نصف شعبان کی رات.Nisf Shaban ki rat

عَنْ عَائِشَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ اِنَّ اﷲ َعَزَّ وَجَلَّ یَنْزِلُ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ اِلَی السَمَاءِ الدُّنْیَافَےَغْفِرُ لِاَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِغَنَمِ کَلْبٍ (سنن الترمذی کتاب الصوم ما جاء فی لیلۃ النصف من شعبان)

حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نبی کریم ا سے روایت کرتی ہیں کہ سرکار دوعالم ا نے فرمایا اﷲ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو آسمان دنیا پر جلوہ گر ہوتا ہے اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے جس قدر بال ہیں اتنے ہی لوگوں کو بخش دیتا ہے۔

اس رات کو مختلف ناموں سے یاد کیا جاتاہے علامہ شہاب الدین آلوسی ؒ تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں

 (۱)الیلۃ المبارکۃاس رات میں برکتیں کثرت سے تقسیم ہوتی ہیں (۲)ولیلۃ البراء ۃاس رات میں گنہگاروں کو جہنم سے آزادی کا پروانہ عطا کیا جاتا ہے(۳)ولیلۃ الصکاس رات میں دستاویزات کی صورت میں فرشتوں کو احکام دئیے جاتے ہیں (۴)ولیلۃ الرحمن کی رات میں اﷲ کی رحمت اور مہربانیاں وافر مقدار میں ہوتی ہے۔

 علامہ قرطبیؒ اس رات کے یہ چار نام بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں اس رات کے اوصاف میں یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس رات میں اپنے بندوں کیلئے برکتیں نیکیاں اور ثواب نازل فرماتاہے

ویقال لیلۃ النصف من شعبان ولھا اربعۃ اسماء (۱)الیلۃ المبارکۃ(۲)ولیلۃ البراء ۃ(۳)ولیلۃ الصک(۴)ولیلۃ القدر(القرطبی)

اورعوام اسے حصول مغفرت کی رات رحمتوں کے نزول کی رات سے یاد کرتے ہیں

علامہ اسماعیل حقیؒ فرماتے ہیں ’’اس رات کے چار نام ہیں لیلۃ المبارکہ کیونکہ اس رات میں عمل کرنے والوں کیلئے اﷲ کی طرف سے خیر وبرکت اس کثرت سے ہوتی ہے اﷲ تعالیٰ کے جمال کی برکتیں تحت الثریٰ سے عرش العلیٰ تک اس قدر ہوتی ہیں کہ ہر ذرہ میں ظہور ہو رہا ہوتا ہے اور اس رات میں فرشتوں کا اجتماع عظیم ہوتا ہے اور لیلۃ البرأۃکیونکہ اس میں خاص بندوں کی جہنم سے آزادی لکھ دی جاتی ہے جس طرح حضرت عمر بن عبد العزیز نے اس رات کو اپنا سر بلند کیا نماز کے دوران تو ایک سبز رنگ کارقعہ جس کی روشنی آسمان تک تھی میں لکھا تھا ھذہ برأۃ من النار من ملک العزیز لعبدہ عمر بن عبد العزیز یہ جہنم سے آزادی کا پروانہ ہے اس غالب بادشاہ کی طرف سے اس کے بندے عمر بن عبد العزیز کیلئے ‘‘(روح البیان)

’’حضر ت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنھما لیلۃ القدر کو لیلۃ التعظیم کہتے نصف شعبان کی رات کو لیلۃ البرأت کہتے اور دونوں عیدوں کی راتوں کو لیلۃ الجائزۃکا نام دیتے‘‘ (تفسیر النکت والعیون)

امام فخرا لدین رازی ؒفرماتے ہیں

’’شب برأت کو موت، رز ق اوردنیاوی امور کے فیصلے ہوتے ہیں اور لیلۃ القدر کو خیروبرکت، سلامتی اور آخرت کے متعلق فیصلے ہوتے ہیں ‘‘(تفسیر مفاتیح الغیب امام فخرا لدین الرازی)

علامہ شہاب الدین آلوسیؒ فرماتے ہیں ’’تمام راتوں میں افضل رات رسول اﷲ ا کی ولادت کی رات ہے پھر لیلۃ القدر پھر معراج کی رات پھر عرفہ کی رات پھر جمعۃ المبارک کی رات پھر پندرہ شعبان کی رات پھر عید کی رات(روح المعانی ،ردالمختار)

اﷲ تعالیٰ اس رات کو پورے سال میں موت اورزندگی ،سعادت و شقاوت کا فیصلہ فرما دیتے ہیں رزق کی تنگی اور وسعت کا فیصلہ اور خیر و شر کا فیصلہ فرما دیتے ہیں ۔

پندرہ شعبان کی رات کی فضیلت

مکاشفۃ القلوب میں امام غزالیؒ فرماتے ہیں ’’آسمان کے فرشتوں کیلئے دوراتیں خوشی اور مسرت کی ہیں جس طرح مسلمانوں کیلئے دوعید کی راتیں خوشی اور مسرت کی ہیں فرشتوں کی عید کی راتیں شب برأت پندرہ شعبان کی رات اور لیلۃ القدر ہیں اورمومنوں کی عید کی راتیں عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی راتیں ہیں ‘‘

پندرہ شعبان کی رات لوح محفوظ میں یہ تمام باتیں لکھ دی جاتی ہیں اور ستائیس رمضان کو اﷲ تعالیٰ رزق،بارش کا دفتر حضرت میکائیل علیہ السلام کوجنگوں کا دفتر حضرت جبریل علیہ السلام کو زلزلوں چاند گرہن سورج گرہن ،دھنسانے اور مصیبت کے اعمال کا دفتر حضرت اسرافیل علیہ السلام کو اور اموات کا دفتر حضرت عزرائیل علیہ السلام کو دے دیتے ہیں(روح المعانی )

وقال عکرمۃہی لیلۃ نصف من شعبان یبرم فیھا امر السنۃ وینسخ الاحیاء من الاموات ویکتب الحاج فلا یزداد فیھم احد ولا ینقص منھم احد(تفسیر ابن ابی حاتم)

حضرت عکرمہص فرماتے ہیں کہ یہ نصف شعبان کی رات جس میں سال بھر کے امور کی تدبیر، زندگیوں اور اموات کا فیصلہ اور حاجت کا لکھا جانا جب لکھ لیا جا تاہے تو اس میں کسی قسم کی کمی یا زیادتی نہیں ہوتی ۔

شب برأت میں رحمتوں کی فراوانی

اس رات میں اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں پر انتہاء درجے کی مہربانی فرماتے ہیں سرکار دو جہاں ا کا ارشاد گرامی ہے

وقال النبی ﷺاذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلتھا وصوموا نھارھا فان اﷲ ینزل لغروب الشمس الی سماء الدنیا یقول ألا مستغفر فاغفر لہ الا مبتلی فاعافیہ الا مسترزق فارزقہ الا کذا الا کذاحتی یطلع الفجر(سنن ابن ماجہ ما جاء فی لیلۃ النصف من شعبان )

نبی کریم انے ارشاد فرمایا کہ جب شعبان کی پندرھویں رات ہو تو رات کو جاگا کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو جب سورج غروب ہوتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور اعلان فرماتا ہے کہ ہے کوئی مغفرت طلب کرنے والا میں اسے بخش دوں ہے کوئی رزق طلب کرنے والاتاکہ میں اسے رزق دوں ہے کوئی مصیبت زدہ تاکہ میں اس کو اس سے نجات دوں یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتا ہے۔

وما من یوم الا ینادی منادیان من السماء یقول احدھما یا طالب الخیر ابشر ویقول الاخر یا طالب الشر اقصرو یقول احدھما اللھم اعط منفقا مالا خلفاویقول الاخراللھم اعط ممسکا مالا تلفا(الدرالمنثور)

اس دن دو پکارنے والے آسمان سے پکار تے ہیں اورایک ان میں سے کہتا ہے اے خیر کے طالب تیرے لئے خوشخبری ہو اور دوسرا کہتا اے شر کے طلبگار رک جا ایک ان میں سے کہتا ہے اے اﷲ جو تیرے راستے میں مال کو خرچ کرے اسے اور مال عطا کر اور دوسرا کہتا ہے اے اﷲ جو تیرے راستے میں خرچ سے روکے اس کا مال تلف کردے ۔

امام عبد الرحمن الصفوریؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام ایک پہاڑ سے گذرے اور اﷲ تعالیٰ سے عرض کی اے اﷲ اس پہاڑکو بولنے کی قوت عطا فرما پہاڑ بولا میرے اندر ایک شخص ہے عیسیٰ علیہ السلام نے عرض کی اے اﷲ اسے باہر نکال ایک بزرگ شخصیت اس سے باہر آئے اور کہنے لگے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت سے ہوں میں نے اﷲ تعالیٰ سے نبی آخرا لزمان ا کے زمانے میں زندگی طلب کی تاکہ ان کی امت میں داخلے کی سعادت حاصل کروں اس دعا کے صدقہ اس پہاڑ میں چار سو سال سے عبادت میں مصروف ہوں عیسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا یا اﷲ اس سے بڑھ کر تیری مخلوق میں کون افضل ہو گا تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایاجو شخص نصف شعبان کی رات میں دو رکعت ادا کرے گا اس کی چار سوسالہ عباد ت سے افضل ہوگا(نزھۃ المجالس و منتخب النفائس :باب فضائل شعبان )

اس برکت والی رات میں بھی رحمت سے محروم لوگ

 ینزل اﷲ جل ثناء ہ لیلۃ النصف من شعبان الی سماء الدنیا فیغفر لکل نفس الا انسانا فی قلبہ شحناء او مشرکا باﷲ(سنن ابن ماجہ ما جاء فی لیلۃ النصف من شعبان )

 اﷲ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو آسمان دنیا پر جلوہ گر ہوتا ہے پس ہر ایک کی بخشش ہوتی ہے سوائے کینہ رکھنے والے اور مشرک کے

امام قرطبیؒ تفسیر’’ جامع الاحکام القرآن ‘‘میں فرماتے ہیں

اذا کا ن لیلۃ النصف من شعبان اطلع اﷲ علی امتی فغفر لکل مومن لا یشرک باﷲ شیئاالا خمسۃ ساحرا و کاھنا وعاقا لوالدیہ ومد من خمر ومصرا علی الزنیٰ

 جب نصف شعبان کی رات آتی ہے اﷲ تعالیٰ میری امت کی طرف متوجہ ہوتا ہے پس ہر مومن کو جو اﷲ کے ساتھ شریک نہیں ٹھہراتا بخش دیتا ہے سوائے پانچ کے (1)جادوگر(2)کاہن (3)والدین کا نافرمان (4)شراب خور(5)اورزنا پر اصرار کرنے والا

مکاشفۃ القلوب میں چھ آدمیوں کا ذکر ہے

 (1)شراب خور(2)والدین کا نافرمان (3) عادی زناکار(4)قطع رحم کرنے والا(5)چنگ و رباب بجانے والا(ایک روایت میں مصور )(6)چغل خور

اور بیہقی کی ایک روایت میں تہبند یا شلوار کوتکبر سے ٹخنوں سے نیچے رکھنے والا اس رات کو بخشش سے محروم رہتا ہے بعض لوگ شلوارکو ٹخنوں سے نیچے رکھنے کیلئے حضرت ابوبکر صدیقص کو رسول اﷲاکا یہ فرمانا دلیل دیتے ہیں

انک لست ممن یصنع ذالک خیلائاے ابوبکر صتو ان لوگوں سے نہیں جو تکبر کے ساتھ اس طرح کرتے ہیں پہلی بات تو یہ سوچنا ضروری ہے کہ سیدنا صدیق اکبر صکتنے حساس ہیں کہ جونہی یہ الفاظ سنتے ہیں اسی وقت عرض کرتے ہیں یا رسول اﷲا میرا تہبند ذرابے خیالی میں اس طرح نیچے لٹک جاتا ہے ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں بغیر قصد کے شلوار کا نیچے ہونا تکبر کے ضمن میں نہیں آتا اور کوئی آدمی یہ نہیں کہہ سکتا کہ حضرت ابوبکرص باوجود رخصت کے کبھی آپ کا تہبند ٹخنوں سے نیچے رہا ہو اس کے علاوہ سب کو علم ہے کہ سیدنا صدیق اکبرص کو زندگی میں جنت کی بشارت مل گئی جو ان کے علاوہ باقی نو حضرات کی خصوصیت ہے حضرت ابوبکرص کو جنت کی بشار ت دی گئی وہ انہی کیلئے مخصوص ہے تو ٹخنوں سے نیچے شلوار کیوں سب امت کیلئے عام ہے؟ کیا یہ سارے لوگ مرتبہ صدیقیت تک پہنچ گئے ہیں ؟ جبکہ اس کی ممانعت میں اتنی احادیث مروی ہیں رسول اﷲ انے فرمایا ’’مومن کی تہبند یا شلوار نصف پنڈلی تک ہے اگر نصف پنڈلی سے ٹخنوں تک ہو تو بھی کوئی حرج نہیں اس سے نیچے جہنم کی آگ ہے‘‘ (سنن ابی داؤد)

شب برأت کے اعمال

من أحیی لیلۃ العیدین ولیلۃ النصف من شعبان لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب(کنز العمال)

جو شخص دو عید کی راتوں اور پندرہ شعبان کی رات کو جاگااس دن جب تمام دل مر جائیں گے اس انسان کا دل نہیں مرے گا ۔

اس سے مراد وقت نزع ہے اور قبر اور قیامت میں بھی قلب مطمئن ہو گا اور اس کی وجہ سے دنیا کی محبت میں مبتلا نہ ہو گا ۔

حضرت علی کرم اﷲ وجہ الکریم سے روایت ہے ’’میں نے نصف شعبان کی رات کو رسول اﷲ کو قیام کرتے دیکھا آپ ا نے چودہ رکعات ادا فرمائیں اورجب فارغ ہو کر تشریف فرما ہوئے تو چودہ چودہ مرتبہ سورۃ الفاتحہ، سورۃ الاخلاص، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس ایک مرتبہ آیۃ الکرسی اور ایک مرتبہ لقد جاء کم رسول من انفسکم (سورۃ التوبۃ کی آیۃ128)کی تلاوت فرمائی جب آپ ا فارغ ہوئے تو میں نے جو کچھ دیکھا تھا اس بارے میں پوچھا تو فرمایا جس نے اس طرح کیا جو تم نے دیکھاتو اس کیلئے بیس حج مبروراور بیس سال کے مقبول روزوں کا ثواب ہے اور جب صبح ہو تو جس نے روزہ رکھا اس کیلئے دو سال کے روزوں کا ثواب ایک گذرے سال کا اور ایک آئیندہ آنے والے سال کا (الدر المنثور)

اس رات میں عبادت کی فضیلت میں رسول اﷲ ا نے فرمایا ’’ جو شخص اس رات میں سو رکعات اد ا کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کی طرف سو فرشتے روانہ فرماتے ہیں ان میں سے تیس جنت کی بشارت دینے کیلئے، تیس جہنم کے عذاب سے آزادی کیلئے اور تیس دنیا کی مصیبتوں سے نجات کیلئے اور دس شیطان کے مکرو فریب سے بچانے کیلئے (تفسیر مفاتیح الغیب امام فخرا لدین الرازی)

اس رات کیلئے رسول اﷲ ا سے یہ دعا مروی ہے اَعُوْذُ بِعَفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ وَاَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ لَا اُحْصِیْ ثَنَاءً عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اَثْنَےْتَ عَلٰی نَفْسِکَ (سنن نسائی و دارقطنی)

علامہ عبد الرحمان الصفور یؒ فرماتے ہیں ’’رجب شھر التوبہ، شعبان شھر المحبۃ اور رمضان شھر القربۃ ہے ۔رجب استغفار الذنوب، شعبان سترالعیو ب اور رمضان تنویر القلوب ہے ۔رجب خاص ہے مغفرت کیلئے ،شعبان شفاعت کیلئے اور رمضان نیکیوں میں اضافے کیلئے ‘‘

اگر ان الفاظ میں غور کیا جائے تو پیرو مرشد بھی یہی کام کرتا جو ان مہینوں کیلئے مخصوص ہیں اتنی لمبی مسافت کو لمحوں میں طے کرا دیناتوبہ آسان بنا دینا ادب ومحبت سکھا دینا اﷲ کی قربت کا مستحق کردیناگناہوں کو ختم کرنے والے اعمال کی طرف راغب کرنا اور دلوں کو معرفت خداوندی سے چمکا نا کاملین کا ادنیٰ سا کمال ہوتاہے ۔جس کے بعد مغفرت اورنیکوکاری مرید کے حصے میں آتی ہے ۔

اہل سلوک کیلئے ایسی راتیں باعثِ غنیمت ہوتی ہیں کیونکہ سلوک میں داخلہ کی غرض غایت صرف آخرت کی درستگی ہوتی ہے اور جب اﷲ تعالیٰ اس قدر فراوانی سے آخرت سنوارنے کا موقع عطا فرمائے تو اسے ضائع نہ کیا جائے اﷲ تعالیٰ مرشد کامل کے صدقے اس رات کے فیوض و برکات سے بہرہ مند فرمائے۔ (آمین)


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں