دوسروں کی برائیاں عارف کی نیکیاں مکتوب نمبر56دفتر دوم

اس بیان ہیں کہ عارف کا معاملہ یہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ دوسروں کی برائیاں اس کے حق میں نیکیوں کا حکم پیدا کر لیتی ہیں۔ مولانا عبد القادر انبالوی کی طرف صادر فرمایا ہے۔ 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الله تعالیٰ  فرماتا ہے۔ فَأُولَئِكَ ‌يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ یہ وہ لوگ ہیں جن کی برائیوں کو الله تعالیٰ  نیکیوں سے بدل دیتا ہے۔) الله تعالیٰ  کی عنایت اور اس حبیب پاک ﷺکے طفیل سے عارف کا معاملہ یہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ دوسروں کی برائیاں اس کی نیکیاں ہو جاتی ہیں اور دوسروں کی بری صفتیں اس کی اچھی صفتیں بن جاتی ہیں۔ مثلا ریا وسمعہ جو برائیوں اور بری صفتوں میں سے ہیں، اس کے حق میں حسن وخوبی پیدا کر لیتے ہیں اور حمد و شکر کاحکم حاصل کر لیتے ہیں کیونکہ اس درویش نے تمام قسم کی عظمت و کبریائی کو اپنے سے مسلوب کرکے حق تعالیٰ  کی پاک بارگاہ کی طرف منسوب کیا ہے اور تمام قسم کے حسن و جمال اور خیر و کمال کو اپنے آپ سے دور کر کے حق تعالیٰ  کے ساتھ مخصوص کیا ہے۔ اپنے آپ کو شرو نقص کے سوا  کچھ نہیں جانتا اور اپنے آپ میں سوائے ذلت ومحتاجی اور عجز و انکسار کے کچھ نہیں دیکھتا اور اگر بالفرض عظمت و کبریائی کا کوئی حصہ بظاہر اس کی طرف متوجہ ہو تو اس کو زینہ معلوم کرتا ہے جس کے ذریعہ سے اوپر کی طرف جاتا ہے اور اس جناب پاک تک جو عظمت و کبریائی کے لائق ہے  پہنچ جاتا ہے۔ اسی طرح اس کے حسن و جمال اور خیر و کمال کا حال یہ ہے کہ زینہ ہونے سے زیادہ اس کے نصیب نہیں۔ امانتیں امانت والوں کی طرف راجع ہوتی ہیں۔ پیس  ریاء سمعہ کی صورت میں اس کا مقصودشہرت وفخر و بلندی و عظمت نہیں ہوتا بلکہ حق تعالیٰ  کی اس نعمت کا اظہار اور اس احسان کا اعلام ہے جو اس کی نسبت واقع ہوا ہے۔ پس اس کا ریاء وسمعه حق تعالیٰ  کا عین حمد وشکر ہے جو برائی سے نکل کر نیکی کی صورت میں آ گیا ہے۔ اس کی دوسری صفات کا بھی یہی حال ہوتا ہے۔ فَأُولَئِكَ ‌يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا(یہ وہ لوگ ہیں جن کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ  نیکیوں سے بدل دیا ہے اور الله تعالیٰ  برا غفور و رحیم ہے۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ206ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں