سوال کا شعور(پچیسواں باب)

سوال کا شعور کے عنوان سے پچیسویں باب میں  حکمت نمبر 249 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے خصوصیت کے نور، اور بشریت کی ظلمت کی ایک مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا:
249) لا يَلْزَمُ مِنْ ثُبُوتِ الخُصُوصِيَّةِ عَدَمُ وَصْفِ البَشَرِيَّةِ , إِنَّمَا مَثَلُ الخُصُوصِيَّةِ كَإِشْرَاقِ شَمْسِ النَّهَارِ , ظَهَرَتْ فِي الأُفُقِ وَلَيْسَتْ مِنْهُ ، تَارَةً تُشْرِقُ شُمُوسُ أَوْصَافِهِ عَلَى لَيْلِ وُجُودِكَ ، وَتَارَةً يَقْبِضُ ذَلِكَ عَنْكَ فَيَرُدُّكَ إِلَى حُدُودِكَ ، فَالنَّهارُ لَيْسَ مِنْكَ وإِلَيْكَ وَلَكِنَّهُ وَارِدٌ عَلَيْكَ .
خصوصیت کی مثال: دن کے سورج کی روشنی کی طرح ہے۔ جو افق میں ظاہر ہوتی ہے۔لیکن وہ روشنی افق سے نہیں ہوتی ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے اوصاف کا سورج کبھی تمہارے وجود کی رات پر روشن ہوتا ہے۔ اور کبھی یہ روشنی تم سے رک جاتی ہے تو وہ تم کو تمہاری حدوں کی طرف لوٹا دیتی ہے۔ لہذا وہ نور جو تمہار ی طرف پہنچتا ہے تمہارے وجود سے نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ وہ تمہارے
او پر وارد ہوتا ہے
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: ربوبیت کے اس نور کی مثال جو اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیائے کرام کے قلوب میں روشن کیا ہے۔ اور اس کو بشریت کے ظہور کے ساتھ چھپا دیا ہے۔ سورج کی روشنی کی طرح ہے۔ جب وہ روشنی آفاق پر روشن ہوتی ہے اور آفاق: افق کی جمع ہے، اور زمیں اور آسمان کی درمیانی فضا کو کہتے ہیں۔ تو وہ فضا سورج نکلنے سے پہلے تاریک (اندھیری ) ہوتی ہے اس میں کچھ بھی روشنی نہیں ہوتی ہے۔ پھر جب سورج کی روشنی اس پر پہنچتی ہے تو وہ صاف وشفاف ہو کر روشنی میں منتقل ہو جاتی ہے۔ لہذ افضا کی روشنی بذات خود نہیں ہے۔ بلکہ وہ سورج سے حاصل کی ہوتی ہے۔
اسی طرح ربوبیت کا نور ہے۔ جو بشریت کے باطن میں امانتا رکھا گیا ہے۔ تو جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی خصوصیت ظاہر کرنی چاہتا ہے۔ تو وہ نور اس کی بشریت کے ظاہر پر جلوہ گر کر دیتا ہے تو اس کی روحانیت اس کی بشریت پر غالب ہو جاتی ہے۔ پھر بشریت کا کچھ نشان باقی نہیں رہتا ہے۔ اوربشریت سراپا نور ہو جاتی ہے۔لہذ ابشریت کا نور بشریت میں سے نہیں ہے۔ بلکہ وہ ر بوریت کے سورج سے اس پر وارد ہوا ہے۔
پس کبھی اللہ تعالیٰ کے اوصاف، وجود اور قدم اور بقاء ، اور تمام اوصاف سلبیہ ، اور وجود یہ اور معنویہ کے سورج، تمہارے ظلمانی کثیف وجود کی رات پر روشن ہوتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ کے قدیم از لی اوصاف کے ظاہر ہونے کے ساتھ تمہارے حادث عدمی اوصاف ختم ہو جاتے ہیں۔ لہذا وصال ثابت ہو جاتا ہے۔ اور جدائی ختم ہو جاتی ہے۔ اورکبھی وہ اس کو روک دیتا ہے۔ اور اس کو تم سے غائب کر دیتا ہے اور اس کو تمہارے باطن کی طرف لوٹا دیتا ہے۔ لہذا تم اپنی عبودیت کے شہود کی طرف لوٹ جاتے ہو۔ اور اللہ تعالیٰ تم کو تمہارے حدود کی طرف لوٹا دیتا ہے۔ اور وارد الہٰی کی شان یہی ہے کہ جب وہ انسان پر آتا ہے تو وہ اس کو اس کے نفس سے غائب کر دیتا ہے۔ اور اس کو اس کے ظاہر سے جدا کر دیتا ہے۔ لہذاوہ صرف اپنے رب تعالیٰ کے اوصاف کو دیکھتا ہے۔ اور اپنے نفس کے وجود کا بالکل انکار کر دیتا ہے۔ پھر جب وار دٹھہر جاتا ہے تو وہ اپنے رب تعالیٰ کے ساتھ اپنے نفس کے شہود کی طرف ہوتا ہے۔ اور یہ نور اس کے باطن کی طرف رجوع کرتا ہے۔ لہذا اس کا باطن ہمیشہ کے لئے نورانی ہو جاتا ہے۔ اور اس کے ظاہر پر کبھی یہ نور غالب ہوتا ہے اور کبھی اس پر ظلمت یعنی یعنی عبودیت غالب ہوتی ہے۔ لہذا وارد کا نور انسان کی بشریت کی حیثیت سے اس کی ذات سے نہیں ہے بلکہ وہ اس کی روحانیت کی حیثیت سے اس پر وارد ہوتا ہے۔ جیسا کہ افق کی روشنی افق کی ذات سے نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کے اوپر دن کا سورج طلوع ہونے سے وہ اس پر وارد ہوتی ہے۔
اور یہاں ایک دوسری مثال بھی ہے اور وہ لوہا اور کوئلہ کی مثال ہے: جب تم ان کو آگ میں ڈالتے ہو، اور پھونکتے ہو ۔ تو وہ دونوں آگ کی طرح سرخ ہو کر آگ کی جنس بن جاتے ہیں۔ اور آگ سب لو ہے اور کوئلے پر اس طرح چھا جاتی ہے کہ ان میں اور آگ میں کوئی امتیاز باقی نہیں رہتاہے۔ پھر جب وہ دونوں ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔ تو لوہا، لوہارہ جاتا ہے اور کوئلہ کوئلہ رہ جاتا ہے۔ اسی طرح جب بشریت پر روحانیت ہو جاتی ہے تو بشریت سرا پا روحانی حقیقی ہو جاتی ہے۔ لہذا وہ صرف حقیقتوں ہی کو دیکھتا ہے اور محسوس کرتا ہے۔ اور تم کو معلوم ہونا چاہیئے کہ اس نور کے وارد ہونے کے اعتبار سے آدمیوں کی تین قسمیں ہیں:
ایک قسم وہ لوگ ہیں جن کے نور کی حد ان کا باطن ہے۔ لہذا اس نور کی کوئی شعاع ان کے ظاہر تک نہیں پہنچتی ہے۔ اور وہ عوام ہیں۔
دوسری قسم وہ لوگ ہیں جن کا نور ان کے ظاہر اور باطن پر غالب ہو گیا ہے اور وہ لوگ مجذو بین ہیں جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کھینچ لئے گئے ہیں ۔
تیسری قسم وہ لوگ ہیں جن کا باطن نور سے معمور ہے۔ اور اس کی شعاع ان کے ظاہر پر جلوہ گر ہے۔ لہذا ان کے ظاہر پر ہمیشہ نور چھایا رہتا ہے۔ اور وہ لوگ جذب کے بعد سالکین ہیں ۔ جو معرفت میں مضبوطی سے قائم ہو چکے ہیں۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں