ذات عالیہ کی جلوہ گری (چودھواں باب)

ذات عالیہ کی جلوہ گری کے عنوان سے چودھویں باب میں  حکمت نمبر 140 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے مخلوقات میں غور و فکر کرنے ، اور اُن سے عبرت ( نصیحت ) حاصل کرنے کی کیفیت بیان کی ۔ تا کہ تم اُن میں اللہ تعالیٰ کے ظاہر ہونے کی پہچان سکو ۔ چنانچہ فرمایا :-
140) أَبَاحَ لَكَ أَنْ تَنْظُرَ مَا فِى الْمُكَوَّنَاتِ وَمَا أَذِنَ لَكَ أَنْ تَقِفَ مَعَ ذَوَاتِ الْمُكَوَّنَاتِ : {قُلِ انْظُرُوا مَاذَا فِي السَّمَاوَاتِ} فَتَحَ لَكَ بَابَ الإِفْهَامِ وَلَمْ يَقُلْ : انْظُرُوا السَّمَوَاتِ ؛ لِئَلاَّ يَدُلُّكَ عَلَى وُجُودِ الأَجْرَامِ.
اللہ تعالیٰ نے تم کو اجازت دی۔ کہ تم مخلوقات کے اندر جو ذات عالیہ جلوہ گر ہے ، اس پر غور کرو اور اس نے تم کو یہ ا جازت نہیں دی، کہ تم مخلوقات کی ذات کے ساتھ ٹھہر جاؤ۔ (یعنی مخلوقات میں مشغول ہو جاؤ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :- آپ لوگوں سے فرمادیجئے ! تم آسمانوں اور زمین میں، جو ذات پاک موجود ہے، اس پر غور کرو۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول سے تم لوگ آسمانوں اور زمین میں جوذات موجود ہے۔ اس پر غور کرو ۔ تمہارے لئے سمجھ کا دروازہ کھولا ہے اور اس نے یہ نہیں فرمایا کہ تم لوگ آسمانوں اور زمین میں غور کرو۔ تا کہ وہ اجرام واجسام کی طرف تمہاری رہنمائی نہ کرے۔ میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ان مخلوقات اور جہانوں کو ، اس لئے ظاہر فرمایا ہے۔
تا کہ وہ ان کے ذریعے پہچانا جائے اور اس کا نور ان میں ظاہر ہو۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے:-
وَمَا خَلَقۡنَا ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضَ وَمَا بَيۡنَهُمَا لَٰعِبِينَ مَا ‌خَلَقۡنَٰهُمَآ إِلَّا بِٱلۡحَقِّ
اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کو بے کار نہیں پیدا کیا ہے۔ ہم نے ان دونوں کو نہیں پیدا کیا۔ مگر حق کے ساتھ ۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا :-
أَفَحَسِبۡتُمۡ أَنَّمَا خَلَقۡنَٰكُمۡ ‌عَبَثا کیا تم لوگوں نے یہ سمجھا ہے۔ کہ ہم نے تم لوگوں کو بیکار پیدا کیا ہے۔ حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنی کتاب لطائف المنن میں فرمایا ہے:۔ یہ کائنات اس لئے نہیں قائم کی گئی ہے۔ کہ تم اس کو دیکھو۔ بلکہ یہ اس لئے بنائی گئی ہے۔ کہ تم اس میں اس کے مولائے حقیقی اللہ تعالیٰ کو دیکھو۔ پس تمہارے وجود سے اللہ تعالیٰ کا مقصد یہ ہے ۔ کہ تم کائنات کو اس شخص کی آنکھ سے دیکھو، جو کائنات کو نہیں دیکھتا ہے۔ تم اس کو اس حیثیت سے دیکھو کہ اُس میں اللہ تعالیٰ کا ظہور ہے اور اس کو اس کے موجود ہونے کی حیثیت سے نہ دیکھو۔ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا ہےکہ اس حقیقت کے بارے میں ہمارے اشعار ہیں۔ جو درج ذیل ہیں :-
مَا اَقَامَ لكَ الْعَوَالِمُ إِلَّا لِتَرَاهَا بِعَيْنِ مَنْ لَّایَرَاهَا
اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے کل کا ئنات اس لئے قائم کی ہے۔ کہ تم اس کو اس شخص کی آنکھ سے دیکھو۔ جو کائنات کو نہیں دیکھتا ہے۔
فَارقَ عَنْهَا رُقِيَّ مَنْ لَيْسَ يَرْضَى حَالَةٌ دُونَ أَنْ يَّرَى مَوْلَاهَا
تو تم ترقی کر کے کائنات سے آگے بڑھ جاؤ۔ اس شخص کی ترقی کی طرح جو اللہ تعالیٰ کے دیدار کے سوا کسی حالت کو پسند نہیں کرتا ہے۔
تو اے انسان ! اللہ تعالیٰ نے تم کو یہ اجازت دی ہے۔ تم آسمانوں اور زمین میں اس لطیف نور کو دیکھو ، جس کے ساتھ اشیاء قائم ہیں اور تم کو یہ اجازت نہیں دی ہے۔ کہ مخلوقات کی ذات میں مشغول ہو جاؤ۔ چھلکے میں مشغول ہو کر مغز کی طرف سے فاضل ہو جاؤ۔ اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کا یہ قول پہلے گزر چکا ہے۔ مخلوقات کا ظاہر دھوکا ہے۔ اور اُس کا باطن عبرت ہے ۔ تو جو شخص اُس کے ظاہر میں مشغول ہوا۔ وہ محجوب ہو گیا اور جو شخص اس کے باطن تک پہنچ گیا۔ وہ عارف محبوب ہو گیا۔ اوریہی راز ہے ، جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:- قُلِ انْظُرُوا مَاذَا فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ) آپ فرمادیجئے ! جو آسمانوں اور زمین میں ہے۔ اُس میں نظر کرو۔ یعنی جو اُن میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اُس کی ذات کی حقیقتیں اور اُس کی قدرت اور ارادے کا کمال اور اُس کی تمام صفات ہیں۔ اُن میں نظر کرو۔ تو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے سمجھ کا دروازہ کھول دیا ہے۔ تا کہ تم اُس کے ذریعے ، چھلکے کے ظاہر سے مغز کے باطن میں پہنچ جاؤ۔ یہانتک کہ تم ہرشے میں اللہ تعالیٰ کو پہچانو۔ اور ہرشے میں تم اُس کی سمجھ حاصل کرو۔ اور اگر اللہ تعالیٰ یہ فرماتا – ( قُلِ انْظُرُوا السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ )
تم لوگ آسمانوں اور زمین کو دیکھو۔ وہ تمہاری رہنمائی اجرام اور اجسام کی طرف کرتا اور تمہارے اوپر سمجھ کا دروازہ بند کر دیتا۔ لیکن وہ اجرام و اجسام کی طرف تمہاری رہنمائی کیسے کرتا۔ جبکہ وہ غیر ہیں۔ اور غیر :- انوار الہی کے مشاہد ہ میں پہنچنے سے روک دیتا ہے۔ اور آسانی سے سمجھنے کے لئے اس کی مثال :- یہ ہے
اگر کوئی شخص تم سے کہے :۔ اس برف کو دیکھو۔ تو اس نے برف کے ظاہری جسم کی طرف تمہاری رہنمائی کی اورا گروہ تم سے یہ کہے ۔ تم اس کو دیکھو جو برف میں ہے۔ تو اس نے تمہارے لئے برف کے ظاہری جسم میں نہ مشغول ہو کر، برف میں موجود پانی کی طرف نظر کرنے کیلئے سمجھ کا دروازہ کھول دیا ۔ اور تم یہ جان لو :- اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنی ذات کی معرفت کی طرف دعوت دی ۔ اور آہستہ آہستہ ان کو اپنی معرفت کے قریب کیا۔ تو ان میں کچھ لوگ پیچھے رہ گئے اور ان میں سے کچھ لوگ پہنچ گئے ۔
تو پہلے اُن کو افعال کی توحید کی طرف قریب کیا اور توحید افعالی – یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی فاعل نہیں ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :-
وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتارُ ) اور تمہارا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ اور اختیار کرتا ہے۔ ( إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالَ لِمَا يُرِيدُ ) بیشک تمہارا رب جو ارادہ کرتا ہے۔ اس کو بخوبی کرتا ہے۔ ( وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ ) اور اللہ تعالیٰ نے تم کو اور تمہارے اعمال کو پیدا کیا ۔ ( ولو شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلُوا وَلَكِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ ) اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو وہ لوگ آپس میں ایک دوسر ے کوقتل نہ کرتے لیکن اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
اور انسان کے علاوہ چو پایہ جانور کے فعل کے بارے میں فرمایا :-
(مَا مِنْ دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ احَدٌ بِنَا صِيَتِهَا ) زمین پر چلنے والا کوئی جانور نہیں ہے مگر اللہ تعالیٰ اس کی پیشانی کو پکڑے ہوئے ہے ۔ (یعنی اُس کا سر اللہ تعالیٰ کی گرفت میں ہے۔ اور چڑیوں کی شان میں فرمایا:- ( مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا الرَّحْمَنُ ) اُن کو فضا میں نہیں روک رکھتا ہے۔ مگر بڑا مہربان اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:-
( وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالَكُمْ ) اور نہ زمین پر چلنے والا کوئی جانور نہ چڑیا جو اپنے دونوں بازووں سے اڑتی ہے۔ مگر وہ تمہاری طرح امتیں ہیں یعنی سب ہماری مٹھی کی گرفت میں ہیں ۔ اُن تقدیر میں۔ اُن کی روزیاں، مقسوم ہیں۔ ( تقسیم ہو کر سب کے لئے حصہ مقرر ہو چکا ہے ) ان کے سانس لینے کی تعداد گنتی کر کے مقرر کی ہوئی ہے۔ ان کے اجسام ، ایک مقررہ وقت تک محفوظ ہیں۔ ان کی جگہیں معلوم ہیں۔ اُن کی شکلیں ظاہر ہیں اور اُن کے انوار پوشیدہ ہیں۔
اور اللہ تعالیٰ نے توحید صفاتی کے بارے میں فرمایا:- بیشک اللہ تعالیٰ کے سوا ، نہ کوئی سننے والا ہے، نہ کوئی دیکھنے والا نہ کوئی قدرت رکھنے والا، نہ کوئی بات کرنے والا :- (إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ( بیشک وہی اللہ تعالیٰ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ یعنی اپنے غیر کے سوا۔ لہذا سننے اور دیکھنے کی طاقت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
( إِنَّهُ هُوَ الْحَكِيمُ الْعَلِيمُ ) اللہ تعالیٰ ہی حکمت والا اور علم رکھنے والا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا :- (وَ مَا تَشَاوُنَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللهُ) اور تم نہیں چاہ سکتے ہو مگر وہی جواللہ تعالی چاہے۔ اور ان کے علاوہ بھی دوسری بہت سی آیات کریمہ ہیں ۔ جو تو حید صفائی کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔
اور توحید ذاتی کی شان میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :- ( وَهُوَ اللَّهُ فِي السَّمَوَاتِ وَ فِي الْأَرْضِ اور وہی اللہ آسمانوں اور زمین میں ہے ( اللَّهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ) اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ یہ اہل اشارہ یعنی اہل باطن کی تفسیر کے مطابق ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ( فَأَيْنَمَا تُوَلُوا فَتَمَّ وَجُهُ اللَّهِ ) تم جس طرف بھی منہ کرو، اسی طرف اللہ تعالیٰ کا منہ ہے۔ ( وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ ) اور جب ہم نے تم سے کہا:۔ تمہارا رب آدمیوں کو گھیرے ہوئے ہے۔ (إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُسَا بِعُونَ الله جولوگ آپ کے مقدس ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں۔ تو حقیقت یہ ہے۔ کہ وہ اللہ تعالیٰ سے بیعت کرتے ہیں۔ اور واسطہ (وسیلہ ذریعہ )ختم کرنے کے بارے میں فرمایا (قال) قرآنَاهُ فَاتَّبع قرانه) پھر جب ہم اس کو پڑھیں تو تم اس کے پڑھنے کی پیروی کرو۔
نَّا صَيْنَا الْمَاءَ ثُمَّ حَقَلْنَا الْأَرْضَ شَقًّا ) ہم نے پوری طرح پانی برسایا اور ہم نے اچھی طرح زمین کو پھاڑا۔ یعنی کھیتی سے پھاڑ نا اور اس
آیہ کریمہ کے بارے میں یہ احتمال ہے۔ کہ واسط ختم کرنے کے سلسلے میں ہو ، یا تو حید افعالی میں سے ہو۔
وَ مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَمَى ) جب آپ نے ايك مشت خاک پھینکی۔ تو وہ آپ نے نہیں پھینکی۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی۔
( وَلَكِنَّ الله الف بَيْنَهُمْ ) لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان محبت پیدا کی۔ اور کبھی اللہ تعالیٰ ایک ہی آئینہ میں توحید صفات کو بیان کرتا ہے۔ پھر تو حید ذات تک پہنچاتا ہے۔ جیسا کہ اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَ فِى أَنفُسِهِم على يتبيَّنَ لَهُمُ اللَّهُ الْحَقُّ) اور عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں اور ان کے نفوس میں دکھا ئیں گے ۔ یہاں تک کہ اُن کے سامنے واضح ہو جائے گا۔ کہ وہ اللہ تعالیٰ حق ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی اس آیہ کریمہ کے ذریعے اُن کو شہود تک پہنچایا۔
اولم يَكْفِ بَرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيءٍ شَهِيدٌ کیا یہ کافی نہیں ہے۔ کہ تمہارا رب ہرشے کو دیکھنے والا ہے۔
أَلَا إِنَّهُمْ فِى مِرْبَةٍ مِّنْ لِقَاءِ رَبِّهِمُ أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَى مُحِيطٌ ) ہوشیار رہو! وہ لوگ اپنے رب کے ملاقات سے شک میں ہیں ۔ ہوشیار رہو !بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہرشے کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا :-
إِنَّ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِير
بیشک جو لوگ اپنے رب سے بغیر دیکھے ہوئے ڈرتے ہیں۔ ان کے لئے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی اس آیہ کریمہ کے ذریعے ان کو غیب سے عالم شہادت کی طرف پہنچایا :
وَأَسِرُّواْ قَوۡلَكُمۡ أَوِ ٱجۡهَرُواْ بِهِۦٓۖ إِنَّهُۥ عَلِيمُۢ بِذَاتِ ٱلصُّدُورِ أَلَا يَعۡلَمُ مَنۡ خَلَقَ وَهُوَ ٱللَّطِيفُ ٱلۡخَبِيرُ
اور تم لوگ اپنی بات کو چھپاؤ ، یا اس کو ظاہر کرو۔ بیشک اللہ تعالیٰ دل کی باتوں اور بھیدوں کا جاننے والا ہے۔ کیا وہ اپنی مخلوق کو نہیں جانتا ہے۔ حالانکہ وہ بڑا باریک بین اور باخبر ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں