مقصود تصوف عادات کا بدلنا (تیئسواں باب)

مقصود تصوف عادات کا بدلنا کے عنوان سےتیئسویں باب میں  حکمت نمبر 220 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اس پر تنبیہ فرمائی ہے۔
220) لا تُزَكِّيَنَّ وَارِداً لا تَعْلَمُ ثَمَرَتَهُ ، فَلَيْسَ المُرَادُ مِنَ السَّحَابَةِ الإِمْطَارَ ، وَإِنَّمَا المُرَادُ مِنْهَا وُجُودُ الأَثْمَارِ الإِثمار .
جس وارد کا پھل تم نہیں جانتے ہو ۔ اس وارد کو تم پاک نہ سمجھو ۔ کیونکہ بدلی سے مقصد بارش نہیں ہے بلکہ پھلوں کا پیدا ہو نا مقصد ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :-وارد کا پھل :- عادات کا ختم ہونا اور فوائد کا حاصل ہونا ، اور برے اوصاف سے پاک ہونا اور بہتر اوصاف سے آراستہ ہونا ہے۔ اور اگر تم چاہو تو اس طرح کہو :-سچے وارد کا پھل :۔ وہ ہے جو اس سے پیدا ہوتا ہے۔ مثلا عاجزی و انکساری اور خشوع و سکون قلب اور وقار وحلم اور زہد اور سخاوت وایثار اور جسمانی شہوات اور نفسانی عادات کی غلامی سے نجات اور مخلوقات کی قید سے نکل جانا اور شہود وعیاں کی فضا کی طرف ترقی کرنا اور اغیار کے قبضے سے آزاد ہونا اور معارف واسرار کی تحقیق کی طرف خالص ہو کر بڑھنا اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) ان سب کو علیحدہ علیحد ہ پہلے بیان کر چکے ہیں۔
چنانچہ حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کتاب کی ابتدا میں بیان فرمایا ۔
أوردَ عَلَيْكَ الْوَارِدَ لِتَكُونَ بِهِ عَلَيْهِ وَارِدًا إِلَى آخِرِهِ اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر وارد کو اس لئے وارد کرتا ہے۔ تا کہ تم اس کے ذریعے اس کی طرف آؤ۔ وہ تمہارے اوپر وارد کو اس لئے وارد کرتا ہے۔ تا کہ وہ تم کو اغیار کے قبضے سے محفوظ کرے۔ اور مخلوق کی غلامی سے آزاد کرے۔ وہ تمہارے اوپر وارد کو اس لئے وارد کرتا ہے ۔ تا کہ وہ تم کو تمہارے وجود کی قید سے آزاد کر کے اپنے شہود کی فضا میں پہنچائے۔
اور اس سے کچھ پہلے اس باب میں مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا ہے ۔ جب تمہارے اوپر واردات الہٰیہ وارد ہوتے ہیں۔ تو تمہاری عادات کو منہدم کر دیتے ہیں۔ نیز فرمایا وارد – قہار کی بارگاہ سے آتا ہے۔ اس لئے جوشے اس کے سامنے آتی ہے۔ وہ اس کو مٹادیتی ہے۔ لہذا جب تمہارے اوپر وارد نازل ہو۔ اور تمہاری انسانی عادتوں کو ختم کر کے تمہارے اندر مذکورہ بالا خصلتوں کو نہ پیدا کرے۔ تو تم اس کو پاک نہ سمجھو ۔ اور اپنے نفس کو ملامت کرو۔ کیونکہ ایسا نہ ہو کہ وہ وارد شیطانی ہو۔ کیونکہ وارد الہٰیہ کے بعد ٹھنڈک اور سکون قلب اور زہد و اطمینان اور عاجزی و انکساری پید ہوتی ہے۔ اور وارو شیطانی کے بعد ۔ گرمی اور سخت دلی اور تکبر اور تیز مزاجی اور انانیت یعنی خود پرستی پیدا ہوتی ہے۔ لہذا حال سے مراد :- خوشی اور ہلکا پن اور بے عملی اور غیر شرعی باتیں نہیں ہیں۔ بلکہ در حقیقت حال سے مراد : ۔ وہ پھل ہیں ۔ جو اس سے پیدا ہوتے ہیں۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں