تحفۃ الصوفیہ (ارشادات غوث الاعظم )

تحفۃ الصوفیہ

بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ نَحْمَدُہُ وَ نُصَلّیِ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمْ

قال قطب الاقطاب وفرد الاحباب الشیخ عبد القادر الجيلاني رحمة الله عليه من رأى محب الله فقد رأى الله

قطب الاقطاب شیخ المشائخ حضرت عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس جس شخص نے کسی خدا کے دوست کو دیکھا گویا اس نےخدا کو دیکھا

دیدن او دیدن الله بود                   گرچہ شکلش چوں  بعبداللہ بو د

 یعنی اس ولی اللہ کا دیدار  اللہ  کا دیدار ہے ۔ اگرچہ اس  کی صورت شکل اللہ کے بندوں جیسی ہوتی ہے۔

الولى ريحانة الله في الأرض يتشممه الصدیقون فتصل رائحته إلى قلوبهم فيشتا قون الی ربھم على تفاؤت منازلھمـ

 ولی اللہ (خدا کا دوست ) روئے زمین پر خدائے تعالے کی خوشبو ہے ۔ سچے اور راست باز طالب اس خوشبو کو سو نگھتے ہیں ۔ چنانچہ یہ خوشبوان طالبوں کے دلوں میں گھر کرلیتی ہے ۔ وہ تفاوت کے اعتبار سے اپنے پردر و گارکے مشتاق ہو جا تے ہیں ۔

 در رہ آن کعبه جان و دلم ہریکی خندان و گریان می رود

 اس کعبۂ جان و دل کی راہ میں ہر شخص ہنستا اور روتا چلا جاتا۔

آن خنک چشمی که آن گریان اوست  وآن ہمایوں دل که آن بریان اوست

آہ کس قدر ٹھنڈی ہیں وہ آنکھیں ، جو اس کے لئے اشک باریاں ، اور کتنا مبارک ہے وہ دل ، جوااس کے لئےسوزان سے ۔

من أحب الله صار قلبه شوقا كليا و اعراضاًكليا   وفنافلاجرم یصير همومہ هما واحدا –

 جواللہ تعالی سے دوستی کرتا ہے ۔ اس کا دل خدا وند قدوس کے شوق سے لبریز ہو جا تا ہےیعنی سرا پا شوق بن جاتا ہے ۔ اور وہ ماسوا اللہ کے شوق سے مطلقاً منہ پھیر لیتا ہے اور فنا فی اللہ ہو جاتا ہے ۔ اس کی تمام فکریں صرف ایک اندیشہ بن  کر رہ جاتی ہیں۔ یعنی صرف ایک اللہ یاد رہ جاتا ہے ۔

زیں پیش بود ہزار اندیشہ اکنون ہمہ لا الہ الا الله است

اس شوق سے پہلے تو اس کو ہزاروں اندیشے لاحق ہے ، لیکن اب صرف لا الہ الا اللہ کی دھن ہے ۔

شادباش ای عشق خوش سوداے ما              وی دوائ جملہ علت ہائے ما

اے عشق خوش انجام توخوش رہ ! کہ ہماری تمام بیماریوں کی واحد دوا تو ہے ۔

 يا غلام اجهد في طاعة ربك کل جهدک : اے فرزند ! تو اپنی تمام طاقت وقوت اپنے پروردگار کی اطاعت فرماں برداری میں لگا ، اور اسی میں اپنی پوری کوشش صرف کر دے ۔

صرف کن در راه ادہر قوتی       تابیابی در حضورش حر متی

اپنی تمام طاقتیں صرف اسی کی راہ میں صرف کر ، تاکہ اسکی نظروں میں عزیز ہو۔

اجهد أن تعطى من حرمك وتصل من قطعك وتعفو عمن ظلمک

اے بیٹے ! تو اس بات کی کوشش کر کے  جو شخص تجکو محروم کرے اور کچھ نہ دے ۔ تواسی کے ساتھ

بخشش کر۔ اس شخص سے صلہ رحمی بجالا ، جو تجھ سے اپنی خویشی و قرابت ترک کرے ، اور اس شخص کو معاف کر دے ،جس نے تجھ پرظلم کیا ہے ۔

ہرکه بخراشدت جگر بجفا           ہم چو کان کریم زربخشش

تو سایہ دار درخت سے کم نہ ہو ، دیکھ جب کوئی اس پرپتھر برساتا ہے ، وہ اس پرپھلوں کی بارش کرتا ہے ۔

واجهد ان يكون بيتک مع العباد وقلبك مع رب العباد

تو اس امر کی کوشش کر کہ تیرا گھر بندوں کے ساتھ ہو لیکن تیرادل پروردگار عالم کے ساتھ ہوں یہاں گھر سے مراد وجود ظاہری ہے یعنی بظاہر تو مخلوق الہی کے ساتھ کام کررہا ہولیکن دل ادھر متوجہ رہے ۔

 دست بہ کارودل بہ یار یعنی ہاتھ کام میں اور دل خدا میں

از درون شو آشنا داز بروں بیگانہ وش               این چنیں زیبا روش کم می بودا ندر جہاں

 باطن میں تو خدا کے ساتھ رہ اور ظاہرمیں بیگانوں کی طرح ایسی اچھی روش دنیا میں کم یاب ہے ۔

دم بدم دم را غنیمت دان و ہمدم شو بدم       واقف دم باش ہردم ، پیچ دم بے جا مدم

 ہرلمحہ اپنی سانس کو غنیمت سمجھ بلکہ جان و دل سے اس کا ہمدم رہ اور ہمیشہ اپنی سانس سے اس طرح واقف رہ کہ کوئی سانس غافل نہ ہو یعنی کوئی سانس یا دا لہی سے بے جا نہ ہو

 ویلک لا تكن ذا الوجهين وذا السانين و ذاالفعلين –

خبردار ، تو دورخا ، دو زبان والا ، اور دو کردار والا نہ بن یعنی ظاہر و باطن میں یکساں  رہ ورنہ  تیری حالت افسوس ناک ہے

یک رنگ باش و یک دل و  یک رو و یک زبان  این خیر وایں سعادت و این امن و این امان

تجھ کو ایک رنگ ایک دل ، ایک رخ اور ایک زبان بن جانا چاہئے کیونکہ اس ایک رنگی کا نام خیرو برکت امن وامان ہے۔

قفوبين يديه على قدم الإفلاس من عقولكم وعلومکم فتناؤلو علمه

اس کے حضور میں اگر اپنی عقل اور اپنے علم سے ہاتھ اٹھا کر بیٹھو گے تو اس کا علم حاصل کر لو گے ۔

در گزر از علم وعقل خویشتن           باش ساقط پیش رب ذوالمنن

اے سالک  پروردگار عالم کے سامنے علم و عقل کو فراموش کردے ۔( یعنی علم باری تعالی میں سےضرور  کچھ حصہ مل جائے گا ۔)

تابیابی علم ہائے  انبیاء       بے کتاب و بے معین اوستا د

تاکہ تجھ کو بغیر کتاب بغیر مدد گار اور بغیر استاد کے نبیوں  کا علم حاصل ہو جائے ۔

دل زدانش ہاشستندایں فریق            زانکہ ہر دانشن،ند انداین طریق

اس گروہ کا اصول یہی ہے کہ وہ دل کوعقول عشرہ ( عقول عشرہ سے مراد وہ دس  فرشتے ہیں جنہوں نے اللہ تعالی حکم  سے بموجب قوال حکماء تمام عالم کو پیدا کیا ، اور اس کی انتظام بھی مکمل کر دیا )سے خالی کر دیتے ہیں کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ یہ راہ عقل سے طےنہیں ہوتی ۔

چوں تجلی کرد اوصاف قدیم      پس بسوز دوسف  حادث را قدیم

الغرض جب ان میں حسن قدیم کا جلو ہ ظاہر ہوتا ہے تو جلوہ انسانی اوصاف کا خاتمہ کر دیتا ہے ۔

الشرک فی  الظاهر والباطن . الظاهرعبادۃ الاصنام  والباطن اتکاءعلی الخلق  والرؤیتھم فی الضرر والنفع

 شرک دو طرح کے ہیں ۔ ایک ظاہری اور ایک باطنی ظاہری شرک توبتوں کی پوجا کرنا ہے اور باطنی شرک مخلوق پر بھروسا کرنا اور ان کو اپنے نفع یا نقصان کا باعث سمجھنا ہے ۔

گر رنج پیشت آید، و گرراحت ای حکیم نسبت مکن بہ غیر که این ہا خدا کند

 اے عقلمند ا خوا ہ تجھ کو دکھ درد پیش آئے یا عیش و آرام میسر ہو تو دونوں صورتوں میں اس کو کسی اور طاقت کی طرف منسوب نہ  کر، کیوں کہ ان سب کا محرک خدا ہے ۔

گر گز ندت رسد ز خلق مر نج   کہ نہ  راحت رسدز خلق نہ رنج

 اے سالک ! اگر تجھ کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو کسی سے ناراض نہ ہوکیونکہ دنیا والےنہ راحت کے موجب ہیں نہ تکلیف کے۔

از خدا دان خلاف دشمن و دوست        که دل ہر دو در تصرف اوست

دشمن کی عداوت اور دوست کی دوستی کو بھی خدا ہی کی طرف سے سمجھ ،کیونکہ دونوں کے دل اسی احکم الحاکمین کےقبضے میں ہیں ۔

گرچہ تیرا زکمان ہمی گزرد           از کمان داربیند اہل خرد

 دیکھ اور سمجھ اگرچہ تیر کمان سے نکلتا ہے لیکن عقلمند جانتا سکتا کہ اس کا چلا نے والا تیرانداز ہے ۔

 اجھد ان تكون مظلو مامقهوراولا تكن قاھر

ا س بات کی کوشش کر کہ تو مجبور اور مظلوم  بن جائے نہ  کہ جا ہر ۔

تا توانی بنده شو ، سلطان مباش    زخم کش چوں گوی شو چوگاں مباش

حتی الوسع عبد بن جا ، بادشاہ نہ  بن گیند کی طرح ضرب کاری کو برداشت کر چوگان (بلا) نہ بن کہ تجھ سے دوسروں کو تکلیف پہنچے۔

إجھد  ان لاتاكل لقمة ولاتمشي خطوۃولاتعمل شيئاالا  بنية صالحة تصلح الحق

 اس امر کی کوشش کر کے بغیر نیک نیتی کے تو کوئی لقمہ نہ کھائے گا اور نہ کوئی قدم آگے بڑھائے گا اور نہ کوئی کام کرے گا یعنی کام بھی ہو خواہ ظاہری یا باطنی اس کو نیک نیتی سے انجام دے۔

جس میں خدائے تعالے کی رضا مندی مد نظر ہو ۔

 ياغلام تحتاج في خلوتك إلى ورع يخرجك من المعاصي ومراقبة تذكرک نظر الحق إليك۔

اے فرزندتجھ کو تنہائی میں ان باتوں کی ضرورت ہے ، اول پرہیزگاری جو گناہوں سے دور کر دے ، دوسرے مراقبہ لازم ہے ، تاکہ تو یہ فراموش نہ کردے کہ خدا تیری طرف دیکھ رہا ہےاس طرح تو برے کاموں سے بچار ہے گا ۔

پاسبان دل شوا ندر کل حال                 تانیا بدہیچ دزد آن جا مجال

ہر حال میں دل کی پاسبانی کرتا کہ اس میں کوئی چور داخل نہ ہونے پائے

ہر خیال غیر حق را دزد خوان              این ریاضت سالکان را فرض دان

خدا کے علاوہ ہر خیال کو چور سمجھ یہی ریاضت سالکوں کے لئے فرض ہے۔

یا غلام دع النفس والهوى وکن ترا باتحت اقدام  هؤلاء القوم

 اے فرزندنفس اور اس کی خواہشوں کی پیروی چھوڑ دے اور اس قوم یعنی اولیا اللہ کے قدموں کی خاک ہو جا ۔

خاک شومر دان حق را زیرپا       خاک کن بر ہر ہوایت ہمچوما

 اولیاء اللہ کی خاک پا بن جا ، جس طرح ہم نے اپنی خواہش کو خاک میں ملا دیا ہے اسی طرح تو کبھی اپنی ہر خواہش کو خاک کر دے ۔

از بہاران گی شود سرسبزسنگ خاک شو تا گل بروید رنگ رنگ

 موسم بہار سے پتھر کو سر سبزی و شادابی حاصل نہیں ہوتی  ، لہذا تومٹی بن جاتا کہ تیری خاک سے رنگا رنگ پھول کھلیں ۔

 يا غلام خذذيل هولاء  القوم بید  الزهد لابيد الرغبة

 اے فرزند ! اس جماعت یعنی اولیاء اللہ کا  دامن زہد اور پر ہیز گاری کے ہاتھوں سے تھام نہ کہ طمع اور ہوائے نفس سے۔

مکن رعنبت بہ چیزی ور نہ حالت بی صفا گردد     برغبت آنچہ خواهی عاقبت برجان بلا گردد

 کسی شے کی  رغبت نہ کرور نہ بے لوثی کی حالت ختم ہو جائےگی جس شے کی تور غبت یا خواہش کرے گا۔ انجام کار وہی تیرے لئے وبال جان ثابت ہو گی ۔

طوبی لک ان وافقت الحق واحببتہ

اگر تو حق تعالی کےفرمان اورحکم  کے مطابق عمل کرتا ہے اور اس ذات کو محبوب رکھتا ہے تو یہ عمسل تیرے کے نیک فال ہے۔

ہمچو ا سماعیل پیشش جان نبہ      شاد و خنداں پیش تیغش جان نبہ

 حضرت اسماعیل کی طرح اس معبود حقیقی کے سامنے اپنی جان  نذر کر دے اور اس کی تلوار کے سامنے اپنی جان ہنستے کھیلتے دے دے

تا با ماند جان توخنداں ابد ہمچوجان پاک احمد با احد

تا کہ جس طرح روحی فدا حضرت احمد کی جان احد کے ساتھ ہمیشہ  خوش ہے تیری روح بھی باغ باغ رہے ۔

عاشقم برقہرد بر لطفش  بہ جدایں عجب من عاشق ایں  ہر دوضد

میں اس کے قہر وغضب اور مروت سے بدل جان محبت تام رکھتا ہوں کیس قدر حیرت کا مقام ہے کہ میں ان دونوں اضدادکا عاشق ہوں

عاشقم بررنج  خویش ودرد خویشی            بہر خوشنودی شاہ فرد خویش

میں اپنے غم اور اپنے درد ومصیبت، پراپنے واحد آقا ومالک  کی رضا کے لئے جان دیتا ہوں ۔

 من شرائط محبة الله موافقته فيك وفي غيرك ومن يجعل لنفسه وزنافلا وزن لہ

خدائے تعالی کی شرطوں میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ وہ سب کا ساتھ دیتا ہے ، یعنی یہ نہ سمجھے کہ خداوند عالم صرف میرے ہی سا تھ ہے اور دوسرے بندوں کے ساتھ نہیں ۔ یا یہ کہ دوسرے بندوں کے مقابلے میں مجھ سے زیادہ موافق ہے، اور شخص اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے اور وزن دیتا ہے خدا کے حضور میں اس کا کچھ مرتبہ نہیں

پاک بازانی کہ حق بگزیده اند   خویش را بدتر ز ہر بددیده اند

جن پاک بازوں نے خدا سے لو لگائی اور اس کی محبت کو اپنایا انہوں  نے اپنی ذات  کو ہرایک سے بد تر خیال کیا ۔

گرتو خود راہیچ کس دانی چو خس             ہیچ کس باشی نباشی ہیچ کس

اگر تو اپنے کو ایک تنکے کی طرح حقیر سمجھے گا تو فی نفسہ حقیر ہوگامگر اس حقارت سے دوسروں کے آگے ذلیل نہیں ہوسکتا ۔

چوخو درا ز نیکان شمردی بدی   نمی گنجد اندرخدائی خودی

اگر تو نے اپنے کو نیک خیال کیا تو ظاہر ہے کہ تو بد ہے، کیوں کہ خدا کی خدائی میں خودی کی گنجائش ناممکن ہے ۔

 عليكم بمذ هب السلف الصالح تم کو لازم ہے کہ گذشتہ بزرگوں اور صالح لوگوں پیروی واقتدا اختیارکرو

راہ آنان رو کہ مقبول حق اند          در رہ حق رفتہ باحق ملحق اند

 خدا کے مقبول بندوں کا راستہ اختیار کر، کیونکہ وہ راہ حق پرچل کر حق کے قریب ہیں ۔

ہان مردآن  رہ بگفتن سرخسی           ور نه درکور دکبود افتی بسی

کسی کمینے کے کہنے سے وہ راہ نہ اختیار کرجس سے تو گمرا ہوجائے۔

 من أراد الله به خيرا اغلق عليه باب الخلق وقطع عنه عطائهم حتى يردالیک

 جس کے واسطے اللہ تعالیٰ  بہتری چاہتا ہے ، اس کے اوپر مخلوق کے دروازے بند کر دیتا ہے ، اور مخلوق کی طرف سے اس پر ان کی بخشش و عطا کے راستے روک دیتا ہے ۔ یہاں تک کہ اس کو اپنی طرف پھیر لیتا ہے ۔

این جفای خلق با تو ہر زماں                 گنج ہاآید اگردانی نہان

 یہ خلق خدا جو تیرے ساتھ دم بدم جفا کرر ہی ہے، اگر تو باطناً سمجھے تو تیرے لئے کسی خزانے سے کم نہیں ۔

خلق را با توچنیں بدخوکند                 تاترا نا چار رد او کند

دنیا کو تیرے سا تھ اس لئے بد خوئی پر آمادہ  کیا گیا ہے تاکہ تواس سے مجبور ہو کرکنارہ کش ہو جائے ۔

من اشتغل باللہ ا حتاج الیہ کل شئی

جو شخص خداکی طرف   متوجہ ہو جاتا ہر چیز اس کی طرف جھک جاتی ہے ۔

اسی دل ! خیال قدمش در ہرسری که با شد             آید بپای بوستش ہر سروری که باشد

 اے دل جس سر میں اس خدا کے قدم لینے کا سودا ہو تا ہے ۔ اسی کے قدموں کے بوسے کی تمنا سرداروں کو ہوتی ہے۔

 يعاقبك الحق عز وجل بالفقر و السوال للخلق ورفع الرحمة من قلوبهم

خداوند بزرگ دبر تر تجھ پر اس وقت عذاب نازل فرماتا ہے جب تو اپنا فقر و فاقہ اور سوال لوگوں کے آگے ظاہر کرتا ہے ان کے دلوں سے رحم اٹھا دیتا ہے ، تاکہ وہ تجھے حقارت کی نظر سے دیکھیں

ا ز فقر وسوال در بلاخواهی ماند                دائم بسررنج و عنا خواہی ماند

 فقر و فاقہ کی حکایت اور سوال کرنے کی لت سے تو بلاؤں میں گرفتار رہے گا ۔ بلکہ ہمیشہ تکلیف اوررنج میں بسر کرے گا ۔

 واخرقاكيف تموتون وما عرفتم ربكم

میری دل سوزی کا سبب یہ ہے کہ تم ایسی حالت میں مرتے ہو کہ تم نے اپنے پالنے والے کو بھی نہیں پہچانا ۔

دای صد وای که نزدیک به مردن شده    ہجر آن راحت جان ہا خبری نیست ترا

افسوس صد افسوس کہ تو گور میں پاؤں لٹکائے بیٹھا ہے ۔لیکن تجھکواسی روح پرور کے فراق و ہجر کی پروا نہیں ۔

 الشجاعة صبر ساعة یاطالب الأشياء من غيره ماأنت عاقل هل شئی لیس هوفی خزائن  اللہ

شجاعت یعنی بہادری ایک ساعت کا صبر ہے ۔ اسے ڈھونڈنے والے تو ہرگز عقل مند نہیں کیونکہ تودر خداوندی کے علاوہ دوسری جگہ اسے تلاش کرتا ہے ، کیا کوئی چیز ایسی بھی ہے جو خداوند تعالے کے خزانے میں نہ ہو ۔

صبر یک ساعت اگر از تو در آید بو جو د       از شجاعان بنویسند در یں میدانت

اگر تو ایک لمحے کے لئے بھی صبر سے کام لے تو کارکنان قضا و قدر تیرا نام اس میدان کے بہادروں کی فہرست میں لکھ لیں ۔

ازکسی دیگر چه می خواہی بگو          حق ندادہ  مفلسی آمد به تو

بتا تو سہی کہ تو کسی اور سے کیوں مانگتا ہے ؟ کیا بغیر رضائے الہی  تو نےمفلسی کا منہ دیکھا ہے ۔

ہیں  از وخواہی نی ازغیرا و       آب ازیم جو مجواز خشک جو

مانگنا ہے تو صرف اسی سے مانگ ۔ اس کے علاوہ کسی دوسرےسے نہ مانگ سمندر سے پانی کی خواہش کرنہ کہ خشک چشمے سے۔

رزق از دی جو، مجو از زید وعمر                 مستی از دی جو ، مجواز بھنگ وخمر

رزق صرف اسی سے مانگ زید و بکر سے نہیں۔ مستی و بے خودی بھی اسی سے طلب کر نہ  کہ بھنگ اور شراب سے ۔

 دربخواهی از دگرہم رو دہد برکفش سیل سخاہم رو دہد

اگر تو کسی اور سے بھی مانگے گا تو رنج ملے گا اور سخاوت کاسیلاب اس سے یعنی خدا سے رواں ہو گا ۔

 إياك والحسد فانه بئس القرين هوالذي خرب بيت ابليس واهلكه وجعله من اهل الناروجعله ملعون الحق وملائكته وانبیائه وخلقه .

حسد سے پر ہیز کر اور بچ کیونکہ حسد بہت برا ہم نشین ہے ۔یہی حسد ہےجس نے ابلیس کے گھر کو ویران کیا اور اس کو ہلاکت میں ڈالاحتی کہ اس کو دوزخی بنا دیا اور خداوند کریم اور اس کےتمام فرشتوں اور تمام مخلوق سے را ندہ وملعون کرد یا گیا ۔

يا غلام  لو كان عندك ثمرةا لعلم وبركته لما سعيت إلى ابواب السلاطين في حظوظ نفسه

اے بیٹے ! اگر تیرے پاس علم کا پھل اور اس کی برکت ہوتی تو تو بادشاہوں اور امیروں کے دروازے پر خواہش نفسانی کے واسطے ہرگز نہ کھڑا ہوتا۔

نور علم ار بر دلت تابان بدی              کی ترا پروای سلطانان بدی

 اگر تیرا دل نور علم سے روشن ہو تا توتجھ کو بادشاہوں کی پروا نہ ہوتی ۔

چون تو قدر علم حق نشناختی                  لاجرم سرور ره شان باختی

چوں کہ تو نے علم خداوندی کی قدر نہ کی ۔ اس لئے تو نے ان( بادشاہوں) کی راہ میں اپنے سرکی با زی لگا دی ۔

حق تراہم کردبی وقردوقار                  پیش مردان زان بدنیا خواردار

بنابریں خدا نےتجھ کو بھی ذلیل وحقیر کردیالہذا دنیا میں تو لوگوں کی نظروں میں ذلیل ہے ۔

نوم القوم غلبة اکلھم فاقۃ کلامھم ضرورة والخرس دابھم و طریقتھم . یہ جماعت یعنی اہل اللہ  نیند کے غلبے کے وقت سوتے ہیں ، اور بھوک کے وقت کھاتےہیں اورضرورت کے وقت کلام کرتے ہیں کیونکہ ان کی روش گونگا بن  کرخاموش رہنا ہے ۔

اصل کار صوفیا کی کم خواری است   ذکر و فکروخلوت و بیدری ست

صوفیوں کا اصل کا م کم  کھاناذکر خداوندی فکرتنہائی اور بیداری ہے۔

جز حضور دوست بنود دین شاں      گنگی وخاموشی است آئین شا ں

ان  کاطریقہ صرف کوپیش نظر رکھنا ہے۔ اورا کا ا صول سکوت و خاموشی ہے

یاغلام لیكن الصم والبكم والخمول لباسك والھربة عن الخلق كل مقصودک

اے بیٹےتجھ کو چاہئے خاموشی تیراطریقہ ہو ، اورگمنامی تیرا لباس اور لوگوں سے دور رہنا تیرا اصل مقصود ۔

ولا مجنوں صفت خود را خلاص از قید عالم کن            ره صحرای الفت گیرد ر ودروادی غم کن

 اے دل مجنوں کی طرح اپنے کو دنیا کی قید سے آزاد کردے ۔ صحراے الفت کا راستہ ہے اور وادی محبت کا رخ کر ۔

 ان قدرت آن تنقب في الأرض سر با تخفی فيہ فافعل

  اگر تجھ سے ہو سکے تو زمین میں ایک غار کھودلے اور اس میں چھپ جا ۔

 قعرچہ بگز ید ہرکو عاقل است زاں کہ درخلوت  صفائی دل است

جو بھی عقلمند ہے ، وہ کنوئیں کی تہ کوپسندکرتا ہے ۔ کیوں کہ خلوت میں دل کی صفائی حاصل ہوتی ہے ۔

یاغلام ان اردت سعة الصدروطيب  القلب فلاتسمع  ما یقول الخلق   ولا تلتفت  الى حديثھم اما تعلم انهم لايرضون عن خالقهم فكيف يرضون عنك .

اے بیٹے! اگر تو سینے کی فراخی اور دل کی خوشی چاہتا ہے تو لوگ جو کچھ تجھ کوکہیں اس کو نہ سن اور ان کی گفتگو کی طرف متوجہ نہ ہو ۔ کیا تو نہیں جانتا کہ یہ دنیا دارلوگ جب اپنے خالق ہی سے راضی نہیں تو تجھ سے کیوں کر راضی ہونگے۔

خدمتی می کن برای کردگار ب           ا قبول ور د مخلوقت چه کار

تجھ کو اپنے پروردگار کی خدمت میں لگا رہنا چاہئیےتجھ کو اس سے کیا غرض کہ مخلوق تجھ کو پسند کرتی ہے یا ناپسند

گر دوسه ابله ترامنکر شوند        تلخ کی گردی چوہستی کان قند

اگر چند بے وقوف تجھ سے منکر ہو جاتے ہیں تو کیا حرج ہے کیوں کہ جب تو کان قند ہے تو تلخ کیسے بن سکتا ہے۔

پیروی پیغمبران را ره سپر              طعنۂ خلقت ہمیں بادی شمر

پیغمبروں کے راستے پر چل مخلوق جو تجھ پر طعن کرتی ہے اسکو بھی ایسا ہی خیال کر کہ اس نے پیغمبروں کے ساتھ ایساہی کیا تھا۔ دیکھ کہ مخلوق نے  پیغمبروں تک کو برا بھلا کہا ۔ پھر تو کیوں برا مانتا ہے ۔ جا اور پیغمبروں کا یہ راستہ اختیا رکر۔

 آن خداوندان که رہ طئی  کرده اند گوش بر بانگ سگان کی کرده اند

جن طالبان حق نے منزل طے کر لی ہے وہ وہی ہیں جنہوں نےکتوں کے بھونکنے کی پروا نہیں کی ۔

یا غلام اتبع القوم والذين لا يعقلون غير الحق ولا يسمعون من غير ہ ولا یبصرون من غيره .

 اے بیٹے! اس جماعت کی پیروی کر ، جو خدا وند تعالی کے سوا کچھ اور خیال میں نہیں لاتی اور نہ اس کے علاوہ کچھ اور سنتی ہے اور نہ اس کے سوا کچھ اور دیکھتی ہے ۔( واضح ہو کہ جب طالب، دنیا ومافیہا سے دست بردار ہو کر پوری طرح اپنے معشوق حقیقی یعنی جناب باری کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے تو اس کے تمام لطیفے ایک زبان ہو کر اس کی عبادت میں مشغول ہو تے ہیں ۔ جب دہ درجہ اطمینان کوپہنچتا ہے تو اس کے تمام خیالات اور تصورات کا مجموعہ مل کر ایک تصویر بن جا تا ہے ۔ یعنی سوا خیال باری کے اور کوئی خیال باقی نہیں رہتا ادرعشق الہی اور تصورشوق حقیقی یہاں تک اس میں سرایت کر جاتا ہے کہ وہ سراپا اپنے معشوق کی تصویر بن جاتا ہے ۔ پھر اس وقت وہ کھاتا ہے تو اس سے سنتا ہے تو اس سےغرض جوفعل ہوتا ہے ، وہ اسی سے ہوتا ہے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے در حقیقت اس طرف اشارہ کیا ہےکہ اے لڑکے ! ایسی جماعت کی پیروی کرجس کی یہ حالت ہے ۔ )

شوبنده آن قوم  کز عین صفا                یک لحظه نیند غافل از ذکر  خدا

 اس جماعت( اہل اللہ) کا بندہ بن جوصدق و صفا  کے ساتھ  ذکرخداوندی سے ایک لمحے کو بھی غافل نہیں ہوتی ۔

 درلجہ  بحر جمعیت غرق اندطی ساخته اند باد به تفرقه را

اور بحر جمعیت میں ڈوب کرصحرائے مخالفت سے گزر گئے ہیں۔

یا غلام كن مع الله صامتاعند محبی قدرہ  وفعلہ  حتی تری  منہ الطافا کثیرا

 اے بیٹے! خداوند تعالی کی تقدیر وتصرف کے وقت اس کے حضور میں خاموش رہ اور اعتراض نہ کرتاکہ تجھ پرمہربانیاں اور الطاف زیادہ ہوں

با ورود بلاگر نفسی نبشینی               با صبر به بینی که چہا به بینی

 اگر بلا کے آتے ہی تو ذرا صبر کے ساتھ بیٹھے تو پھر دیکھ کیاخوب پیش آتا ہے ۔

کنت لا اھرب من كلام الشيوخ فظاظیتھم بل کنت اخرس و اعمی و انت لا تصبر على كلامهم وتريد تفلح كلاً

 اے بیٹے! میں بزرگوں اور پیروں کے کلام اور سختی سے نہیں بھاگتا تھا ، بلکہ ان کی سختی دیکھ کراپنے آپ کو گونگا اور اندھا بنالیا کرتا تھا ، اور ان کی سخت کلامی پر صبر کیا کرتا تھا لہذا اگر تو بھی ان کی سخت کلامی پر صبر نہیں کرتا ۔ اور فلاح کی امید رکھتا ہے تو قطعی ناممکن ہے ۔

سروگویند اگرم گویند خوش بگیر         تازگرم و سرو بجہی از سعیر

(پیرمعنی )خوا ہ نرم گفتاری سے پیش آئیں یا سخت کلامی سے اس کو بہتر سمجھ ، تاکہ تواس سرد وگرم کے ذریعے نار جہنم سے نجات حاصل کرے ۔

زہرایشان خور، مخور شہدخنان         تاکسی گردی باقبال شہاں

ان کا دیا زہربھی پی جا ۔ لیکن نا اہلوں کا شہد بھی نہ پی ، تاکہ تواقبال مندی میں بادشاہوں کی طرح ہو جائے ۔

رترادشنام وسیلی شہاں بہترست آن ازثنائی دیگراں

دوسروں کی توصیف سے بہتران بادشاہوں کی گالی اور تھپڑ ہیں ۔

ہیچ  نکشدنفس را جز ظل پیر        دامن آن نفس کش راسخت  گیر

پیرکے سائے کے سوا اور کوئی ایسی  شئے نہیں جو تیرے نفس کوختم کردے ۔ لہذاس نفس کش کا دامن مضبوط پکڑ۔

 إني أراك تزداد علما ظاهرا وجھلا باطنا و مكتوب في التورات من ازداد علمافليز ددوجعا وتعلم ماهذا الوجع هو الخوف من الله تعالى وذل له ولعبادہ

بے شک میں دیکھتا ہوں کہ تیرا ظاہری علم زیادہ ہوتا جاتا ہےاور تو باطن میں جاہل بنتا جا تا ہے ۔ تورات میں لکھا ہے کہ علم زیادہ ہو جائے تو لازم ہے کہ اس میں در بھی بڑھ جائے۔

تو جانتا ہے کہ وہ درد کیا ہے ؟ خدائے تعالی کا ڈر، اس کےحضور میں عاجز ہونا، اور اس کے بندوں کے ساتھ تواضع سےپیش آنا ۔

علم از بہرحلم می خوانند           در تواین تندی و درشتی چیت؟

علم حاصل کیا جاتا ہے تو برد باری اور سنجیدگی کے لئے ۔ پھر تجھ میں یہ تیزی اور سختی کیسی ؟

ویلک تقعد  فی صومعتک  وقلبك في بيوت الخلائق  منتظر في مجیئھم  وهداياهم

افسوس ہے تجھ پر کہ تو ظاہر میں اپنے عبادت خانے میں بیٹھاہے اور تیرادل لوگوں کے گھروں میں سیر کر رہا ہے اور تو ان کے آنے کا منتظر ہے کہ وہ تیرے پاس ہد ئیے اور تحفے لا ئیں۔

 ضاع زمانك وجعلت لك صورة بلا معنى  حسن الخلق هو ان لاتوثرفيک جفاء الخلق بعدمطالعك للحق واستصغار نفسک۔

تم نے اپنی عمر کو بر با دکر دیا اور اپنی صورت کو بے معنی بنادیا خوش خلقی  اس کا نام کہ جب دنیا میں تو نے خدا وند کریم کے تصرف کوچشم بصیرت سے دیکھ لیا اور اپنے آپ کو عاجز جان لیا ، پھرتجھ پر لوگوں کا ظلم اور سختی اثر نہ کرےتو یہی سمجھ کہ جوکچھ میری جان پر ہورہا ہے وہ من جانب اللہ ہے ۔ ذراسوچ تو سہی کوئی دوست پر ناراض ہوتا ہے۔

المحبة ھی تشویش القلوب تقع من حب المحبوب فیصير الدنيا عليہ لحلقة خاتم او مجمع ماتم

محبت دل کی پریشانی کا نام ہے ، جو محبوب کی محبت سے ہاتھ آتی ہے اور دنیا اس شخص پر جس کے دل میں محبت کا کھٹکاہے ۔ ایک انگوٹھی کے حلقے کی طرح تنگ ہو جاتی ہے ۔اور ماتم زدہ لوگوں کی مجلس کی طرح اس کا حال تباہ ہوجاتی ہے۔

گویا ہرغم ہائے جہاں در یک جا  جمع آمدہ بود عشق  نامش کردند

گو یا تمام دنیا کے غم ایک جگہ اکٹھا ہوگئے اوراس کا نام عشق»، رکھ دیا گیا ۔

بأغلام كلما تراہ من الوجوه المستحسنۃ  وتحبه فهوحب ناقصوانت معاقب علیہ  والحب الصحیح الذي لا يتغيرھو الذی ترا ه  بعین و قلبک  وهوداب الصدیقين الروحانيين

اے بیٹے ! جب تو اس کے چہرے کے ظاہری حسن وجمال  سے محبت کرتا ہے تو یہ حب ناقص ہے اور اس پر تجھ کو عذاب ہوگا درست اور صحیح محبت وہ ہے جوکبھی کم و بیش نہ ہویعنی تواس کو اپنے دل کی آنکھ سے دیکھے ۔ اس کا نام روحانی محبت ہے۔

عشق آن بگزین که جملہ انبیاء                یافتند از عشق او کا روکیا

اس کا عشق اختیار کرجس کے عشق سے انبیا نے اپنے کام بنائے۔

عشق آن زنده کزین کو باقی است و زشراب جان فزایت ساقی است

اس واجب الوجود کا عشق اختیار کر، جوہمیشہ زندہ رہے گا، اور اپنی شراب جہاں فزا سے تیرا ساقی ہے ۔

ہر صورت زیبا کہ تراردی نمود            خواہد فلکش زد و رچشم نو ربود

ہروہ اچھی صورت جو تجھ کو بھلی معلوم ہوتی ہے آسمان اس کو تیری نظروں سے اوجھل کر دینا چاہتا ہے ۔

رو دل بکسی ده که در اطوار وجودٍ    بوده است همیشه باتو خواہد بود

جا اور اس سے دل لگا جو کائنات ہی میں ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ تیرے ساتھ رہے گا۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں