علم لدنی .ابو حامد محمد بن محمد الغزالی

از تصنیف حجۃ الاسلام ابو حامد محمد بن محمد الغزالی

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

الحمد للہ الذی زَین قلوب خواصِ عبادہ بنور الوِلایۃ و رَبّیٰ ارواحھم بحسن العِنایۃِ وفتحِ بابَ التوحید علی العلماءِ العارفین بِمِفتاحِ الدِّرایَۃِ وَ اُصلِّی وَ اُسلِّمُ علیٰ سیّدِنا محمّدٍ سیّدِ المُرسلین صاحب الدعوۃِ والرّعایۃِ و دلیلِ الامّۃِ الَی الھِدَایَۃِ وَ علیٰ اٰلہ سُکّانَ حَرَمَ الحمایَۃِ 

بات یہ ہے کہ میرے ایک دوست نے بیان کیا کہ ایک عالم نے اُس علمِ غیبِ لدنی سے انکار کیا ہے جس پر خواص صوفیۂ کرام اعتماد رکھتے ہیں اور جس کی طرف اہلِ طریقت منسوب ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ علم ِلدنی اُن علوم کی نسبت زیادہ قوی اور محکم ہوتا ہے جو سیکھنےسے حاصل ہوتے ہیں۔ دوست موصوف نے یہ بھی بیان کیا کہ عالمِ مذکور کہتا ہے کہ میں صوفیہ کے علم کے تصور پر قادر نہیں ہوں اور میرے خیال میں دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے کہ سیکھنے اور حاصل کرنے کے سوا محض فکر و غور سے علمِ حقیقی میں گفتگو کرسکتا ہو۔ میں نے کہا ایسا معلوم نہیں ہے کہ اس شخص کو تحصیل کے طریقے ہی معلوم نہیں ۔ اس کو انسانی نفس اور اس کی صفات کے متعلق کسی طرح کا علم و درایت حاصل نہیں ۔ وہ اس امر سے بھی بے خبر ہے کہ کیونکر نفس ِانسانی علاماتِ غیب اور علمِ ملکوت کو قبول کرتا ہے۔ میرے دوست نے کہا ہاں وہ شخص کہتا ہے کہ علم صرف فقہ،تفسیرِ قرآن اور کلام پر موقوف ہے، اس کے بعد کوئی علم نہیں ہے اور یہ علوم سیکھنے اور سمجھنےسے حاصل ہوتے ہیں۔میں نے کہا کہ بہت اچھا تو پھر علم ِتفسیر کیونکر حاصل ہوسکتا ہے کیونکہ قرآن تو ایک بحرِ محیط ہے جو جمیع ِاشیا پر مشتمل ہے اور اس کے تمام معانی اور اس کی تفسیر کے حقائق ان تصانیف میں مذکور نہیں ہیں جو عوام میں مشہور ہیں بلکہ تفسیر تو اور ہی چیز ہے ۔جو اس مدعی کو معلوم ہے اس کا نام تفسیر نہیں ہے۔ اس شخص نے کہا کہ ان مشہور و معروف تفاسیر کے سوا جو قشیری، ثعلبی، اور ماوردی کی طرف منسوب ہیں اور کوئی تفسیر ہی موجود نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ وہ شخص راہِ حقیقت سے دور ہوگیا ہے کیونکہ سلمی نے اپنی تفسیر میں بعض محققین کے کلمات جمع کئے ہیں جو تحقیق سے مشابہ ہیں اور یہ کلمات تمام تفاسیر میں مذکور نہیں ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص جو فقہ، کلام، اور تفاسیرِ مشہورہ کے سوا اور کسی چیز کو علوم میں شمار نہیں کرتا علوم کی اقسام و تفاصیل، سرایت و حقائق اور ان کے ظاہری و باطنی نکات سے بالکل ناواقف ہے۔ دنیا کی عادت سی ہوگئی ہےکہ جو شخص کسی چیز سے واقف نہ ہو فوراً اس کا انکار کر دیتا ہے۔ اسی طرح اس مدعی کا کام و دہن بھی شراب ِحقیقت سے لذت آشنا نہیں ہوا اور اس کو اسرارِ علم ِلدنی سے آگاہی نہیں ہوئی۔اس لئے وہ کیونکر اس کا اقرار کرلے ؟ یہ بات تو مجھے بھی پسند نہیں کہ جب تک وہ ان اسرار سے معرفت و آشنائی پیدا نہ کر لے محض تقلید اور تخمینے سے اس کا اقرار کر لے۔ اس دوست نے کہا میں چاہتا ہوں کہ آپ مراتبِ علوم کا کچھ تذکرہ فرمائیں اور اس علم کو صحیح ثابت کریں اور اس کو اپنی طرف منسوب فرمائیں اور اس کے اثبات کا اقرار فرمائیں۔ میں نے کہا کہ اس مسئلہ کا بیان تو بہت دشوار ہےلیکن جو کچھ میرے دل میں گذرے گا میں اس کو اپنے حال کے مطابق اور اپنے وقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس علم کے مقدمات کو شروع کرتا ہوں۔ میں کلام کو طول نہیں دینا چاہتا کیونکہ بہترین کلام وہ ہے جو قلیل اور پُر معنی ہو ۔میں نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے توفیق اور اعانت طلب کی اور اس علم کے متعلق میں نے اپنے فاضل دوست کا مسئلہ بیان کیا۔

فصل 

یاد رکھیں کہ علم نفس ِناطقہ (بولنے والا وجود)مطمئنہ کے اشیاء کے حقائق اور ان کی ان صورتوں کے تصور کا نام ہے جو مادہ سے خالی ہوں۔ یہ تصور اشیا کی عین کیفیت، مقدار اور جوہر سے ہوتا ہے اور اگر وہ مفرد ہوں تو ان کی ذات سے بھی ہوتا ہے اور عالم اس ذات کا نام ہے جو محیط (احاطہ کرنے والا)،مُدرِک(سمجھنے والا) اور مُتصور ہو۔ اور معلوم اس شے کی ذات کا نام ہے جس کا علم نفس میں منقوش (نقش کیا ہوا)ہو جاتا ہے اور علم کی شرافت اس کے معلوم کی شرافت کے مطابق ہوتی ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ سب معلومات سے افضل و اعلیٰ اور اشرف و اجل اللہ تعالیٰ ہے جو صانع ، مبدع ، سچا اور ایک ہے ۔اس کا علم یعنی علمِ تو حید سب علموں سے افضل اجل اور اکمل ہے اور اس علم کی تحصیل جمیعِ عقلاء پر ضروری اور واجب ہے جیسا کہ شارع علیہ الصّلوۃوالسلام کا قول ہے ‌طَلَبُ ‌الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ (علم کی جستجو ہر مسلم پر فرض ہے۔)

نیز آنحضرت ﷺ نے اِس علم کی جستجو کے لئے سفر کا بھی حکم فریا۔اطْلُبُوا الْعِلْمَ ‌وَلَوْ ‌بِالصِّينِ (علم کی جستجو کرو خواہ وہ چین ہی میں کیوں نہ ہو)اور اس علم کا جاننے والا تمام علماءسے افضل ہے۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نےبزرگ ترین مراتب کا ذکر کرتے ہوئے ان کو مخصوص کیا اور فرمایا شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو ‌الْعِلْمِ (اللہ تعالیٰ کے، فرشتے اور علماء اس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ علماء ِعلمِ توحید کا اطلاق ایک تو انبیا پر ہوتا ہے اور اس کے بعد اُن علماء پر ہوتا ہے جو انبیا کے وارث ہیں اور یہ علم گو بذاتہ شریف اور بنفسہ  کامل ہے لیکن دیگر علوم کی نفی نہیں کرتا بلکہ بہت سے مقدمات کے سوا وہ حاصل ہی نہیں ہوسکتا۔ اور یہ مقدمات مختلف علوم مثلاً افلاک اور آسمانوں اور جمیعِ مصنوعات کے علم سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔ علم ِتوحید سے دیگر علوم پیدا ہوتے ہیں جن کا ہم مناسب جگہ پر تذکرہ کریں گے۔ 

آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ معلوم کی طرف نظر و توجہ کرنے کے بغیر بھی علم بذاتہ شریف ہے ۔ حتیٰ کہ علم ِسحر بذاتہ شریف ہے اگرچہ وہ باطل ہے اور یہ اس لئے کہ علم جہل کی ضد ہے اور جہل لوازم ِظلمت میں سے ہے اورظلمت مرتبہ ٔسکون میں ہے اور سکون عدم سے قریب ہے۔ باطل اور گمراہی اسی قسم سے ہیں۔ جب جہل عدم کا حکم رکھتا ہے اور علم وجود کا اور وجود عدم سے بہتر ہے اور ہدایت ،حق، حرکت، اور نور سب سلک ِوجود(سلسلہ وجود) میں منسلک ہیں۔ جب وجود عدم سے برتر ہے تو علم جہل سے شریف تر ہوا کیونکہ جہل تاریکی و نابینائی کی مانند ہےاور علم آنکھ اور روشنی کی مانند ہےاور بینا ونابینا کے اور تاریکی روشنی کے مساوی نہیں ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان اشارات سے اس امر کی تصریح فرمائی ہے اور فرمایا قُلْ هَلْ ‌يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ (کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں ؟)اور چونکہ علم جہل سے بہتر تسلیم کیا گیا ہے اور جہل لوازمِ جسم سے ہے اور علم لوازمِ نفس سے ہے اس لئے نفس جسم سے زیادہ شریف ہے ۔ علم کی بہت سی قسمیں ہیں جن کو ہم دوسری فصل میں بیان کریں گے۔

عالم کے لئے جستجوئے علم کی کئی راہیں ہیں جن کا ذکر ہم کسی اور فصل میں کریں گے۔ فضیلت ِعلم کی پہچان کے بعد اب آپ کی نظر نفس کی پہچان پر ہوگی کیونکہ نفس ہی علوم کی تختی اور ان کا محل و مقام ہے۔ جسم تو محدود و متناهی ہونے کی وجہ سے علم کا محل نہیں بن سکتا۔ اس میں کثرتِ علوم کےلئے گنجائش نہیں ہے۔ اس پر صرف نقوش و خطوط ہی ٹھہر سکتے ہیں اور نفس جمیعِ علوم کو بے روک ٹوک قبول کرسکتا ہے اور کسی طرح کی تکان اور زوال اس کی سدّ ِراہ نہیں بن سکتا۔ ہم مختصر طور پر نفس کی تشریح کریں گے۔* 

فصل شرحِ نفس و روحِ انسانی کے بیان میں 

آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو مختلف چیزوں سے پیدا کیا ہے۔ان میں سے ایک جسم ہے جو تاریک و کثیف اور بناؤ بگاڑ کے عمل کے ماتحت ہے۔ اس کی ترکیب مٹی سے ہے اور یہ اپنی تکمیل کے لئے غیر کا محتاج ہے۔ دوسری چیز نفس ہے جو جوہر ِمفرد، روشنی دینے والا، ادراک کرنے والا،فاعل ِمحرک اور آلات واجسام کی تکمیل کا باعث ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے جسم کو اجزائے غذا سے ترکیب دی اور راکھ کے اجزا سے اس کی پرورش کی،اس کی بنیاد تیار کی، ارکان و اعضا برابر اور اطراف معین کئے اور جوہرِ نفس کو اس نے اپنے ایک ہی کامل ،مکمل اور مفید امر سے ظہور عطا فرمایا۔

نفس سے میری مراد وہ قوت نہیں ہے جو غذا طلب کرتی ہےیا وہ قوت جو غصے اور شہوت کو حرکت دیتی ہے اور نہ وہ قوت ہے جو دل میں سکون پذیر ہے اور زندگی پیدا کرنے والی ہے اور دل سے جمیع اعضا کی طرف حس وحرکت کو لے جاتی ہے۔ اس قوت کا نام روح حیوانی ہے۔ حس و حرکت، شہود و غضب اس کی فوج میں داخل ہیں۔ غذا طلب کرنے والی قوت جو جگ میں سکونت رکھتی ہے روح ِطبیعی کہلاتی ہے۔ ہضم اور اخراج فضلہ اس کی صفات ہیں۔ قوت ِمتصورہ ،قوت ِمولدہ، قوتِ نامیہ اور دیگر فرمانبردار قوتیں سب جسم کی خادم ہیں۔ جسم روح ِحیوانی کا خادم ہے کیونکہ وہ اس سے قوت حاصل کرتا اور اس کی تحریک کے مطابق عمل کرتا ہے ۔ نفس سے میری مراد وہ کامل و لایتجزی جوہر ہے جس کا کام صرف ذکر کرنا ، حفظ کرنا، تفکر و تمیز اور غور وخوض ہے۔ وہ تمام علوم کو قبول کرتا ہے اور ان مجرد صورتوں کے تصور وقبول سے بالکل نہیں تھکتا جو مادہ سے خالی ہوتی ہیں۔ یہ جوہر تمام روحوں کا سردار اور تمام قوتوں کا امیر ہے۔سب اس کی خدمت کرتے ہیں اور اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ نفسِ ناطقہ یعنی اس جوہر کو ہر قوم اپنے خاص نام سے موسوم کرتی ہے۔ حکما اس جوہر کو نفسِ ناطقہ کہتے ہیں۔قرآن مجید اسے نفس مطمئنہ اور روح امری کے نام سے پکارتا ہے۔ صوفیہ اس کا نام قلب رکھتے ہیں ۔اسماء و عبادات مختلف ہیں معنی ایک ہی ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں۔ ہمارے نزدیک قلب اور روح ِمطمئنہ سب نفسِ ناطقہ کے نام ہیں ۔ نفس ِناطقہ وہ زندہ جوہر ہے جو کام کرنے والا اور ادراک کرنے والا ہے۔ جب ہم روح مطلق یا قلب کہتے ہیں تو اس سے ہمارا مقصود جوہر ہوتا ہے ۔ صوفیہ روح ِ حیوانی کو نفس کہتے ہیں ۔ شریعت بھی اس پر وارد ہوئی۔ کہا تمہارا سب سے بڑا دشمن اپنا نفس ہے۔ شارع علیہ السلام نے بھی نفس کا نام استعمال کیا بلکہ اضافت اور لگاؤ سے اس کی تاکید و توثیق بھی فرمائی ہے۔ آپ نے فرمایا نَفْسُكَ ‌الَّتِي ‌بَيْنَ ‌جَنْبَيْكَ (تمہارا نفس وہ ہے جو تمہارے دو پہلوؤں کے درمیان ہے)۔اس قول سے آپ نے قوت ِشہوانی و غضبی کی طرف اشارہ فرمایا کیونکہ یہ دونوں قلب سے پیدا ہوتی ہیں، جو دو پہلوؤں کے درمیان ہے۔ جب آپ کو ناموں کا فرق معلوم ہو گیا تو آپ اس امر کو بھی سمجھ لیں کہ اربابِ بحث و تحقیق اس نفیس جوہر کو مختلف طریقوں سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کے متعلق مختلف رائیں رکھتے ہیں۔ مشہور اہلِ کلام و مجادلہ نفس کو جسم شمار کرتے اور کہتے ہیں کہ وہ ایک لطیف جسم ہے جو اس کثیف جسم کے مقابل واقع ہے۔ ان کی رائے میں روح و جسم میں صرف لطافت و کثافت ہی کا فرق ہے۔ ان میں سے بعض روح کو عرض کہتے ہیں اور بعض طبیب بھی اسی طرف مائل ہیں۔ بعض کا یہ قول ہے کہ خون روح ہے ۔ سب نے رائے قائم کرنے میں تخیل پر قناعت کی اور تیسری قسم کی جستجو نہیں کی۔ حالانکہ قسمیں تین ہیں جسم، عرض اور جز وِلا یتجزی۔

روح ِحیوانی جسمِ لطیف ہے۔ گویا روشن چراغ ہے جو دل کے شیشے میں رکھا ہوا ہے۔ اس سے میری مراد وہ صنوبری شکل ہے جو سینے میں لٹک رہی ہے اور زندگی چراغ کی روشنی ، خون اس کا تیل اور حس و حرکت اس کا نور ہے ۔ شہوت اس کی حرارت اور غصہ اس کا دھنواں ہے اور غذا طلب کرنے والی قوت جس کا مسکن جگر ہے۔ اس کی خادم سنتری اور وکیل ہے ۔یہ روح جمیعِ حیوانات میں موجود ہوتی ہے۔ انسان جسم ہے اور اس کی صفات اعراض ہیں۔ یہ روح علم کی طرف راستہ نہیں پاسکتی۔ نہ اس کو مخلوق کا رویہ معلوم ہے اور نہ اسے خالق کے حق کی پہچان اور معرفت ہے۔ وہ محض ایک خادم اور قیدی ہے جو بدن کی موت کے ساتھ ہی مر جاتا ہے۔ اگر خون زیادہ ہوجائے تو یہ چراغ افراطِ حرارت کی وجہ سے اور اگر کم ہوجائے تو کمی ِحرارت سے گل ہو جاتا ہے ۔ اس چراغ کا گل ہو جانا جسم کی موت کا باعث ہوتا ہے۔ یہ روح اللہ تعالیٰ اور شارع علیہ السلام کے احکام کی مکلّف نہیں ہے کیونکہ چوپائے اور دیگر حیوانات شرعی احکام کے مکلف و مخاطب نہیں ہیں۔ انسان کو ایک حقیقت کی وجہ سے مکلف اور مخاطب کیا جاتا ہے اور یہ معنی دیگر حیوانات میں نہیں پائی جاتی اور صرف انسان کے ساتھ خاص ہے ۔ یہ حقیقت نفسِ ناطقہ اور روح ِمطمئنہ ہے۔ یہ روح نہ جسم ہے نہ عرض کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے قُلِ ‌الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي (یارسول اللہ کہو کہ روح میرے پروردگار کے حکم سے ہے)ز

نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا يَاأَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ  ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً۔(اے امن و اطمینان والے نفس اپنے پروردگار کی طرف ایسی حالت میں رجوع کر کہ تو اس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی ہے) اللہ تعالیٰ کا حکم نہ جسم ہے نہ عرض بلکہ عقل اوّل لوح اور قلم کی طرح یہ بھی قوت ِالٰہی ہے۔ یہ قوائے الٰہی اجزائے لایتجزی اور مادہ سے علیٰحدہ ہیں بلکہ یہ مجرد روشنی ہیں جو عقلی ہیں اور حواس کے ذریعے معلوم نہیں ہوسکتیں۔ روح و قلب ہمارے نزدیک ان اجزا کی طرح ہیں اور بگڑنے ، پراگندہ ہونے، فنا ہونے اور مزے کی قابلیت نہیں رکھتے بلکہ بدن سے جدا ہوجاتے ہیں اور قیامت کے دن پھر اسی جسم میں واپس آنے کے منتظر رہتے ہیں جیسا کہ شریعت میں وارد ہے اور قطعی دلائل سے بھی ثابت ہوچکا ہے ۔

روح ِناطق نہ جسم ہے اور نہ عرض بلکہ وہ مضبوط اور غیر فاسد جوہر ہے۔ ہم دوبارہ ثبوت پیش کرنے اور دلائل شمار کرنے سے مستغنی ہیں کیونکہ وہ دلائل مقرر اور مذکور ہیں۔ جو شخص ان کی تصدیق کا طالب ہو اس کو ان کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے جو اس فن سے مناسب ہیں۔ ہمارے طریقے میں برہان و حجت پیش نہیں کی جاتی بلکہ ہم مشاہدہ اور رویتِ ایمان پر اعتماد کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے روح کو کبھی اپنے امر کی طرف اور کبھی اپنی عزت کی طرف مضاف کیااور فرمایا فَنَفَخْتُ فِیْہِ مِن روحِیْ (میں نے اس میں اپنی روح پهونکی)نیز فرمایا قل الروح مِن امر ربی )کہو کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے) نیز فرمایا ونَفَخْناَ فِیْہ مِنْ رُوْحِنا (اور ہم نے اس میں اپنی روح پھونکی ) اور اللہ تعالیٰ اس بات سے بالا ترہے کہ کسی جسم یا عرض کو اپنی طرف مضاف کرے کیونکہ وہ دونوں خسیس ،تغییر پذیر، سریع الزوال اور بگڑ جانے والے ہوتے ہیں۔اور شارع علیہ الصّلوٰۃ والسلام نے فرمایا الْأَرْوَاحُ جُنُودٌ ‌مُجَنَّدَةٌ (روحیں بھرتی کئے ہوئے سپاہی ہوتے ہیں۔) نیز فرمایا اَرْوَاح ُالشُّھَدَاءِ فِیْ حَوَاصِلُ طُیُوْر خُضُر (شہیدوں کی روحیں سبز پرندوں کے پوٹوں میں ہوتی ہیں )۔ عرض جوہر کے فنا ہونے کے بعد باقی نہیں رہتا کیونکہ وہ قائم بالذات نہیں ہے، اور جسم میں اس امر کی قابلیت ہے کہ وہ تحلیل ہو کر وہی کیفیت اختیار کرلے جو مادہ و صورت سے مرکب ہونے سے قبل تھی جیسا کہ کتابوں میں مذکور ہے۔ ان آیات و احادیث اور عقلی دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ روح جزو لایتجزی، کامل اور حی بالذات ہے۔ اس سے تمام قوتیں اس کے سپاہی ہیں۔ یہ جوہر معلومات کی صورتیں اور موجودات کے حقائق قبول کرتا ہے اور ان کے عین اور ذات سے مشغول نہیں ہوتا۔نفس اس امر پر قادر ہے کہ انسان کو دیکھے بغیر انسانیت کی حقیقت کو معلوم کر لے جیسا کہ اس نے فرشتوں اور شیاطین کی حقیقت معلوم کر لی ہے اور ان کے اجسام کو دیکھنے کا محتاج نہ ہوا کیونکہ اکثر انسانوں کے حواس ملائکہ و شیاطین تک نہیں پہنچ سکتے۔ 

صوفیہ کی ایک جماعت کا قول ہے کہ جس طرح جسم کی آنکھیں ہوتی ہیں اسی طرح دل کی بھی ایک آنکھ ہے۔ ظاہری چیزیں ظاہری آنکھ سے اور باطنی اشیا عقل کی آنکھ سے دکھائی دیتی ہیں* 

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مامِن عَبد اِلا وَلِقَلبِہ عَینَان وَھُمَا عَینَانِ یُدرکُ بِھِمَا الغَیب فَاِذَا اَرَادَاللہُ بِعَبد خَیرا فَتَحَ عَینَی قَلبِہ لِیَری مَا ھُو غَائب عَن بَصَرِہ (ہر بندے کے دل کی دو آنکھیں ہوتی ہیں جن سے وہ غیب کا ادراک کرتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے بھلائی کرنا چاہتا ہے تو اس کے قلب کی دونوں آنکھیں کھول دیتا ہے تاکہ وہ ان چیزوں کو بھی دیکھ لے جو اس کی ظاہری آنکھوں سے پوشیدہ ہیں) ۔یہ روح بدن کے مرنے کے ساتھ نہیں مرتی کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کو اپنے دروازے کی طرف بلالیتا ہےاور فرماتا ہے ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ (اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرو۔)اور وہ بدن سے علیٰحدہ ہوجاتی ہےاور اعراض کرلیتی ہے ۔اس اعراض کی وجہ سے حیوانی اور طبعی قوتیں معطل ہوجاتی ہیں۔ حرکت سکون سے بدل جاتی ہےاور اس سکون کا نام موت ہے۔ 

اہل ِطریقت یعنی صوفیہ جسم کی نسبت روح اور قلب پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں چونکہ روح باری تعالیٰ کے حکم سے ہے اس لئے بدن میں اس کی موجودگی بطور مسافر ہوتی ہے اور اس کی توجہ اپنے اصل مرجع ہی کی طرف رہتی ہے۔وہ جسم قوی کی نسبت اپنے اصل سے زیادہ فوائد حاصل کرتا ہے اس لئے طبیعت کی آلائشوں سے پاک رہتا ہے۔ 

جب آپ اس امر سے واقف ہوچکے کہ روح جو ہر فرد یعنی جز ولا یتجزی ہے اور جسم کے لئے مکان لا بدی ہے اور عرض جوہر کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا تو آپ کو یہ معلوم کرنا چاہئے کہ یہ جوہر نہ کسی محل میں اترتا ہے اور نہ کسی مکان میں رہتا ہے ۔ جسم نہ روح کا مکان ہے اور نہ قلب کا محل بلکہ بدن آلۂ روح، وسیلۂ قلب اور نفس کی سواری ہے۔ روح بذاتہ نہ بدن سے متصل ہے اور نہ اس سے منفصل بلکہ وہ بدن کے لئے مفید و فیض رساں ہے اور اس کے طرف متوجہ بھی ہوتی ہے۔ دماغ پر سب سے پہلے اس کے نور کا ظہور ہوتا ہے کیونکہ دماغ روح کی خاص جلوہ گاہ ہے۔ اس کا اگلا حصہ اس کا سنتری، وسطی وزیر ومدبر اور پچھلا حصہ خزانہ و خزانچی ہے اور باقی تمام اجزائے دماغ پیادے اور سوار ہیں۔ روح حیوانی اس کی خادم، روح طبیعی وکیل، بدن گھوڑا، دنیا میدان، زندگی مال و سامان، حرکت تجارت، علم منافع، آخرت منزل ومقصود، شریعت رہگذر وسبیل، نفس امارہ سنتری اور نقیب، نفس لوامہ جگانے والا، حواس خہدا جاسوس ومعاون، دین زرہ، عقل استاد اور حس شاگرد ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے اوپر نگراں ہے اور وہ نفس جس کے یہ سامان و صفات ہیں بذاتہ اس جسم کی طرف متوجہ یا اس سے متصل نہیں ہوتا بلکہ اسے فائدہ پہنچاتا ہے اور اس کا رخ اللہ تعالیٰ کی طرف رہتا ہے۔ اس سفر کے دوران روح صرف طلب علم میں مصروف رہتی ہے کیونکہ علم ،قیامت میں اس کا لباس ہوگاکیونکہ مال و اولاد کا لباس دنیا کی چند روزہ زندگی کی زیب و زینت ہے۔ جس طرح اشیا کے دیکھنے میں مشغول ہے اور کان آوازیں سننے پر مداومت کرتا ہے اور زبان باتوں کی ترکیب کے لئے تیار رہتی ہےاور روح حیوانی لذات ِغضبیہ کی مرید اور روح ِطبیعی لذات ِخورد ونوش کی دلدادہ ہے ۔ روحِ مطمئنہ یعنی دل صرف علم کی طالب ہے۔ اسی لئے اس کی رضا وابستہ ہے۔ عمر بھر علم ہی سیکھنے میں مشغول رہتی ہے تادمِ مفارفت اس کے تمام دن زیور علم سے آراستہ ہوتے ہیں۔ اگر وہ علم کے سوا کوئی اور چیز کبھی قبول کر بھی لے تو وہ محض بدن کی مصلحت کے لئے کرتی ہے نہ کہ اپنی ذات کے لئے یا اپنے اصل کی محبت کے لئے۔ جب آپ کو روح کے حالات ،اس کی بقاء و دوام اور علم کے ساتھ اس کے عشق وشغف سے آگاہی ہوگئی ہے تو آپ پر لازم ہے کہ کئی اقسام کے علوم سیکھیں۔ علم کی بہت سی قسمیں ہیں ہم ان کو مختصراً شمار کرتے ہیں۔

علم کی اقسام و اصناف کا بیان 

واضح رہے کہ علم کی دو قسمیں ہیں۔ ایک شرعی، دوسری عقلی۔ اکثر شرعی علوم ان علوم کے جاننے والے کےنزدیک عقلی ہوتےہیں اور اکثر عقلی علوم ان علوم کے ماہرین کے نزدیک شرعی ہوتے ہیں۔وَمَنْ لم یجعل اللہ لہ نوراً فما لہ مِن نور (اور جس شخص کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور سے حصہ نہ ہو وہ نور سے محروم رہتا ہے)* 

پہلی قسم یعنی علم ِشرعی کی فی نفسہ دو قسمیں ہیں۔ ایک اصولی علم یعنی علمِ توحید ہے ۔یہ علم اللہ تعالیٰ کی ذات ،اس کی صفات قدیمہ و فعلیہ اور متعدد ذاتی صفات پر بحث کرتا ہے اور طریقِ مذکور کے مطابق ان کے اسماء معین کرتا ہے۔ نیز یہ علم انبیاء، ائمہ اور صحابہ کے حالات پر بحث کرتا ہے اور موت و حیات، حالاتِ قیامت، بعث و حشر، حساب اعمال اور اللہ تعالیٰ کے دیدار کے متعلق بحث وتمحیص کرتا ہے۔ اس علم کے ارباب ِنظر پہلے اللہ تعالیٰ کی آیاتِ قرآنی کے ساتھ تمسک کرتے ہیں۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کی احادیث و آثار سے دلیل اخذ کرتے ہیں۔ اس کے بعد دلائلِ عقلیہ و براہین ِقیاسیہ کی طرف جاتے ہیں۔ قیاس ِجدلی و قیاسِ عنادی اور ان دونوں کے متعلقات و لوازم کے مقدمات منطق و فلسفہ سے اخذ کرتے ہیں۔ ان لوگوں نے اکثر الفاظ کو ایسے محل و مواقع پر استعمال کیا ہے جن کے یہ الفاظ موضوع نہیں تھے اور وہ جوہر ،عرض، دلیل ، استدلال اور حجت کی اصطلاحات سے اپنی عبارات کو تعبیر کرتے ہیں، ان الفاظ کے معنی ہر قوم کے نزدیک خاص ہوتے ہیں جو دیگر اقوام کے معانی سے مختلف ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ حکماء جوہر سے مراد کچھ لیتے ہیں اور صوفیہ اس کے کچھ اور معنی مراد لیتے ہیں ۔اہل کلام ان سے بھی مختلف ہیں۔ وقس علی ہذا* 

اس کتاب کا یہ منشا نہیں ہے کہ قوم کی آرائے کے مطابق ان الفاظ کے معانی کی تحقیق کی جائے۔ اس لئے ہم اس کو نہیں شروع کریں گے۔ جو لوگ اصول اور علم توحید میں خاص طورپر کلام کرتے ہیں ان کا لقب متکلمین یا اہل کلام ہےکیونکہ علم ِکلام کا نام علم ِتوحید پر مشہور ہوا ہے ۔ علم ِاصول میں سے ایک علمِ تفسیر ہے کیونکہ قرآن جمیعِ اشیا میں سب سے بڑا، سب سے زیادہ روشن، سب سے زیادہ بزرگ اور سب سے زیادہ عزیز ہے۔ 

اس علم میں بہت سی مشکلات ہیں جن کو صرف وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس کواللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کا فہم عطا فرمایا ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے مَامِن اٰیۃ مِن اٰیاتِ القُرآنِ الا وَلھَا ظَہر وَلِبَطن وَلِبَطنہ بَطن اِلیٰ سَبعۃِ اَبطُن۔(ہر قرآنی آیت کا ایک ظاہر ہوتا ہے اور ایک باطن اور باطن کا بھی باطن ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ ہر ایک آیت کے سات باطن ہوتے ہیں۔)* 

ایک روایت میں ہے کہ ہر ایک آیت کے نو باطن ہوتے ہیں۔ نبی ؐ نے فرمایا ہےقرآن کریم کے ہر ایک حرف کے لئے ایک حد اور ہر ایک حد کے لئے ایک مطلع ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جمیعِ علوم اور موجودات کے جلی و خفی، صغیر و کبیر اور محسوس و معقول کے متعلق خبر دے دی ہے ۔اللہ تعالیٰ کے اس قول کا اشارہ اسی امر کی طرف ہے وَلا رَطبٍ وَلا یَابسٍ اِلا فِی کِتَابٍ مُّبین۔ (ہر چیز خشک ہویا تر کتاب مبین میں منضبط ہے)۔* 

نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا لِیُدَبِّرُوا اٰیاتہ وَلِیَتذَکَّرو اُولُو الاَلبَاب (ان کو آیات الٰہی پر غور وتدبر کرنا چاہئے اور ارباب ِعقل کو نصیحت پذیر ہونا چاہئے) جب قرآن کا معاملہ سب امور سے بڑا ہے تو کون مفسر اس کا حق ادا کرسکتا ہے اور کون عالم اس سے کماحقہٗ عہدہ برآ ہوسکتا ہے ۔مانا کہ ہر ایک مفسر نے اپنی طاقت واستعداد کے مطابق اس کی شرح کی ابتدا کی اور اپنی اپنی قوت عقل اور بساط علمی کے اندازے سے اس کی تفسیر و بیان میں مرکب رانی کی اور سب نے کچھ نہ کچھ کہا اور جو کچھ کہا حقیقت کے مطابق کہا۔ علم ِقرآنی علمِ اصول و فروع ،علمِ شرعی اور عقل پر دلالت کرتا ہے۔ مفسر پر واجب کہ قرآنِ کریم پر مختلف وجوہ و حیثیات سے غور کرے،لغت، استعارے، تراکیب لفظ، مراتب، نحو، عادتِ عرب،امور ِحکما اور کلامِ صوفیہ پر غور وخوض کرنے کے بعد نہیں۔تفسیر درجۂ تحقیق سے قریب ہوتی ہے اگر ایک ہی حیثیت اور ایک ہی فن پر قناعت کیا جائے تو حقِ تفسیر ادا کرنا اور بیانِ قرآن سے عہدہ برآ ہونا ممکن نہیں ہے اور حجت ِایمان اور اتمامِ برہان کی ذمہ داری ایسے مفسر کے سر پر بدستور قائم رہتی ہے ۔علم ِاصول کی ایک شاخ علمِ حدیث بھی ہے ۔ نبیِؐ عرب و عجم فصیح ترین متکلم تھے۔ وہ ایسے معلم و استاد تھے جن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آتی تھی۔ آپ کی عقل عالمِ اعلیٰ و عالمِ اسفل دونوں پر محیط تھی۔ آپ کی ایک ایک بات بلکہ ایک ایک لفظ میں اسرار و رموز کے بحر ِپنہاں ہیں۔ اس لئے اس کے آثار و اخبار کو جاننا اور اس کی احادیث کی معرفت حاصل کرنا ایک بہت بڑا کام اور دشوار امر ہے۔ کوئی شخص علمِ کلام ِنبوی کو اس وقت نہیں سمجھ سکتا جب تک وہ شارع علیہ الصلوۃ والسلام کی متابعت اور پیروی سے اپنے نفس کو درست نہ کرلے اور شرع ِنبیؐ کی متابعت و اقتداسے اپنے دل کی کجی دور نہ کردے ۔جس شخص کا یہ ارادہ ہو کہ وہ تفسیر ِقرآن، تاویل ِاحادیث بھی کرے اور اس کا کلام درست بھی رہے تواس پر اولاً علم لغت کا سیکھنا، نحو میں تبحر ومہارت پیدا کرنا، محاورہ ٔاعراب سے واقفیت و رسوخ حاصل کرنا اور اقسامِ صرف میں دسترس حاصل کرنا ضروری ہے کیونکہ علمِ لغت جمیع علوم کی سیڑھی ہے۔جس کو لغت کی پہچان نہ ہو اس کے لئے تحصیلِ علوم کی کوئی صورت نہیں ہوسکتی کیونکہ جو شخص کسی سطح ِمرتفع پر چڑھنا چاہے تو اس پر پہلے سیڑھی لگانا لابدی ہے اور اس کے بعد وہ اس سطح کی طرف بڑھنے کی امید کرسکتا ہے۔ علمِ لغت ایک عظیم الشان وسیلہ و ذریعہ اور مہتم بالشان سیڑھی ہے۔ طالب علم احکامِ لغت سے مستغنی نہیں ہوسکتا کیونکہ علمِ لغت اصل الاصل ہے، اور علم لغت کی پہلی منزل حروف و ادوات کا پہچاننا ہے اور وہ مفرد کلموں کے قائم مقام ہے۔ اس کے بعد افعال کا پہچاننا ضروری ہے مثلا ثلاثی رباعی وغیرہ۔ لغت داں کو چاہئے کہ وہ اشعارِ عرب میں غور وفکر کرے جن میں سب سے زیادہ معتبر اور اولیٰ جاہلیت کے اشعار ہیں کیونکہ ان سے دل کی تنقیح اور نفس کو راحت حاصل ہوتی ہے۔ شعر و ادوات و اسماء کے علاوہ علمِ نحو کی تحصیل بھی ضروری ہے کیونکہ وہ علمِ لغت کے لئے ایسا ہی ہے جس طرح سونے اور چاندی کے لئے ترازو اورعلم حکمت کے لئے منطق۔ شعر کے لئے علمِ عروض، کپڑوں کے لئے گز اور غلے کے لئے مکیال ۔ جب تک کوئی چیز ترازو سے وزن نہ کی جائے، اس میں زیادت اور کمی کی اصلیت ظاہر نہیں ہوتی۔ علمِ لغت علمِ تفسیر و علمِ حدیث کا ذریعہ اور علم قرآن و حدیث علم ِتوحید کا رہنما ہے۔ علم ِتوحید وہ چیز ہے کہ بندوں کے نفس صرف اسی کے ذریعہ نجات اور خوف ِمحشر و معاد سے رستگاری حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ علمِ اصول کی تفصیل ہے۔ علم شرعی کی دوسری قسم علم ِفروع ہے۔ علم کی دو قسمیں ہیں۔ ایک علمی دوسری عملی ۔علم ِاصول، علمی اور علمِ فروع، عملی ہوتا ہے اور یہ عملی عمل تیں حقوق پر مشتمل ہوتا ہے * 

پہلے اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور وہ ارکانِ عبادات مثلا طہارت ونماز، زکوٰۃ، حج، جہاد، اذکار ووظائف، عیدین اور جمعہ اور ان کے علاوہ دیگر نوافل و فرائض ہیں* 

دوسرے حقوق بندوں کے ہیں۔ اور یہ رسوم و عادات کے ابواب ہیں۔ جو دو صورتوں میں جاری ہیں۔ اول معاملات۔ مثلاً بیع، شرکت، ہبہ، قرض، دین، قصاص وغیرہ۔ دوم معاقدات مثلاً نکاح، طلاق، عتق، رق، فرائض اور ان کے متعلقات۔فقہ انہی دو حقوق کا نام ہے۔ علم فقہ شریف، مفید عام اور ضروری ہے اور چونکہ اس کی ضرورت عام طورپر پڑتی ہے اس لئے اس سے لوگ مستغنی نہیں ہوسکتے۔ 

تیسرا حق نفس کا ہے اوروہ علمِ اخلاق ہے۔ اخلاق یا تو مذموم ہوتے ہیں اور ان کا ترک و انقطاع واجب ہوتا ہے یا اچھے ہوتے ہیں اور ان کو حاصل کرنا اور نفس کو ان سے آراستہ کرنا ضروری ہوتاہے۔ اخلاقِ مذمومہ اور اوصاف ِحمیدہ قرآن ِکریم اور احادیثِ رسولؐ میں بیان ہوچکے ہیں۔ وہ عام طورپر مشہور ہیں۔ جس نے اخلاقِ حمیدہ میں سے کسی ایک کو حاصل کرلیا جنت میں داخل ہوگیا* 

علم کی دوسری قسم علمِ عقلی ہے۔ یہ بڑا مشکل علم ہے اس میں انسانی فکر و دماغ غلطی و درستی کا مورد و ہدف بنا رہتا ہے۔ اس علم کے تین مراتب ہیں* 

پہلا مرتبہ ریاضی و منطق کا ہے۔ حساب ریاضی کی ایک قسم ہے اور عدد پر بحث کرتا ہے اور علمِ ہندسہ بھی ریاضی کی قسم ہے۔ اس میں مقدار و اندازہ اور اشکال پر بحث ہوتی ہے ۔ علمِ ہئیت جو ریاضی کی تیسری قسم ہے یہ علم ِافلاک و نجوم اور علمِ اقالیم ،زمین اوران دیگر علوم پر مشتمل ہے جو ان سے متعلق ہیں۔ علمِ نجوم اور علم ِموالید وطوالع اسی علم کی شاخیں ہیں۔ علمِ موسیقی بھی ریاضی کی قسم ہے اور سروں اور تاروں پر بحث کرتا ہے ۔علمِ منطق میں ان اشیا کی حد و تعریف اور قانون و احکام پر بحث ہوتی ہے جن کا تصور سے ادراک ہوتا ہے اور جو علومِ تصدیق کے ذریعہ سے حاصل ہوتے ہیں ۔ان پر دلیل و قیاس کے طریق سے بحث ہوتی ہے۔ علم ِمنطق کی ابتدا مفردات سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد وہ بالترتیب مرکبات، قضایا، اقسامِ قیاس اور مطلبِ دلیل و برہان کی طرف دورہ کرتا ہے اور اسی مقام پر منطق ختم ہوجاتی ہے* 

دوسرا مرتبہ علمِ طبیعی کا ہے۔ اس علم میں جسم ِمطلق، ارکانِ عالم، جواہر و اعراض، حرکت وسکون، آسمانوں کےحالات اور اشیائے فعلیہ وانفعالیہ پر بحث ہوتی ہے۔ اسی علم سے موجودات کے مراتب، نفوس اور مزاج کی قسمیں اور حواس کی مقدار معلوم ہوتی ہے۔نیز اس بات سے آگاہی ہوتی ہے کہ کیونکر حواس اپنے محسوسات کا ادراک کرتی ہیں۔ اس کےبعد یہی علم ترقی کر کے علم ِطب تک پہنچتا ہے۔ یہ بدن کی بیماریوں دواؤں اور علاجات وغیرہ کا علم ہے۔ علم ِآثارِ علویہ، علم ِمعدنیات، اشیا کی خاصیتوں کی پہچان، اسی علم کی شاخیں ہیں ۔اس علم کا اختتام علمِ کیمیا پر ہوتا ہے جس میں ان اجسامِ مریضہ کا علاج مذکور ہوتا ہے جو معادن اور کانوں میں موجود ہوتے ہیں* 

تیسرا مرتبہ اس علم کا ہے جو موجود پر نظر و بحث کرتا ہے اور پھر موجود کو واجب وممکن پر تقسیم کرتا ہے اور صانع اور اس کی ذات وصفات اور اس کے افعال پر بحث کرتا ہے۔نیز وہ صانع کے امر ، اس کے حکم و قضا اور اس سے موجودات کے ترتیب و تنظیم کے ساتھ ظاہر ہونے پر غورو خوض کرتا ہے۔ پھر وہ عالم بالا ،جواہر ِغیر مادی، عقولِ غیر مادی، نفوسِ کاملہ اور ملائکہ و شیاطین کے حالات بیان کرتا ہے۔ اخیر میں یہ علم نبوتوں، معجزوں، کرامتوں، نفوسِ مقدسہ، نیند اور بیداری اور مدارج ِخواب پر بحث کرتا ہے۔ علمِ طلسمات، علم ِنیرنجات (جادو سحر وغیرہ) اور اسی طرح کے دیگر علوم اسی مرتبہ علم کی شاخیں ہیں۔ اس علم کی تفصیلات اور اعراض و مراتب واضح اور مدلل طریق پر تشریح کے محتاج ہیں لیکن اختصار بہت ہے۔ 

یاد رکھیں کہ علم ِعقلی بذاتہ مفرد ہے اور اس سے علم ِمرکب پیدا ہوتا ہے جس میں دو مفرد علموں کے تمام حالات پائے جاتے ہیں یہ علمِ مرکب علمِ تصوف اور علمِ طریقہ حالاتِ صوفیہ ہے کیونکہ صوفیہ کا ایک خاص اور واضح علم ہوتا ہے جو دو علوم کے مجموعے سے پیدا ہوتا ہے اور ان کا علم حال، وقت و سماع، وجد و شوق، بے ہوشی و اعادہ ہوش، اثبات و محو، فقرو فنا، ولایت و ارادت، شیخ و مرید و دیگر حالات ِصوفیہ و ان کے فضائل و اوصاف اور ان کے مقامات و مراتب پر مشتمل ہے۔ہم انشاء اللہ ان تینوں علوم کو خاص کتاب میں بیان کریں گے۔ اس رسالہ میں ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ علوم اور ان کے اقسام کو شمار کردیں۔ ہم نے ان کا اختصار کیا اور بطریق اختصار ہی ان کو شمار بھی کردیا ہے۔ 

جس شخص کا اراداہ مزید مطالعہ کا ہو اور ان علوم کی تشریح معلوم کرنا چاہے تو اس کو مطالعۂ ٔ کتب کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔* 

جب اقسامِ علوم شمار کی جا چکیں تو آپ کو یہ امر بھی قطعی و یقینی طورپر یاد رکھنا چاہئے کہ ان میں سے ہر ایک علم اور ہر ایک فن کے متعدد شرائط ہوتے ہیں جن کے بغیر وہ علم یا فن طالب علم کے دل میں منقوش نہیں ہوسکتا، علم کو شمار کرنے کے بعد آپ کوتحصیلِ علوم کے طریقے معلوم کرنے ضروری ہیں۔ کیونکہ تحصیل کے طریقے معین و مقرر ہیں ہم ان کو تفصیلاً بیان کریں گے۔* 

فصل تحصیلِ علوم کے طریقوں کے بیان میں 

آپ کو جاننا چاہئے کہ علم ِانسانی کے حصول کے دو طریقے ہیں۔ ایک تعلیمِ انسانی اور دوسراتعلیمِ ربانی۔پہلا طریق معمولی ہے جو ایک محسوس راہ ہے اور جس کے تمام عقلاء مقر(اقرار کرنا) و معترف ہیں۔ تعلم ربانی کی دو قسمیں ہیں۔ ایک خارجی جو سیکھنے سے حاصل ہوتاہے،دوسرا داخلی جو تفکر کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ جس طرح تعلم (سیکھنا)ظاہرسے متعلق ہوتا ہے اسی طرح تفکر باطن سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ کسی شخص کے کسی شخص جزئی سے فائدہ حاصل کرنے کا نام اور کسی نفس کے نفس کلی سے مستفید ہونے کا نام تفکر ہے اور نفس کلی جمیع علماء و عقلا کی نسبت زیادہ قوی اورموثر معلم ہے ۔علوم ِاصل نفوس میں بالقوه اس طرح مرکوز ہوتے ہیں جس طرح بیج زمین اورموتی سمندر کی گہرائی یا قلب معدن میں۔ اس چیز کی قوت سے فعل کی طرف آنے کی کوشش کو تعلم کہا جاتا ہے اور اسی چیز کو قوت سے فعل کی طرف لانے کی کوشش کا نام تعلیم ہے ۔اس لئے سیکھنے والے کا نفس سکھانے والے کے نفس سے مشابہ اور رشتے میں قریب ہوتاہے۔ فائدہ پہنچانے والا عالم کاشتکار کی مانند اور سیکھنے اور فائدہ حاصل کرنے والا شخص کھیتی کی مانند ہوتا ہے ۔ علم بالقوه بیج کی مانند اور علم بالفعل پودے اور نبات کی مانند ہے۔ جب سیکھنے والے کا نفس کامل ہوجائے تو وہ میوہ دار درخت یا اس موتی کی مانند ہو جاتا ہے جو سمندر کی گہرائی سے نکالا جاتا ہے۔ جب قوائے بدنی نفس پر غالب آجائیں تو سیکھنے والا شخص اس امر کا محتاج ہوتا ہے کہ مدت ِدراز تک سیکھتا رہے ، محنت ومشقت برداشت کرتا رہے اور علم کی جستجو کرتا رہے ۔ جب نورِ عقل غالب آجا ئے تو طالب علم تھوڑے سے تفکر کے ذریعہ کثرت ِتعلم سے مستغنی ہوجاتا ہےکیونکہ قابل نفس ایک گھنٹے کےتفکرسے اس قدر فوائد حاصل کرسکتا ہے کہ جامد نفس ایک سال تک سیکھنے سے بھی حاصل نہیں کرسکتا۔

بعض آدمی تعلیم سے علوم حاصل کرتے ہیں اور بعض تفکر سے ۔ تعلیم بھی تفکر کا محتاج ہے کیونکہ انسان تمام جزئی وکلی اشیاء اور تمام معلومات کے تعلم پر قادر نہیں ہے بلکہ کچھ حصہ سیکھتا ہےاور کچھ تفکر کے ذریعہ حاصل کرتا ہے اور اکثر نظری علوم اور عملی فنون حکماء کے نفوس نے استخراج کئے ہیں جن میں ان کو زیادہ سیکھنا یا حاصل کرنا نہیں بلکہ ان کی پاکیزگیٔ ذہن، قوتِ فکر اور زیر کی کیوجہ سے خود بخود ہی ظاہر ہوتے گئے۔ اگر انسان پہلے کچھ علم حاصل کرنے کے بعد بذریعہ تفکر استخراج نہ کرتا تو لوگوں پر حصول ِعلم بہت طویل کام ہوجاتا اور دلوں سے جہل کی تاریکی زائل نہ ہوتی کیونکہ نفس اپنے تام ِجزئی وکلی امورِ مہمہ کو بذریعہ تعلیم حاصل نہیں کرسکتا بلکہ بعض تحصیل کے ذریعہ اور بعض لوگوں کی عادات اور اچھی باتوں کے تبادلہ و مطالعہ سے اور بعض شستگیٔ فکر کے وجہ سے استخراجاً معلوم ہوجاتے ہیں۔ علماء کی عادت یہی رہی ہے اور اس پر قواعد ِعلوم مرتب کئے گئے ہیں۔ حتیٰ کہ انجینئربھی ان تمام چیزوں کو جو اسے عمر بھر درکار ہوتی ہیں نہیں سیکھتا بلکہ صرف اپنے علم کے کلیات و موضوعات سیکھ لیتا ہے اور اس کے بعد استخراج اور قیاس کو استعمال کرتا ہے اور اسی طرح طبیب بھی اشخاص کی بیماریوں اور دواؤں کی جزئیات نہیں سیکھ سکتا بلکہ اپنے عام معلومات میں تفکر کرتا ہے اور ہر شخص کا علاج اس کے مزاج کے مطابق کرتا ہے۔ نجومی کلیاتِ نجوم سیکھتا ہے اور اس کے بعد تفکر کرتا ہے اور مختلف فیصلے صادر کرتاہے۔ فقیہہ و ادیب اور عجائب و فنون کی بھی یہی صورت ہوتی ہے۔ ایک شخص اپنے تفکر سے مارنے کا آلہ یعنی لاٹھی وضع کرتا ہے اور دوسرا اس آلہ سے دوسرا آلہ استخراج کرلیتا ہے۔ تمام جسمانی اور روحانی عجائب کی یہی صورت ہے۔ پہلے پہل عجائب تعلیم سے حاصل ہوتے ہیں اور اس کے بعد باقی عجائب تفکر سے پیدا ہونےلگتے ہیں۔ جب نفس پر فکر کا دروازہ کھل گیا تو اس کو طریق ِتفکر کی کیفیت معلوم ہوجائے گی۔ نیز یہ بات بھی معلوم ہوجائے گی کہ کیونکر زیر کی وفہم کے ذریعہ مطلوب کی طرف رجوع ہوتا ہے۔ اس طرح انشراحِ قلب و انفتاحِ بصیرت ہوجاتا ہے اور جو علم انسان کے نفس میں بالقوہ موجود ہوتا ہے حالتِ فعل کی طرف رجوع و خروج کرتا ہے اور زیادت ِطلب و طولِ مشقت سے نجات حاصل ہوجاتی ہے۔

علماء ربانی کی دو صورتیں ہیں۔ پہلی صورت القائے وحی ہے ۔جب نفس کی ذات کامل ہوجاتی ہے، طبیعت کا میل کچیل اور حرص و ہوا کی گندگی اُس سے رفع ہوجاتی ہے اور خواہشاتِ دنیا سے اُس کی نظر جدا ہوجاتی ہے ،فنا ہونے والی آرزوؤں سے اس کا رشتہ منقطع ہوجاتا ہے اور وہ اپنے خالق باری کی طرف رخ کر لیتا ہے ،اسی کی بخشش سے تمسک کرنے لگتا ہے اسی کے افادہ اور فیض ِنور پر بھروسہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ جس عنایت سے اس نفس کی طرف پورے طور پر متوجہ ہوجاتاہے الٰہی نظر سے اس کی طرف دیکھتا ہے ، اس کو لوح بناتا ہے اور نفس کلی کو قلم اور اس نفس میں جمیعِ علوم لکھ دیتا ہے عقل ِکل معلم اور نفسِ قدسی متعلّم بن جاتا ہے اور اُس نفس کو جمیعِ علوم حاصل ہوجاتے ہیں۔ تعلم و تفکر کے بغیر تمام صورتیں اس میں منقوش ہوجاتی ہیں۔ اس کا ثبوت اللہ تعالیٰ کے اس قول میں موجود ہے  ‌وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ (اور اے رسول ﷺتجھے اللہ تعالیٰ نے وہ علوم سکھائے جو تجھے معلوم نہیں تھے )انبیاء کا علم لوگوں کے جمیعِ علوم سے اشرف و اعلیٰ ہوتا ہے کیونکہ وہ بلا واسطہ وسیلہ اللہ تعالیٰ سے حاصل ہوتاہے اور اس کا بیان آدم علیہ السلام اور ملائکہ کے قصے میں مذکور ہے۔فرشتے اپنی تمام عمر علم سیکھتے رہے اور انواع واقسام کے طریقوں سے بہت سے علوم حاصل کئے تب کہیں جاکر اَعْلَمُ الْمَخْلُوْقات یعنی تمام مخلوقات سے زیادہ عالم اور اَعْرَفُ الموجوداتِ یعنی جمیعِِ موجودات میں سب سے زیادہ عارف بنے اور آدم علیہ السلام عالم نہیں تھے کیونکہ انہوں نے نہ کچھ سیکھا تھا اور نہ کسی معلم کی صورت دیکھی۔فرشتے ان کے مقابلے میں فخر وتکبر کرنے لگے اور بزرگ بننے کی کوشش کی اور کہا اے اللہ تعالیٰ ہم تیری حمد و تسبیح اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں۔ اشیا کی حقیقتوں سے واقف ہیں۔ آدم علیہ السلام اپنے خالق کے دروازہ کی طرف واپس چلے گئے۔ جمیعِ مخلوقات سے اپنا دل پھیر لیا اور اللہ سے اعانت طلب کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو تمام نام سکھا دیئے ۔اس کے بعد فرشتوں کے رو برو وہ اشیا پیش کیں اور فرمایا أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَؤُلَاءِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ) اس پر فرشتے آدم علیہ السلام کے سامنے سرنگوں ہوگئے ۔ان کا علم قلیل ثابت ہوا۔ ان کا سفینۂ جبروت مسترد ہوا اور بحِر عجز میں غرق ہوگئے اور کہنے لگے لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا (ہم کو تو وہی معلوم ہے جو تونے ہم کو سکھایا) اللہ تعالیٰ نے فرمایا يَاآدَمُ أَنْبِئْهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ (اے آدم ان کو بتاؤ)آدم علیہ السلام نے چند پوشیدہ علمی نکات اور دُر معنی سے ان کو آگاہ کیا، عقلاء کے نزدیک یہ بات قرار پائی کہ وہ غیبی علم جو وحی کے ذریعے پیدا ہو اور کسی علوم کی نسبت زیادہ قوی و مکمل ہوتا ہے اور وحی کا علم انبیا کی وراثت ہے اور رسولوں کا حق ہے اللہ تعالیٰ نے ہمارے سردار حضرت محمدرسول اللہﷺ کے زمانے سے وحی کا دروازہ بند کردیا ہے اور رسول اللہ ﷺخاتم النبین اور عرب و عجم کے فصیح ترین اور عدیم النظیر عالم تھے۔ آپ فرماتے تھے کہ کہ مجھ کو اللہ تعالیٰ نے ادب سکھایا ہے اور نہایت اچھا ادب سکھایاہے۔

نیز آپ اپنی قوم کو یہ بھی فرمایا کرتے تھے میں آپ سب لوگوں کی نسبت زیادہ عالم اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔ آپ کا علم مکمل ترین، شریف ترین اور قوی ترین تھا کیونکہ آپ نے تعلیمِ ربانی سے علم حاصل کیا اور انسانی تعلم و تعلیم سے آپ کو بالکل شغل نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى (نبی کریم ﷺکو بڑی مضبوط قوتوں والی ہستی نے علم سکھایا۔)۔

دوسری صورت الہام ہے۔ نفس ِکلی انسانی نفس جزئی کو اس کی صفائی، اثر پذیری اور قوت ِاستعداد کے مطابق بیدار کرتا ہے۔ اس فعل کا نام الہام ہے۔ الہام وحی کی علامت ہے کیونکہ امرِ غیبی کی تصریح اور الہام اس کی تعریض و اشارہ کا نام ہے۔ جو علم وحی سے حاصل ہو اس کا نام علمِ نبوی ہوتا ہے اور جو علم الہام سے حاصل ہو اس کو علم ِلدّنی کہتے ہیں۔ علمِ لدّنی وہ علم ہے جس کے حصول کے وقت نفس اور باری تعالیٰ کے درمیان کوئی واسطہ وسیلہ نہ ہوبلکہ وہ ایک روشنی ہو جو غیبی چراغ سے ایک صاف، سادہ اور لطیف دل پر براہ راست پڑ رہی ہو۔ 

ان تمام علوم کوجو جوہر ِنفس کلی اول میں موجود ہیں جوکہ جواہر ِغیر مادی میں سے ہے، عقل اوّل سے وہی نسبت ہے جو حوّا علیہا السلام کو آدم علیہ السلام سے ہے۔ یہ بیان ہوچکا ہے کہ عقلِ کلی نفس ِکلی کی نسبت زیادہ شریف، زیادہ مکمل، زیادہ قوی اور باری تعالیٰ کی طرف زیادہ قریب ہے اور نفس ِکلی جمیعِ مخلوقات کی نسبت زیادہ عزیز و لطیف و شریف ہے۔ عقل ِکلّی کے فیض سے وحی اور نفسِ کلّی کی ضیا باری سے الہام پیدا ہوتا ہے۔ وحی انبیا کا زیور اور الہام اولیا کی زینت ہے۔ جس طرح نفس عقل سے ولی نبی سے کم درجے پر ہوتا ہے اسی طرح الہام وحی کی نسبت کم درجہ رکھتا ہے۔ الہام وحی کی نسبت ضعیف اور خواب کی نسبت قوی ہوتا ہے۔ علم انبیا اور اولیا کا علم ہے۔ علم ِوحی پیغمبروں کے ساتھ خاص اور انہیں پر موقوف ہے جیسے کہ آدم علیہ السلام، موسی علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اور دیگر پیغمبروں کا علم تھا۔

رسالت اور نبوت میں فرق ہے۔ نفس قدسی کے جوہر عقلِ اوّل سے معلومات و معقولات کے حقائق قبول کرنے کو نبوت اور ان معلومات و معقولات کو فائدہ حاصل کرنے والوں اور قبول کرنے والوں تک پہنچانے کو رسالت کہتے ہیں۔ بسااوقات ایسا ہوتا ہےکہ کسی نفس کو حقائق ِمعلومات و معقولات کا قبول حاصل ہو جاتا ہےلیکن کسی عذر یا نسبت سے اس کو حق ِتبلیغ حاصل نہیں ہوتا۔علم لدّنی اہل نبوت و ولایت کو حاصل ہوتا ہے۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علیہ السلام کے متعلق فرمایا وَعَلّمْنَاہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْماً (اور ہم نے اس کو لدنی علم سکھایا)۔

امیرالمومنین علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ’’میرے منہ میں زبان رکھی گئی اور میرے قلب میں علم کے ایک ہزار دروازے کھل گئے‘‘۔ اور ہر ایک دروازے کے ساتھ ایک ہزار دروازہ ہے۔

نیز آپ نے فرمایا کہ ’’ اگر میرے لئے فرش بچھا دیا جائے تو میں اہلِ تورات کو تورات کے، اہل ِانجیل کو انجیل کے اور اہلِ قرآن کو قرآن کے احکام سنادوں۔‘‘ اور یہ درجہ صرف تعلیمِ انسانی سے حاصل نہیں ہوسکتا بلکہ علمِ لدنی کی قوت سے مرد کو یہ زیور عطا ہوتا ہے ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ بھی فرمایا کہ حکایت ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی کتاب کی شرح اتنی بڑی تھی کہ اس کو چالیس اونٹ اٹھاتے تھے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اجازت فرمائے اور میں صرف سورہ ٔفاتحہ کی تفسیر شروع کردوں تو وہ بھی اتنی ہی بھاری ہوجائے اور علم کی اس قدر کثرت وسعت اور انفتاح و انشراح محض لدّنی اور ربانی اورآسمانی ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے بھلائی کرنا چاہتا ہے تو اپنے اور اس کی لوحِ نفس کے درمیان سے حجاب اٹھا لیتا ہے اور اس لوح پر بعض پوشیدہ اسرار و رموز ظاہر ہوجاتے ہیں اور اس پر اسرار و رموز کے معانی منقوش ہوجاتے ہیں اور وہ نفس ان نفوش کو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے جن کے سامنے بیان کرنا اور جس طرح بیان کرنا چاہتا ہے بیان کرتا ہے۔

حکمت کی حقیقت علمِ لدنی سے حاصل ہوتی ہے اور جب تک انسان اس درجے تک نہ پہنچ جائے حکیم نہیں ہو سکتا کیونکہ حکمت ایک خداداد چیز ہوتی ہے۔ يُؤْتِي ‌الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُؤْتَ ‌الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ (جس کو چاہتا ہےحکمت عطا فرماتا ہے اور جس کو حکمت عطا ہو جائے اس کو خیر ِکثیر عطا ہوگئی اور صرف ارباب ِعقل و دانش ہی سمجھ سکتے ہیں)اور یہ بات اس لئے ہوتی ہے کہ جو لوگ مرتبۂ علمِ لدنی حاصل کر لیتے ہیں وہ کثرتِ تحصیل و مشقتِ تعلیم سے مستغنی ہوجاتے ہیں۔ تھوڑا سیکھتے ہیں اور زیادہ جانتے ہیں اور تھوڑی دیر محنت کرتے اور زیادہ آرام حاصل کرتے ہیں۔

یاد رکھیں کہ جب وحی منقطع ہوگئی اور بابِ رسالت مسدود ہوگیا تو تصحیحِ حجت اور تکمیل ِدین کے بعد لوگ پیغمبروں اور اظہارِ دعوت سے مستغنیٰ ہوگئے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا)اور بلا ضرورت اظہار ِفائدہ حکمت سے بعید ہے، لیکن الہام کا دروازہ بند نہیں ہوتا اور چونکہ نفوس کو تاکید و تجدید اور وعظ و نصیحت کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے اس لئے نفسِ کلی کے نور کی امداد بدستور رہتی ہے اور جہاں لوگ رسالت و دعوت سے مستغنی ہوگئے ہیں وہاں وساوس میں مستغرق اور شہوات میں منہمک ہونے کی وجہ سے اس کو تذکیر و تنبیہہ کی ضرورت رہتی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے وحی کا دروازہ بند کردیا اور وہ آیت عباد ہے اور اپنی رحمت سے الہام کا دروازہ کھول دیا۔ کام تیار اور مراتب مقرر کردیئے تاکہ لوگوں کو یہ بات معلوم ہوجائےکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربان ہے اور جس کو چاہے اسے بے حساب رزق دیتا ہے۔

فصل تحصیلِ علوم میں نفوس کے مراتب کے بیان میں 

تمام انسانی نفوس میں علوم مرکوز ہوتے ہیں اور تمام نفوس تمام علموں کو قبول کرسکتے ہیں اگر کوئی نفس اپنے حصے سے محروم رہتا ہے تو وہ کسی عارضی سبب کی وجہ سے ہوتا ہے اور یہ سبب خارج سےآتا ہےچنانچہ نبیﷺ نے فرمایا خلقت عبَادي ‌حنفَاء ‌فَاجْتَالَتْهُمْ ‌الشَّيَاطِين (لوگ سچے مسلمان پیدا ہوتے ہیں لیکن شیاطین ان کو بہکالیتے ہیں)

نیز آنحضرت ﷺنے فرمایا كُلُّ ‌مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ (ہر شخص دینِ فطرت پر پیدا ہوتا ہے) نفس کلی نفسِ ناطقہ انسانی پر جو روشنی ڈالتا ہے موخرالذکر اس روشنی کو قبول کرلیتا ہے اور اپنی اصلی طہارت و صفائی کی قوت سے نفس ِکلی کی صور معقولہ کی صلاحیت و قابلیت رکھتا ہے لیکن دنیا میں بعض نفوس مریض ہوجاتے ہیں اور مختلف امراض و عوارض کے باعث ادراک ِحقیقت سے قاصر رہتے ہیں اور بعض اپنی اصلی صحت کی حالت میں رہتے ہیں اور ان پرکسی طرح کا مرض وفساد طاری نہیں ہوتا۔ جب تک زندہ رہتے ہیں روشنی قبول کرتے رہتے ہیں۔ نفوس ِصحیحہ نفوسِ نبوی ہوتے ہیں جو وحی و تائید کے قابل اور عالم ِکون وفساد میں اظہار ِمعجزہ و تصرف پر قادر ہوتے ہیں ۔یہ نفوس اپنی اصلی صحت پر باقی رہتے ہیں۔ ان کے مزاج فسادِ امراض و عوارض سے متغیر نہیں ہوتے۔ اس لئے انبیاء نفوس کے حبیب اور خلقِ خدا کو صحیح فطرت کی طرف دعوت دینے والے ہوتے ہیں ۔

اس دنیائے دوں میں جو نفوس بیمار پڑ جاتے ہیں ان کے مرض کے مراتب ہوتے ہیں۔ بعض کو تو مرض کا خفیف سا اثر لاحق ہوتا ہے اور ان کے دلوں پر نسیان کے پردے چھا جاتے ہیں اور وہ تعلم میں مشغول ہوجاتے اور اصلی صحت اور ان کے نسیان کے پردے نہایت قلیل ذکر سے رفع ہوجاتے ہیں۔

بعض عمر بھر تعلیم میں مشغول رہتے ہیں اور جمیعِ ایّام تحصیل و تصحیح میں بسر کرتے ہیں لیکن ان کا مزاج کچھ ایسا بگڑا ہوا ہوتا ہےکہ کچھ نہیں سمجھتے کیونکہ جب مزاج فاسدہوجائے تو لاعلاج ہوجاتا ہے۔

بعض نفوس یاد کرتے ہیں اور پھر فراموش کردیتے ہیں اورریاضت و تذلیلِ نفس میں مشغول ہوجاتے ہیں اور قلیل سی روشنی اور ضعیف سی چمک حاصل کرلیتے ہیں، اور یہ فرق اس قوت کی نسبت سے ظاہر ہوتا ہے جس سے نفوس دنیا کی طرف متوجہ اور اس میں مستغرق ہوں جیسا کہ اس شخص کی حالت سے ظاہر ہے جو حالتِ صحت سے حالتِ مرض اور حالت ِمرض سے حالتِ صحت کی طرف رجوع کر رہا ہو اور جب عقدہ کھل جاتا ہے تو نفوس وجود علم ِلدّنی کا اقرار ر اور اس امر سے آگاہ ہوجاتے ہیں کہ وہ اول ِفطرت میں عالم اور آفرینش سے بالکل صاف تھے اور جاہل اس لئے ہو گئےہیں کہ اس کثیف جسم کی صحبت اور گندے اور تاریک مکان میں مقیم ہونے کی وجہ سے مریض ہوگئے ہیں اور تعلّم کے ذریعے معدوم علم کو پانے اور مفقود عقل کو پیدا کرنے کے خواہاں نہیں ہیں بلکہ وہ اصلی فطری علم کو دوبارہ حاصل کرنے اور مرض کے ارتفاع کے لئے جسم کی زینت اور اس کے قاعدہ و اساس کو منتظم کرتے ہیں۔ جب باپ اپنے بچے سے محبت و شفقت کرتا ہے تو اس کی اس درجہ رعایت اور فکر کرتا ہے کہ جمیعِ امور کو سپرد نسیاں کردیتا ہے اور صرف بچے ہی کے خیال میں مشغول رہتا ہے۔ نفس بھی شدت شفقت و محبت سے اس ہیکل (ڈھانچہ)کی طرف متوجہ ہوتا ہے ۔اس کی تعمیر و رعایت اور اس کی بہبود و مصلحت کی فکر کرتا ہے اور اپنے ضعف و قناعت کے باعث غریق ِبحرِ طبیعت ہوجاتے ہیں۔ اس لئے عمر بھر تعلّم کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ جو کچھ فراموش ہوا وہ یاد آجائے۔ اور گم شدہ چیز ہاتھ آجائے۔ تعلم اسی چیز کا نام ہے کہ نفس اپنے جوہر کی طرف رجوع کرے اور مافی الضمیر کو قوت سے فعل کی طرف لایا جائے تاکہ نفس کی سعادت و تکمیل حاصل ہوجائے* 

جب نفوس ضعیف ہوتے ہیں اور اپنے جوہر کی طرف راہ یاب نہیں ہوسکتے تو ایک مہربان عالم استاد سے تمسک واعتصام کی التجا کرتے ہیں اور اس کے سامنے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ان کو منزل ِمقصود پر پہنچنے میں اعانت و امداد کرے۔جس طرح ایک مریض جو اپنے علاج سے ناواقف ہوتا ہے لیکن یہ سمجھتا ہے کہ صحت اچھی چیز ہوتی ہےمہربان طبیب کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس کے روبرو اپنا حال بیان کرتا ہے اور اپنے علاج کے لئے اس پر بھروسہ کرتا ہے۔

بعض اوقات ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ جب ایک عالم کو سر یا سینے کی بیماری لاحق ہوجاتی ہے تو اس کا نفس جمیعِ علوم سے اعراض کر لیتا ہے۔اپنے معلومات کو فراموش کردیتا ہے اور عمرِ گذشتہ میں جو کچھ اس نے حاصل کیا ہوتا ہے اس کے حافظے سے غائب و روپوش ہوجاتا ہے۔ جب اس کو شفا حاصل ہوتی ہے نسیان رفع ہوجاتا ہے۔ نفس اپنے معلومات کی طرف رجوع کرتا ہے اور ایامِ مرض میں جن باتوں کو بھول جاتا ہے ان کو یاد کرلیتا ہے۔

معلوم ہوا کہ علوم فنا نہیں ہوتے فراموش ہوتے ہیں۔ محو ہو جانے اور سپرد ِنسیاں ہوجانے میں یہ فرق ہے کہ محو نقوش و خطوط کے فنا ہو جانے اور نسیان اس طرح ملتبس و مستور ہوجانے کا نام ہے جس طرح بادل اور ابر کے نیچے سورج کی روشنی دیکھنے والوں سے پوشیدہ ہوجاتی ہے لیکن سورج غروب نہیں ہوتا کیونکہ اس صورت میں وہ زمین کے اوپر سے نیچے کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ اس لئے نفس جوہر ِنفس سے عارضہ کو دور کرنے کے لئے محو ِتعلیم ہوتا ہے تاکہ ابتدائے فطرت کا سا علم اور آغازِ طہارت کی سی معرفت دوبارہ حاصل ہو جائے۔ جب آپ کو یہ معلوم ہوگیا کہ تعلم کا کیا سبب ہےاور اس سے کیا بات مقصود ہے اور نفس اور اس کے جوہر کی حقیقت کیا ہے تو آپ کو یہ بھی معلوم کرنا چاہئے کہ بیمار نفس کو تعلم اور تحصیل ِعلوم میں عمر بسر کرنے کی احتیاج ہوتی ہے لیکن جس نفس کا مرض خفیف و ضعیف دل کے پردے رقیق اور مزاج درست ہو اسے زیادہ تعلم اور طول مشقت و تعب کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ اس کے لئے ادنیٰ نظر و تفکر کافی ہے کیونکہ وہ اپنے اصل کی طرف رجوع کرتا ہے اور اپنی ابتدا و حقیقت سے اور رموز واسرار سے آگاہی حاصل کرلیتا ہے۔ اس لئے جو کچھ اس میں بالقوۃ موجود ہوتا ہے وہ حالتِ فعلی کی طرف آجاتا ہے جو کچھ اس کے باطن میں مرکوز ہوتا ہے وہ اس کا زیورِ بدن بن جاتا ہے اور وہ درجہ تمام وتکمیل تک پہنچ جاتا ہے اور تھوڑے سے دنوں میں اکثر چیزیں معلوم کرلیتا ہے اور حسن ِنظام کے ساتھ معلومات کی تعبیر کرتا ہے،عالم ِکامل اورصاحبِ کلام ہوجاتاہے اور نفسِ کلی کی طرف توجہ کرنے سے روشنی حاصل کرتا ہے اور نفس جزئی کی طرف توجہ کرتاہے تو اس کو مستفیض کرتاہے۔ طریق ِعشق سے وہ اصل سے مشابہ ہوتاہے اور حسد کی رگ کو کاٹ ڈالتا اور کینے اور بغض کی جڑ کو اکھاڑ پھینکتا ہے، دنیا کی فضول باتوں اور زینت و نمود سے منہ پھیر لیتا ہے اور جب اس درجے پر پہنچ جاتا ہے تو عالم بن جاتا ہےاور نجات و کامرانی حاصل کرلیتا ہے۔ یہی تمام لوگوں کا مقصدِ حقیقی ہے۔

فصل علم لدنی کی حقیقت اور اس کے حصول کے اسبا ب میں 

نورِ الہام کی سرایت کا نام علمِ لدنی ہے۔ یہ سرایت اس وقت ہوتی ہے جب نفس کا تسویہ (درستگی)مکمل ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا (قسم ہے نفس کی اور اس کے برابر ہونے کی)اور یہ رجوع تین طریق پر ہوتاہے۔

 ایک جمیعِ علوم کو حاصل کرنے اور ان میں سے اکثر سے حصۂ وافر لینے سے اور دوسرے سچی ریاضت اور صحیح مراقبہ کرنے سے کیونکہ نبی ﷺنے اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایاہے۔ آپ کا قول ہے مَنْ ‌عَمِلَ ‌بِمَا ‌عَلِمَ ‌أَوْرَثَهُ ‌اللَّهُ ‌عِلْمَ ‌مَا ‌لَمْ ‌يَعْلَمْ (جو شخص اپنے علم پر عمل کرے اللہ تعالیٰ اس کو وہ علم عطا فرماتا ہے جو اس کو حاصل نہیں۔) 

نیز آنحضرت ﷺنے فرمایا مَنْ ‌أَخْلُصَ للَّهِ تَعَالَى أَرْبَعِينَ يَوْمًا ظَهَرَتْ يَنَابِيعُ الْحِكْمَةِ عَلَى لِسَانِهِ (جو شخص چالیس روز صبح کے وقت اللہ تعالیٰ کے ساتھ تنہائی اختیار کرے اللہ تعالیٰ اس کے دل سے حکمت کے چشمے اس کی زبان پر ظاہر کردیتا ہے) 

تیسرے تفکر سے کیونکہ جب نفس تعلم و ریاضت سے علم حاصل کرے اور اس کے بعد اپنی معلومات میں آداب و شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے تفکر کرے اس پر غیب کا دروازہ کھل جاتاہے۔ جس طرح تاجر اپنے مال میں تصرف کرتا ہےاور شرائط ِتصرف کو بجالاتا ہے تو اس پر منافع کا دروازہ کھل جاتا ہے اور جب وہ راہ ِخطا پر چلتا ہے تو وہ خسران کے ہلاکت آفریں گڑھوں میں گرجاتا ہے۔ اگر تفکر کرنے والا بھی راہِ صواب پر ہو لیا تو ذی عقل لوگوں میں داخل ہوجاتا ہے ۔ عالم غیب سے اس کے دل کی جانب ایک کھڑکی کھل جاتی ہے اور عالم، کامل، عاقل اور صاحب ِالہام و تائید ہوجاتا ہے۔چنانچہ نبی ﷺنے فرمایا ہے ایک گھڑی کا تفکر ساٹھ برس کی عبادت سے بہتر ہے‘‘۔

 تفکر کے آداب و شرائط ہم کسی اور رسالے میں بیان کریں گے کیونکہ تفکر کا بیان اور اس کی کیفیت و حقیقت ایک مبہم امر اور زیادہ تشریح کا محتاج ہے جو اللہ تعالیٰ کی مدد سے آسان ہوجائے گی۔

اب ہم رسالے کو ختم کرتے ہیں کیونکہ جن لوگوں میں صلاحیت واہلیت ہے ان کے لئے یہ کلمات کافی ہیں۔ وَمَنْ لَمْ يَجْعَلِ اللَّهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِنْ ‌نُورٍ (جس کو اللہ تعالیٰ ہی روشنی نہ دے اس کو روشنی کیونکر حاصل ہو) اور اللہ تعالیٰ مومنین کا دوست و مددگار ہے اور اسی پر بھروسہ ہے اور ہمارے سردار محمد اور ان کی آل و اصحاب پر درود و سلام ہو۔اللہ تعالیٰ ہمارے لئے کافی ہے اور بہت اچھا کارساز ہے ۔بدی سے پر ہیز اور عمل ِصالح کا اقدام بجز خدائے بزرگ و برتر کی توفیق کے ممکن نہیں ہے۔ ہر آن اور ہر گھڑی میرا بھروسہ اسی کی ذاتِ اعلیٰ صفات پر ہے۔ والحمد للہ رب العالمین۔ 

تما م شد 


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں