا کر سکتے ہیں ؟ وہ کچھ دیر خاموش رہے۔ پھر انہوں نے فرمایا۔
وَكَانَ آمَرُ اللَّهِ قدَرا مَقْدُورًا اور اللہ تعالیٰ کا حکم پہلے ہی مقدر ہو چکا ہے ۔
حضرت ابن عطاء اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کاش کہ ہم کو (یعنی لوگوں کو ) سوال کرنے کا شعور ہوتا۔ اگر حضرت جنید سے اس طرح دریافت کیا جاتا: کیا عارف کی ہمت غیر اللہ کے ساتھ ہوسکتی ہے۔ تو وہ جواب دیتے: نہیں ہو سکتی۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں