مرید کا لمبا سفر (بائیسواں باب)

مرید کا لمبا سفر کے عنوان سےبائیسویں باب میں  حکمت نمبر 207 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے ۔
207) لا تَسْتَبْطِئْ النَّوَالَ ، وَلَكِنْ اسْتَبْطِئْ مِنْ نَفْسِكَ وُجُودَ الإِقْبَالِ
تم اللہ تعالیٰ کی بخشش میں تاخیر اور دوری کا خیال نہ کرو۔ بلکہ تم اپنی طرف سے توجہ میں کوتاہی اور خلوص میں کمی کا تصور کرو ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ ، بڑاسخی و فیاض اور برداشت کرنے والا مہربان ہے۔
جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہے:۔
مَنْ تَقَرَّبَ إِلَيْهِ شِبْرًا تَقَرَّبَ مِنْهُ ذِرَاعًا ، وَ مَنْ تَقَرَّبَ مِنْهُ ذِرَاعًا تَقَرَّبَ مِنْهُ بَاعًا ، وَمَنْ آتَاهُ يَمْشِي آتَاهُ هَرُولَةٌ جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف ایک بالشت کے برابر قریب ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے ایک گز یعنی دو ہاتھ قریب ہوتا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے پاس چل کر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے پاس دوڑ کر آتا ہے۔ لہذا اگر تم اللہ تعالیٰ کی طرف اپنے قلب کے ساتھ متوجہ ہوئے ہو۔ پھر بھی اس کی طرف سے معرفت کا دروازہ کھلنے میں دیری ہو۔ تو اس کی طرف سے بخشش یعنی حجاب کے ہٹنے میں تاخیر نہ سمجھو۔ بلکہ اپنی طرف سے توجہ میں کوتاہی اور خلوص میں کمی کا تصور کرو۔ کیونکہ شاید تمہاری تو جہ اس کی طرف مکمل طریقے پر نہ ہوئی ہو۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ زبان حال سے فرماتا ہے ۔ وہ شخص میرے وصال کو نہیں پاسکتا ہے۔ جس کے اندر میرے غیر کا کوئی شائبہ کسی طریقے سے بھی باقی ہو ۔ لہذا اگر تم سے اغیار مٹ جائیں، تو تمہارے انوار روشن ہو جا ئیں گے ۔ اور اگر تم غفلت کی نجاست سے پاک ہو جاو گے ۔ تو تم حضوری کی مسجد میں داخل ہونے کے مستحق ہو جاؤ گے۔ اورکبھی ایسا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف تمہاری توجہ تو مکمل ہوتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا ادب تم سے فوت ہو جاتا ہے۔ اور یہی تمہارے لئے بخشش میں تاخیر کا سبب ہوتا ہے۔ اگر چہ تمہاری توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف درست اور خالص ہوتی ہے۔
کیا تم کوئی ایسا غلام بھی دیکھتے ہو جو اپنے آقا کے سامنے بے ادبی کرتا، اور اپنے چہرے سے شرم کا چادر ہٹا دیتا ہے لہذا اگر بندہ ایسا کرتا ہے تو وہ بخشش سے زیادہ سزا کا مستحق ہے۔
اہل معرفت نے فرمایا ہے :۔ تمہارا اہل استقامت ہونا تمہارے اہل کرامت ہونے سے افضل ہے۔
اور جس شخص نے اپنے کو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بیچ دیا اور اپنے مولائے حقیقی کا خریدا ہوا غلام ہو گیا ۔ تو اب وہ کسی شے کا حق اپنے آقا پر کس طرح جتا سکتا ہے۔ حضرت ذوالنون مصری رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ حکایت بیان کی گئی ہے :-
انہوں نے ایک شخص کو دیکھا۔ جس نے ایک گھر خریدا اور اس کی رجسٹری کرانے کا ارادہ کیا۔ حضر سے ذوالنون نے اس سے فرمایا:- تم ایسا گھر نہ خرید جو فنا ہو جائے گا ۔ اور اس گھر کو نہ چھوڑو جو باقی رہے گا۔ اس شخص نے کہا:- کیا میں نے کوئی ایسا گھر خریدا ہے۔ جو باقی رہے گا ؟ حضرت نے فرمایا : کیا تم نے اللہ تعالیٰ سے وہ گھر نہیں خریدا ہے جس کا نام دار السلام ہے؟ وہ سلامتی اور بزرگوں کی ہم نشینی کا گھر ہے۔ تا کہ تم اس گھر میں امن و چین حاصل کرو ۔ اور ایسی نعمتوں کا لطف حاصل کرو ۔ جو قیمتوں سے نہیں خریدی سکتی ہے۔ وہ ایسا گھر ہے، جس کی چار حدیں یہ ہیں :-
ایک طرف -خائفین (خوف خدا والوں )کی منزلیں ہیں۔ دوسری طرف عارفین کی منزلیں ہیں۔ تیسری طرف – مشتاقوں کی منزلیں ہیں۔ چوتھی طرف۔محبین (محبت والوں )کی منزلیں ہیں اس گھر کی چھت اللہ تعالی کا عرش اس کا دروازہ رضوان کا ہے اس کے دروازے پر ازلی خط سے لکھا ہے
دَارُ تُقًي وَرِضًا عَلَيْهِمَا أُسِّسَتُ وَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِينَ
تقوی اور رضامندی کا گھر ہے۔ انھی دونوں پر اس کی بنیاد رکھی گئی ہے اور متقیوں کا گھر بہت ہی اچھا ہے۔
ثُمَّ نَادَى الْحَقُّ مِنْ أَرْجَائِهَا ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ آمِنِينَ
پھر اللہ تعالیٰ اس کے کناروں سے پکارے گا : – اس گھر میں سلامتی اور امن کے ساتھ داخل ہو جاؤ۔
اور اگر اس گھر کی رجسٹری کرانا چاہتے ہو تو کہو ۔
اعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ میں شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :- إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ
اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانوں اور مالوں کو جنت کے عوض میں خرید لیا ہے۔
یہی وہ ثو اب ہے، جو بندے نے بخشش کرنے والے بادشاہ اللہ تعالیٰ سے ، نا فرمانیوں کی ذلت سے اطاعت کی عزت کی طرف اور حرص و طمع کی مشقت سے زہد و ورع کی طرف نکلنے کی قیمت میں خریدا ہے۔ انصاف کرنے والے قلب اور زبان اس کے گواہ ہیں اور جو کچھ قرآن کریم میں نازل ہوا وہ درست ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کے وقت سے خرید وفروخت کی مضبوطی کا یہ آیہ کریمہ ضامن ہے :-
وَ مَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ اپنے قول و قرار کا پورا کرنے والا کون ہے۔
یہ حقیقت سمجھ لینے کے بعد اس شخص نے حضرت ذوالنون سے کہا ۔ ہاں میں تیار ہوں ۔ پھر اس نے اپنا کل مال صدقہ کر دیا ۔ اور ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو گیا۔
اور جس شخص کی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف مکمل ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے اوقات کا کچھ حصہ بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت کے سوا کسی چیز میں ضائع نہیں کرتا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں