خاص بخششیں (باب ہشتم)

خاص بخششیں کے عنوان سے  باب  ہشتم میں  حکمت نمبر70 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اس کی طرف اشارہ فرمایا:۔
70) مَنْ رَأَيْتَهُ مُجِيبًا عَنْ كُلِّ مَا سُئِلَ ، وَمُعَبِّرًا عَنْ كُلِّ مَا شَهِدَ ، وَذَاكِرًا كُلَّ مَا عَلِمَ ، فَاسْتَدِلَّ بِذَلِكَ عَلَى وُجُودِ جَهْلِهِ .
جب تم کسی شخص کو دیکھو ۔ کہ وہ ہر سوال کا جواب دیتا ہے۔ اور ہر مشاہد ے کو بیان کرتا ہے۔ اور جو علم اس کے پاس ہے۔ اس کا ذکر کرتا ہے تو تم اس کواس کے جہالت کی دلیل سمجھو۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: اس کے ہر سوال کا جواب دینے والا ہونے میں، اس کی جہالت کی وجہ یہ ہےکہ اس کے اس حال سے اس کا بہت بڑا عالم ہونا معلوم ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔ (وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلاً) اور تم کو علم سے تھوڑادیا گیا ہے۔‘ تو اس سے بڑی جہالت کیا ہوسکتی ہے؟ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کلام سے اختلاف کرتا ہے۔ نیز یہ کہ اس میں تکلف بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: (قُلْ لا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً وَمَا آنَا مِنَ الْمُتكَلفِينَ ) آپ فرما دیجئے ! میں اس پر تم لوگوں سے کوئی اجر نہیں مانگتا ہوں۔ اور میں تکلف کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔
حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: (آنا واتقياء أُمَّتِي بُرَاء مِنَ التَّكَلفِ ) میں اور میری امت کے متقین تکلف سے بری ہیں۔
اور تکلف کرنے والا بناوٹ اور نمائش سے خالی نہیں ہوتا ہے۔ اور یہ جاہل باللہ کی شان ہے۔ اس لئے کہ اگر وہ عالم باللہ ہوتا تو اس کے علم کو کافی سمجھتا۔ اور اپنی قدر پہچانتا۔ بعض اخبار میں وارد ہے:۔ عَاشَ مَنْ عَرَفَ قَدْرَهُ جس شخص نے اپنی قدر پہچانی۔ اس نے راحت حاصل کی۔
بعض عارفین سے علم نافع کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: علم نافع :۔ یہ ہے کہ تم اپنی قدرت و منزلت کو پہچانو ۔ اور اپنی حد سے آگے نہ بڑھو۔ بعض محققین نے فرمایا ہے:۔ جب عالم نے کہہ دیا: میں نہیں جانتا ہوں تو اس کا یہ کلام درست ہوا۔
احیاء العلوم میں حضرت امام غزالی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔ سلف صالحین ، ایسے تھے ۔ کہ جب ان سے کوئی شخص کوئی مسئلہ دریافت کرتا تو وہ اس کو دوسرے کے پاس بھیج دیتے ۔ اور دوسرے بزرگ، تیسرے کے پاس۔ اور تیسرے، چوتھے کے پاس۔ اس طرح وہ سوال کرنے والا ، پھر پہلے ہی کے پاس پہنچتا۔ بعض محققین ایسے تھے کہ جب ان سے کوئی مسئلہ پوچھا جاتا۔ تو سائل سے فرماتے تم یہ مسئلہ لے کر قاضی کے پاس جاؤ۔ اور اس کے گلے میں باندھو ۔ یعنی اس کے حوالہ کرو۔
حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ سے بتیس مسئلے دریافت کئے گئے تو انہوں نے صرف تین کاجواب دیا:۔ باقی کے لئے فرمایا: میں نہیں جانتا ہوتو سائل نے ان سے پو چھا لوگوں سے ہم کیا کہیں گے؟ امام نے فرمایا: لوگوں سے تم کہنا: مالک نے کہا ہے: میں نہیں جانتا۔ نیز ہر سائل کے سوال کا جواب دینا، اس وجہ سے بھی جہالت اور نقصان دہ ہے۔ کہ کبھی سائل عیب جوئی ، اور نکتہ چینی کے لئے سوال کرتا ہے۔ اور وہ جواب کا مستحق نہیں ہوتا اور کبھی وہ مسئلہ جس کے متعلق وہ پوچھتا ہے اس کے لائق نہیں ہوتا ہے کیونکہ وہ اس کو سمجھ نہیں سکتا اور اس کی معرفت کی طاقت نہیں رکھتا ہے ۔ تو اس کاجواب اس کو حیرت یا انکار میں مبتلا کرے گی ۔
حضرت نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے:۔
لَا تُؤْتُوا الْحِكْمَةَ غَيْرَ أَهْلِهَا فَتَظْلِمُوهَا، وَلَا تَمْنَعُوهَا أَهْلَهَا فَتَظْلِمُوهُمْ تم لوگ نا اہل کو حکمت نہ بتاؤ ۔ کیونکہ اس طرح تم حکمت پر ظلم کرو گے ۔ اور حکمت کو اس کے اہل سے نہ روکو۔ کیونکہ ایسا کر کے تم اس کے اہل پر ظلم کرو گے ۔
اور اس کے بارے ایک شاعر کےبہت خوب اشعار ہیں:
سَاكُتُمُ عِلْمِي عَنْ ذَوى الْجَهْلِ طَاقتِي وَلَاا نْثُرُ الدُّرَ النَّفِيسَ عَلَى البُهُمِ
میں اپنے علم کو اپنی طاقت بھر جاہلوں سے چھپاؤں گا ۔ اور قیمتی موتی جانوروں پر نہ بکھیر وں گا۔
فَإِنْ قَدَّرَ اللهُ الْكَرِيمُ بِلُطْفِهِ وَلَا قَيْتُ أَهْلَا لِلْعُلُومِ وَلِلْحِكم
پس اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم سے مقدر کیا ۔ اور علوم د حکمتوں کے اہل سے میری ملاقات ہوئی۔
بَذلْتُ عُلُومِي وَاسْتَنفَدْتُ عُلُومَهُمْ وَإِلَّا فَمَخْزُونَ لَدَيَّ وَ مُكْتَتَم
تو میں اپنے علوم کو خرچ کروں گا۔ اور ان کے علوم سے فائدہ اٹھاؤں گا۔ درنہ وہ علوم میرے ہی پاس پوشیدہ رہیں گے۔
فَمَنْ مَّنَحَ الْجُهَّالَ عِلْمَا أَضَاعَہ وَمَنْ مَنَعَ الْمُسْتَوْجِبينَ فَقَدْ ظَلَمَ
تو جس نے نا اہل جاہلوں کو علم سکھایا ۔ اس نے اس کو ضائع کیا۔ اور جس نے مستحقین کو محروم رکھا۔ اس نے ظلم کیا ۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ہے : ۔ آدمیوں سے ان کی سمجھ کے مطابق بات کرو ۔ کیا تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ وہ نا سمجھی سے اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلا ئیں ۔
ایک ہی سوال کے مختلف جواب حضرت جنید رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا ۔ آپ سے دو شخص ایک ہی سوال پوچھتے ہیں ۔ توآپ ایک شخص کو جو جواب دیتے ہیں۔ دوسرے کو اس کے خلاف جواب دیتے ہیں۔ تو فرمایا:۔ جواب سائل کی سمجھ کے مطابق ہوتا ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے :۔ (اُمِرْنَا أَنْ تُخَاطِبَ النَّاسَ عَلَى قَدْرٍ عُقُولِهِمْ) ہم کو حکم دیا گیا ہے۔ کہ ہم لوگوں سے ان کی عقل وسمجھ کے مطابق خطاب کریں۔ ایک شخص نے ایک عالم سے کچھ سوال کیا۔ عالم نے جواب نہیں دیا۔ تو اس شخص نے کہا۔ کیا آپ کو یہ معلوم نہیں ہے کہ حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے (مَنْ كَتَم عِلْمًا نَافِعَا اُلْجِمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِلجَامِ مِّنَ النَّارِ) جو شخص علم نافع کو چھپائے گا۔ قیامت کے دن اس کو آگ کا لگام پہنایا جائے گا۔ عالم نے اس سے کہا تم لگام کو چھوڑ دو۔ اور اپنا راستہ پکڑو۔ اگر میرے پاس اس کا مستحق کوئی شخص آئے گا۔ اور میں اس کو چھپاؤں گا تو وہ مجھے کو دو لگام پہنائے گا۔
لیکن جو کچھ کرامات میں سے مشاہدہ کیا، اور جن مقامات پر پہنچا، اور انوار و اسرار سے جو کچھ مزہ چکھا۔ اس کے بیان کرنے میں اس کی جہالت کی وجہ یہ ہے کہ یہ ا مور، باطنی ذوق اور ربانی اسرار ہیں۔ اس کو ذوق اور اسرار والے ہی سمجھتے ہیں۔ تو اس کا بیان ان لوگوں سے کرنا جو نہ اس کو سمجھتے ہیں، نہ اس کا ذوق رکھتے ہیں۔ اس کے مطابق جہالت ہے۔ نیز وہ امانت ہے۔ اور بادشاہ کے اسرار میں سے ایک سر ہے۔ اور بادشاہ کا سر ظاہر کرنا جائز نہیں ہے۔ تو جس نے اس کو ظاہر کیا وہ خائن ہے۔ اور نکالنے اور سزادینے کا مستحق ہے۔ اور اب وہ امین (امانت دار ) ہونے کے لائق نہیں ہے۔ پس اسرار کا چھپانا ، نیک لوگوں کی شان ہے۔ اور اسرار کا ظاہر کرنا ، برے لوگوں کی شان ہے۔ عارفین نے فرمایا ہے۔ آزادلوگوں کے قلوب اسرار کی قبور ہیں۔ ایک شاعر کا شعر ہے۔
لَا يَكْتُمُ السرَّ إِلَّا كُلُّ ذِي ثِقَةٍ فَالسر عِندَخِیَارِ النَّاسِ مَكْتُومُ
بھید کو ہر قابل اعتماد شخص چھپاتا ہے۔ کیونکہ اچھے لوگوں کے نزدیک بھید چھپایا ہی جاتا ہے۔ اور اس کے ظاہر کرنے میں اس کے عمل اور اس کے باطنی فائدے کی کمی ہے۔ کیونکہ ان احوال اور الہٰی واردات کا فائدہ ظاہر کا محوکرنا، اور باطن کا ظاہر کرنا یا شک کو مٹانا، اور یقین کو مضبوط کرنا ہے تو جب اس کو ظاہر کر دیا تو اس کے اعمال کمزور اور اس کے فوائد کم ہو گئے۔ اور سب بھلائی چھپانے میں ہے۔ حدیث میں ہے۔ (اِسْتَعِيْنُوْا عَلَى قَضَاءِ حَوَائِجكُمْ بِكِتْمَا نِهَا تم لوگ اپنی حاجتوں کے پورا کرنے کے لئے چھپانے کے ذریعہ مدد چاہو۔یانبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جس طرح فرمایا ہو۔
اور جن احوال کا چھپانا واجب ہے۔ ان میں نفس کی عادتوں اور فائدوں کو منقطع کرنا شامل ہے۔ کیونکہ جو شخص اپنے نفس کی عادت کو منقطع کرتا ہے۔ وہ اسے دوسروں پر ظاہر نہیں کرتا ہے۔ کیونکہ اس کے ظاہر کرنے میں نفس کے فریب کا خطرہ ہے۔ کیونکہ وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کا ذکر قوت اور دلیری کے ساتھ کیا جائے ۔ تو ایسا ہوتا ہے کہ جب اس کی فریب کاریوں کو قتل کیا جا تا ہے تو وہ فوراً اس کو زندہ کرتا ہے۔ نیز اس میں اخلاص کی کمی ، اور ریاء کی شمولیت بھی ہے اور یہ ہلاکت کا باعث ہے۔ العیاذ باللہ ۔
اور جن حقیقتوں ، اور علوم و معارف کا اس کو علم ہے۔ اس کے ذکر کرنے میں اس کی جہالت اس لئے ہے کہ اس نے ان کی قدر نہیں پہچانی ۔ اور ان کو حقیر سمجھا۔ کیونکہ اگر وہ اس کے نزدیک عزیز اور عالی قدر ہو تیں۔ تو وہ ان کو دوسروں کے سامنے ظاہر نہ کرتا۔ اس لئے کہ خزانے کا مالک خزانے کو ظاہر نہیں کرتا ہے۔ ورنہ فورا سے چھین لیا جائے ۔ ہمارے شیخ الشیوخ حضرت مجذوب رضی اللہ عنہ کے اشعار میں غور کرو۔
أحفُرْ لِسِرِّكَ وَدَکُّوْا فِي الْأَرْضِ سَبْعِينَ قَامَہ
وَخَلِّ الْخَلَائِقَ يَشْكُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَه
اپنے بھید کو دفن کرنے کے لئے گڑھا کھودو۔ اور ستر قد آدم کے برابر زمین کے نیچے اس کو دفن کرو۔ اور مخلوق کو چھوڑ دو۔ وہ قیامت تک شکایت کرتے رہیں ۔
اور جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (وَلَا تُؤْتُو السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ اپنے مال نا دانوں کو نہ دو۔ تو ایسے علم کی کتنی حفاظت کرنی چاہیئے ۔ جو قیمتی اور پوشیدہ موتی ہے۔ حضرت نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:
إِنَّ مِنَ الْعِلْمِ ‌كَهَيْئَةِ ‌الْمَكْنُونِ، لا يَعْرِفُهُ إِلا الْعُلَمَاءُ بِاللَّهِ، فَإِذَا نَطَقُوا بِهِ لَمْ يُنْكِرْهُ إِلا أَهْلُ الْغِرَّةِ بِاللَّهِ
بعض علم پوشیدہ موتی کی طرح ہیں۔ جس کو صرف اللہ تعالیٰ کو پہچانے والے ہی جانتے ہیں۔ تو اگر وہ اس کو ظاہر کر دیں۔ تو اللہ تعالیٰ سے غافل لوگ اس کا انکار کریں گئے۔ حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا ہے:
حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وِعَاءَيْنِ ; فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَبَثَثْتُهُ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُهُ قُطِعَ مِنِّي ‌هَذَا ‌الْبُلْعُومُ
میں نے حضرت رسول اللہ ﷺ سے دو تھیلے (دوقسم ) علم حاصل کیا ہے۔ ایک قسم میں نے لوگوں میں پھیلایا ۔ اور دوسری قسم : اگر میں ظاہر کروں ۔ تو میری گردن کاٹ دی جائے۔ حضرت زین العابدین سید نا علی ابن حسین ابن علی رضی اللہ عنہم نے حسب ذیل اشعار فرمائے ہیں۔
يَا رَبِّ جَوْهَرَ عِلْمٍ لَو أَبُوحَ به لقيل لي أنتَ مِمَّن يُعبد الوثنا
علم کے بہت ایسے جو ہر ہیں کہ میں اگر ان کو ظاہر کروں تو لوگ مجھ کو بت پرستوں میں شمار کریں گے۔
وَلَا اسْتَحَلَّ رِجَالٌ مُّسْلِمُونَ دَمِي يَرُونَ أَقْبَحَ مَا يَأْتُونَهُ حَسَنَا
اور مسلمان میرے خون کو حلال سمجھیں گے ۔ اور جس کے پاس بہتر سمجھ کر آتے ہیں اس کو بہت برا سمجھیں گے۔
إِنِّي لَا كُتُمُ مِنْ عِلْمِي جَوَاهِرُہَُ كَى لَا يُرَى الْحَقَّ ذُو جَهْلٍ فیفتتنا
میں اپنے علم کے ان جو ہروں کو چھپاؤں گا تا کہ جاہل حق کو نہ دیکھنے کی وجہ سےفتنے میں نہ پڑے۔
حضرت روز آبادی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ میں نے یہ علم اشارہ سے سیکھا۔ کیونکہ وہ پوشیده عبارت ہے۔ حضرت امام غزالی رحمتہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ حقیقتیں بھی لوگوں کو اسی طرح نقصان پہنچاتی ہیں۔ جس طرح گلاب اور مشک ، گبر وندا کو نقصان پہنچاتی ہیں۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں۔ کبھی ماہر عارف کو نا واقف لوگوں کے سامنے باریک مہارت لطیف اشارہ بار یک غزل کی صورت میں حقیقتوں کو بیان کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اس طریقے پر کہ سننے والے کو اس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے حضرت جنید رضی اللہ عنہ ، حاضرین کے سامنے حقیقتیں ، یان فرماتے تھے۔ اس کے متعلق ان سے پو چھا گیا تو فرمایا علم کا پہلو بہت محفوظ ہے۔ نا اہل اس کو نہیں پا سکتا۔ یا اس طرح فرمایا:۔ ہمارا علم محفوظ ہے نا اہل اس کو نہیں پا سکتا۔ (وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ )


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں