دنیا کا زہد

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔

سید ناغوث اعظم رضی اللہ عنہ نے ارشاد باری إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ “ کی تفسیر میں ارشادفرمایا: رات کا اٹھنا ، وہ دشوار ہے ۔

 وہ نیند کے بعد مخلوق اور نفس اور عادت اور خواہش اور ارادے کے سو جانے کے بعد ہے، دل تقوے میں لگار ہے، اس کا کھانا پینا صرف اللہ تعالی سے مناجات کرنا اور اس کے سامنے قیام ورکوع اورسجود باقی رہ جائے ، کیا تو ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھتا کہ جنہوں نے دنیا میں زہدکیا تا کہ وہ انہیں طلب مولی سے غافل نہ کر دے – اسی طرح وہ آخرت میں زہدکرتے ہیں تا کہ آخرت انہیں طلب مولی سے غافل نہ کر دے ۔ بلکہ وہ اس بات کی تمنا کرتے ہیں کہ آخرت پیدا ہی نہ کی جاتی ، کیونکہ وہ شیریں ہے اور ظاہر میں رحمت ہی رحمت ہے ، دل اور باطن اس کا چہرہ بن جاتا ہے، جو کچھ اس کے دل میں ہوتا ہے وہ ظاہر پرنمودار ہونے لگتا ہے، وہ دنیا کی ہمیشگی کو اس لئے دوست رکھتا ہے کہ اس میں چھپ کر اللہ کی عبادت کرے اور اس سے خفیہ طور پر معاملہ کرتا رہے، تو تو اللہ سے وحشت میں پڑا ہوا ہے، تیرا دل کب مخلوق سے وحشت کرے گا ، اور وہ کب اللہ سے انس پکڑے گا،

دروازه ، دروازہ پھرے گا کوئی دروازہ باقی نہ ر ہے گا ،  ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف جائے گا، یہاں تک کہ کوئی شہر باقی نہ ر ہے گا،  ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی طرف جائے گا، یہاں تک کہ کوئی آسمان باقی نہ ر ہے گا ،

جہاں ٹھہرے گا اپنے نفس پر قیامت قائم کرے گا، اللہ کی حضوری میں کھڑا ہو جائے گا، اپنی نیکیوں اور بدیوں کے دفتر پڑھ کر دوزخ میں ڈال دیئے جانے کا متوقع ہوگا ،وہ آگ کے اوپر سے گذر جانے اور پھر آگ میں گرنے کے خیال میں ہوتا ہے کہ لطف الہٰی آ کر اسے تھام لیتا ہے، اور دوزخ کی آگ کو اپنی رحمت کے پانی سے بجھا دیتا ہے، اور دوزخ کی آگ یوں پکارتی ہے:۔

”اے ایمان والے! توجلدی سے میرے اوپر سے گزرجا، کیونکہ تیرے نور نے میرے شعلے کو بجھا دیا ہے۔ اس پر سے تین ہزار سال کی مسافت ایک لحظہ میں طے ہو جائے گی ، یہاں تک کہ جب وہ بادشاہی گھر کے قریب پہنچ جا تا ہے تو اپنی عقل وارادے اور اپنے مولی تعالی کی محبت اور شوق کی طرف رجوع لاتا ہے، اور اصرار کرتا ہے کہ میں اس میں بغیر محبوب کے داخل نہ ہوں گا، کیا تو نہیں جانتا کہ جو بچہ کچا گر جاتا ہے وہ قیامت کے دن جنت کے دروازے پر کھڑا ہو جائے گا اور کہے گا:

”میں اندر نہ جاؤں گا جب تک کہ میرے والدین اس میں داخل نہ ہو جائیں‘‘۔

 ہمسایہ کہاں ہے؟ گواہ حاضر ہونے والا کہاں ہے؟ وہ اس وقت تک داخل نہ ہو کہ اسے نبی اکرم ﷺاپنے دست مبارک سے اس کا ہاتھ محبوب کے ہاتھ میں تھما دیں ، یہاں تک کہ جب اس کا یہ حال کامل ہو جا تا ہے تو اسے اپنے مقسوم کا حصہ لینے کے لئے دنیا کی طرف لوٹا دیا جا تا ہے ، تا کہ علم الہٰی متغیر اور منسوخ اورمحونہ ہو جائے ، – تیرارب مخلوق سے فارغ ہو چکا ہے، کوئی نفس دنیا سے اس وقت تک نہیں نکلتا تاوقتیکہ وہ اپنا حصہ پورا نہ کر لے، چنانچہ تم اللہ کا ڈر رکھو اور مخلوق کو چھوڑ کر تمہاری طلب بخوبی اللہ سے ہونی چاہیئے۔

 اسباب دراصل حجاب اور آڑ ہیں، ان ہی کی وجہ سے بادشاہ کے دروازے بند ہیں ۔ جب تو ان اسباب سے منہ پھیر لے گا تو بادشاہ تیرے لئے اپنی معرفت کا دروازہ کھول دے گا، جسے تو پہچانتا ہے اور جو دروازہ مضبوطی سے بند ہے، وہ تیری طاقت وقوت کے بغیر کھل جائے گا،

ایمان والے کی طبیعت اللہ کی طرف ارادہ کر کے نکلتی ہے ، وہ ابھی اس حالت میں ہوتا ہے کہ جان و مال کی وجہ سے راستے میں اسے آفتیں گھیر لیتی ہیں ، پھر وہ گناہوں اور بے ادبی اور شرعی حدوں کی مخالفت کی طرف لوٹ آ تا ہے، پھر وہ دعا سے اور اللہ کے غیر سے مددنہیں مانگتا بلکہ اپنے گناہوں کو یاد کر کے اپنے نفس پر ملامت کرتا ہے، اس سے فارغ ہوتے ہوتے وہ قلب کے لحاظ سے قضاوقد را در تعلیم وتفویض کی طرف رجوع کرتا ہے۔ وہ اسی حالت میں ہوتا ہے کہ اچا نک اسےایک دروازہ کھلا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

جوشخص اللہ کا ڈر رکھتا ہے، اللہ اس کے لئے کوئی ایک راستہ نکال دیتا ہے، اور اس کی پرکھ اس لئے ہوتی ہے تا کہ اس کے اعمال دیکھے جائیں، ارشاد باری ہے:

‌وَبَلَوْنَاهُمْ بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ اور ہم نے انہیں بھلائیوں اور برائیوں سے آزمایا ۔

ابن آدم کا دل خیر وشر،عزت و ذلت اور دولت و فقر کے ساتھ ہی صحیح ہوا کرتا ہے، جب وہ اللہ کی نعمتوں کا اقرار کرتا ہے( اور وہ شکر ہے، اور شکر کے معنی ہیں: اطاعت کرنا)اس کی زبان و دیگر اعضاء کچھ حرکت نہیں کرتے ، وہ بلا کے وقت صبر سے کام لیتا ہے اور کسی غیر اللہ سے مدد نہیں چاہتا، بلکہ اپنے گناہوں اور جرموں کا اعتراف کرتا رہتا ہے حتی کی اس کی نیکی بدی کے قدم جب انتہاء پر پہنچ جاتے ہیں ، اس وقت وہ بادشاہی دروازے پرشکر وصبر کے قدموں سے چلتا ہے، توفیق الہٰی اس کی قائد ور ہنما بن جاتی ہے ، وہ بادشاہی دروازے پر پہنچ کر ایسا جلوہ دیکھتا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سناء نہ ہی کسی انسان کے دل پر خطرہ بن کر گز را، بھلائی اور برائی کی نوبت جب ختم ہو جاتی ہے تو اسے بات چیت کرنے اور ہم کلام و ہمنشین ہونے کا مرتبہ حاصل ہو جا تا ہے، اے عراقی ! کیا تو اسے سمجھ سکتا ہے!

اے چکی کے اونٹ! اے احمق! تو اخلاص کے بغیر قیام وقعود میں مشغول ہے، تیری نماز اور روز ہ لوگوں کے لئے ہوتا ہے ، اور تیری نظر لوگوں کے طباقوں! اور ان کے گھر کی چیزوں کی طرف لگی ہوئی ہے ۔

اسے مخلوق سے علیحدہ ہونے والے ،اے صد یقوں اور اللہ والوں کی صف سے الگ  ہونے والے،کیا تجھے معلوم نہیں کہ میں تمہارا بڑا ہوں، تمہارا چیرنے کا آراء اور تمہاری کسوٹی ہوں، تو اپنی سی کوشش کر لے اوراپناطباق مجھ سے چھین لے مجھ پر اپنی ننگی تلوار اٹھا تو کسی چیز پر قائم نہیں ہے، نہ ہی قابل اعتبار!

اے ادنی سے ادنی جاہل!میں تیری رسیوں میں مضبوطی کے لئے بل دیتا ہوں ، تیری خیر خواہی کرتا ہوں اور تجھ پر مہربانی کرتا ہوں ، یقینا مجھے ڈر ہے کہ کہیں تو زندیق ( بے دین ) ریا کار اور دجال ہو کر نہ مرے، اور تیری قبر میں تجھے منافقوں کا سا عذاب دیا جائے ۔ چنانچہ تو جس حال میں مبتلا ہے اس کو حکم دے، تو برہنہ ہو جا اور تقوی کا لباس پہن لے۔ عنقریب تیری موت واقع ہونے والی ہے ، میرے اور تیرے درمیان کوئی عداوت نہیں ، جو کچھ میں تجھ سے کہ رہا ہوں عنقریب تو اسے یاد کرے گا ۔

نیک بندے کی صورت اس کے حال سے خبر دیتی رہتی ہے، جوکوئی اللہ کو پہچان لیتا ہے، اس کی زبان گونگی ہو جاتی ہے۔

وہ اسی کی مدد سے بولتا ہے ،اسی سے غنا کا طالب رہتا ہے،اسی کی طرف سے محتاج بنارہتا ہے، میں اپنے بچپن کے دور میں اپنے شہر میں ایک کہنے والے کی آواز کو سنا کرتا تھا، وہ کہا کرتا۔ا ے مبارک! اے مبارک!‘‘ تب میں اس آواز سے بھا گا کرتا تھا۔ اوراب خلوت میں کسی کہنے والے کی آواز سنا کرتا ہوں، وہ مجھ سے کہتا ہے ۔ میں تجھ میں بہتری پا تا ہوں‘‘۔

اے مخاطب! اگر تو بھلائی چاہتا ہے تو میرے ساتھ رہنا لازم کر لے، میں جب کسی انسان کو اپنے سے بھاگتا ہوا پاتا ہوں، تو مجھے معلوم ہو جا تا ہے کہ یقینا یہ منافق ہے، ایمان والا اپنے سر کی آنکھیں جب بند کرتا ہے تو اس کے دل کی آنکھیں کھل جاتی ہیں، اسے باطنی انوار دکھائی دینے لگتے ہیں، اور جب وہ اپنے دل کی آنکھیں بند کرتا ہے تو اس کے باطن کی آنکھیں کھل جاتی ہیں تب وہ مقام الہٰی اور مخلوق میں اس کے تصرفات کا معائنہ کرنے لگتا ہے، جن چیزوں میں سے اللہ تعالی نے سیدنا موسی علیہ السلام سے خطاب فرمایا تھا، ان میں سےیہ بھی ارشادفرمایا تھا:

قَالَ يَامُوسَى إِنِّي اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسَالَاتِي وَبِكَلَامِي وقربتك

میں نے تمہیں اپنی رسالت اور کلام کے ساتھ اورلوگوں پر برگزیدہ کرلیا ، اور اپنے قریب کرلیا‘‘۔ ایک دن وہ تھا جب تم بکریاں چرارہے تھے، ان میں سے ایک بکری بھاگ گئی، تم نے اس کا پیچھا کیا حتی کہ تم نے اسے پکڑ لیا، حالانکہ تم تھک گئے تھے، پھر تم نے اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا اور کہا:

تو نے خود کوبھی تھکا لیا اور مجھے بھی تھکا دیا ۔

 حجاب والے کی دوا اپنے احباب کی وجہ پر غور کرنا اور اس سے توبہ کر لینا اور اس کے سامنے اقرار کرنا ہے۔ وہ لوگ جو ہر لحاظ سے معصوم اور محفوظ ہوتے ہیں ، ان کے لئے راستے میں تکوین (یعنی تصرفات اور اختیارات کا برتنا) نہیں ہوتا ، جب میں تو جنگلوں اور میدانوں اور دونوں بر

 : یعنی برخلق اور پرنفس، اور دونوں بحریعنی بحر حکم اور بحرعلم

 اور کنارے کو قطع نہ کرے گا، تیرا کلام معتبر نہ ہوگا ۔ اولیاء اللہ کے نہ دن ہے نہ رات، ان کا کھانا بیماروں کا سا کھانا ہے، ان کا سونا ، ڈوبتے ہوؤں کا سا سونا ہے، ان کی گفتگوضرورت کے تحت ہوتی ہے۔ جو بندہ اللہ کو پہچان لیتا ہے اس کی زبان گونگی ہو جاتی ہے، لیکن جب اللہ چاہتا ہے تو اسے نئی زندگی بخش دیتا ہے، پھر وہ بغیر آلات کے، بغیر ترتیب کے، بغیر مہلت کے اور بغیر سبب کے بولنے لگتا ہے، اس کی زبان اور اس کی  انگلی میں کچھ فرق نہیں ہوتا، کیونکہ اس حالت میں :

نہ حجاب ہوتا ہے نہ قیود،نہ دروازہ ہوتا ہے نہ دربان ، نہ اذن اور نہ اجازت کی طلب ، تولیت ہوتی ہے نہ تقر روموقوفی ، نہ شیطان ہوتا ہے نہ سلطان،نہ دل ہوتا ہے اور نہ انگلیاں،

 جو آج غائب رہا اس نے نقصان اٹھایا تو کہہ دے کہ پہلا اور دوسرا قدم رکھنے میں حاصل نہیں ہوتا، تو کہدے کہ پہلا قدم اپنے خانہ وجود سے نکلتا ہے، اور دوسرا قدم نعمت الہی الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (سب خوبیاں ان کو جو مالک سارے جہان والوں کا)ہے اور دروازے پرٹھہرنا ہے ۔ اس کے بعد اس کے دیدار کے وقت إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ “(ہم تیری ہی عبادت کر یں اور تجھ ہی سے مدو چا ہیں) ہے، دیدار کے بعد وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ(اورسجدہ کر قریب ہو جا)ہے،  اللہ نےتجھے جونعمتیں عطا کی ہیں ، انہیں غیر اللہ سے منسوب نہ کر ، تو تو مشرک ہے، تو نعمتوں کو اس کے غیر کی طرف نسبت کر کے اللہ کی نعمتوں کو بدلنے لگا ہے، جو نعمت تیرے نفس کے لئے تھی اللہ تعالی نے اسی لئے بدل دی، تو اپنی ز نارکو تو ڑ کر ادھرلوٹ آ ، جب تک تو اپنے باطن سے توبہ نہ کر لے اور اندرونی اخلاص پیدا نہ کر لے تب تک تیرے ظاہر کا اعتبار نہیںـ

فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 650،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں