حاسد پیدائشی ناراض

حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :

اے بندہ  مو من ! تو اپنے پڑوسی سے اس کے کھانے پینے ، لباس، عورت، گھر ، دولت و ثروت اور مولا کی دی گئی دوسری نعمتوں کی وجہ سے کیوں حسد کر تا ہے۔ اللہ کریم نے اس پر اپنے فضل و کرم فرمایا ہے تو اس پر کیوں جلتا ہے۔ . 

کیا نہیں جانتا کہ حسد تیرے ایمان کو کمزور کر دے گا اور پروردگار کی نگاہ میں تجھے گرادے گا اور وہ کریم تجھ سے ناراض ہو جائے گا۔ کیا تو نے نبی کریم ﷺکی بیان کردہ یہ حدیث قدسی نہیں سنی۔

  الْحَسُودُ ‌عَدُوُّ نِعْمَتِي حاسد میری  عطا کردہ نعمت کا دشمن ہے۔

 اور کیا تو نے نبی کریم ﷺکا یہ ارشاد مبارک نہیں سنا

إِنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ ‌النَّارُ ‌الْحَطَبَ پھر اے مسکین ! تو کس لیے حسد کرتا ہے۔ کیا تو دوسرے کےنصیبے پر جلتا ہے یا اپنے نصیبے پر؟

اگر تو اپنے بھائی کے مقدر پر حسد کرتا ہے جو اللہ کی دین ہے۔ 

جیسا کہ اس کا ارشاد گرامی ہے:

نَحْنُ ‌قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ہم نے خود تقسیم کیا ہے ان کے در میان سامان زیست کو اس دنیوی زندگی میں ز

تو تو اپنے بھائی پر ظلم کر رہا ہے۔ 

ایک آدمی عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ اسے طرح طرح کی نعمتیں میسر ہیں اللہ تعالی کا اس پر بڑا فضل و کرم ہے۔ اس کے نصیب میں خیر ہی خیر ہے۔ ایسا مقدر کسی کو عطا نہیں ہوا۔ اے بندہ مؤمن بھلا تجھ سے ظالم اور جاہل ، غبی اور بے وقوف بھلا اور کون ہے جو اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کی وجہ سے جل رہا ہے ۔

 اگرتجھے اپنی قسمت پر حسد ہے تو تو کمال جاہل اور بے وقوف ہے۔ تیری قسمت میں لکھا کسی دوسرے کو تومل نہیں سکتا اور نہ تجھ سے کسی دوسرے کی طرف منتقل ہو سکتا ہے۔ رب قدوس کا ارشاد گرامی ہے۔ 

مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ میرے ہاں علم بدلا نہیں جاتا اور نہ میں اپنے بندوں پر ظلم کر تا ہوں“ 

اللہ تعالی ظلم نہیں کر تا تیرے مقدر اور نصیبے میں لکھی نعمتیں تجھ سے لیکر کسی دوسرے کو دے دے۔ ایسا سوچنا جہالت ہے اور اپنے بھائی سے زیادتی کے مترادف ہے۔ 

” مؤمن یافاجر پڑوسی سے حسد کرنے سے زیادہ بہتر تو یہ ہے کہ تو زمین سے حسد کرے جو سونے، چاندی اور دوسرے کنوز وذخائر اور جواہر کا معدن ہے جس کے اندر سے عاد، ثمود، کسری، قیصر نے خزانے نکال کر جمع کیے۔ تیرے پڑوسی کے پاس تو اس دولت کا کروڑواں حصہ بھی نہیں ہو گا۔ 

تیرا اپنے پڑوسی سے حسد کرنا ایسے ہے جیسے کوئی آدمی ایک بادشاہ کو دیکھے۔ جس کی مملکت وسیع ہو۔ لشکر لا تعداد ہو۔ خدام و حشم اشارة ابرو کے منتظر گوش بر آواز ہوں۔ اس کی ہیبت و طاقت سے مرعوب دوسرے ممالک اسے خراج دیتے ہوں۔ اسے طرح طرح کی نعمتیں، آسائشیں اور سامان عیش و علم حاصل ہو۔ وہ شخص بادشاہ کی دولت و ثروت اور عیش و عشرت پر حسد نہ کرے۔ پھر اسے ایک صحرائی کتا نظر آئے۔ جو بادشاہ کو اپنے کتوں میں سب کتوں سے زیادہ عزیز ہو۔ جس کی یہ خوب خاطر مدارت کر تا ہو۔ دن رات اسے ساتھ رکھتا ہو۔ اسے اپنے ساتھ سلاتا ہو۔ اپنے ساتھ لیکر اٹھتا ہو۔ بادشاہ اپنے مطبخ سے اسے بہترین کھانا کھلاتا ہو۔ اور اس کابچا ہوا دوسرے کتوں کے آگے ڈالا جاتا ہو۔ وہ 

تم اس کتے کو اس طرح پیتے دیکھ کر حسد کی آگ میں جلنے لگے۔ اس سے دشمنی پالنے اور آرزو کرنے لگے کہ یہ کتا ہلاک ہو جائے۔ اور وہ اس کی جگہ لے لے۔ اور یہ سب خیال کمینگی اور خست کی وجہ سے ہونہ کہ زهد قناعت اور دین داری کی وجہ سے۔ کیا زمانے میں اس سے بھلا احمق نادان اور جاہل کوئی اور ہو گا۔ پھر اے مسکین اگرتجھے علم ہوتا کہ کل تیرے پڑوسی کو ان نعمتوں کا کتنا کڑا حساب دینا ہے۔ قیامت کے روز ان نعمتوں کی وجہ سے اسے بارگاہ خداوندی میں کس قدر مسئولیت کا سامنا کرنا ہے۔ اور اللہ تعالی کی ان نعمتوں کو اگر اس نے ذر یعہ اطاعت وانقیاد نہ بنایا اور ان کی وجہ سے بندے پر اللہ تعالی کی طرف سے جو فرائض عائد ہوئے وہ اس نے پورے نہ کئے حکم خداوندی کی پیروی نہ کی مناہی سے اجتناب نہ کیا۔ اور ان نعمتوں کو عبادت خداوندی اور اطاعت الہی میں کام میں نہ لایا تو اس کو جس سختی کا سامنا ہوگا کہ وہ تمنا کرے گا کاش ہمیں اس دولت سے ایک ذرہ بھی نہ دیا جاتا اے کاش ان نعمتوں سے ہمیں ایک دن کے لیے بھی نہ نوازا جاتا۔ اگر توان حالات سے آگاہ ہو تا تو دولت اور دنیوی نعمتوں کی بھی آرزو نہ کرتا۔ 

کیا تو نے نبی کریم کی یہ حدیث پاک نہیں سنی کہ آپ نے فرمایا

يَوَدُّ أَهْلُ الْعَافِيَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنَّ لُحُومَهُمْ قَدْ قُرِضَتْ ‌بِالْمَقَارِيضِ لِمَا يَرَوْنَهُ لِأَهْلِ الْبَلَاءِ مِنْ جَزِيلِ ‌الثَّوَابِقیامت کے روز کچھ لوگ اہل بلا کو ملنے والے ثواب کو دیکھ کر یہ آرزو کریں کہ کاش دنیامیں ہمارے گوشت قینچیوں سے کاٹے جاتے“ 

كل (قیامت کے روز  تیر اپڑوسی آرزو کرے گا کہ کاش میں دنیا میں اس شخص کی طرح غریب اور مفلس اور ابتلاء و آزمائش میں ہوتا توتجھے اس قدر حساب نہ دینا پڑتا اور پچاس ہزار سال تک قیامت کی گرمی میں یوں کھڑانہ ہونا پڑتا۔ کاش میں دنیامیں دنیاوی نعمتوں سے لطف اندوز نہ ہوتا تو آج اس شخص کی طرح عرش کے سائے میں کھاتے پیتے، فرحت و سرور میں بڑے آرام سے اللہ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا۔ یہ سب نعمتیں اس لیے ہیں کہ تونے دنیا کے شدائد ، تنگی ، آفات فقر اور مشکلات پر صبر کیا۔ اور اپنےنصیبے پر راضی اللہ کے فیصلے کے سامنے سرافگنده رہا۔ اورکبھی شکایت نہیں کی کہ مجھے فقیر پیدا کیا۔ دوسرں کو غنی بنادیا۔ مجھے بیماری دی اور دوسروں کو عافیت بخشی۔ مجھے مصائب و آلام میں مبتلا کیاجب کہ دوسروں کو فراخی دی۔ مجھے ذلیل کیا دوسروں کو عزت دی۔ 

جعلنا الله وإياك ممن صبر على البلاء وشکر علی النعماء واسلم وفوض الأمور إلى رب الأرض والسماء 

آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 126 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں