بارہواں مراقبہ نیت مراقبہ اصل قلب

نیت مراقبہ اصل قلب

 الہی قلب من بمقابل قلب نبی علیہ السلام آں فیض تجلائے صفات فعلیہ خود کہ از قلب نبی علیہ السلام بقلب آدم علیہ السلام رسانیدہ بقلب من نیز بر سانی بواسطہ پیران کبار رحمۃاللہ علیہم اجمعین

اے اللہ  میرا لطیفہ قلب  رسول کریم ﷺ کے لطیفہ قلب کے سامنے اس فیض کا منتظر ہے   جو تونے اپنی صفات فعلیہ  کی تجلی  نبی کریم ﷺ کے لطیفہ  قلب  سے  حضرت آدم کے لطیفہ قلب تک پہنچائی عظیم مرشدین گرامی   اللہ تعالیٰ ان پر رحمتیں نازل فرمائےکے وسیلہ جلیلہ  سے  میرے لطیفہ قلب تک پہنچا۔

تشریح

سالک کو چاہیے کہ اس مراقبہ کے دوران میں تمام پیران کبار (جوفیض کا ذریعہ ہیں) کے قلوب میں حضرت محمدﷺ کا تصور رکھے۔ جوطالب حضرت آدم علیہ السلام کی ولایت حاصل کر لیتا ہے۔ اس کو اسم ذات (اللہ) سے شرف اور سرور حاصل ہوتا ہے۔ اور پیران کامل و مکمل کے لطائف سے اس کالطیفہ قلب فیض سے سیراب ہوتا ہے۔ وہ اس لطیفہ کے کمالات حاصل کرنے کے بعد صاحب لفظ ہو جاتا ہے یعنی وہ جو کچھ منہ سے بولتا ہے۔ الله تعالی پیران کیا اور نبی کریم ﷺ کے وسیلہ و فضل و کرم سے پورا کرتا ہے۔ مرید کے وساوس اور خطرات شیطانی دفع ہو جاتے ہیں اور اس کا قلب سلیم ہو جاتا ہے۔ وہ تلوین سے نکل کر تمکین سے فیض یاب ہوتا ہے۔ اور اس لطیفہ میں اس کو فناء و بقاء حاصل ہوتی ہے ۔ مرید کو چاہیے کہ قلب کی حفاظت کرے ۔ اور ما سواللہ کو دل سے نکال دے اور پیر کامل و مکمل سے رابطہ برقرار رکھے۔ ہمیشہ ذکر و فکر میں رہے اور لطیفہ قلب کو پاک و صاف رکھے ۔ کیونکہ ظاہری، باطنی ، روحانی اور جسمانی پاکیزگی، قلب کی اصلاح سے ہوتی ہے۔ یہ ولایت کا پہلا درجہ ہے۔

ولایت آدم علیہ السلام والا فقیر ہر وقت توبہ میں مشغول اور ذات باری تعالی سےعجز و انکساری اور معافی کا طلبگار رہتا ہے۔ اپنی بری عادات کو عمده صفات میں بدلنے کی کوشش کرتا ہے ذرا سی غلطی ہو جائے تو فورا توجہ اور معانی میں مصروف ہو جاتا ہے۔ تمام افعال میں اسے حق کی جانب سے تجلیات اور انوارات حاصل ہوتے ہیں اورجمیع افعال و اعمال میں ذات حق کو وسیلہ حقیقی جانتا ہے۔  

قلب انسانی افعال الہیہ کا مظہر ہے اس لیے اس مقام میں تجلیات افعالیہ الہیہ کے ورد کا مراقبہ کرایا جا تا ہے ۔ جب تک سا لک پر کیفیات قلب ظاہر نہ ہوں اس وقت تک افعال الہیہ کے ظہور کا ادراک نہیں ہوسکتا۔ افعال الہیہ یعنی کن فیکون کی تجلیات کے مظہر کامل تو آنحضرت ﷺ ہی ہیں ۔ظہور کے اعتبار سے حضرت آدم علیہ السلام ہیں جیسا کہ حدیث قدسی ہے کہ میں اس وقت بھی نبی تھا جبکہ آدم علیہ السلام مٹی اور پانی میں تھے۔

اس مراقبہ میں حضرت آدم علیہ السلام کے واسطہ سے فیض حاصل کیا جا تا ہے ۔لطیفہ قلب کی فنا تجلیات افعالیہ الہیہ میں ہوتی ہے اس لیے جب ان تجلیات کا ظہور ہوتا ہے تو سا لک کی نظر سے تمام مخلوقات کے افعال مخفی ہو جاتے ہیں اور اسے خدائے لم یزل کی کارفرمائی کے علاوہ کچھ نظرنہیں آتا۔ تجلیات افعالیہ الہیہ کا رنگ زرد ہے۔

اس لطیفہ کی قربیت و ولایت حضرت آدم علیہ السلام کے واسطہ سے حاصل ہوتی ہے ۔ اس ولی کو آدموی المشرب کہتے ہیں ۔ اس مراقبہ میں دل کی صفائی اور نورا نبیت کے مطابق دائرہ امکان کی سیر نصیب ہوتی ہے جو کہ بالاۓ عرش ہے ۔

من عرف نفسه فقد عرف ربه۔ ترجمہ: جس نے اپنی ذات کو پہچان لیا اس نے یقینا اپنے رب کو پہچان لیا۔

اس کا راز انسان کے عالم امر کے لطائف خمسہ ہے ۔ جوسا لک سلوک طے کرتا ہوا مراقبہ لطیفہ قلب پر پہنچتا ہے اور اپنے بے مثل و بے مثال اللہ وجسم مادی پر غالب کر لیتا ہے ۔ تو اس کو اس مراقبہ میں تجلیات افعالیہ الہیہ کا مشاہدہ ہوتا ہے۔

انسان کی طبعی فطرت کے خلاف جوا فعال منجانب اللہ اس سے ظہور پزیر ہوں وہ افعال الہیہ کہلاتے ہیں ۔ مثلاً انبیاء علیہم السلام کے معجزات اور اولیاء کرام رحمۃ اللہ علیھم اجمعین کی کرامات وغیرہ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں