منع باب معرفت (باب  نہم)

منع باب معرفت کے عنوان سے  باب  نہم میں  حکمت نمبر 84 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں بیان فرمایا :۔
84) مَتَى فَتَحَ لَكَ بابَ الفَهْمِ في الَمْنعِ، عَادَ الَمْنعُ عَينَ العَطَاء.
جب منع میں تمہارے لئے سمجھ اور معرفت کا دروازہ کھول دیا گیا تو منع عین عطا ہو گیا۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: اے بندے ! جب تم کو اللہ تعالیٰ کی سمجھ اور معرفت حاصل ہوگئی ۔ اور اس کی رحمت اور مہربانی ، اور اس کی بخشش و کرم ، اور اس کی قدرت کے اثر ، اور اس کے علم کے احاطہ کا تم کو یقین ہو گیا۔ تو تم کو یہ معلوم ہو گیا ۔ کہ جب تم نے اس سے کسی شے کے لئے سوال کیا۔ یا کسی چیز کا ارادہ کیا ۔ یا تم کو کسی چیز کی حاجت ہوئی۔ اور اس نے تم کو اس سے منع ( محروم ) کر دیا۔ تو حقیقت یہ ہے کہ اس نے اس چیز سے تم کو منع تمہارے اوپر رحمت اور احسان کی بناء پر کیا ہے۔ اس لئے کہ اس نے بخیلی، یا عاجزی، یا جہالت، یا غفلت کی وجہ سے تم کو منع نہیں کیا ہے کیونکہ وہ ان عیوب سے پاک ہے۔ بلکہ اس نے ایسا تمہاری طرف اچھی نظر رکھنے کے باعث تمہارے او پر اپنی نعمت پوری کرنے کے لئے کیا ہے۔ کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ پوری نظر رکھنے والا ، اور بہترین انجام کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ . اور ممکن ہے کہ تم لوگ کسی چیز کو نا گوارسمجھو حالانکہ وہ تمہارے لئے بہتر ہو۔ اور ممکن ہے کہ تم لوگ کسی چیز کو پسند کرو۔ حالانکہ وہ تمہارے لئے بری ہو۔ اور ہر چیز کی حقیقت اور انجام اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ تم لوگ نہیں جانتے ہیں ۔
پس بعض اوقات ہم کسی کام کی تدبیر کرتے ہیں اور اس کو اپنے لئے بہتر خیال کرتے ہیں۔ اور وہ ہمارے لئے مصیبت اور وبال جان بن جاتا ہے۔ اور بعض اوقات فوائد سختیوں ، اور مصیبتوں کی شکل میں آتے ہیں۔ اور مصیبتیں فوائد کی صورت میں نازل ہوتی ہیں۔ اور بعض اوقات احسانات، زحمتوں میں پوشیدہ ہوتے ہیں۔ اور رحمتیں ، احسانوں میں ۔ اور اکثر اوقات ہم کو دشمنوں کے ہاتھوں سے فائدہ پہنچ جاتا ہے۔ اور دوستوں کے ہاتھوں سے مصیبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات خوشی نقصانات کی طرف سے ، اور نقصان خوشیوں کی طرف سے آتا ہے۔ حضرت ابوالحسن شاذلی رضی اللہ عنہم نے اپنے حزب میں فرمایا ہے:
اللَّهُمَّ إِنَّا عَجَزْنَا عَنْ دَفْعِ الضَّرِ عَنْ انْفُسِنَا مِنْ حَيْثُ نَعْلَمُ بِمَا نَعْلَمُ، فَكَيْفَ لَا نَعْجُزُ عَنْ ذَالِكَ مِنْ حَيْثُ لَا نَعْلَمُ بِمَا لَا نَعْلَمُ
اے اللہ ! جن چیزوں کا ہم کو علم ہے۔ ان کا علم رکھتے ہوئے بھی ہم ان کے نقصان کو اپنی ذات سے دور کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں۔ تو جن چیزوں کا ہم کو علم نہیں ہے ان کا علم نہ رکھنے کی حالت میں ہم ان کے نقصانات کو کس طرح دور کر سکیں گے؟
پس اے مرید! جب تمہارے لئے منع میں اللہ تعالیٰ کی سمجھ اور معرفت کا دروازہ کھل جائے گا ۔ اور اس میں جو بھلائی اور برائی ہے۔ اور تمہاری طرف جو اچھی نظر ہے ۔۔ اس کو جان لو گے تو منع تمہارے حق میں عین عطا ہو جائے گا۔
اس کی مثال : اس بچے کی طرح ہے جو بہترین کھانا ، یا حلوا، یا شہد دیکھتا ہے۔ لیکن اس میں زہر ملا ہوتا ہے۔ اور اس کا باپ جانتا ہے کہ اس میں زہر ملا ہوا ہے۔ تو جب بچہ اس کھانے کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے۔ تو اس کا باپ اس کو روک دیتا ہے۔ بچہ علم نہ رکھنے کی وجہ سے اس کے لئے روتا ہے۔ اور اس کا باپ علم رکھنے کی وجہ سے غصہ کے ساتھ اس کو روکتا ہے۔ تو اگر بچہ اس میں زہر ملے ہونے کی سمجھ رکھتا تو اس کی طرف ہاتھ نہ بڑھاتا۔ اور اپنے باپ کی خیر خواہی ، اور اپنے ساتھ اس کی شفقت اور محبت کو معلوم کرتا ۔
دوسری مثال: اس شخص کی طرح ہے جس نے بہترین قسم کا کھانا تیار کیا۔ اور اس میں تھوک،اور ناک کا نیٹا اور گندگی ملا دیا اور اس شخص کے سامنے یہ کھانا رکھا جو اس کے ان چیزوں کے ملانے سے ناواقف ہے تو جو شخص بھی اس کھانے کو دیکھے گا اس میں ملائی ہوئی چیزوں سے واقف نہ ہونے کی بناء پر اس کا نفس اس کی طرف بڑھے گا۔ اور اس کے کھانے کی خواہش ہو گی لیکن اگر اس کھانے میں ملائی ہوئی گندی چیزوں سے وہ واقف ہو جائے تو اس کا نفس اس کھانے کی طرف نہ بڑھے گا تو جب اس کو کوئی ایسا شخص اس کھانے سے منع کرتا ہے۔ جو اس میں ملائی ہوئی چیزوں سے واقف ہے تو وہ نا سمجھی کی وجہ سے اس کو الزام لگاتا، اور اس پر ناراض ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ بندہ ہے جود نیا، اور اس کی ریاست، وسرداری ، یا اس کے علاوہ دوسری چیزوں کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے۔ جس میں اس کا نقصان ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اس کو ان چیزوں سے، اس پر اپنی رحمت و شفقت ، اور مہربانی کی بناء پر منع ( محروم کر دیتا ہے۔ تو بندہ جب اللہ تعالیٰ کی سمجھ رکھتا ہے تو اپنا معاملہ اپنے مولائے حقیقی اللہ تعالیٰ کو سپرد کر دیتا ہے۔ اور وہ اس کو ان چیزوں میں الزام نہیں لگاتا ہے، جس کا فیصلہ اس نے اس کے لئے اس کی تقدیر میں کر دیا ہے۔ اور جب وہ اللہ تعالیٰ کی سمجھ اور معرفت نہیں رکھتا ہے۔ تو وہ حسرت و افسوس کرتا ہے۔ اور اکثر اوقات ناراض ہوتا ہے۔ پھر جب بعد میں اس کا راز اس پر کھلتا ہے جب اس منع میں جو بھلائی ہے، اس کو معلوم کرتا ہے۔ لیکن صبر کا درجہ اس سے فوت ہو جاتا ہے۔
حضرت نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :إِنَّمَا الصَّبْرُ عِندَ الصَّدْمَةِ الأولى صبر، صرف پہلے صدمہ کے وقت ہے۔ یعنی جب مصیبت آئے ، اس وقت صبر کرنے سے صبر کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ بعد میں نہیں
اوران بزرگ کے حال پر غور کرو جو میدان میں خیمہ ڈال کر رہتے تھے اور عارفین میں سے تھے ۔ ایک دن اچانک ان کا گدھا ، اور کتا، اور مرغا مر گیا۔ تو ان کے گھر والوں نے ان کے پاس آ کر خبر دیا تو جب گدھا مرا تو ان لوگوں نے ان سے کہا : ہمارا گدھا مر گیا۔ بزرگ نے فرمایا: اچھا ہوا۔ پھر جب کتا مرا تو ان لوگوں نے آکر ان سے کہا ۔ کتا بھی مر گیا۔ انہوں نے فرمایا ۔ اچھا ہوا۔ پھر مرغا مرا ۔ ان لوگوں نے ان سے کہا۔ مرغا بھی مر گیا۔ انہوں نے فرمایا۔ اچھا ہوا۔ تو گھر والوں نے غصہ ہو کر کہا۔ اس میں کیا اچھائی ہے۔ ہماری پونجی ختم ہوگئی۔ اور ہم خاموش دیکھ رہے ہیں؟ پھر ایسا ہوا ۔ کہ اسی رات میں کچھ عرب بدوؤں نے اس قبیلہ پر جواسی میدان میں رہتے تھے ، ڈاکہ ڈالا ۔ اور جو کچھ مال اور سامان ان لوگوں کے پاس تھا۔ سب لوٹ کر چل دیئے اور ڈاکو، خیموں کا پتا، گدھوں کے چیخنے ، اور کتوں کے بھونکنے ، اور مرغ کی بانگ سے لگاتے تھے ۔ تو ان کا خیمہ محفوظ رہ گیا۔ کیونکہ ان کی موجودگی کا راز فاش کرنے والا کوئی باقی نہیں تھا۔
پس غور کرو کہ اللہ کی اپنے اولیا پر کتنی اچھی نظر ہوتی ہے۔ اور ان کے کاموں کی تدبیر کیسے بہتر طریقے پر کرتا ہے۔ اور مرد عارف پہلی ہی مرتبہ کس طرح سمجھ لیتا ہے جو اس میں راز ہے ۔ پس یہی اللہ تعالیٰ کی سمجھ اور معرفت ہے۔ اللہ ہم کو اس میں سے پورا حصہ عطا فرمائے ۔ آمین ۔
حضرت شبلی نے فرمایا ہے: صوفیائے کرام اللہ تعالیٰ کی آغوش رحمت میں بچہ کی طرح ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت ، اور ان کی تدبیر کی سر پرستی کرتا ہے اور ان کو ان کے نفسوں کے سپرد نہیں کرتا ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں