عالم حق تعالیٰ کے اسماء و صفات کا مظہر مکتوب نمبر45دفتر دوم

 اس بیان میں کہ عالم سب کا سب حق تعالیٰ کے اسماء و صفات کا مظہر ہے۔ برخلاف ذات کے کہ ممکن اس دولت سے بے نصیب ہے اور اس کو اپنے حق میں قيام بذات خود حاصل نہیں اور سب کا سب عرض ہے۔ اس میں جو ہر ہونے کی بو بھی نہیں اور اس کے مناسب بیان میں حقائق آگاه معارف دستگاه خواجہ  حسام الدین کی طرف صادر فرمایا ہے۔ 

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی ( الله تعالیٰ  کے لیے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو۔ ) میرے مخدوم و مکرم۔ 

از ہر چہ میرود سخن دوست خوش تر است ترجمہ: تمام باتوں سے بہتر ہیں یار کی باتیں 

عجیب و غریب معرفتیں بیان کی جاتی ہیں ۔ غور سے سنیں اوراخص خواص کے مراقبہ کا طریق بتایا جاتا ہے۔ بڑی توجہ فرمائیں۔  

جاننا چاہیئے کہ عالم سب کا سب حق تعالیٰ  کے اسماء و صفات کا مظہر ہے۔ اگر ممکن میں حیات ہے تو اسی واجب تعالیٰ  کی حیات کا آئینہ ہے اور اگر علم ہے تو اسی کے علم کا آئینہ ہے اور اگر قدرت ہے تو اس کی قدرت کا آئینہ ہے۔ علی ہذا القیاس۔ لیکن اس کی ذات کا عالم میں نہ کوئی آئینہ ہے نہ کوئی مظہر۔ بلکہ حق تعالیٰ  کی ذات کو عالم کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں اور کسی چیز میں شراکت نہیں ۔ اگرچہ وه مناسبت اسم میں ہو یا مشارکت صورت میں ہو۔ إِنَّ اللَّهَ ‌لَغَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ (اللہ تعالیٰ  سب جہان سے غنی ہے) برخلاف اسماء و صفات کے کہ عالم کے ساتھ اسمی مناسب رکھتے ہیں اور صوری مشارکت(ظاہری شراکت) ان کے درمیان ثابت ہے یعنی جس طرح واجب تعالیٰ  میں علم ہے۔ ممکن میں بھی اس علم کی صورت ثابت ہے اور جس طرح وہاں قدرت ہے یہاں بھی اسی قدرت کی صورت ہے بر خلاف ذات کے کہ ممکن اس دولت سے بے نصیب ہے اور اس کو اپنے حق میں قیام بذات خود حاصل نہیں بلکہ ممکن چونکہ حق تعالیٰ  کے اسماء و صفات کی صورتوں پرمخلوق ہے۔ اس لیے سب کا سب عرض ہے اور اس میں جوہریت کی بو نہیں۔ اس کا قیام حق تعالیٰ  کی ذات کے ساتھ ہے اور معقول والوں(فلاسفہ) نے جو ممکن جو ہر و عرض میں تقسیم کیا ہے۔ ظاہر ہے ظاہربینی کے سبب ہے اور بعض ممکن کا بعض کے ساتھ قیام جو ثابت ہے وہ عرض کا عرض کے ساتھ قائم ہونے کی قسم سے ہے۔ نہ عرض کا جوہر(کسی شے کی اصل،بذات خود موجود ہونا) کے ساتھ قائم ہونے کی قسم سے بلکہ درحقیقت وہ دونوں عرض(جو ہر کسی کے ساتھ قائم ہو) حق تعالیٰ  کی ذات کے ساتھ قیام رکھتے ہیں۔ ان کے درمیان کوئی جو ہریت ثابت نہیں۔ تمام ممکنات کا قیوم حق تعالیٰ  ہی ہے۔ 

پس ممکن کی حقیقت میں کوئی ذات نہیں جس کے ساتھ اس کی صفات قائم ہوں بلکہ ذات میں صرف اللہ تعالیٰ  ہی کے لیے ہے جس کے ساتھ حق  تعالیٰ  کی صفات اور تمام ممکنات قائم ہیں اور وہ اشارہ جو ہر ایک اپنی ذات کی طرف لفظ انا سے کرتا ہے۔ وہ درحقیقت اسی ایک ذات کی طرف راجع ہے جس کے ساتھ سب کا قیام ہے۔ اشارہ کرنے والا جانے یا نہ جانے اگر چہ حق تعالیٰ  کی ذات کسی اشارہ کے ساتھ مشارالیہ نہیں ہے اور کسی چیز کے ساتھ متحد نہیں ۔ کوتاه نظران پوشیدہ معارف کو توحید وجودی کے معارف کے ساتھ نہ ملائیں اور ایک دوسرے کا دست و گریبان نہ جانیں کیونکہ توحید وجودی والے ایک ذات کے سوا کچھ موجود نہیں جانتے اورحق تعالیٰ  کے اسماء و صفات کو بھی اعتبارات علمی خیال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حقائق ممکنات کو وجود کی بو بھی نہیں تھی۔ الأعیان ما شمت رائحة الوجوداعیان ثابتہ نے وجود کی بو ہی نہیں سوکھی) ان کا کلام ہے۔ 

یہ فقیرحق تعالیٰ  کی صفات کو بھی وجود زائد کے ساتھ موجود جانتا ہے۔ جیسے کہ علماء اہل حق نے فرمایا ہے اورممکنات کے لیے بھی جوحق تعالیٰ  کے اسماء و صفات کے مظہر ہیں۔ وجود ثابت کرتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ ممکنات کو اعراض ہی سے جانتا ہے جو خودبخود قیام نہیں رکھتے اور جوہریت کو جو خود بخود قیام رکھتا ہے۔ ممکنات میں ثابت نہیں کرتا اور سب کا قیام حق تعالیٰ  کی ذات کے ساتھ جانتا ہے۔

 سوال: اس تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ ممکن کی ذات واجب تعالیٰ  کی عین ذات ہے اورممکن واجب کے ساتھ متحد ہے اور یہ محال ہے کیونکہ اس سے قلب حقائق یعنی حقیقتوں کا تغیر لازم آتا ہے۔

جواب: ممکن کی ذات یعنی اس کی ماہیت وحقیقت ا نہی اغراض متعددہ مخصوصہ میں سے ہے جو حق تعالیٰ  کے اسماء و صفات کا مظہر ہیں۔ ان اعراض کو حق تعالیٰ  کی ذات کے ساتھ کوئی عینیت نہیں اور کسی قسم کا اتحاد نہیں ہے تا کہ قلب حقائق لازم آئے۔ صرف اس قدر تعلق ہے کہ ان اعراض کا قیام حق تعالیٰ  کی ذات کے ساتھ ہے اور تمام اشیاء کا قیوم وہی حق تعالیٰ  ہے۔

 سوال: جب ہر ایک کا اشارہ جو اپنی ذات کی طرف لفظ انا سے ہوتا ہے۔ حق تعالیٰ  کی طرف راجع ہے تو لازم آتا ہے کہ ممکن کی ذات یعنی اس کی ماہیت وحقیقت حق تعالیٰ  کی عین ذات ہو کیونکہ ہر ایک کا اشارہ لفظ انا کے ساتھ اپنی ماہیت و حقیقت کی طرف ہے۔ اس سے قلب حقیقت لازم آتا ہے اور یہ بات بعینہ توحید وجودی والوں کی ہے۔

 جواب: ہاں ہر ایک کا اشارہ لفظ انا کے ساتھ اگر چہ اپنی حقیقت کی طرف ہے لیکن جب اس کی حقیقت اعراض مجتمع سے ہے۔ اس اشارہ کی قابلیت نہیں رکھتے کیونکہ اعراض اصلی اور مستقل طور پر حسی اشاره کے قابل نہیں۔ جب اس کی حقیقت نے اس اشارہ کو قبول نہ کیا تو ضرور وہ اشارہ اس حقیقت کے قوم (جس کے ساتھ اس کا قیام ہے) کی طرف راجع ہوگا۔ پس ممکن کی ماہیت وہی اعراض مجتمعہ ہے اور اس کا انا کا اشارہ اس کی حقیقت کی قابلیت کے نہ ہونے کے باعث اس کےمقوم کی طرف راجع ہے جوحق تعالیٰ  کی ذات سے مراد ہے۔ پس حقیقت کا تغیر  لازم نہ آیا اورممکن واجب نہ ہوا اور یہ بات توحید وجودی والوں کی بات سے جدارہی۔ 

عجب معاملہ ہے کہ ممکن کا انا واجب تعالیٰ  کی طرف رجوع کرے اور ممکن اپنے حال میں ممکن ہی رہے اور سبحانی  اور انا الحق نہ پکارے ہاں اس قسم  کی بات کر سکتا ہی نہیں کیونکہ صاحب تمیز ہے۔

 سوال: واجب تعالیٰ  کی ذات سےممکن کا قیام واجب تعالیٰ  کی ذات کے ساتھ حوادث کے قيام کومستلزم ہے اور ممتنع اورمحال ہے۔

جواب: حوادث کا قیام اس صورت میں ممتنع ہے۔ جب کہ حق تعالیٰ  کی ذات میں حوادث کا حلول سمجھا جائے جومحال ہے لیکن اس جگہ قیام کے معنی حلول نہیں بلکہ اس کے معنی ثبوت اور تقرر کے ہیں یعنی ممکن کا ثبوت اور تقرر واجب تعالیٰ  کی ذات کے ساتھ ہے۔

سوال: جب ممکن سب کا سب عرض ہے تو عرض کے لیے محل کی ضرورت ہے تاکہ اس کے ساتھ قائم ہو۔ وہ محل کون ہے۔ واجب کی ذات نہیں۔ اسی طرح ممتنع اسکامحل نہیں ہوسکتا۔ 

جواب: عرض وہ ہے جس کو بذات خود قیام نہ ہو بلکہ غیر کے ساتھ قائم ہو۔ چونکہ معقول والوں نے عرض کے قیام میں حلول کے معنی سمجھے ہیں۔ اس لیےعرض کےمحل ثابت کیا ہے اورمحل کے بغیر اس کا ثابت رہنا محال سمجھا ہے لیکن جب قیام کے معنی اور لیے جائیں جیسے کہ اوپر گزر چکا تو پھرمحل کی بھی ضرورت نہیں۔ 

ہمارے مشاہدہ میں آ چکا ہے کہ تمام اشیاء کا قیام واجب تعالیٰ  کی ذات کے ساتھ ہے اور کوئی حلول ومحل در میان نہیں ۔ معقولی اس کا اعتبار کریں یا نہ کریں۔ ان کی تشکیک ہماری بداہت کا مقابلہ نہیں کرسکتی اور ہمارا یقین ان کے شک سے دور نہیں ہوتا۔ 

اس بحث کو ایک مثال سے واضح کرتے ہیں کہ ارباب طلسم اور اصحاب سیمیا ایسی ایسی چیزیں دکھاتے ہیں جو اجسام غریبہ(دوسرے جسموں) اور اعراض مجیدہ کی قسم سے ہوتی ہیں۔ اس صورت میں سب لوگ جانتے ہیں کہ ان اجسام کا اعراض کی طرح خود بخود قیام نہیں ہے بلکہ ان دونوں کا قیام صاحب طلسم کی ذات کے ساتھ ہے اور ان کا کوئی محل ثابت نہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اس قیام میں حالیت (کسی چیز میں حلول کرنا)و محلیت(کسی چیز کا محل ہونا) کی آمیزش نہیں بلکہ ان سب کا ثبوت وتقرر صاحب طلسم کی ذات کے ساتھ ہے۔ بغیر اس کے کہ حلول کا وہم پایا جائے۔  مذکورہ بالا صورت میں بھی یہی تصور ہے کیونکہ حق تعالیٰ  نے اشیاء کو مرتبہ حس ووہم میں خلق فرمایا ہے اور ان کی صنعت میں اتقان واحکام کو مدنظر رکھا ہے اور دائمی رنج وراحت وثواب وعذاب کا معاملہ انہی پر وابستہ کیا ہے۔ پس ان اشیاء کا خودبخود قیام نہیں ہے بلکہ حق تعالیٰ  کی ذات کے ساتھ قائم ہیں۔ بغیر اس کے کہ حلول اور حال و محل کا وہم وخیال پایا جائے۔ 

دوسری مثال پہاڑ یا آسمان کی صورت جو آئینہ میں ظاہر ہوتی ہے۔ کوئی بے وقوف ہی ہوگا جو ان صورتوں کو اجام خیال کرے گا اور جو ہر مجھ کو قائم بذات خود جانے لگا اور اگر بالفرض کوئی فض ان صورتوں کو اعراض جانے اور کام بغیر تصور کرے اور عرض ہونے کے باعث ان کے لئے گل تلاش کرے اورگل کے بغیر ان کا ثبوت حال جانے۔ وہ بھی ہے وقوف ہے جو لوگوں کی تقلید پر براہت کا انکار کرتا ہے کیونکہ جو تمیز رکھتا ہے، بداہت سے معلوم کر لیتا ہے کہ ان صورتوں کے لیے ہر گوگل ثابت نہیں ہیں بلکہ ان کوگلوں کی کچھ احتياج نہیں۔ اسی طرح ارباب کشف و شہود(مشاہدہ)  کے نزدیک تمام مکنات ان صورتوں کی طرح ہیں اور تال سے زیادہ کچھ نہیں۔ 

خلاصہ یہ کہ حق تعالیٰ  نے ان صورتوں اور تماثیل کو اپنی کامل صنعت سے اس طرح کی مضبوطی اور استحکام بخشا ہے کہ ظل اور زوال سے محفوظ ہیں اور آخرت کاردائمی معاملہ ان پرمنحصر کیا ہے۔ جیسے کہ کئی دفعہ گزر چکا ہے۔متکلمین میں سے نظام جو علماء معتزلہ سے ہے۔رمية من غیر رام (تیر مارنا بغیر تیرانداز کے) کے موافق یعنی اٹکل پچو سے عالم کو اعراض کا مجموعہ جانتا ہے اور جواہر سے خالی سمجھتا ہے۔ ہاں ان الكذوب قد يصدق جھوٹا آدمی کبھی سچ بھی بول جاتا ہے۔ چونکہ کوتاه نظری سے ان اعراض کا قیام واجب الوجود کی ذات کے ساتھ نہیں جانتا۔ اس لیے داناؤں کے طعن وتشنیع کامحل ہوا ہے کیونکہ عرض کو غیر کے قیام سے چارہ نہیں اور وہ جوہر کے وجود کا قائل نہیں تا کہ قیام کو اس کی طرف منسوب کرے اور صوفیاء میں سے صاحب فتوحات مکیہ عالم کو اعراض مجتمعه عین واحد میں جانتا ہے اور عین واحد سے مراد ذات احدیت رکھتا ہے میں دو زمانوں میں ان اعراض کے باقی رہنے کاحکم کرتا ہے اور کہتا ہے کہ عالم ہر آن میں معدوم ہو جاتا ہے اور اس جیسا اور موجود ہوتا ہے۔ 

اس فقیر کے نزدیک یہ  معاملہ شہود ی ہے  نہ وجودی۔ جیسے کہ شرح رباعیات کے حاشیوں میں اس کی تحقیق کی گئی ہے۔ سالک احوال کے درمیان پیشتر اس کے کہ ماسوا اس کی نظر سے بالکل دور ہو جائے۔ ایک آن میں ایسا دیکھتا ہے کہ عالم معدوم ہو گیا ہے اور دوسری آن میں پاتا ہے کہ عالم موجود ہے اور تیسری آن میں پھر معدوم سمجھتا ہے اور چوتھی آن میں موجودسمجھتا ہے۔ یہاں تک کہ فنائے مطلق کے ساتھ مشرف ہو جاتا ہے اور ہمیشہ ماسوا کو معدوم پاتا ہے۔ اس وقت اس کی شہود  میں عالم ہمیشہ کے لیے معدوم ہے۔ اسی طرح بقاء کے حاصل ہونے اور عالم کی طرف رجوع کرنے کے درمیان عالم کبھی نظر میں آ جاتا ہے اور کبھی پوشیدہ ہو جاتا ہے۔ اس وقت بھی تجدد امثال کی حالت کا وہم گزرتا ہے۔ اسی عارف کے لیے جب بقاء اور عالم کی طرف رجوع کرنے کا معاملہ انجام تک جاتا ہے اور تکمیل و ارشاد کے مقام میں قرار پکڑتا ہے تو پھر عالم اس کی نظر میں آتا ہے اور اس وقت عالم کو دائمی طور پر موجود پاتا ہے۔ 

پس یہ معاملہ سالک کے شہود(مشاہدہ)  کی طرف راجع ہے۔ نہ کہ عالم کے وجود کی طرف کیونکہ عالم کا وجود ہمیشہ ایک وضع پر ہے۔ اگر تذبذب ہے تو شہود میں ہے۔ والله سبحانه الملهم الصواب (اللہ تعالیٰ  بہتری کی طرف ہدایت دینے والا ہے۔ اور وہ زمانوں میں اعراض کے باقی نہ رہنے کا حکم جوبعض  متکلمین نے کہا ہے۔ ممنوع اورمدخول فیہ ہے۔ اس کا کوئی ثبوت نہیں اور وہ دلیلیں جو اعراض کے باقی نہ رہنے پر لائے ہیں، نا تمام ہیں۔ یہ پوشیده معارف گویا وہاں کے اکثر یاروں کے لیے ایک سبق ہے جس جس دوست کو ان کے دیکھنے کا شوق ہو، مہربانی فرما کر ان کونقل کر کے بھیج دیں۔ چونکہ فقیر پرسستی غالب تھی، اس واسطے ہر ایک یار کی طرف الگ الگ مکتوب نہیں لکھا گیا۔ صرف اسی پر کفایت کی گئی ہے۔ والسلام علیکم وعلى من لدیکم. 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ164ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں