مشہود کی معرفت کے عنوان سے تیسرے مراسلے کا دوسراحصہ ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
چونکہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے اس جواب میں شہود کے ساتھ آنکھ کی ٹھنڈک مشہود کی معرفت کے مطابق ہوتی ہے مقصود سے پوشیدگی ہے۔ (یعنی مقصد واضح نہیں ہوتا ہے ) لہذا اس کو وضاحت کے ساتھ اپنے اس قول میں بیان فرمایا ۔ وَإِنَّمَا قُلْنَا إِنَّ قُرَّةَ عَيْنِهِ فِي صَلَاتِهِ بِشُهُودِهِ حَلَالَ مَشْهُودِهِ لِأَنَّهُ أَشَارَ إِلَى ذَالِكَ بقَوْلِهِ فِي الصَّلَاةِ) وَلَمْ يَقُلْ بِالصَّلَاةِ
اور ہم نے جو یہ کہا ہے ۔ اس کی نماز میں اس کی آنکھ کی ٹھنڈک اس کے مشہود کے جلال کے شہود کے مطابق ہوتی ہے، یہ اس لیے کہا ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے اپنے قول فی الصلاۃ سے اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور آپ نے بالصلا ۃ نہیں فرمایا میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :- ظرفیت میں اصل یہ ہے کہ وہ اپنے دروازے پر ہوتی ہے۔ لہذا حضرت محمدکی آنکھ کی ٹھنڈک اپنے رب کے شہود، اور اس کی طرف بڑھنے اور اس سے کلام کرنے کے سبب ہے۔ اور صلاۃ ہی اس ٹھنڈک کا مقام ہے اور حضرت محمد کا یہ قول ارحنا بها يَا بِلال اے بلال تم ہم کونماز کے ساتھ راحت پہنچاؤ
اور اس قول میں ب سببیہ ہے یعنی نماز کے سبب راحت پہنچا ؤ۔ اور حضرت محمدﷺ کی راحت صرف اپنے رب کی مناجات (سرگوشی ) سے تھی کسی دوسری شے سے نہیں تھیں ۔
پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے حضرت محمد ﷺ کے اس حال کی وجہ بیان فرمائی کہ حضرت محمد ﷺ کی چشم مبارک نمازسے نہیں ٹھنڈی ہوتی تھی، بلکہ آپ کی چشم مبارک اپنےرب تعالیٰ سے ٹھنڈی ہوتی تھی۔
چنانچہ فرمایا ۔ إذْ هُوَ صَلَوَاتُ اللهِ وَسَلَامُهُ عَلَيْهِ لَا تَقِرُّ عَيْنُهُ بِغَيْرِ رَبِّهِ
اس لیے کہ حضرت محمد ﷺکی چشم مبارک اپنے رب کے غیر کے ساتھ نہیں ٹھنڈی ہوتی تھی۔
لہذا آپ کی فرحت صرف اپنے رب کے ساتھ تھی ۔ اور آپ کا سرور اسی کی طرف بڑھنے میں تھا۔ آپ نے اپنی ہمت عالیہ کو نین (علوی وسفلی ) سے اٹھالی تھی اور اپنا نعل مبارک ( جوتا ، یا قدم ) دارین ( دنیا و آخرت ) سے نکال لیا تھا۔
ایک عارف شاعر نے حضرت محمد ﷺ کی شان مبارک میں فرمایا ہے :
لَهُ هِمَمْ لَا مُنتَهَى لِكِبَارِهَا وَهِمَّتُهُ الصُّغُرَى أَجَلُّ مِنَ الدَّهْرِ
حضرت محمد ﷺ کی ایسی ہمتیں ہیں کہ ان کی بڑی ہمتوں کی کوئی حدو انتہا نہیں ہے، جبکہ ان کی بہت چھوٹی ہمت زمانہ سے بہت بڑی اور بلند ہے
لَهُ رَاحَةً لَوْ أَنَّ مِعْشَا رَجُوْدِهَا عَلَى الْبَرِّ كَانَ الْبَرُّ اَنٌدٰى مِنَ الْبَحْرِ
ان کیلئے ایسی راحت ہے کہ اگر ان کی بخشش کا دسواں حصہ بھی خشکی پر نازل ہو جائے تو خشک میدان سمندر سے بھی زیادہ تر ہو جائے ۔
كَيْفَ وَهُوَ يَدُلُّ عَلَى هَذَا الْمَقَامِ ایسا کیوں نہ ہوتا ، جبکہ حضرت محمد ﷺ اس مقام کی طرف سے دوسرے لوگوں کی رہنمائی فرماتے تھے
اور وہ احسان کا مقام ہے، اس لیے کہ اس سے آنکھ کی ٹھنڈک حاصل ہوتی ہے۔
ویأمرُ بِهِ مَنْ سِوَاهُ ( مِنَ الْأَنَامِ ) لِقَوْلِهِ صَلَواتُ الله وَسَلَامُهُ عَلَيٗهِ أُعْبُدِ الله كَانَّكَ تَرَاهُ )
اور مخلوق میں سے دوسرے لوگوں کو اپنے اس قول کے ذریعے حکم دیتے تھے۔ تم اللہ تعالیٰ کے عبادت اس طرح کرو، گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو ۔
حضرت شیخ زروق نے فرمایا ہے :۔ یہ جملہ حدیث شریف میں ان لفظوں کے ساتھ وارد نہیں ہوا ہے بلکہ یہ صرف احسان کی تفسیر میں فرمایا گیا ہے:۔
اَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَانَّكَ تَرَاهُ ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ
تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کر و گویا کہ تم اس کو دیکھتے ہو۔ لیکن اگر ( تم اس حال میں نہیں پہنچے ہو، بلکہ تم اس حال میں ہو کہ تم اس کو نہیں دیکھتے ہو ۔ ( تو یہ تصور کرو کہ ) وہ تم کو دیکھتا ہے
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ اس میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ حضرت معاذ بن جبل کی روایت کردہ حدیث شریف کی عبارت اس طرح ہے۔ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَوْصِنِي، فَقَالَ: اعْبُدِ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، وَاعْدُدْ نَفْسَكَ فِي الْمَوْتَى، وَاذْكُرِ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ عِنْدَ كُلِّ حَجَرٍ وَعِنْدَ كُلِّ شَجَرٍ، وَإِذَا عَمِلْتَ سَيِّئَةً فَاعْمَلْ بِجَنْبِهَا حَسَنَةً: السِّرُّ بِالسِّرِّ، وَالْعَلَانِيَةُ بِالْعَلَانِيَةِ رَوَاهُ الطَّبَرَانِي كَمَا فِي الْمُنْذِرِى
میں نے کہا: یا رسول اللہ ! آپ مجھ کو وصیت فرمائیے ۔ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو۔ گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو اور تم اپنے نفس کو مردوں میں شمار کرو اور تم ہر پتھر اور ہر درخت کے پاس (یعنی تم جہاں کہیں بھی رہو ) اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو۔ اور جب تم کوئی گناہ کرو، تو اس کے برابر ایسی نیکی کرو، جو اس گناہ کو مٹادے۔ پوشید ہ گناہ کے برابر پوشیدہ نیکی ، اور علانیہ گناہ کے برابر علانیہ نیکی ۔ اس حدیث کو حضرت امام طبرانی نے بیان فرمایا ہے جیسا کہ منذری میں ہے۔
لہذا جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرتا ہے گویا کہ وہ اس کو دیکھتا ہے تو اس کیلئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ماسوی اللہ تعالیٰ کے دیکھنے کی طرف متوجہ ہوں ۔
جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے۔ وَمَحَالٌ أَنْ يَرَاهُ وَيَشْهَدُ مَعَهُ سِوَاهُ اور یہ محال ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھے اور اس کے ساتھ غیر اللہ کو بھی دیکھے
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ اس لیے کہ غیر اللہ کا ثابت ہو نا حجاب ہے۔ لہذا شہود اس وقت تک درست نہیں ہوتا ہے۔ جب تک کل موجود فنانہ ہو جائے اور واجب الوجود اللہ تعالیٰ کے سوا کچھ باقی نہ رہے اور اس کے ماسوی کو اس طرح دیکھے گویا کہ وہ سایہ ہے، یا خیال ہے ۔ جو تحقیق کرنے پر گم ہو جاتا ہے
یعنی نیست و نابود ہو جاتا ہے۔ پس اگر تم یہ اعتراض کرو ۔ جب غیر اللہ نیست و نابود ہے۔ تو حضرت محمد ﷺ نے احسان کی تفسیر میں یہ کیوں فرمایا:۔
أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَانَكَ تَرَاهُ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اس کو دیکھتے ہو
اور حضرت معاذ بن جبل سے اس طرح فرمایا :-
اعْبُدِ اللَّهَ كَانَّكَ تَرَاهُ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اس کو دیکھتے ہو پس حضرت محمدﷺ نے تشبیہ کی کاف استعمال فرمائی، تو جبکہ رویت حاصل ہے تو آنحضرت علیہ السلام نے اس شخص کے ساتھ کیوں تشبیہ دی جو دیکھتا ہے۔ تمہارے اس اعتراض کا جواب یہ ہے :۔ حضرت محمدﷺ تشریع اور تحقیق کے مقام میں تھے۔
اور یہ حدیث ایک بڑی محفل میں کہی گئی ۔ اس محفل میں ایسے لوگ بھی تھے جو اہل مراقبہ تھے اور اس میں ایسے لوگ بھی تھے جو اہل مشاہدہ تھے ۔ لہذا آنحضرت ﷺ نے ایسا کلام فرمایا جس کا خاص و عام دونوں قسم کے لوگ قبول کریں۔ لہذا عبادت کی ایسی مضبوطی کے ساتھ کہ گویا وہ مشاہدہ کرتا ہے سب لوگ مخاطب تھے کیونکہ ان میں وہ لوگ بھی تھے جو ذوق کے اعتبار سے اس مقام پر پہنچ چکے تھے اور ان میں وہ لوگ بھی تھے جو مجاہدہ کر کے اس مقام پر پہنچ سکتے تھے۔ اور اس اعتراض کا دوسرا جواب یہ بھی ہے ۔ ملکوت کے انوار کا شہود، ربوبیت کے رازوں میں سے ایک راز ہے اور وہ اس شخص کے سامنے ظاہر نہیں کیا جا سکتا ہے جو اس کا اہل نہیں ہے ۔ اور اگر حضرت محمد ﷺ اس طرح فرماتے ۔ تم لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس کو یعنی اس کے جبروت کے انوار کو ملکوت کے باغ میں پہنچتے ہوئے دیکھتے ہو تو اس طرح کہنے میں ربوبیت کا راز فاش ہو جاتا۔ اور اس کو خواص کے سوا کوئی نہ سمجھ سکتا اور حضرت محمد ﷺ نے فرمایا ہے۔ خَاطِبُوا النَّاسَ بِقَدْرٍ مَا يَفُهَمُونَ تم لوگوں سے ان کو سمجھ کے مطابق بات کرو
لہذا حضرت محمد ﷺ نے ایسا بہترین کلام فرمایا جس کا اہل ظاہر اور اہل باطن دونوں قسم کے لوگ قبول کر سکیں ۔ لیکن اہل ظاہر کاف کو دروازے ہی پر چھوڑ دیتے ہیں اور اہل باطن اس کو لام کے معنی میں استعمال کرتے ہیں ۔
اس لیے کہ بصیرت کو دیکھنا۔ اہل باطن کے نزدیک بصر سے دیکھنے کے شمار میں ہے، کیونکہ جب بصیرت کھل جاتی ہے تو وہ بصر پر غالب ہو جاتی ہے اور بصر کیلئے کوئی اختیار باقی نہیں رہتا ہے۔
اس اعتراض کا تیسرا جواب یہ ہے ۔ جب مطلق دیکھنا کہا جاتا ہے تو بصر یعنی ظاہری آنکھ سے دیکھنا سمجھا جاتا ہے۔ لہذا اگر حضرت محمدﷺتشبیہ کی کاف نہ لاتے تو یہ و ہم پیدا ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کو ظاہری آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے اور یہ محال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ اس کو آنکھیں نہیں پاسکتی ہیں۔
یعنی ظاہری آنکھیں اور اس کو صرف کھلی ہوئی بصیر تیں ہی دیکھ سکتی ہیں۔ لہذا جب بصیرت کھل جاتی ہے تو وہ بصر پر غالب ہو جاتی ہے۔ پھر ملکوت کے انوار میں سے جو انوار بصیرت دیکھتی ہے دہی بصر بھی دیکھتی ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔