نسبت کا کمال تک پہنچنا مکتوب نمبر229دفتر اول

اس بیان میں کہ ہماراطریق بعینہ حضرت ایشاں(خواجہ باقی باللہ ) قدس سرہ کا طریق ہے اور ہماری نسبت وہی نسبت ہے لیکن صناعت(کاریگری) کا کامل ہونا اور نسبت کا تمام ہونا بہت سے فکروں کے لئے اور بہت سی نظروں کے پے در پے آنے پر موقوف ہے ۔ مرزا حسام الدین احمد کی طرف لکھا ہے 

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو)آپ کے شریف مکتوب جو اپنے مخلص مشتاق کے نام لکھے ہوئے تھے پے در پے پہنچ کر بڑی خوشی اور زیادہ محبت کا باعث ہوئے۔ جَزَاكُمْ ‌اللَّهُ ‌سُبْحَانَهُ  َعَنَّا خَيْرًالْجَزَاءَ  الله تعالیٰ آپ کو ہماری طرف سےجز ائے خیردے۔ 

مجمل طور پر بعض شبہات وتر دیدات جو آپ نے لکھے تھے۔ ان کا جواب یہ ہے کہ ہمارا طریق وہی حضرت ایشاں یعنی حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہ کا طریق ہے اور ہماری نسبت آنحضرت ہی کی شریف نسبت ہے۔ اس طریق سے بڑھ کر عالی اور کونسا طریق ہے اور اس نسبت سے زیادہ بہتر اور مناسب اور کون سی نسبت ہے کہ کوئی اس کو اختیار کرے۔ 

اصل بات یہ ہے کہ ہر صناعت کی تکمیل اور ہرنسبت کی تتمیم (تکمیل)مختلف فکروں کے ملنے اور بہت سی نظروں کے پے در پے آنے پرمنحصر ہے۔ مثلاوہ نحو جوسیبویہ (علم نحو کا امام)کے زمانہ میں تھا۔ وہ اب متاخرین کے فکروں کے ملنے سے دو چند زیادہ ہوگیا ہے اور بہت کامل اور صاف ہوگیا ہے حالانکہ یہ وہی سیبویہ کا نحو ہے جس کو متاخرین(بعد) کے فکروں نے پہلے کی نسبت زیادہ آراستہ پیراستہ کر دیا ہے۔ 

شیخ علاء الدولہ قدس سرہ کا قول آپ کے مبارک کانوں تک پہنچا ہوگا۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ واسطے اوروسیلے جس قدرزیادہ ہوں اسی قدر رستہ زیادہ نزدیک اورروشن ہوگا۔ 

اس نسبت علیہ پر اس قسم کی زیادتی نے جو آراستگی اورپیراستگی کے طور پر پیدا ہوگئی ہے بہت لوگوں کو تخیلات میں ڈال رکھا ہے۔ اصل معاملہ یہی ہے جس میں تکلف اور بناوٹ کودخل نہیں۔ 

آپ اس فقیر کے مکتوبات اور رسالوں کو دیکھیں جو اس طریق کو اصحاب کرام کا طریق ثابت کیا ہے اور اس نسبت کوسب نسبتوں سے بڑھ کر مدلل بیان کیا ہے اور اسی طریق عالی اور اس طریق کے بزرگواروں کی تعریف اور مدح اس طرح پر کی ہے کہ اس بزرگ خاندان کے خلفاء میں سے کسی کو اس کا (عشر عشیر)سوواں (100) حصہ بیان کرنے کی توفیق حاصل نہیں ہوئی اور نیز یہ فقیر روزمرہ اور نشست و برخاست میں اس طریق کے آداب و لوازم کی رعایت پورے طور پرکرتا ہے اور سرمو مخالفت اورنئی بات کو پسند نہیں کرتا ۔ بڑے تعجب کی بات ہے کہ آپ نے یہ سب خوبیاں نظر انداز کر دی ہیں اور اگر بالفرض آزار کے دنوں میں بعض یاروں کی نسبت کلمہ و کلام میں کوئی نامناسب بات کی گئی ہو اور آپ کی نظر میں آئی ہو تو پھر بھی تعجب ہے کہ آپ اس قسم کی باتوں کا یقین کر لیتے ہیں اور صرف سن کر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں ۔ حسن ظن ہے تو کیا اسی جماعت سے مخصوص ہے یا شاید میں ہی حسن ظن کے قابل نہیں ہوں ۔ الغرض اگر گفت و شنید پر ہی مدار ہے تو پھر چغل خوروں کے ہاتھ سےخلاصی ناممکن ہے اور اخلاص کی کوئی توقع نہیں ہے ۔ آپ گفت و شنید سے درگزر کر یں اور گزشتہ امور کو یاد میں نہ لائیں تا کہ اخلاص متصور ہو اور پرانی کلفت(بے چینی) رفع ہو جائے۔ 

آپ نے لکھا تھا کہ حضرت پیرزادوں کی تربیت کا وقت آ گیا ہے اور حضرت ایشاں قدس سرہ کی وصیت کو یاد دلایا تھا۔ 

اے میرےمخدوم و مکرم! اس میں خادموں کی سعادت ہے کہ اپنے مخدوم زادوں کی خدمت سے کامیاب ہوں ۔ لیکن اس مدت میں معلوم رکاوٹوں کے باعث ظاہری خدمت سے دور رہا اور وصیت کے وقت کے آنے کا انتظار کرتا رہا اور اب اگر آپ جانتے ہیں کہ کوئی مانع نہیں ہے اور گفت و شنید کارستہ بند ہوگیا ہے۔ تو فرمائیں تا کہ بندہ چند روز آ کر اس خدمت میں مشغول رہے اور اگر اچھی طرح ملاحظہ کرتا ہے تو جانتا ہے کہ اس کام میں صرف نصیحت کا حکم بجا لا نامقصود ہے۔ ورنہ آپ کی ظاہری باطنی تربیت ان کے لئے کافی ہے کسی اور کی حاجت نہیں۔

دوسرا یہ ہے کہ برادرم مولانا عبد الطیف فرماتے تھےکہ میاں محمد قلیج نےبڑے مخدوم زاوہ کی ظاہری تعلیم وتربیت کو اپنے ذمے لے لیا ہے اور آپ نے بھی اس بات کو پسند فرمایا ہے۔ اس بات کو سن کر بہت تعجب ہوا۔ اور اگر وہ اپنی نارسائی کے باعث اس بارہ میں کچھ خیال کرے تو خیر مگر آپ کیسے تجویز کرتے ہیں مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ ایسا نہ ہو کہ کہیں محمد قلیج کا آزارکسی اور جگہ(مخدوم زادےمیں) سرایت کر جائے۔ 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ134 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں