اس بیان میں کہ فرشتے اگر چہ اصل کا مشاہدہ کرنے والے ہیں اور انسان کا شہود(مشاہدہ) انفس کے آئینہ میں ہے لیکن اس طرح دولت کو انسان میں جز کی طرح بنایا ہے اور اس کے ساتھ اس کو بقا بخشی ہے اور اس کے مناسب بیان میں معارف آگاه برادرحقیقی میاں غلام محمد کی طرف صادر فرمایا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی الله تعالی کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو۔
ملائکہ کرام اصل کا مشاہدہ کرتے اور اسی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ گرفتاری رکھتے ہیں۔ ظلیت کی آمیزش ان کے حق میں مفقود ہے۔ انسان بیچاره اس جہان میں دائرہ ظلیت سے بمشكل قدم باہر نکال سکتا ہے اورانفسی اور آفاقی آئینوں کے وسیلوں کے بغیر شہود(مشاہدہ) دائمی بمشکل حاصل کر سکتا ہے۔ اصل تک پہنچنے کے بعد اصل کے انوار کی شعاعوں کا پرتو اس کے قلب کے آئینہ میں جلوہ گر کر کے پھر اس کو عالم کی طرف لوٹا دیتے ہیں اور ناقصوں کی تربیت اس کے حوالہ کرتے ہیں۔ اس رجوع میں اس کی اپنی بھی تربیت ہے اور دوسروں کی بھی کیونکہ اصلی انوار کا وہ پرتو جو اس کی جزکی طرح بنایا گیا ہے، رجوع کی مدت میں دوسرے اجزاء کوبھی اپنے رنگ پر لے آتا اور اپنے رنگ میں رنگ دیتا ہے جس طرح کہ دوسروں کونقص سے کمال تک لے آتا ہے اور غیب کی شہادت کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور جب اس کی دعوت اور رجوع کی مدت تمام ہو جاتی ہے اور کتاب وقت مقررہ تک پہنچ جاتی ہے تو اس کو اپنے اصل کا شوق پیدا ہو جاتا ہے اور رفیق اعلی کی ندا اس سے نکلتی ہے اور مختلف تعلقات سے آزاد ہو کر غیب سے شہادت کی طرف اسباب لے جاتا ہے اور گوش سے آغوش تک معاملہ آجاتا ہے۔ الموت جسر يوصل الحبيب إلى الحبيب (موت ایک پل ہے جویار کو یار سے ملاتا ہے، اس وقت صادق آتا ہے ۔
جاننا چاہئے کہ فرشته اگر چه اصل کا مشاہد ہے اور انسان کا شہود(مشاہدہ) انفس کے آئینہ میں ہے لیکن اس دولت کو انسان میں جز کی طرح بنایا ہوا ہے اور اس کے ساتھ اس کو بقا بخشی ہے اور اس کے ساتھ متحقق ہوا ہے۔ برخلاف فرشتہ کے کہ اس دولت کو اس میں جز ء کی طرح نہیں بنایا۔ باہر ہی میں نظارہ کرتا ہے اور بقاء وتحقق اس کے ساتھ حاصل نہیں کرتا۔ یہ انصباغ وتلون جو انسان کو اصلی رنگ سے میسر ہوا ہے، فرشتہ نہیں رکھتا اور وہ خصوصیت جو خا کیوں کو حاصل ہوئی ہے، قدسیوں کو حاصل نہیں کیونکہ اندر سے باہر تک بہت فرق ہے۔ اگر چہ اندرونی دولت جزو کی طرح ہوتی ہے اور بیرون دولت کل کی طرح لیکن اندر اندر ہے اور باہر باہر۔کلامنا إشارة وبشارة (ہماری کلام اشارہ اور بشارت ہوتی ہے۔ اسی واسطے خواص بشر خواص ملک سے افضل ہو گئے اور ان کے ہوتے ہوئے خلافت کے مستحق بن گئے ۔ وَاللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ اللہ تعالی جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت سے خاص کرتا ہے اور اللہ تعالی بڑ ےفضل والا ہے۔ بیت
زمیں زاده بر آسماں تاختہ زمیں و زمان را پس انداختہ
ترجمہ: زمیں زاده گیا چڑھ آسمان پر زمیں و آسمان سے گزر کر
یہ دولت انسان کو جز ء ارضی کے باعث میسر ہوئی ہے اور قلب کو جو عرش اللہ کہتے ہیں۔ عنصر خاک ہی کی بدولت ہے جوکل کا جامع اور دائرہ امکان کا مرکز ہے۔ ہاں زمیں کو اس کی پستی اور عاجزی کے باعث یہ سب رفعت و بلندی حاصل ہوئی ہے اور اس فروتنی نے اس کو بلند کر دیا ہے مَنْ تَوَاضَعَ لِلَّهِ دَرَجَةً رَفَعَهُ اللَّهُ دَرَجَةً ( جو الله تعالی کے لیے تواضع کرتا ہے۔ اللہ تعالی اس کو بلند کرتا ہے جب انسان رجوع اور دعوت کی مدت کے تمام ہونے اور اصلی رنگ میں رنگے جانے کے بعد اصل کی طرف رجوع کرتا ہے اور جناب پاک کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس وقت جو خصوصیت اور انبساط جو اس کو میسر ہوتا ہے، یقین نہیں کہ دوسروں کو بھی حاصل ہوا اور وہ قرب و مرتبہ جو اس کو حاصل ہوتا ہے، کسی اور کو حاصل نہیں ہوا کیونکہ وہ اصل میں ثانی ہو کر اس کے ساتھ بقاء پیدا کر لیتا ہے اور اس کے رنگ میں رنگا جاتا ہے۔ کسی اور کی کیا مجال ہے کہ اس کے ساتھ برابری کرے کیونکہ دوسروں کا انصباغ یعنی اصل کے رنگ میں رنگا جانا اگر چہ تجردوتنزہ کے اعتبار سے اتم واکمل ہوتا ہے لیکن چونکہ خارج سے آیا ہے، اس لیے عارضی کا حکم رکھتا ہے اور انسان کا انصباغ چونکہ درونی ہے۔ اس لیے ذاتی حکم رکھتا ہے۔ شتان مابينھما ان دونوں میں بہت فرق ہے۔
یہ کمال انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کے ساتھ کہ جن کو خاص بشر کہتے ہیں ، مخصوص ہے اور جس کسی کو چاہیں اپنی وراثت اور تبعیت کے طور پراس دولت سے مشرف کرتے ہیں۔
یہ دولت انبیاء علیہم الصلوة والسلام کے اصحاب کو ان کی صحبت کی برکت سے زیادہ تر حاصل تھی۔ اصحاب کرام کے سوا اور لوگ جن کو اس دولت سے مشرف فرماتے ہیں بہت کم بلکہ اس سے بھی کمترہیں۔ بیت:
اگر پادشہ بردر پیر زن بیاید تو اے خواجہ سبلت مکن
ترجمہ: اگر بڑھیا کے در پر آئے سلطان تو اے خواجہ نہ ہو ہرگز پریشان
رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ بحرمۃسيدالمرسلين عليه الصلوات والتحیات والتسلیمات اکملها واتمهااے للہ تو حضرت سید المرسلین ﷺ کےطفیل ہمارے لیے ہمارا نور پورا کر اور ہم کوبخش توسب چیزوں پر قادر ہے۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ55 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی