قرب ومعیت کے راز مکتوب نمبر 98 دفتر دوم

 اس قرب ومعیت کے راز میں جو اللہ تعالی کو عالم کے ساتھ ہے اور شرارت عدم اور شرارت اہلیس کے درمیان فرق کے بیان میں جامع علوم و اسرار مخدوم زاده خواجہ محمد  سعید وخواجہ محمد معصوم کی طرف صادر فرمایا ہے:۔ 

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (الله تعالی کا حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو)

 تم نے سوال کیا کہ علماء نے کہا ہے کہ حق تعالی نے عالَم میں داخل ہے۔ نہ اس سے خارج نہ عالم کے ساتھ متصل ہےاور نہ اس سے منفصل۔ اس بحث کی تحقیق کیا ہے:۔

جواب: اس دخول وخروج اتصال وانفصال کی نسبت کا حاصل ہونا دو وجود کے دیکھنے پر متصور ہے کہ ایک موجود دوسرے موجود کے مقابلہ میں اس نسبت سے خالی نہ ہو اور صورت مذکورہ بالا میں دو موجود کائن( ثابت) نہیں ہیں تا کہ یہ نسبت حاصل ہو سکے۔ کیونکہ حق تعالی موجود ہے اور اس کے ماسوا عالم سب موہوم(تصوراتی) ومتخیل ہے۔ عالم نے اگر چہ حق تعالی کے بنانے سے اس قسم کا استحکام اور مضبوطی حاصل کی ہے۔ کہ وہم و خیال کے اٹھنے سے اٹھ نہیں سکتا اور دائمی رنج و راحت کا معاملہ اس پر وابستہ ہے، لیکن اس کا ثبوت حس و وہم کا درجہ ہے اورحس و وہم سے بڑھ کر اس کا کوئی رتبہ نہیں۔ یہ حق تعالی کی ہی کمال قدرت ہے کہ جس نے موہوم ومتخیل کو ثبت و استقرار دے کر موجود کا علم عطا فرمایا ہے اور موجود کے احکام اس پر جاری کیے ہیں، لیکن موجود موجود ہے اور موہوم موہوم گو ظاہربین موہوم و متخیل کو اس کے ثبات و استقرار پرنظر کر کے اس کو بھی موجودتصورکرتے ہیں اور دو موجود جانتے ہیں۔ اس مضمون کی تحقیق میں نے اپنی کتابوں اور رسالوں میں مفصل طور پر لکھی ہے۔ اگر حاجت ہو تو وہاں رجوع کریں۔ پس موجود کی موہوم کے ساتھ اس قسم کی کوئی نسبت ثابت نہ ہوگی۔ تو اس لحاظ سے کہہ سکتے ہیں کہ موجود نہ موہوم میں داخل ہے نہ اس سے خارج نہ وہ موہوم کے ساتھ متصل ہے نہ اس سےمنفصل کیونکہ جہاں موجود ہے وہاں موہوم کا نام ونشان نہیں تا کہ اس کے ساتھ اس نسبت کا تصور کیا جائے۔ 

اس بحث کو ایک مثال سے واضح کرتا ہوں۔ نقطہ جوالہ(گھومنے والا) جو سرعت سیر کے باعث دائرہ کی صورت میں متوہم ہوتا ہے۔ یہاں موجود صرف وہی نقطہ ہے اور دائرہ کی صورت سواۓ وہم کے ثابت نہیں اور جہاں نقطہ موجود ہے وہاں دائرہ  موہومہ کا نام ونشان تک نہیں۔ اس صورت میں نہیں کہہ سکتے کہ نقطہ دائرہ میں داخل ہے یا دائرہ سے خارج ہے۔ اسی طرح اتصال و انفصال بھی ان کے درمیان متصورنہیں، کیونکہ اس مرتبہ میں کوئی دائرہ نہیں تاکہ نسبت تصور ہو سکے۔ثبت الجدار أولا ثم النقش اول دیوار ثابت ہو تو پھر اس نقش ظاہر ہونگے۔

سوال:حق تعالی نے عالم کے ساتھ اپنے قرب واحاط کی نسبت ثابت کی ہے۔ حالانکہ موجود کو موہوم کے ساتھ کسی طرح قرب و احاطہ کی نسبت نہیں ۔ کیونکہ جہاں موجود ہے وہاں موہوم کا نام و نشان تک نہیں تا کہ محیط ومحاط(حفاظت گاہ) تصور کیا جائے۔

جواب: یہ قرب و احاطہ اس قسم کانہیں ہے جیسے کہ ایک جسم دوسرے جسم کے قریب ہوتا ہے یا ایک جسم دوسرے جسم کو محیط ہوتا ہے بلکہ اس قرب و احاطہ کی نسبت مجہول الکیفیت اور معلوم الانیت بھی ہے اس کے ساتھ ایمان لاتے ہیں۔ مگر اس کی کیفیت کو نہیں جانتے کہ کیسی ہے۔ 

 برخلاف پہلی چار نسبتوں(دخول و خروج اتصال و انفصال) کے جن کی پہلے نفی ہو چکی ہے کیونکہ وہ مجہول الکیفیت بھی ہیں اور غیر معلوم الانیت(وہ ماہیت جو برہان و دلیل سے مسلم ہو) بھی۔ اس لیے کہ شرع میں ان نسبتوں کے ثبوت کے لیے کچھ وارد نہیں ہوا تا کہ ان کو ثابت کریں اور ان کی کیفیت کو مجہول جانیں ۔ اگر چہ حق تعالی کی بارگاہ میں بے کیفی قرب و احاطہ کی نسبت کی طرح بے کیفی اتصال کی نسبت بھی تجویز کر سکتے ہیں، لیکن چونکہ لفظ اتصال کا اطلاق نہیں آیا اور قرب و احاطہ کا آیا ہے اس لیے متصل نہ کہنا چاہئے اور قریب ومحيط کہنا چاہئے اور انفصال وخردج و دخول کا اطلاق بھی اتصال کی طرح جونہیں آیا۔ مثال مذکور میں اگر نقطہ جوالہ کے لیے دائرہ موہومہ کے ساتھ احاطہ و قرب ومعیت کی نسبت ثابت کریں تو وہ بھی مجہول الکیفیت ہوگی، کیونکہ نسبت کے لیے ہر دومنتسب (جس کے در میان نسبت ہو) کا ہونا ضروری ہے ، لیکن وہاں سوائے نقطہ جوالہ کے کچھ موجود ہیں۔ ایسے ہی اتصال و انفصال و دخول وخروج بے کیفی مثال مذکور میں متصور ہے اگر چہ منتسبین ثابت نہیں۔ کیونکہ طرفین کا وجود معلوم الکیفیت نسبت کے لیے ضروری ہے جیسے کہ متعارف و معتاد ہے، لیکن جو مجہول الکیفیت ہے وہ احاطہ عقل سے باہر ہے۔ وہاں وجودطرفین کا حکم کرنا احکام وہمیہ سے ہو گا۔ جو اعتبار سے ساقط ہے۔ گویا غیب کا قیاس حاضر پر ہے۔

 تنبیہ : عالم کو جو موہم ومتخیل کہا ہے اس اعتبار سے کہا ہے کہ عالم کی پیدائش مرتبہ وہم و خیال میں واقع ہے اور اس کی صنع حس و ارائت(دکھاوا) کے درجہ میں حاصل ہوئی ہے جس طرح قادر اپنی کمال قدرت سے دائرہ موہومہ کو جس کا وہم و خیال کے اختراع کے سوا کچھ ثبوت نہیں ۔ مرتبہ وہم و خیال میں پیدا فرمائے اور اپنی کمال صفت سے اس کو اس مرتبہ میں اس قسم کا استحکام اور اتفاق بخشے۔ کہ اگر وہم و خیال سب کا سب دور ہو جائے۔ تو اس کے ثبوت میں کوئی خلل نہ آئے اور اس کے بقا میں کوئی قصور پیدا نہ ہو۔ یہ دائرہ  مصنوعہ موہومہ اگر چہ خارج میں ثبوت نہیں رکھتا اور خارج میں صرف وہی نقطہ موجود ہے لیکن وجود خارجی کے ساتھ انتساب و استناد رکھتا ہے کیونکہ اگر نقطہ نہ ہوتا دائرہ کہاں سے پیدا ہوتا۔ بیت 

خوشتر آن باشد که سردلبراں گفته آید در حدیث دیگراں

 ترجمہ: ہے یہ بہتر که راز دلبراں دوسروں کی گفتگو میں ہو عیاں

اگر اس دائرہ کو اس نقطہ کا روپوش کہیں تو ہوسکتا ہے اور اگر اس نقطہ کے شہود(مشاہدہ)  کا آئینہ کہیں تو بھی گنجائش رکھتا ہے اور اگر اس نقطہ کی طرف ہادی اور دلیل کہیں تو بھی بجا ہے۔ روپوش کہنا عوام کی نظر کے اعتبار سے ہے اور اس نقطہ کے شہودظہور کا آئینہ جاننا مقام ولایت کے مناسب اور ایمان شہودی کے ملائم ہے اور دلیل و ہادی کہنا مرتبہ کمالات نبوت کے مناسب اور ایمان بالغیب کے ملائم ہے۔ جو ایمان شہودی سے اتم واکمل ہے، کیونکہ شہود(مشاہدہ)  میں ظل کی گرفتاری سے چارہ نہیں۔ 

اورغیب میں اس گرفتاری سے آزاد ہوتے ہیں۔ غیب میں سالک اگر چہ بالفعل کچھ حاصل نہیں رکھتا، لیکن واصل ہے اور اصل کا گرفتار ہے اور شہود(مشاہدہ)  میں اگر چہ کچھ حاصل رکھتا ہے، لیکن غیر واصل ہے۔ کیونکہ غیریعنی اس اصل کے ظل کے ساتھ گرفتار ہے۔ 

غرض حصول سراسر نقص ہے اور وصول سراسر کمال یہ بات بے سروسامان کی سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ عجب نہیں کہ حصول کو وصول سے بہتر جانیں۔ سوفسطائی( فلسفیوں کا گروہ جس کے اصول کی بنیاد وہم پر ہے) اپنی بیوقوفی کے باعث عالم کو موہوم ومتخیل اس اعتبار سے کہتا ہے کہ وہم کے اختراع اور خیال کی تراش کے سوا اس کا کچھ ثبوت و تحقق نہیں ۔ اگر وہم و خیال بدل جائے تو وہ ثبوت وتحقق بھی متغیر ہو جائے ۔ مثلا اگرو ہم نے کسی چیز کے شیریں ہونے کا حکم کیا تو وہ شیریں ہے اور اگر وہم نے دوسرے وقت اسی شے کےتلخ  ہونے کا حکم کیا تو تلخ ہے۔ یہ بد بخت لوگ حق تعالی کی صنعت وخلقت سے غافل نہیں بلکہ منکر ہیں اور اس انتساب و استناد سے جو موجود خارجی کے وجود کے ساتھ رکھتا ہے۔ جاہل ہیں۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اپنی نادانی سے ان احکام خارجیہ کو جو عالم سے وابستہ ہیں رفع کریں اور آخرت کے دائمی عذاب و ثواب کورفع کریں۔ جس کی نسبت مخبرصادق علیہ الصلوة نے خبر دی ہے اور اس میں کسی قسم کا خلاف نہیں ہے۔ أُولَئِكَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُمُ الْخَاسِرُونَ یہ لوگ شیطان کا گروہ ہیں۔ خبردار شیطان کا گروہ ہی خسارہ پانے والا ہے۔

سوال: جب عالم کے لیے ثبات و استقرار ثابت ہوا۔ اگر چہ مرتبہ وہم و خیال ہی میں ہو اوردائمی رنج و راحت کا معاملہ بھی اس کے حق میں ثابت ہو گیا۔ تو پھر وجود کا اطلاق اس پر کیوں تجویز نہیں کرتے اور اس کو موجود کیوں نہیں جانتے۔ حالانکہ ثبوت و وجود ایک دوسرے کے مترادف اور ہم معنی ہیں ۔ جیسے کہ متکلمین کے نزدیک مقرر ہے۔

 جواب: وجود اس گروہ کے نزدیک تمام اشیاء میں سے اشرف واکرم اور اعز ہے اور اس کو ہرخیر وکمال کا مبداء جانتے ہیں ۔ اس قسم کے جو ہرنفیس کو ماسوائے حق کے لیے جو سراسر نقص و شرارت ہے تجویز نہیں کر سکتے اور اشرف کو اخص کے حوالہ نہیں کر سکتے۔ اس امر میں ان کا مقتدا ان کا اپنا کشف وفراست ہے۔ ان کے ہاں مکشوف ومحسوس ہے کہ وجود حق تعالی کے ساتھ مخصوص ہے اور وہی موجود ہے اور اس کے غیر کو جو موجود کہتے ہیں تو اس اعتبار سے کہتے ہیں کہ اس غیر کو نسبت وارتباط گو مجہول الکیفیت ہو اس وجود کے ساتھ ثابت ہے اورظل کی طرح جو اپنی اصل سے قیام رکھتا ہے وہ غیر بھی اس وجود کے ساتھ قائم ہے اور وہ ثبوت بھی جو مرتبہ وہم و خیال میں پیدا ہے۔ اس وجود کے ظلال میں سے ایک ظل ہے اور چونکہ وہ وجود خارجی ہے اورحق تعالی خارج میں موجود ہے۔ اس لیے اگر مرتبہ وہم کو حق تعالی کی صنعت و استحکام کے بعد اس خارج کے ظلال میں ظل بھی ہیں تو ہوسکتا ہے۔ اگر اس ثبوت وہمی کو ان دوظلیت کے اعتبار سے وجود خارجی بھی جانیں تو جائز ہے۔ بلکہ عالم کو بھی اگر ظلیت کے اس اعتبار سے موجود خارجی تصور کریں تو بھی بجا ہے۔ 

غرض ممکن جو کچھ رکھتا ہے۔ سب مرتبہ حضرت وجود تعالی سے رکھتا ہے۔ اپنے باپ کے گھر سے کچھ نہیں ہے۔ ظلیت کے ملاحظہ کے بغیر اس کو موجود خارجی کہنا دشوار ہے۔ گویا خاص خاص اوصاف میں اس کو حق تعالی کے ساتھ شریک بناتا ہے۔ تعالی الله عن ذلك علوا کبیرا اللہ تعالی اس قسم کی باتوں سے برتر و بزرگ ہے۔ 

اس فقیر نے بعض مکتوبات اور رسالوں میں جو عالم کو موجود خارجی کہا ہے۔ اس کو بھی اس بیان کی طرف راجع کرنا چاہئے اور ظلیت کے اعتبار پرحمل کرنا چاہئے اور وجودکوجومتکلمین نے ثبوت وتحقق کا مترادف کہا ہے۔ لغوی معنوں کے اعتبار سے ہو گا۔ ورنہ وجود کجا اور ثبوت کجا۔ ارباب کشف و شہود(مشاہدہ)  اور اہل نظر و استدلال میں سے جم غفیر نے وجود کو واجب الوجود کی عین حقیقت کہا ہے اور ثبوت معقولات ثانویہ میں سے ہے۔ ۔ شَتَّانِ مَا بَيْنَهُمَا (ان دونوں میں بہت فرق ہے)

 فائدہ: جس طرح وجود ہر خیر وکمال کا مبداء اور ہر حسن و جمال کامنشا ہے۔ اسی طرح عدم جو اس کے مقابل ہے۔ بیشک ہر شرو نقص کا مبداء اور ہر قبح وفساد کا منشاء ہوگا۔ اگر وبال ہے وہ بھی اس سے پیدا ہے اور اگر گمراہی ہے تو وہ بھی اس سے ظاہر ہے۔ اس کے علاوہ کئی قسم کے ہنر بھی اس میں رکھے گئے ہیں اور کئی قسم کی خوبیاں اس میں پوشیدہ ہیں۔ وجود کے مقابلے میں اپنے آپ کومطلق نیست و نابود اور لاشے محض کرنا عدم ہی کی خوبی ہے اور اپنے آپ کو وجود کا محافظ بنانا اور تمام شرو نقص کو اپنے ذمے لینا اس کے ہنر کی خوبی ہے اور وجود کا آئینہ بننا اور اس کے کمالات کا اظہار کرنا اور ان کمالات کو خانہ علم کے باہر ایک دوسرے سے ممتاز کرنا اور اجمال سے تفصیل میں لانا اس کی پسند یدہ صفتوں میں سے ہے۔ غرض وجود کی خدمتگاری اور کارگزاری اس سے قائم ہے اور اس کا حسن و جمال اس کےقبح وشرونقص سے ظاہر ہے۔ وجود کا استغناء عدم ہی کی محتاجی کے باعث ہے اور وجود کی عزت اس کی ذلت کے سبب سے ہے۔ وجود کی عظمت و کبر یا اس کے ادنے اور اسفل ہونے کے باعث ہے اور وجود کی شرافت اسی کی خست سے پیدا ہے اور وجودکی خواجگی اس کی بندگی سے ہویدا ہے۔ بیت 

منم استاد را استاد کر دم غلامم خواجہ را آزاد کردم 

ترجمہ: کیا استاد کو میں نے ہی استاد کیا خواجہ کو بندہ بن کے آزاد 

ابلیس لعین جو ہرفساد و گمراہی کا مبداء ہے۔ عدم سے بھی زیادہ شریر ہے اور بدبخت ان ہنروں سے بھی جوعدم میں پائے جاتے ہیں۔ بے نصیب ہے۔ اناخير منه(میں اس سے بہتر ہوں) جواس سے صادر ہوا ہے۔ اس نے تمام خیریت و بہتری کا مادہ اس سے دور کر دیا ہے اورمحض شرارت پر دلالت کی ہے۔ عدم نے چونکہ اپنے نیست ولاشے ہونے سے وجود کا مقابلہ کیا اس لیے وجود کے حسن و جمال کا آئینہ بن گیا اور لعین نے چونکہ اپنی ہستی و خیر یت کے باعث وجودکا معارضہ کیا۔ اس لیے مردود و مطرود ہوگیا۔ تقابل کی خوبی عدم سےسیکھنی چاہئے کہ ہستی کے مقابل نیستی    دکھا تا ہے اور کمال کے مقابل نقص ظاہر کرتا ہے اور جب عزت و جلال کے مقابلہ آتا ہے تو ذلت و انکسار ظاہر کرتا ہے۔ گویا لعین مردود و مطرود نے اپنے تکبر دسرکشی کے باعث عدم کی تمام شرارتوں کو اپنے ذمے لے لیا ہے اور خیال میں آتا ہے کہ اس نے خیر یت کے سوا عدم میں کچھ نہیں چھوڑا۔ ہاں جب تک خیر نہ ہو۔ خیر کا آئینہ اورمظہر نہیں بن سکتا۔ لَا يَحْمِلُ عَطَايَا الْمَلِکِ إِلَّا مَطَايَاهُ بادشاہ کے عطیوں کو اسی کے اونٹ اٹھا سکتے ہیں۔مثل مشہور ہے اور معلوم ہوا کہ ابلیس کارخانہ عالی میں کام کرتا رہا ہے جس نے کناسی و خاکروبی کر کے سب کا کوڑا کرکٹ اپنے سر پر اٹھالیا ہے اور اوروں کو پاک و صاف کر دیا ہے لیکن چونکہ وہ بد بخت تکبرو برائی سے پیش آیا اور اپنی بہتری دخیریت کو نظر میں لایا اس لیے اس نے اپنے عمل کو ضائع کر دیا اور اجر سے محروم ہو گیا۔ درحقیقت خسرالدنيا والاخره اسی کے حال کا نشان ہے۔ برخلاف عدم کے جو باوجود ذاتی شرارت ونقص ونیستی  کے مقام حرمان و محرومی سے نکل کر حضرت وجود کے مرآتیت یعنی آئینہ بننے سے مشرف ہوا۔ بیت 

نے گفت کہ من نیم شکر خورد شاخےکہ بلند شد تبرخورد 

ترجمہ: نے نے کہا نہیں میں پایا شکر کواس نے  کی شاخ نے بلندی کھایا تبر کو اس نے

سوال:ابلیس لعین میں اتنی شرارت کہاں سے پیدا ہوگئی۔ کیونکہ عدم سے ماوراء وجودہی ہے۔ جس کی طرف شرارت نےراہ نہیں پائی۔ 

جواب: جس طرح عدم وجود کا آئینہ اور خیر و کمال کا مظہر ہے اسی طرح وجودبھی عدم کا آئینہ اورشروقص کا مظہر ہے۔ ابلیس علیہ اللعنت نے عدم کی جانب میں شرارت کو عدم ہی سے لیا ہے جو شر کا موطن و مقام ہے اور وجود کی جانب میں بھی اس شرارت متوہمہ کو اخذ کیا ہے۔ جو اس کے وجود کے آئینہ میں عدم کے آئینہ اور مظہر بننے کے باعث ظاہر ہوئی تھی۔ گویا دونوں طرفوں کی شرارت یعنی ذاتی دعرضی اور اصلی وظلی شرارت کا اٹھانے والا۔ 

پس اس کے شرارت نما وجود کے مالی خولیا نے اس کو نیست و لاشے ہونے سے جو عدم کی نیک صفتوں میں سے ہے۔ محروم رکھا اور وجود کی جانب میں بھی وہ شرارت جو عدم کے آئینہ بنے سےمتو ہم ہوئی تھی وہ بھی اسی کے نصیب ہوئی اس لیے ابدی خسارہ اور دائمی گھاٹا اس کے ہاتھ آیا۔

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (یا اللہ تو ہدایت دے کر ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کر اور اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما تو بڑا بخشنے والا ہے

وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالتَزَمَ مُتَابَعَةَ المُصطَفىٰ عَلَيهِ وَعَليٰ اٰلِہٖ الصَّلَواتُ وَالتَّسلِيمَاتُ العُلیٰاَتَمَّهَا وَاَدْوَمَهَا

 اور سلام ہو آپ پر اوران  لوگوں پر جو ہدایت کے رستہ پر چلے اور جنہوں نے حضرت محمدﷺکی متابعت کو لازم پکڑا۔  

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ320 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں