نعمت کی ناقدری سلب کا باعث (اکیسواں باب)

نعمت کی ناقدری سلب کا باعث کے عنوان سےاکیسویں باب میں  حکمت نمبر 199 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
وہ شخص جس پر اللہ تعالیٰ احسان کرتا ہے اور اس کو اس کے نفس کی قید سے نکالتا ہے۔ اور اس کو اس کی غفلت کے قید خانے سے آزاد کرتا ہے۔ اگر وہ اس نعمت کی قدر نہیں کرتا ہے۔ تو اس سے یہ نعمت فورا سلب کر لی جاتی ہے۔
جیسا کہ حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے۔
199) مَنْ لَمْ يَعْرِفْ قَدْرَ النِّعَمِ بِوِجْدَانِهَا عَرَفَهَا بِوُجُودِ فِقْدَانهَا .
جو شخص نعمتوں کے حاصل ہونے پر ان کی قدر ومنزلت نہیں پہچانتا ہے۔ وہ ان نعمتوں کے کھو جانے کے بعد ان کی قدر پہچا نتا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے جو بیان کیا ، وہ مجرب اور درست ہے اور وہ اس طرح کہ کبھی بندے کو نعمتیں اور راحتیں متواتر عطا کی جاتی ہیں۔ لیکن بندہ ان کی قدر نہیں کرتا ہے اور اس کے نزد یک پوری طرح ان کی عزت و تعظیم نہیں ہوتی ہے۔ پھر جب اس سے وہ نعمتیں چھین لی جاتی ہیں۔ اور آفتوں اور دردوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ تو اب اس کو عافیت اور راحت کی قدر معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح فقیر کی حالت ہے ۔ اس کو حضور اور فکر و نظر حاصل ہوتی ہے۔ لیکن وہ ان کی زیادہ قدرومنزلت نہیں کرتا ہے۔ پھر جب اس پر غفلت طاری ہو جاتی ہے اور وہ محسوس ظاہر کی طرف لوٹ جاتا ہے اور اس کا قلب گم ہو جاتا ہے۔ تب وہ ان چیزوں کی قدر پہچانتا ہے ، جو اس کے پاس تھیں۔ پھر جب وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کر کے التجا کرتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اس کی چھنی ہوئی نعمت اس کو واپس کر دیتا ہے۔
منقول ہے :- اللہ تعالیٰ حضرت جبریل علیہ السلام سے فرماتا ہے ۔ اے جبریل میری محبت کی شیرینی ، میرے اس بندے کے قلب سے مٹا دو ، جس کو میں آزماتا ہوں۔ لہذا حضرت جبریل علیہ السلام اس بندے کے قلب سے محبت کی شیرینی مٹادیتے ہیں ۔ پھر جب وہ بے قرار ہوتا اور عاجزی کے ساتھ التجا کرتا اور روتا ہے تو اللہ تعالیٰ جبریل علیہ السلام کو حکم دیتا ہے ۔ تم میری محبت کی شیرینی اس بندے کے قلب میں واپس کر دو۔ کیونکہ میں نے اس کو سچا پایا ہے۔ اور جب بندے کے قلب سے محبت کی شیرینی مٹادی جاتی ہے۔ لیکن وہ گریہ وزاری اور عاجزی کے ساتھ اتنا نہیں کرتا ہے ۔ تو اللہ تعالیٰ اس کو کچھ واپس نہیں کرتا ہے۔ اور اس سے ہمیشہ کے لئے اس شیرینی کو چھین لیتا ہے اور عطا کر دینے کے بعد چھین لینے سے، میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں۔
اور بندے کو چاہیئے  ۔ کہ نعمتوں کی قدر معلوم کر لینے کے بعد ، ان میں غور و فکر کرنے اور نعمتوں کے حاصل ہونے سے پہلے اپنے نفس کی حالت میں غور وفکر کے ساتھ مدد طلب کرے۔ لہذا اگر وہ دولتمند ہے تو اپنی پہلے کی محتاجی کی حالت پر ، ظاہری یا باطنی طور پر غور کرے۔ اور اگر وہ تندرست ہے تو اپنے مرض کی حالت پر غور کرے۔ اور اگر وہ مطیع و فرماں بردار ہے، تو اپنی نافرمانی اور گناہ کی حالت پر غور کرے۔ اور اگر وہ ذ کر کرنے والا ہے تو اپنی غفلت والی حالت پر غور کرے اور اگر وہ عالم ہے، تو اپنی جہالت کی حالت پر غور کرے اور اگر وہ کسی عارف شیخ کی صحبت میں بیٹھتا ہے تو اپنی گمراہی کی حالت پر غور کرنے اور اگر وہ عارف ہے تو وہ اپنی جہالت کی حالت پر غور کرے۔ اسی طرح ہر نعمت کی ضد کے موجود ہونے کی حالت پر غور کرے۔ جو اس کے اندر اس نعمت کے حاصل ہونے سے پہلے موجود تھی۔ اس طرح غور کرنے سے وہ ان عطا کی ہوئی نعمتوں کی قدر پہچان لے گا۔ پھر ان کا شکر اد کرے گا ۔ تو وہ نعمتیں ہمیشہ اس کو حاصل رہیں گی ۔
لیکن جو شخص نعمتوں کی حالت میں غور و فکر نہیں کرتا ہے ۔ وہ ان کی قدر نہیں پہچان سکتا ہے۔ اس لئے وہ ان کا شکر ادا کرنے سے غافل ہو جاتا ہے ۔ لہذا وہ نعمتیں اس سے اس طرح چھن جاتی ہیں کہ اس کو خبر بھی نہیں ہوتی ہے۔
بعض عارفین نے فرمایا ہے :۔ زبان سے اللہ تعالیٰ کا شکر بجالانا – عاجزی کے طریقے پر نعمت کا اعتراف کرنا ہے اور ہاتھ سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا خلوص کے ساتھ اس کی خدمت میں مشغول ہونا ہے اور قلب سے اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا ۔ احسان کا مشاہدہ کرنا اور حرمت کی حفاظت کرنی ہے۔
حضرت جنید رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :۔ تم اپنے نفس کو نعمت کا اہل نہ سمجھو ۔ اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اس کی نعمت کے ساتھ نہ کرو ۔
اگر تمہارا یہ اعتراض ہو ۔ میں نعمتوں کا شکر کس طرح کر سکتا ہوں جبکہ ان کی تعداد شمار سے باہر ہے۔ تو میرا جواب یہ ہے :۔ ان نعمتوں کے ساتھ قائم ہونا ہی ، ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا اعتراف ہے اور یہ اعتراف ہی شکر ہے ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں