عارفین کا ترک طلب (باب دوم)

عارفین کا ترک طلب حکمت نمبر21

عارفین کا ترک طلب کے عنوان سے  باب  دوم میں  حکمت نمبر21 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
پانچواں ادب: طلب کی حیثیت سے طلب کا ترک کرنا ہے۔ ۔ ادب، اکثر اوقات طلب کے ترک کرنے کی طرف عارفین کی رہنمائی کرتا ہے۔ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نےفرمایا:
21) طَـلَـبُكَ مِنْهُ اتِّهامٌ لَـهُ. وَطَـلَـبُـكَ لَـهُ غَـيْبَةٌ مِـنْـك عَـنْهُ وَطَـلَـبُـكَ لِغَـيْرِهِ لِـقِـلَّـةِ حَـيائِـكَ مِنْهُ وَطَـلَـبُـكَ مِنْ غَـيْرِهِ لِـوُجـودِ بُـعْـدِكَ عَـنْهُ.
تمہارا اللہ تعالیٰ سے طلب کرنا، اس کو تہمت لگانی ہے۔ اور تمہارا اللہ تعالیٰ کو طلب کرنا،تمہارے نفس کے باقی رہنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے غائب ہونے کی بناء پر ہے ۔ اور تمہارا اللہ تعالیٰ کے غیر کو طلب کرنا، اللہ تعالیٰ سے تمہاری حیا کی کمی کی وجہ سے ہے۔ اور تمہارا اللہ تعالیٰ کے غیر سے طلب کرنا اللہ تعالیٰ سے تمہارے دور ہونے کی وجہ سے ہے ۔

رونے اور گڑ گڑانے سے طلب

میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: اللہ تعالیٰ سے تمہارا طلب کرنا (مانگنا)رونے اور گڑ گڑانے کے ساتھ ہوگا۔ اور تمہارا اللہ تعالیٰ کو طلب کرنا ، بحث واستدلال کے ساتھ ہوگا ۔ اور تمہارا اللہ تعالیٰ کے غیر کو طلب کرنا ، اس کو پہچاننے اور اس کے سامنے ہونے کے ساتھ ہوگا۔ اور تمہارا اللہ تعالیٰ کے غیر سے طلب کرنا ، (مانگنا) خوشامد اور سوال کے ساتھ ہو گا۔ اور ان سب کا حاصل چار ہیں:۔ پہلا : اللہ تعالیٰ کو طلب کرتا۔ دوسرا اللہ تعالیٰ سے طلب کرنا۔ تیسرا باطل کو طلب کرتا۔ چوتھا: باطل سے طلب (مانگنا )کرنا۔تمہارا اللہ تعالیٰ سے طلب کرنا (مانگنا ): اس کے اوپر تہمت لگانی ہے۔ کیونکہ تم نے اس سےاس خوف سے طلب کیا ہے کہ وہ تم کو چھوڑ دے گا ۔ یا تمہاری طرف سے غافل ہو جائے گا۔ پس تنبیہ اس کو کی جاتی ہے جس کی صفت غافل ہونا بھی ہو ۔ اور یاد دہانی اس کو کی جاتی ہے کہ جس کے لئے چھوڑ دینا ممکن ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَمَا اللَّهُ بِمَا فِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ اور اللہ تعالیٰ تم لوگوں کے اعمال سے غافل نہیں ہے۔
اور دوسری جگہ فرمایا (أَلَيۡسَ ٱللَّهُ ‌بِكَافٍ عَبۡدَهُۥۖ کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے ۔
اور حضوراکرمﷺ نے فرمایا ہے: مَنْ ‌شَغَلَهُ ‌ذِكْرِي عَنْ مَسْأَلَتِي أَعْطَيْتُهُ أَفْضَلَ مَا أُعْطِي السَّائِلينَ
جس شخص کو میرے ذکر کی مشغولیت نے مجھ سے مانگنے سے غافل کر دیا۔ میں نے اس کو اس سے زیادہ دیا جو ما نگنے والوں کو دیتا ہوں ۔ لہذا عارفین کے نزدیک تقدیر کے احکام کے ماتحت سکون، رد کر اور گڑ گڑا کر مانگنے سے افضل ہے۔ اور ہمارے شیخ الشیوخ سیدی حضرت مولائے عربی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: سچا فقیر وہ ہے جس کے پاس کوئی ایسی حالت نہ باقی ہو جس کو وہ طلب کرے۔ اور اگر کسی حالت کے لئے طلب کرنا ضروری ہو جائے تو معرفت طلب کرلے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: عارفین جب دعا کرتے ہیں تو وہ در حقیقت معبودیت اور حکمت کے لئے کرتے ہیں نہ کہ قسمت کا حصہ طلب کرنے کے لئے ۔ کیونکہ قسمت میں تمہارے لئے جو حصہ مقرر کیا گیا ہے وہ تمہیں ضرور ملے گا اور اگر تم اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرو کہ وہ تمہیں اس کے پانے سے روک دے۔ تو وہ تمہاری دعا نہ قبول کرے گا۔ اور دعا کے بارے میں صوفیائے کرام کے درمیان اختلاف ہے۔ کیا خاموشی بہتر ہے یا دعا کرنا؟ اور تحقیق یہ ہے کہ وہ اس حالت پر نظر رکھے جو اس کے اندر ظاہر ہو۔ اور جس کے لئے شرح صدر ہو۔ اور تمہارا اللہ تعالیٰ کو طلب کرنا تو یہ اپنے نفس کے وجود کے باعث تمہارے اللہ تعالیٰ سےغائب ہونے کی دلیل ہے۔ کیونکہ اگر تمہارا قلب حاضر ہوتا اور تم اپنے نفس اور وہم سے غالب ہوتے تو تم اس کے غیر کو نہ پاتے۔
أَرَاكَ تَسْئَلُ عن نجد وأنتَ بِهَا وَعَنْ تِهَامَةَ هَذَا فِعل متهم
میں تمہیں دیکھتا ہوں کہ تم نجد اور تہامہ کے متعلق پوچھ رہے ہوں۔ حالانکہ تم یہاں موجود ہوں۔ تمہارا فعل تہمت لگانے والے کا فعل ہے۔
شاعر نے مجنوں کے بارے میں کہا ہے کہ تم نجد و تہامہ کے متعلق پوچھ رہے ہو ۔ حالانکہ تم یہاں موجود ہو۔ یہ تہمت لگانے والے کا کام ہے۔ یہاں یہ شعر مثال کے طور پر لائے ہیں۔ کہ اس طرح اللہ تعالیٰ کا طالب اگر اس کے متعلق پوچھتا ہے تو اس کا یہ عمل تہمت لگانے والے کا فعل ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کے قلب میں موجود ہے۔ حضرت ابن مرحل سبتی رضی اللہ عنہ نے فرمایاہے
وَمِنْ عَجَبٍ أَنِّي أَحِنَّ إِلَيْهِمْ وَأَسْأَلُ شَوْقاً عَنْهُمْ وَهُمْ مَعِى
اور تعجب ہے کہ میں ان کے شوق و محبت میں ان کی طرف چلتا ہوں اور ان کے متعلق پوچھتا ہوںحالانکہ وہ میرے ساتھ ہیں ۔
وَتَبْكِيهِمْ عَيْنِي وَهُمْ بِسَوَادِهَا وَيَشْكُو النَّوَى قَلْبِي وَهُمْ بَيْنَ أَضْلُعِي
اور میری آنکھ ان کے لئے روتی ہے حالانکہ وہ اس کی سیاہی میں موجود ہیں ۔ اور میرا قلب جدائی کی شکایات کرتا ہے حالانکہ وہ میری پسلیوں کے درمیان موجود ہیں ۔
اور حضرت رفاعی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:
قَالُو اتنسَى الَّذِي تَهْوَى فَقُلْتُ لَهُمْ يَا قَوْمِ مَنْ هُوَرُوحِي كَيْفَ أَنْسَاهُ
لوگوں نے مجھ سے کہا: کیا تم جس سے محبت کرتے ہو اس کو بھول جاتے ہو؟ میں نے انہیں جواب دیا: اے قوم! وہ میری روح ہے۔ میں اس کو کیسے بھول سکتا ہوں۔
وَكَيْفَ تَنٌسَاهُ الْأَشْيَا ءبِهِ حَسُنَتْ مِنَ الْعَجَائِبِ يَنْسَى الْعَبْدُ مَوْلَاہ
اور میں اس کو کیسے بھول سکتا ہوں جب کہ کل اشیاء اس کے ذریعے خوبصورت ہیں۔ تعجب ہے کہ غلام اپنے آقا کو بھول جائے ۔
مَا غَابَ عَنِى وَلَكِنْ لَسْتُ ابْصُرُهُ إِلَّا وَقُلْتُ جِهَارًا قَلْ هُوا الله
وہ مجھ سے غائب نہیں ہے لیکن میں اس کو نہیں دیکھتا ہوں مگر میں علانیہ کہتا ہوں:۔ کہو ، وہ اللہ ہے ۔
اور تمہارا اللہ تعالیٰ کے غیر کو طلب کرنا یعنی اسکے غیر کی معرفت چاہنی تو یہ اللہ تعالیٰ سے تمہارے شرم کی کمی ، اور اس سے تمہاری محبت کے نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے تمہارے شرم کی کمی کی وجہ یہ ہے کہ وہ تم کو اپنی بارگاہ قدس کی طرف بلاتا ہے۔ اور تم اس سے غفلت کی طرف بھاگتے ہو۔ اور اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو بادشاہ کے دربار میں حاضر ہو ۔ بادشاہ اس کے سامنے اور اس کی طرف متوجہ ہو ۔ لیکن وہ دربار سے نکلنے کا ارادہ کرے اور دوسروں کی طرف متوجہ ہو ۔ تو یہ اس کے شرم کی کمی ، اور بادشاہ کی طرف توجہ نہ کرنے کی دلیل ہے۔ لہذاوہ اس لائق ہے کہ اس کو دروازے سے باہر نکال دیا جائے اور جانوروں کی خدمت پر لگا دیا جائے۔
عارفین نے فرمایا ہے: جو شخص اپنی معرفت کو مشہور کرتا ہے۔ تم اس کی معرفت کا انکار کر دو ۔اور جو شخص معرفت حاصل کرنا نہ چاہے تم اس کو معرفت کی تعلیم نہ دو۔ اور اللہ تعالیٰ سے تمہاری محبت نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اگر تم اس سے محبت کرتے ، تو تم اس کی مخلوق سے نفرت کرتے ۔ پس اس حال میں کہ تم ان سے نفرت کرتے تمہاری طرف سے ان کی معرفت کی خواہش کا خیال بھی پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہاں اس کے برعکس ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے تمہاری محبت مخلوق سے تمہاری نفرت کا سبب ہے۔ اور آدمیوں سے انسیت چاہنا مفلسی کی علامت ہے ۔

طریقت کے اصول

تمہارا مخلوق سے کنارکشی کرنا ہی اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا ہے۔ اور تمہارا مخلوق کی طرف متوجہ ہونا ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے منہ پھیر لینا ہے۔ اور عارفین نے مخلوق کی طرف سے منہ پھیرنے کو طریقت کے اصول میں شمار کیا ہے۔ اور تمہارا اس کے غیر سے طلب کرنا: اس سے تمہارے دور ہونے کی وجہ سے ہے۔ اس لئے کہ اگر تم کو اپنے سے اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کا یقین ہوتا۔ جب کہ وہ کریم (بخشش کرنے والا) ہے تو تمہیں اس کے غیر سے سوال کرنے کی حاجت نہ ہوتی۔ جب کہ اس کا غیر، کمینہ بخیل ہے۔ اور اس کا مفصل بیان مناجات میں آئے گا۔ جب کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے اس قول کی تشریح کی جائے گی۔ یا کس طرح تیرے غیر سے طلب کیا جائے۔ جب کہ تو نے احسان اور بخشش کی عادت ختم نہیں کی ہے؟
بعض آسمانی کتابوں میں نازل ہوا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے جب میرے بندے کو کوئی حاجت پیش آتی ہے اور وہ اس کو میرے سامنے پیش کرتا ہے۔ اور میں یہ معلوم کر لیتا ہوں کہ وہ خلوص نیت سے میرے سامنے پیش کر رہا ہے۔ تو اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمین اس کو گھیر لیں اور اس کی حاجت کے لئے رکاوٹ بنیں تب بھی میں اس کے کام میں کشائش ، اور اس گھیرے سے اس کے نکلنے کا راستہ پیدا کرتا ہوں۔ اور جب میرے بندے کو کوئی حاجت پیش آتی ہے اور وہ اس کو میرے غیر کے سامنے پیش کرتا ہے تو زمین اس کے نیچے ہوتی ہے۔ اور آسمان اس کے اوپر گرا دیا جاتا ہے۔ اور میرے اور اس کے درمیان وسائل ختم ہو جاتے ہیں ۔ یا جس طرح فرمایا ہو۔ کیونکہ زمانہ دراز گزرنے کی بناء پر صحیح الفاظ کا تعین کرنا دشوار ہے۔ لہذا حاصل یہ ہوا: اللہ تعالیٰ کے علم کو کافی سمجھنا، اور اس کی معرفت میں قائم ہونا، اور اس کے ماسوا سے بے نیاز ہونا ادب ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں