معرفت الہی کا سبب (اٹھارھواں باب)

معرفت الہی کا سبب کے عنوان سے اٹھارھویں باب میں  حکمت نمبر 169 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے دریافت کیا گیا – کیا آپ نے اللہ تعالی کو حضرت محمد ﷺکے ذریعے سے پہچانا یا اور حضرت محمد ﷺ کواللہ ذریعے سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جواب دیا ۔۔ اگر میں اللہ تعالی کو حضرت محمد ﷺ کے ذریعے سے پہچانتا تو اللہ تعالی کی عبادت نہ کرتا۔ لیکن میرے اندر حضرت محمد ﷺ اللہ تعالی سے زیادہ مضبوطی سے قائم ہیں۔ لیکن اللہ تعالی نے پہلے مجھ کو اپنی ذات کی پہچان کرائی پھر میں نے اللہ تعالی کے ذریعے حضرت محمد ﷺ کو پہچانا۔
اور یہی مقام ، عارفین کی معرفت کی انتہا ہے۔ یعنی جب وہ سابق قضا و قدر کے ساتھ مضبوطی سے قائم ہو جاتے ہیں۔ تو اپنے نفسوں سے جدا ہو کر اپنے۔ اللہ تعالی کی ذات میں گم ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ رضاو تسلیم کے سایہ میں آرام وسکون حاصل کرتے ہیں اور معارف کے باغوں سے ان کے اوپر خوش گوار ہوا چلتی ہے۔ لیکن آخری درجے میں ان کے احوال مختلف ہوتے ہیں۔
الْمَاء وَاحِدٌ وَالزَّهْرُ الْوَانُ پانی ایک ہے اور کلیاں اور پھول بہت رنگ کے ہیں۔
لہذ اعارفین میں سے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے اوپر خوف اور شرم کا غلبہ ہوتا ہے۔
بعض عارفین نے فرمایا ہے ۔ جس شخص کو جتنی زیادہ اللہ تعالی کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ اتنا ہی زیادہ اللہ تعالی کا خوف اس پر غالب ہوتا ہے۔ اور جو شخص اللہ تعالی کو زیاد پہچانتا ہے اس سے زیادہ خوف کرتا ہے۔ اور ان ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے۔
إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعَلَمَاءِ اللہ تعالی سے اس کے بندوں میں سے صرف علماہی ڈرتے ہیں۔
عارفین میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جس کے اوپر شوق اور اشتیاق غالب ہوتا ہے۔
بعض عارفین نے فرمایا ہے ۔ جو شخص اللہ تعالی کو پہچان لیتا ہے۔ اس کے اندر بقا کی علامت اور اللہ تعالی کی ملاقات کا شوق غالب ہوتا ہے۔ اورد نیا اپنی کشادگی کے باوجود اس کے اوپر تنگ ہوتی ہے۔
حضرت سری سقطی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ۔ عارف کا سب سے اونچا اور بزرگ مقام شوق ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- میرے کچھ خاص بندے ایسے ہیں کہ میں ان سے محبت کرتا ہوں اور وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ میں ان کا مشتاق رہتا ہوں وہ میرے مشتاق رہتے ہیں۔ میں ان کا ذکر کرتا ہوں اور وہ میرے ذکر میں مشغول رہتے ہیں ۔ اور میں ان کی طرف دیکھتا ہوں وہ میری طرف دیکھتے ہیں۔ جو شخص ان کے طریقے پر چلتا ہے میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ اور جوان سے منہ پھیر لیتا ہے میں اس سے ناراض ہوتا ہوں ۔ عرض کیا گیا :- اے ہمارے رب ! ان کی پہچان کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:- وہ دن میں سایوں کا اس طرح خیال رکھتے ہیں۔ جس طرح مہربان چرواہا اپنی بکریوں کا خیال رکھتا ہے۔ اور وہ آفتاب کے غروب ہونے کے اس طرح مشتاق ہوتے ہیں۔ جس طرح چڑیاں غروب آفتاب کے قریب اپنے آشیانوں کے مشتاق ہوتی ہیں۔ پھر جب ان کے اوپر رات کی تاریکی چھا جاتی ہے۔ اور بستر بچھادئیے جاتے ہیں۔ اور سب لوگ آرام کرنے لگتے ہیں۔ اور ہر دوست اپنے دوست کے ساتھ تنہائی اختیار کرتا ہے تو وہ میرے لئے نماز میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور اپنی پیشانی میرے سامنے بچھا دیتے ہیں ۔ اور میرے کلام سے مناجات (سرگوشی ) کرتے ہیں۔ اور میرے سامنے میرے انعام کے لئے خوشامد کرتے ہیں۔ لہذا دینے اور رونے اور آہ وفریاد اور قیام و قعود اور رکوع وسجود سے جو تکلیف وہ میرے لئے برداشت کرتے ہیں۔ وہ میری آنکھ کے سامنے ہے۔ اور میری محبت میں جو آہ و فریاد وہ کرتے ہیں۔ اس کو میرے کان سنتے ہیں۔
تو پہلے میں انکو تین چیزیں عطا کرتا ہوں :-
پہلی چیز یہ ہے کہ میں ان کے قلوب میں اپنا نور ڈال دیتا ہوں تو وہ میرے متعلق خبر دیتے ہیں جیسا کہ میں ان کے متعلق خبر دیتا ہوں۔ دوسری چیز یہ کہ اگر ساتوں آسمان اورز میں اور جو کچھ ان میں سے سب ان کے میزان میں رکھ دی جائیں تو ان سب کو ان کے لئے ہلکا کر دوں گا۔
تیسری چیز یہ کہ میں اپنی ذات کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوتا ہوں۔ کیا تم کسی ایسے شخص کو دیکھتے ہو جو یہ جانتا ہو، کہ جس کی طرف میں اپنی ذات کے ساتھ متوجہ ہوتا ہوں میں اس کو کیا عطا کرنا چاہتا ہوں۔
حضرت ابراہیم بن ادھم رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :۔ ایک دن شوق نے مجھ کو گم کر دیا تو میں نے کہا : اے میرے رب ! اگر تو نےمحبین میں سے کسی کو کوئی ایسی شے عطا کی ہو جس کے ذریعے ان کے قلوب تیری ملاقات سے پہلے مطمئن اور پرسکون ہوں تو تو مجھے بھی وہ شے عطا فرما۔ کیونکہ بے قراری سے میں تکلیف اور پریشانی میں مبتلا ہوں ۔ تو میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا کہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوں اور وہ مجھ سے فرما رہا ہے: اے ابراہیم ! کیا تم کو مجھ سے یہ درخواست کرنے میں شرم نہیں دامن گیر ہوئی ۔ کہ میں تم کو ایسی شے عطا کروں جس کے ذریعے تمہارا قلب میری ملاقات کے بغیر ہی مطمئن اور پر سکون ہو جائے ۔
کیا کوئی عاشق معشوق کی ملاقات کے بغیر مطمئن اور پر سکون ہو سکتا ہے؟
پس میں نے کہا: اے میرے رب ! میں مدہوش اورحیران ہوں اس لئے میں نہیں جانتاہوں کہ میں کیا کہوں ۔ لہذا تو مجھ کو بخشدے۔ اور مجھ کو تو ہی بتا دے کہ میں کیا عرض کروں ۔ تو اللہ تعالی نے فرمایا:۔ تم اس طرح کہو ۔ اے میرے اللہ اتو مجھ کو اپنی قضاء سے رضا مندی اور اپنی بلا پر صبر عطا کر ۔ اور مجھ کو اپنی نعمتوں کے شکر کی توفیق عطا فرما۔ اور عارفین میں سے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے اوپر سکون قلب غالب ہوتا ہے،کیونکہ علم و یقین ، سکون اور اطمینان کا سبب ہوتے ہیں۔ لہذا جس شخص کو اللہ تعالی کی معرفت جتنی زیادہ ہوتی ہے اتنا ہی زیادہ اس کو سکون اور اطمینان ہوتا ہے، اللہ تعالی نے فرمایا ہے۔
الا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ۔ تم یہ جان لو اللہ تعالی کے ذکر سے قلوب مطمئن اور پر سکون ہوتے ہیں۔ اور عارفین میں سے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے اوپرحیرت ( بھو چکا ہونا ۔ ہکا بکا ہونا ) غالب ہوتی ہے۔
بعض عارفین نے فرمایا ہے لوگوں میں اللہ تعالی کا زیادہ پہچاننے والا لوگوں سے زیادہ اللہ تعالی کے بارے میں حیرت میں ہوتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے۔
اللَّهُمَّ زِدْنِي فِيكَ تَحَيرًا ۔ اے میرے اللہ! تو اپنے بارے میں میری حیرت زیادہ کر دے۔ اور عارفین میں سے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے اوپر تواضع اور خضوع اور عاجزی و انکساری غالب ہوتی ہے۔
حضرت جنید رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے۔ عارف کی مثال : زمین کی طرح ہے جس پر اچھے اور برے سب چلتے ہیں اور بادل کی طرح ہے۔ جو سرخ و سفید سب پر سایہ کرتا ہے اور بارش کے پانی کی طرح ہے جو چلنے والے اور رشوت لینے والے سب کو سیراب کرتی ہے۔ اور عارفین میں سے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی معرفت وسیع ہوتی ہے۔ وہ توحید کے سمندر میں غرق ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کو کوئی شے مکدر نہیں کرتی ہے۔ نہ کوئی شے ان پر غالب ہوتی ہے۔ بلکہ وہ ہر شے سے اپنا حصہ حاصل کرتے ہیں۔ اور ان کے حصے سے کچھ کم نہیں کیا جا سکتا ہے وہ ہر شے سے مانوس ہوتے ہیں۔ کسی شے سے متنفر نہیں ہوتے ہیں۔
حضرت ابوتراب نے فرمایا ہے ۔ عارف کے وسیلے سے ہر شے کی گندگی دور ہو کر پاک وصاف ہو جاتی ہے۔ اور اس کو کوئی شے گندہ نہیں کرتی ہے۔
حضرت ابوسلیمان دارانی نے فرمایا ہے:۔ اللہ تعالی عارف کیلئے اس کے بستر پر حکمت و معرفت کا وہ دروازہ کھول دیتا ہے جو اس کیلئے نماز کے قیام میں بھی نہیں کھولتا ہے۔
اور بعض عارفین نے فرمایا ہے ۔ عارف وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اس قدر مانوس ہوتا ہے، کہ اس کی مخلوق سے متنفر ہو جاتا ہے۔ اور وہ صرف اللہ تبارک و تعالی کا محتاج ہوتا ہے۔ اس لئے اس کو اللہ تعالی اپنی مخلوق سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ اور وہ اللہ تعالی کے لئے ذلیل ورسوا ہوتا ہے۔ لہذا اللہ تعالی اس کو اپنی مخلوق میں عزیز و مقبول بنادیتا ہے
حضرت داؤد علیہ السلام کے زبور میں ہے :- اے داؤد علیہ السلام | آپ میری رضامندی چاہنے والوں کو یہ پیغام پہنچا یئے ۔ جو شخص مجھ سے محبت کرتا ہے۔ میں بھی اس سے محبت کرتا ہوں ۔ اور جو شخص میرے ساتھ بیٹھتا ہے۔ میں اس کا ہمنشین ہوتا ہوں اور جو شخص میرے ذکر میں مانوس ہوتا ہے۔ میں اس کا دوست ہوتا ہوں اور جو شخص میرا ساتھی ہو جاتا ہے میں اس کا ساتھی ہوتا ہوں ۔ اور جو شخص مجھ کو اختیار کرتا ہے۔ میں اس کا مختار ہو جاتا ہوں ۔ اور جو شخص میری اطاعت کرتا ہے۔ میں اس کی بات سنتا اور قبول کرتا ہوں۔ میں اپنی عزت و جلال کی قسم کھاتا ہوں ۔ میرا کوئی بندہ جب مجھ سے محبت کرتا ہے اور میں یہ جان لیتا ہوں ، کہ وہ اپنے قلب کے یقین کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ تو میں اس کو اپنی ذات کے لئے قبول کر لیتا ہوں۔ پھر جتنا وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ اس سے
زیادہ میں اس سے محبت کرتا ہوں ۔ اور جو شخص مجھ کو چاہتا ہے۔ وہ مجھ کو پالیتا ہے اور جو شخص میرے غیر کو چاہتا ہے۔ وہ مجھ کو نہیں پاتا ہے۔ لہذا اے زمین پر رہنے والو! تم زمین کی فریب دینے والی چیزوں کو چھوڑ دو ۔ اور میری کرامت اور مجالست ( ہمنشینی ) اور مصاحبت کی طرف آؤ۔ اور تم میرے ذکر سے انسیت پیدا کرو۔ تو میں تم کو اپنے ساتھ مانوس کرلوں گا۔ اور تم میری محبت کی طرف بڑھو، میں تمہاری محبت کی طرف بڑھوں گا کیونکہ میں نے اپنے دوستوں کی فطرت کو اپنےخلیل ابراہیم علیہ السلام اور اپنے کلیم موسی علیہ السلام اور اپنی روح عیسی علیہ السلام اور اپنے محبوب محمدﷺ کی فطرت پر پیدا کیا ہے۔ اور وہ اپنے عاشقوں کے قلوب کو اپنے نور سے پیدا کیا اور ان کے قلوب کو اپنے جلال اور جمال سے پرورش کیا۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں