نفوس کے میدان (پچیسواں باب)

نفوس کے میدان کے عنوان سے پچیسویں باب میں  حکمت نمبر 244 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
244) لَوْلا مَيَادِينُ النُّفُوسِ مَا تَحَقَّقَ سَيْرُ السَّائِرِينَ
اگر نفوس کے میدان نہ ہوتے تو سائرین کے سیر نہ واقع ہوتی ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں : میدان: گھوڑا دوڑنے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔ یہاں نفوس کے ساتھ جنگ اور مجاہدہ کے لئے استعارہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ لہذا کبھی نفس سائر پر حملہ کرتا ہے، تو وہ کامیاب ہو جاتا ہے۔ اور کبھی سائر نفس پر حملہ کرتا ہے تو وہ کامیاب ہو جاتا ہے اس مفہوم میں ہمارے شیخ الشیوخ حضرت مجذوب رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ۔
سَایٌسُ مِنَ النَّفْسِ جُهْدَكُ وَ صَبَّحُ وَ مَسِ عَلَيْهَا
لَعَلَّها تَدْخُلُ بِيَدِکَ فَتَعُودُ تَصْطَادَ بِهَا
حضرت شیخ الشیوخ رضی اللہ عنہ نے ان اشعار میں نفس کے مجاہدے کی کیفیت بیان فرمانی ہے ۔ اور تم کو اُس پر غالب ہو نیکی تدبیر بتائی ہے۔ اور یہ اس طرح کہ تم اس پر آہستہ آہستہ جاؤ ۔ لہذا تم پہلے اس کو صرف خاموشی کی تعلیم دو۔ پھر اس کے بعد اُس کو گوشہ نشینی سکھاؤ۔ پھر اس کے بعد تھوڑی تھوڑی خرابی اُس کے سامنے پیش کرو۔ یعنی اس کے سامنے پہلے تھوڑا پیش کرو۔ پھر جب وہ اس سے مانوس ہو جائے تو کچھ اور زیادہ کرو ۔ اسی طرح بڑھاتے رہو۔
حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے :-
أَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ أَدْوَمُهَا وَ إِنْ قَلَّ ) اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام اعمال سے زیادہ پسندیدہ وہ عمل ہے، جو ہمیشہ قائم رہے، اگر چہ کم ہو لہذا تھوڑے عمل کو بے کار نہ سمجھے اور اس عمل کا ورد ترک نہ کر دے۔ جس سے نفس مرجاتا ہے۔ اور میں مجاہدہ کر رہا تھا۔ کہ میں نے ارادہ کیا کہ میں اپنا ورد ترک کر دوں۔ تو مجھ کو کائنات کےہاتف نے آواز دی۔ یہانتک کہ بعض وقت بچوں نے مجھ کو مخاطب کر کے کہا : اے یہودی! جبکہ میں نے اپنا ورد ترک کرنے کا ارادہ کیا۔ اور میں نے کئی مرتبہ جبکہ میں خراب کا استعمال کر رہا تھا۔ سُنا ۔ اپنے آگے بڑھو۔ اور کبھی یہ کہتے ہوئے سنا :- اے پہرے دار ہوشیار ۔ جبکہ حس ظاہر کی کوئی شے مجھ کو چرارہی تھی۔ اسی طرح برابر میں اپنے نفس کے ساتھ کرتا رہا۔ اپنے نفس کے ساتھ میرا مجاہد ہ سیاست اور حکمت کے ساتھ تھا۔
میں نے پہلی مرتبہ نفس کو اتنا ہی بوجھ اٹھانے کی زحمت دی ، جتنا وہ برداشت کر سکتا تھا۔ پھر جب وہ اُس سے مانوس ہو گیا ، تو میں اُس کو بڑھاتا گیا۔ یہانتک کہ اب میں اس کے ساتھ جو چاہتا ہوں کرتا ہوں۔
ایک عارف نے فرمایا ہے :- نفوس پر جب فتح حاصل ہو جاتی ہے، تو سائرین کی سیر ختم ہو تی ہے۔ لہذا اگر وہ نفوس پر فتح حاصل کر لیتے ہیں، تو وہ منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں ۔ اور نفس کی صلاح کے لئے جو سیاست اور تدبیر میں نے بیاں کی ہے، وہ بالکل درست ہے۔
مباحث میں فرمایا ہے :-
وَ احْتَلْ عَلَى النَّفْسِ فَرُبَّ حِيلَةَ انْفَعُ فِي النَّصْرِۃ مَنْ قَبيلة
اور نفس کی اصلاح کے لئے تدبیر اختیار کرو ۔ کیونکہ اکثر اوقات تد بیر، مدد کرنے میں خاندان سےزیادہ مفید ہوتی ہے۔
لیکن اگر پہلے ہی مرتبہ اُس پر اتنا بوجھ ڈالدیا جائے جس کے اٹھانے کی وہ طاقت نہیں رکھتا ہے۔ تو وہ گر جاتا ، اور پست ہمت ہو جاتا ہے۔ اور اکثر اوقات وہ بالکل منحرف ہو جاتا ہے۔ حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے۔
أكَلِّفُوا مِنَ الْعَمَلِ مَا تُطِيقُونَ ، فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَمِلُّ حَتَّى تَمِلُوا تم لوگ اسی قدر عمل کی تکلیف اٹھاؤ، جس قدر برداشت کرنے کی تم طاقت رکھتے ہو ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نہیں تھکے گا۔ لیکن تم تھک جاؤ گے ۔
اور یہ بھی حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے :-
لَا يَكُن أَحَدُكُمْ كَالْمُنبَتْ لَا أَرْضًا قَطَعَ ، وَ لَا ظَهْرًا أَبْقَى تم میں سے کوئی شخص اس سوار کی طرح نہ ہو جس نے نہ کچھ زمین طے کی ، نہ سواری کی پشت کو چھوڑا (یعنی کولہو کے بیل کی طرح چکر لگاتار ہامگر اپنی ہی جگہ پر رہا )
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس حکمت کے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے :-
آدمی دو قسم کے ہوتے ہیں:۔
ایک قسم وہ لوگ ہیں جن کے لئے کوئی سیر نہیں ہے۔ اس لئے کہ ان کی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں ہوتی ہے۔ وہ لوگ شریعت کے ظاہر کے ساتھ ٹھہرے ہوئے ہیں۔ جتنی چیزوں کو شریعت مباح اور جائز قرار دیتی ہے۔ وہ انہیں کو اختیار کرتے ہیں۔ خواہ وہ نفس پر بھاری ہوں یا ہلکی ہوں ۔ بلکہ وہ ہلکی اور آسان چیزوں ہی کو اختیار کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ انہی چیزوں کا ارادہ کرتے ہیں، جن کی شریعت نے اجازت دی ہے۔ اور ان کو آسان کر دیا ہے۔ اس لئے کہ وہ ان کی خواہش کے مطابق ہوتے ہیں۔ لہذا وہ اپنی عادات اور خواہشات میں کچھ تبدیلی نہیں کرتے ہیں ۔ اس طرح ان کی عزت زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ اور ان کا مرتبہ بڑھتارہتا ہے ۔ اور ان کی دنیا ترقی کرتی رہتی ہے۔ اور یہ لوگ عام مسلمان ہیں ۔
دوسری قسم وہ لوگ ہیں، جن کے نفوس اللہ تعالیٰ کی بارگاہ قدس کے مشتاق ہوتے ہیں ۔ اور ان کے اوپر شوق غالب ہوتا ہے۔ لہذاوہ بارگاہ الہٰی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔ اور اپنے نفوس کے مجاہدے اور محاسبے میں مشغول رہتے ہیں۔ اس لئے ہر وہ چیز جو ان کے نفوس پر بھاری ہوتی ہے ، وہ ان کو اسی میں ڈالتے ہیں۔ حالانکہ وہ مرتے ہیں۔ اور ہر وہ شے جوان کے اوپر ہلکی ہوتی ہے ، وہ ان کو اس سے دور رکھتے ہیں۔ حالانکہ وہ روتے ہیں۔ اسی طرح وہ ہمیشہ اپنے نفوس کے ساتھ مجاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ یہانتک کہ وہ فرماں بردار اور نرم ہو جاتے ہیں۔ اب نفوس ان کے ہر ارادے میں ان کی اطاعت کرتے ہیں۔
لہذا مرید کے لئے
پہلا مجاہدہ – دنیا کو ترک کرنا ، یا کم کرنا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ چیز باقی نہ رہے۔ جو اس کو اس کے رب سے غافل کردے ۔
دوسرا مجاہدہ:۔ لوگوں کو ترک کرنا ، اور ان سے بھاگنا ہے۔ اس طرح کہ جن لوگوں کو پہچانتا ہے ان سے اجنبی بن جائے اور جن لوگوں کو نہیں پہچانتا ہے، ان سے اپنا تعارف نہ کرائے ۔
تیسرا مجاہدہ – اپنی قدر و منزلت اور مرتبے کو گرا دینا ہے ۔ یہانتک کہ وہ لوگوں کی نگاہوں گر جائے۔ اور لوگ اس کی نگاہوں سے گر جائیں۔
چوتھا مجاہدہ – قلب اور جسم دونوں کے اعتبار سے ذلت و انکساری اختیار کرنا ہے۔ مثلا ننگے پاؤں چلنا ، اور ننگے سر رہنا۔ وغیرہ
اور نفس جب ذلت اور تواضع اور گمنامی اور فقر کے ساتھ ثابت قدمی سے قائم ہو جاتا ہے۔ اوران میں سکون حاصل کرتا ، اور ان میں شیرینی محسوس کرتا ہے۔ تو مرید نفس پر غالب ہو جاتا ہے۔ اور اس کا مالک ہو جاتا ہے۔ بلکہ کل کائنات کا مالک ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ ایک عارف نے فرمایا ہے۔
وَ نَفْسِكَ تَحْوِى بِالْحَقِيقَةِ كُلَّهَا أَشَرْتُ بِجدِ الْقَوْلِ مَا أَنَا خَادِعُ
اور تم اپنے نفس کے ساتھ کل حقیقتوں پر حاوی ہو جاتے ہو۔ میں نے گفتگو کے پیرائے میں اشارہ کردیا ہے۔ اور میں مکار نہیں ہوں ۔
لہذا جو شخص اپنے نفس کا مالک ہو جاتا ہے، وہ کل موجود کا مالک ہو جاتا ہے۔
لہذا اگران میدانوں میں نفوس کا مجاہدہ ، اور ان کے ساتھ جنگ نہ ہوتی تو سائرین کی سیر واقع نہ ہوتی ۔ اس لئے کہ سائر (سیر کرنے والا ) قاعد (بیٹھنے والے ) سے صرف خواہش کی مخالفت اورعادات کے ختم کرنے ہی سے ممتاز ہوتا ہے۔ لہذا جس شخص نے اپنے نفس کی عادات کو ختم کر دیا۔ یہانتک کہ اس کے نزدیک عزت وذلت ا اور فقر و غنا، اور ان کے علاوہ وہ سب اشیاء برابر ہوئیں ، جو نفوس کو نا گوار اور نا پسند ہوتی ہیں ۔ تو اس کی سیر ثابت ہو گئی ۔ اور وہ اللہ تعالیٰ تک پہنچ گیا۔ اور جو شخص اپنے نفس کو ایک بال کے برابر بدلنے کی قدرت نہیں رکھتا ہے وہ نہ اللہ تعالیٰ کی طرف سیر کر سکتا ہے۔ نہ اس تک پہنچ سکتا ہے۔
حضرت ابو عثمان حیری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ۔ آدمی اس وقت تک کامل نہیں ہوتا جب تک اس کا قلب چار چیزوں منع ، اور عطا ، اور عزت اور ذلت میں برابر نہ ہو جائے ۔ یعنی اس کا حال یہ ہو کہ اس کے نزدیک ذلت عزت کی طرح، اور محروم کرنا ، عطا کرنے کی طرح ہو جائے۔ وہ ذلت اور محرومی سے کوئی کمی نہ محسوس کرے۔
حضرت محمد بن خفیف نے فرمایا ہے :۔ ہمارے پاس ہمارے ساتھیوں میں سے ایک صاحب آئے۔ اور کہا – میں بیمار ہو گیا ہوں۔ اور ان کو پیٹ کی بیماری کی شکایت تھی ۔ میں ان کی خدمت کر رہا تھا ۔ اور ساری رات لگن لے کر ان کے پاس بیٹھا رہتا تھا۔ اور جب وہ پاخانہ کرتے تو میں اسے لے جا کر پھینکتا تھا۔ حضرت محمد بن خفیف نے بیان فرمایا:- ایک مرتبہ مجھے نیند کی جھپکی آگئی ۔ (یعنی میں اونگھ گیا) تو انہوں نے مجھ سے فرمایا تمہارے اوپر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو ۔ تم سور ہے ہو ۔ حضرت محمد بن خفیف سے دریافت کیا گیا:- جب اس نے کہا:۔ تمہارے اوپر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔ اس وقت آپ نے اپنے نفس کو کیسا پایا۔ انہوں نے جواب دیا :۔مجھ کو ایسا معلوم ہوا کہ وہ کہہ رہے ہیں : اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر رحمت نازل کرے۔
حکایت ہے کہ حضرت ابراہیم بن ادہم نے فرمایا ہے:۔ میں مسلمان ہونے کی حالت میں صرف تین مرتبہ خوش ہوا۔
ایک مرتبہ میں دریائی جہاز میں سوار ہو کر سفر کر رہا تھا۔ اس میں ایک شخص قصہ بیان کرتا تھا اور لوگ ہنس رہے تھے ، دو بیان کر رہا تھا ۔ میں نے ایک مرتبہ ترکوں کی جنگ میں ایک گدھا دیکھا۔پھر کہتا تھا ۔ اس طرح ۔ اور یہ کہ کر میری داڑھی پکڑتا تھا ۔ اور اپنا ہاتھ میرے حلق کی طرف بڑھاتا تھا۔ لوگ یہ دیکھ کر ہنستے تھے ۔ اور اس جہاز میں اس کے خیال میں مجھ سے زیادہ چھوٹا اور حقیر کوئی دوسرا شخص نہیں تھا۔ اس کی اس حرکت سے میں بہت خوش ہوا۔ دوسری مرتبہ : میں بیٹھا ہوا تھا، کہ ایک شخص آیا اورمجھ کو طمانچہ مارا۔
تیسری مرتبہ میں بیٹھا ہوا تھا، کہ ایک شخص آیا، اور میرے اوپر پیشاب کر دیا۔
ایک عارف نے فرمایا ہے :۔ قلب سے خواہش کے دور ہونے کی حقیقت ۔ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی خواہش ہر وقت اور ہر حالت میں غیر اختیاری طور پر ہوتا ہے۔ لہذ امر یدجب اپنے اندر یہ علامات پائے ، تو وہ سمجھ لے کہ وہ اپنے جنس کے عالم سے نکل گیا اور اللہ تعالیٰ کی بار گاہ اقدس میں آ گیا ہے۔ اور اب وہ شاعر کے اس قول کی طرح ہو گیا ہے
لَكَ الدَّهْرُ طَوعاً وَ الْآنَامُ عَبِيدُ فَعِشْ كُلُّ يَوْمٍ مِنْ أَيَّامِكَ عِيدُ
زمانہ تمہارے موافق ، اور مخلوق غلام ہے۔ لہذا تم اس طرح زندگی گذارو کہ تمہاری زندگی کا ہر دن عید کا دن ہے۔
اور جیسا کہ سیدی حضرت ابوالعباس بن عریف نے اس مفہوم میں فرمایا ہے :۔
بَدَا لَكَ سِر ٌطَالَ عَنكَ اکْتَتَامُهُ وَ لَاحَ صَبَاحٌ كُنتَ أنتَ ظَلامُہُ
تمہارے اوپر وہ راز ظاہر ہوا، جو مدت دراز تک تم سے پوشیدہ تھا۔ اور وہ صبح نمودار ہوئی ، جس کی تاریکی تم تھے۔
فَانتَ حِجَابُ الْقَلْبِ عَنْ سِر غَيْبِهِ وَلَو لَاكَ لَمْ يُطْبَعُ عَلَيْهِ خِتَامُهُ
قلب کا حجاب اس کے غیب کے راز سے تم ہو۔ اور اگر تم نہ ہوتے تو غیب کے راز پر اس کی مہر لگتی
فَإِن غِبْتَ عَنْهُ حَلَّ فِيهِ وَطَنَّبَتْ عَلى مَرْكَبِ الْكَشْفِ الْمَصون خيامُہُ
لہذا اگر قلب سے تم غائب ہو جاؤ۔ تو اس میں کشف کی سواری پر مضبوط محملوں میں محفوظ حالت میں راز جلوہ گر ہوگا ۔
وَجَاءَ حَدِيث لَا يُمَلُّ سَمَاعُہُ شَهِيُّ إِلَيْنَا نَثْرُهُ وَنِظَامُهُ
اور ایسی بات آئے گی، جس کے سننے سے آدمی اکتاتا نہیں ہے اور اس کی نثر اور نظم دونوں ہمیں پسند ہیں۔
إِذَا سَمِعْتُهُ النَّفْسُ طَابٌ نَعِيمُها وَ زَالَ عَنِ الْقَلْبِ الْمُعَنى غِرَامُهُ
نفس جب اس کو سنتا ہے، تو اس کی نعمت مزے دار ہو جاتی ہے۔ اور پریشان قلب سے اس کی پریشانی دور ہو جاتی ہے ۔
اور اگر مرید اپنے اندر یہ مذ کورہ بالا علامات نہ پائے تو اس کو چاہیئے کہ برابر اپنی سیر میں مشغول رہے۔ اور گھبراہٹ اورغفلت و کاہلی میں نہ مبتلا ہو۔ کیونکہ جو شخص اپنے مقصد کو پہچان لیتا ہے۔ اس کے لئے دوسری اشیاء کا چھوڑنا آسان ہوتا ہے۔ اور یہ کام صرف ان لوگوں کے لئے ہے، جن کو اللہ تعالیٰ خوش نصیبی سے شیخ تربیت تک پہنچا دیتا ہے لیکن جو شخص شیخ تربیت تک نہیں پہنچا، وہ بھی سیر کی خواہش نہ کرے۔ اگر چہ اس نے کل علوم حاصل کر لئے ہوں اور تمام گروہوں کی صحبت اختیار کی ہو۔ اور سیر ذوق کا معاملہ ہے۔ میں اس میں کسی کو فرق نہیں کر سکتا۔
میں نے بہت نمازیں پڑھیں ، بہت روزے رکھے گوشہ نشینی بھی زیادہ اختیار کی ، اور ذکر بھی بکثرت کیا ۔ اور قرآن مجید کی تلاوت بھی کثرت سے کی ۔ لیکن اللہ کی قسم ، ہم کو اپنے قلوب کی معرفت نہیں حاصل ہوئی۔ نہ ہم حقیقت کی شیرینی چکھ سکے۔ یہاں تک کہ ہم نے اہل حقیقت اللہ والوں کی صحبت اختیار کی تو انہوں نے ہم کو تکلیف سے نکال کر آرام میں ، اور آمیزش سے نکال کر صفائی میں ، اور انکار سے نکال کر معرفت میں پہنچایا۔
اس پر اگر تم یہ اعتراض کرو ۔ حضرت حضرمی نے فرمایا ہے :۔ اس زمانہ میں شیخ کامل کی تربیت ختم ہو چکی ہے۔ کیونکہ شیخ کامل کا وجود باقی نہیں ہے ۔ اور ہمت اور حال کے سوا کچھ باقی نہیں ہے لہذا تم صرف کتاب وسنت پر عمل کرنا ، اپنے اوپر لازم کرو ۔
تو میرا جواب یہ ہے ۔ حضرت حضرمی نے جوفر مایا ہے۔ اس سے ان کا مقصد یہ نہیں ہے ۔ کی شیخ تربیت کا وجود ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا ہے ۔ ماشاللہ ، ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا کہ حضرت حضرمی اللہ تعالیٰ پر حکم قائم کریں۔ اور اس کی قدرت کو عاجز سمجھیں ۔ بلکہ ان کے اس طرح کہنے کا مقصد یہ ہے۔ ان کے زمانے میں بہت سے جھوٹادعوی کرنے والے پیدا ہو گئے تھے ۔ لہذا انہوں نے اپنے زمانے کے لوگوں کو ان جھوٹے مدعیوں سے بچانے کے لئے ایسا فرمایا ہے ۔ ورنہ حضرت حضرمی اورحضرت زروق رضی اللہ عنہا کی معرفت ہی اس مقصد کی نفی کرتی ہے۔ اور بالفرض ، اگر ان دونوں حضرات کے قول کا یہی مقصد ہو۔ تو وہ دونوں حضرات معصوم نہیں ہیں۔ ہر شخص کا کلام ردبھی کیا جاسکتا ہے۔ اور قبول بھی کیا جا سکتا ہے۔ صرف صاحب رسالت کا کلام ایسا ہے، جس کا قبول کرنا ہر حال میں لازمی ہے۔ اس کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اور حضرت حضرمی کے بعد بہت سے اہل اللہ ہوئے ہیں جو حال اور کلام اور ہمت کے اعتبار سے تربیت نبویہ کے اہل میں سے تھے ۔ لہذا ان کا نہ ہونا ممکن نہیں ہے۔ اور ہمارے اس زمانے میں بھی ایسے حضرات موجود ہیں، جو تربیت کے اہل ہیں۔ اور وہ اس طرح مشہور ہیں جیسے پہاڑ کی چوٹی پر آگ بہت دور تک دکھائی دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے وسیلے سے بہت سے لوگوں کو ہدایت عطا فرمائی ۔ اور ان کی تربیت سے اتنے لوگ اولیاء اللہ ہوئے جن کو صرف وہی لوگ جانتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے ان کی معرفت عطا کر کے احسان فرمایا ہے۔ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے لطائف المنن میں فرمایا ہے :- پیروی اس ولی کی ہوتی ہے، جس کی طرف اللہ تعالیٰ تمہاری رہنمائی فرمائے ۔ اور تم کو اس کی اس خصوصیت سے آگاہ فرمائے ، جو اللہ تعالیٰ نے اس کو سپرد فرمائی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کی بشریت کا مشاہدہ تم سے پوشیدہ کر دیتا ہے۔ اور اس کی خصوصیت کے وجود سے تم کو آگاہ کر دیتا ہے۔ لہذا تم اس کو اپنا رہنما بنا لیتے ہو۔ پھر وہ تم کو رشد و ہدایت کی راہ پر چلاتا ہے ۔ اور تم کو تمہارے نفس کی رعونتوں ، اوردفینوں ، اور پوشیدگیوں ، اور باریکیوں سے آگاہ کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ جمع کی طرف تمہاری رہنمائی کرتا ہے۔ اور تم کو ماسوی اللہ سے بھاگنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اور وہ تمہارے راستے میں تمہارے ساتھ چلتا ہے۔ یہا ں تک کہ تم اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاؤ۔
وہ تم کو تمہارے نفس کی برائی سے آگاہ کراتا ہے۔ اور تم کو اللہ تعالیٰ کے اس احسان کی پہچان کراتا ہے، جو اس نے تمہارے ساتھ کیا ہے ۔ لہذا نفس کی برائی سے تمہاری آگاہی تم کو نفس سے بھاگنے ، اور اس کی طرف توجہ کرنے کا فا ئدہ پہنچاتی ہے۔ اور تمہارے اوپر اللہ تعالیٰ کے احسان کی معرفت تم کو اس کی طرف سبقت کرنے ، اور اس کے شکر کے ساتھ قائم ہونے ، اور ہمیشہ اس کے سامنے اوقات گذارنے کا فائدہ پہنچاتی ہے۔
پھر اگر تم یہ کہو ۔ وہ حضرات کہاں ہیں جن کے اوصاف یہ ہیں جو آپ نے بیان فرمائے ہیں؟ آپ نے مغرب کے عنقا سے بھی زیادہ کم یاب شے کی طرف میری رہنمائی کی ہے۔ تو تم یہ معلوم کرو کہ تم کو رہنمائی کرنے والوں کی تلاش کی ضرورت نہیں ہے ۔ بلکہ تم کو ان کی طلب میں سچائی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ تم سچی طلب پیدا کرو، تو تم کو مرشد مل جائے گا ۔ اور تم اسے اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید میں پاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :-
أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ کون ہے جو پریشان ومحتاج کی دعا قبول کرتا ہے، جب وہ اس سے دعا کرتا ہے
اور دوسری جگہ فرمایا: فَلَو صَدَقُوا اللَّهَ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ پس اگر وہ لوگ اللہ تعالیٰ سے سچائی اختیار کرتے تو یہ ان کے لئے بہتر ہوتا ۔
لہذا اگر تم اس شیخ کی تلاش میں جوتم کو اللہ تعالیٰ تک پہنچا دے، اس طرح پریشان اور حاجتمند ہوتے ، جس طرح پیاسا پانی کے لئے ، اور خوف زدہ امن کے لئے پریشان اور حاجتمند ہوتا ہے تو تم اس کو اپنی طلب سے زیادہ اپنے قریب پاتے ۔ اور اگر تم اللہ تعالیٰ کو پانے کے لئے اس طرح حاجتمند اور پریشان ہوتے ، جس طرح ماں اپنے کھوئے ہوئے بچے کو پانے کے لئے حاجتمند اور پریشان ہوتی ہے تو تم اللہ تعالیٰ کو اپنے سے قریب ، اور اپنے لئے جواب دینے والا پاتے ۔ اور اللہ تعالیٰ تک پہنچنا اپنے لئے آسان پاتے ، اور اس کے آسان کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ تمہارےاو پر توجہ کرتا۔
حضرت شیخ ابن عباد نے فرمایا ہے ۔ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے کلام میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ شیخ تربیت کاحاصل ہونا مرید کے لئے اللہ تعالیٰ کی بخششوں اورہدیوں میں سے ہے جبکہ وہ اپنی ارادت میں سچا ہو اور اپنے مولائے حقیقی کی طلب میں اپنی کوشش صرف کر رہا ہو۔ نہ کہ اس شخص کے گمان کے مطابق جس کو یہ علم ہی نہیں ہے، کہ مولائے حقیقی کی طلب میں سچائی اور کوشش شرط ہے۔ پھر حضرت ابن عباد نے فرمایا:- اور اس وقت اللہ تعالیٰ اس کو اپنے ساتھ ادب استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ جب وہ اس کو اس کے اعلے مرتبے اور بلند درجے کا مشاہدہ کرائے ۔
نیز حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے لطائف المنن میں فرمایا ہے ۔ تمہارا شیخ وہ نہیں ہے جس سے تم نے سنا۔ بلکہ تمہارا شیخ وہ ہے جس سے تم نے حاصل کیا۔ تمہارا شیخ وہ نہیں ہے جس کا کلام تم کو اپنی طرف متوجہ کر لے۔ بلکہ تمہارا شیخ وہ ہے جس کا اشارہ تمہارے اندر سرایت کر جائے۔
تمہارا شیخ وہ نہیں ہے جوتم کو دروازے کی طرف بلائے ۔ بلکہ تمہارا شیخ وہ ہے جو تمہارے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان حجاب دور کر دے۔
تمہارا شیخ وہ نہیں ہے جس کا قول تم کو متوجہ کر دے ۔ بلکہ تمہارا شیخ وہ ہے جس کا حال تم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سیر کرا دے۔
تمہارا شیخ وہی ہے، جو تم کو خواہش کے قید خانے سے نکال کر مولائے حقیقی کی بارگاہ میں پہنچادے ۔ تمہارا شیخ وہی ہے ، جو ہمیشہ تمہارے قلب کے آئینے کو صاف کر کے چمکا تار ہے یہانتک کہ اس میں تمہارے رب تعالیٰ کے انوار جلوہ گر ہو جائیں ۔ وہ تم کو اللہ تعالیٰ کی طرف کوچ کرائے ، تو تم اس کی طرف کوچ کر جاؤ۔ وہ تم کو سیر کرائے ، یہانتک کہ تم اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچ جاؤ ۔ وہ ہمیشہ تمہارے سامنے رہے، یہانتک کہ وہ تم کو اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کر دے پھر وہ تم کو بارگاہ کے نور میں پہنچا کر فرمائے :۔ لو اب تم ہو، اور تمہارا رب ہے


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں