پوشیدہ راز بعض اوقات وبال (سترھواں باب)

پوشیدہ راز بعض اوقات وبال کے عنوان سے سترھویں باب میں  حکمت نمبر 158 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مکاشفہ :- مرید کے حق میں وبال ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنے اس قول میں واضح فرمایا ہے :-
158) مَنِ اطَّلَعَ عَلَى أَسْرَارِ العِبَادِ ، وَلَمْ يَتَخَلَّقْ بِالرَّحْمَةِ الإِلَهِيَّةِ كَانَ كَانَ إِطْلَاعُهُ فِتْنَةٌ عَلَيْهِ ، وَسَبَبا لِجَرِّ الْوَبَالِ عَلَيْهِ.
جو شخص بندوں کے پوشیدہ رازوں سے واقف ہو جاتا ہے۔ لیکن رحمت الہی سے موصوف نہیں ہوتا ہے۔ تو اس کا واقف ہونا، اس کے لیئے فتنہ اور اس کےاوپر مصیبت لانے کا سبب بن جاتا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ شہود میں ثابت و قائم ہونے اور بادشاہ معبود اللہ تعالیٰ کے اخلاق سےموصوف ہونے سے پہلے، بندوں کے پوشیدہ رازوں سے واقف ہونا ، ایک بڑا فتنہ اور بلا و مصیبت ہے۔
اور یہ اس وجہ سے ہے۔ کہ معرفت میں قائم ہونے سے آگاہی کی حالت حاصل ہو جانے سے مرید کا قلب اس میں مشغول ہو جاتا ہے اور اس کا خیال اور اخلاص پریشان ہو جاتا ہے۔ لہذا اس کو شہود سے روک دیتا ہے اور بادشا ہ ودود اللہ تعالیٰ کی معرفت کو مضبوط ہونے سے باز رکھتا ہے۔ نیز یہ کہ جب تک نفس زندہ رہتا ہے۔ اور اس سے فنا نہیں ہوتا ہے۔ تو وہ اس آگاہی کی وجہ سے لوگوں سے اپنے افضل ہونے کا یقین کر لیتا ہے۔ اس لئے اس کے اندر تکبر اور عجب ( خودپسندی ) پیدا ہو جاتا ہے۔ اور یہ دونوں تمام گناہوں کی جڑ ہیں۔ لہذا ایسی حالت میں بندوں کے رازوں سے اس کی آگاہی ، اس کی طرف مصیبت یعنی عذاب کے لانے کا سبب بن جاتی ہے۔ اور وہ عذاب :- تکبر اور لوگوں سے اپنے کو افضل سمجھنا ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ سے دور ہونے کا سبب بن جاتا ہے۔ بخلاف اس کے کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت میں مضبوطی سے قائم ہو جاتا ہے۔ اوراس کے اخلاق سے موصوف ہو جاتا ہے۔ اور اس کی صفات اور اسماء کی حقیقتوں میں ثابت ہو جاتا ہے۔ تو وہ رحمن کے وصف سے موصوف ہوتا ہے۔ اس لئے جب بندوں کے گنا ہوں اور ان کے عیوب سے آگاہ ہوتا ہے۔ تو وہ ان کے اوپر رحم کرتا ہے۔ اور ان کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ اور ان کی نافرمانیوں کو برداشت کرتا ہے۔
حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے:۔
‌الْخَلْقُ ‌عِيَالُ اللَّهِ ، وَأَحَبُّهُمْ إِلَى اللَّهِ أَنْفَعُهُمْ لعيالهمخلوق اللہ تعالیٰ کا اہل وعیال ہے اور تم میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے قریب وہ ہے ۔ جو اس کے اہل وعیال کے ساتھ زیادہ رحم کرنے والا ہے۔
نیز حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا:-
الرَّاحِمُونَ يَرْحَمُهُمُ الرَّحْمَنُ ، أَرْحَمُوا أَهْلَ الْأَرْضِ يَرْحَمُكُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ رحم کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ رحم کرتا ہے۔ تم لوگ زمین والوں رحم کرو تمہارے اوپر آسمان والا اللہ تعالیٰ ) رحم کرے گا ۔
اور اشارات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیان کیا گیا ہے :- جب میں نے تم کو اپنا خلیفہ بنایا۔ تو میں نے رحمانیت کا ایک حصہ تم کو دیا لہذا تم لوگوں پر زیادہ مہربان ہو گئے۔ روایت بیان کی گئی ہے :۔ حضرت سید نا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے متعلق فرمایا:۔ میں مخلوق میں سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہوں : تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بلندی پر اٹھایا اور زمین والوں کے حالات ان کے سامنے ظاہر کر دیا۔ جب انہوں نے لوگوں کے اعمال و افعال کو دیکھا ۔ تو انہوں نے کہا: اے میرے رب ! تو ان لوگوں کو تباہ کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو جواب دیا: اے ابراہیم میں اپنے بندوں پر تم سے زیادہ مہربان ہوں۔ میں ان کو اس لئے تباہ نہیں کرتا ہوں ) کہ ممکن ہے۔ یہ لوگ توبہ کر لیں ۔ اور ( میری طرف رجوع کرلیں ۔
بعض تفسیر کی کتابوں میں یہ روایت ہے :۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہر رات آسمان پر جانے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرتے تھے ۔ لہذا ایک رات وہ آسمان پر لے جائےگئے ۔ جیسااللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :- وَكَذَٰلِكَ ‌نُرِيٓ إِبۡرَٰهِيمَ مَلَكُوتَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِ اور اسی طرح ہم نے ابراہیم (علیہ السلام ) کو آسمانوں اور زمین کا ملکوت دکھایا۔
تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک شخص کو کبیرہ گناہ کرتے دیکھا تو حضرت نے بددعا فرمائی:
اللَّهُمَّ اهْلِكُهُ يَا كُل رِزْلكَ وَ يَمْشِي عَلَى أَرْضِكَ وَ يُخَالِفُ امْرَكَ اے اللہ اس کو ہلاک کر دے۔ یہ تیری دی ہوئی روزی کھاتا ہے۔ اور تیری زمین پر چلتا ہے اور تیرے حکم کے خلاف عمل کرتا ہے۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے اس کو ہلاک کر دیا پھر انہوں نے دوسرے شخص کو بھی ایسا ہی گناہ کرتے دیکھا۔ اس کے لئے بھی یہی دعا فرمائی :-
اے اللہ اس کو ہلاک کر دے۔ تو غیب سے یہ آواز آئی:- میرے بندوں کو چھوڑ دو۔ میں نے برابران کو گناہ کرتے دیکھا ہے۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے :- اللہ تعالیٰ نے اُن کی طرف وحی فرمائی :-
اے ابراہیم مخلوق کے لئے تمہاری رحمت کہاں ہے؟ میں اپنے بندوں پر تم سے زیادہ مہربان ہوں ۔ یا تو یہ لوگ تو بہ کریں گے۔ تو میں ان کے تو بہ کو قبول کر کے ان کی طرف متوجہ ہو جاؤں گا اور یا تو ان کے پشت سے ایسے لوگوں کو پیدا کروں گا۔ جو میری تسبیح و تقدیس بیان کریں گے ۔ اور یا تو وہ میری مشیت کے مطابق اٹھالئے جائیں گے ۔ پھر مجھے اختیار ہے۔ کہ میں انہیں معاف کر دوں ، یاسزادوں۔
اے ابراہیم اتم اپنی بددعا کے سلسلے میں اپنے گناہ کا کفارہ خون کی قربانی دے کر ادا کرو۔ لہذا حضرت ابراھیم علیہ السلام نے ایک اونٹ کی قربانی کی۔ پھر دوسری رات میں غیب سے آواز آئی: اپنے گناہ کا کفارہ خون کی قربانی سے ادا کرو۔ لہذا انہوں نے ایک گائے ذبح کی ۔ پھر تیسری رات میں یہی آواز آئی:۔ تم اپنے گناہ کے کفارے میں قربانی کرو۔ لہذا انہوں نے ایک بکری ذبح کی۔ پھر چوتھی رات میں بھی یہی کہا گیا :- قربانی کرو۔ لہذا جتنے جانوران کے پاس باقی بچے تھے۔ سب کو اللہ تعالیٰ کے لئے قربان کر دیا ۔ پھر پانچویں رات میں بھی ان سے یہی کہا گیا ۔ قربانی کرو۔ تو حضرت ابراہیم نے کہا:- اے میرے رب ! اب تو میرے پاس کچھ نہیں باقی رہا۔ تو کہا گیا:- اپنے بیٹے کو ذبح کر کے اپنے گناہ کا کفارہ ادا کرو۔ کیونکہ تم نے گناہ گاروں کے لئے بددعا کی۔ تو وہ ہلاک ہو گئے ۔ پھر جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے تیار ہوئے۔ اور اپنے ہاتھ میں چھری لی ۔ تو کہا، اے میرے اللہ ! یہ میرا بیٹا ہے اور یہ میرا لخت جگر ہے
اور یہ سب لوگوں سے زیادہ مجھ کو پیارا ہے۔ تو حضرت ابراہیم نے غیبی آواز سنی :۔ کیا تم کو وہ رات یاد نہیں ہے۔ جس رات میں تم نے میرے بندوں کے ہلاک کرنے کی بددعا کی؟ یا کیا تم کو یہ معلوم نہیں ہے۔ کہ میں اپنے بندوں کے لئے ویسے ہی رحیم ہوں۔ جیسے تم اپنے بیٹے کے لئے شفیق ہو۔ تو جس طرح تم نے میرے بندوں کے ہلاک کرنے کے لئے دعا کی ۔ اسی طرح میں نے تمہارے بیٹے کے ذبح کرنے کے لئے تم کو حکم دیا۔ خون کا بدلہ خون ہے۔ اور ابتدا کرنے والا ،بڑا ظالم ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں