سنت سنیہ کی اتباع مکتوب نمبر 23دفتر دوم

. اس بیان میں کہ سب سے بہتر کام سنت سنیہ کی اتباع اور بدعت نامر ضیہ سے اجتناب ہے اور اس بیان میں کہ طریقہ نقشبندیہ کی فضیلت دوسرے طریقوں پر صاحب شریعت علیہ السلام کی اتباع اور عزیمت پرعمل کرنے کے باعث ہے اور اس طریقہ عليا کی تعریف اور اس کے مناسب بیان میں مخدوم زادہ خواجہ محمد عیسی کی طرف صادر فرمایا ہے کہ خدا تعالی اس کو سلامت و باقی رکھے اور اعلی مقصد تک پہنچائے 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِاَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی  اللہ تعالی کے لیے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو

سب سے اعلی نصیحت جوفرزند عزیز سلمه الله تعالی اور تمام دوستوں کو کی جاتی ہے۔ وہ یہی  ہے کہ سنت سنیہ کی تابعداری کریں اور بدعت ناپسندیدہ سےبچیں۔ اسلام دن بدن غربت پیدا کرتا جاتا ہے اور مسلمان غریب ہوتے جاتے ہیں اور جوں جوں مرتے جائیں گے، زیادہ تر  غریب ہوتے جائیں گے۔ حتی کہ زمین  پر کوئی الہ اللہ کہنے والا نہ رہے گا۔ لَا ‌تَقُومُ السَّاعَةُ، إِلَّا عَلَى ‌شِرَارِ ‌النَّاسِ اور قیامت برے لوگوں پر قائم ہوگی۔ سعادت مند وہ شخص ہے جو اس غربت میں متروکہ سنتوں میں سے کسی سنت کو زندہ کرے اور مستعمله بدعتوں میں سے کسی بدعت کو مارے اب وہ وقت ہے کہ حضرت خیر البشر علیہ الصلوة والسلام کی بعثت سے ہزار سال گزر چکے ہیں اور قیامت کی علامتوں نے پرتو ڈالا ہے۔ سنت عہد نبوت کے بعد کے باعث پوشیدہ ہوگئی ہے اور بدعت جھوٹ کے ظاہر ہونے کے باعث جلوہ گر ہوگئی ہے۔ اب ایک ایسے بہادر جوان مرد کی ضرورت ہے جو سنت کی مدد کرے اور بدعت کو شکست دے۔ بدعت کا جاری کرنا دین کی بربادی کا موجب ہے اور بدعتی کی تعظیم کرنا اسلام کے گرانے کا باعث ہے۔ مَنْ ‌وَقَّرَ صَاحِبَ بِدْعَةٍ فَقَدْ أَعَانَ عَلَى هَدْمِ الْإِسْلَامِ (جس نے کسی بدعتی کی تعظیم کی اس نے اسلام کے گرانے میں مدددی) آپ نے سنا ہوگا پورے ارادہ اور کامل ہمت سے اس طرف متوجہ ہونا چاہئے کہ سنتوں میں سے کوئی سنت جاری ہو جائے اور بدعتوں میں سے کوئی بدعت دور ہو جائے ۔ خصوصا ان دنوں میں کہ اسلام ضعیف ہورہا ہے۔ اسلام کی رسمیں جبھی قائم رہ سکتی ہیں جب کہ سنت کو جاری کیا جائے اور بدعت کو دور کیا جائے ۔ گزشتہ لوگوں نے شاید بدعت میں کچھ حسن دیکھا ہوگا جو بدعت کے بعض افراد کو حسن اور پسندیدہ سمجھا ہے لیکن یہ فقیر اس مسئلہ میں ان کے ساتھ موافق نہیں ہے اور بدعت کے کسی فرد کو حسن نہیں جانتا بلکہ سوائے ظلمت و کدورت کے اس میں کچھ محسوس نہیں کرتا۔ 

رسول الله ﷺنے فرمایا ہے۔ كُلُّ ‌بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌہر ایک بدعت گمراہی ہے۔ 

اسلام کے اس ضعف وغربت کے زمانہ میں کہ سلامتی سنت کے بجالانے پر موقوف ہے اور خرابی بدعت کے حاصل کرنے پر وابستہ ہے۔ ہر بدعت کو کلہاڑی کی طرح جانتا ہے جو بنیاد اسلام کو گرارہی ہے اور سنت کو چمکنے والے ستارہ کی طرح دیکھتا ہے۔ جو گمراہی کی سیاہ رات میں ہدایت فرما رہا ہے۔ حق تعالی علماء وقت کو توفیق دے کہ کسی بدعت کو حسن کہنے کی جرات نہ کریں اور کسی بدعت پرعمل کرنے کا فتوی نہ دیں خواہ وہ بدعت ان کی نظروں میں صبح کی سفیدی کی طرح روشن ہو کیونکہ سنت کے ماسوا میں شیطان کے مکر کو بڑادخل ہے۔

گزشتہ زمانہ میں چونکہ اسلام قوی تھا، اس لیے بدعت کے ظلمات کو اٹھا سکتا تھا اور ہوسکتا ہے کہ بعض بدعتوں کے ظلمات نور اسلام کی چمک میں نورانی معلوم ہوتے ہوں گے اور حسن کا حکم پا لیتے ہوں گے۔ اگرچہ درحقیقت ان میں کسی قم کا حسن اور نورانیت نہ تھی مگر اس وقت کہ اسلام ضعیف ہے، بدعتوں کے ظلمات کو نہیں اٹھا سکتا۔ اس وقت متقدمین ومتاخرین کا فتوی جاری نہ کرنا چاہئے کیونکہ ہر وقت کے احکام جدا ہیں۔ اس وقت تمام جہان بدعتوں کے بکثرت ظاہر ہونے کے باعث دریائے ظلمات کی طرح نظر آرہا ہے اور سنت کا نور بسبب غربت اور ندرت کے اس دریائے ظلمانی میں کِرم شب افروز یعنی جگنو کی طرح محسوس ہورہا ہے اور بدعت کاعمل اس ظلمت کو اور بھی زیادہ کرتا جاتا ہے اور سنت کے نور کو کم کرتا جاتا ہے۔ سنت پرعمل کرنا اس ظلمت کے کم ہونے اور اس نور کے زیادہ ہونے کا باعث ہے۔ 

اب اختیار ہے کہ کوئی خواہ بدعتوں کی ظلمت کو زیادہ کرے یا سنت کے نور کو بڑھائے اور اللہ تعالی کا گروہ زیادہ کرے یا شیطان کا گروہ أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ أَلا إِنَّ ‌حِزْبَ ‌الشَّيْطانِ هُمُ الْخاسِرُونَخبردار الله تعالی کا گردہ خلاصی یافتہ ہے اور شیطان کا گروہ خسارہ پانے والا ہے۔ 

صوفیہ وقت بھی اگر کچھ انصاف کریں اور اسلام کے ضعف اور جھوٹ کی کثرت کا ملاحظہ کریں تو چاہئے کہ سنت کے ماسوا میں اپنے پیروں کی تقلید نہ کریں اور اپنے شیوخ کا بہانہ کر کے امورمخترعہ(خود ساختہ امور) پرعمل نہ کریں۔ اتباع سنت بے شک نجات دینے والی اور خیرات و برکات بخشنے والی ہے اور غیر سنت کی تقلید میں خطر در خطر ہیں۔ مَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا ‌الْبَلَاغُ قاصد پر پہنچا دیتا ہے۔ 

ہمارے پیروں کو اللہ تعالی ہماری طرف سے جزائے خیر دے کہ انہوں نے اپنے تابعداروں کو امور مبتدعہ کے بجا لانے کی ہدایت نہ کی اور اپنی تقلید سے ہلاک کرنے والے اندھیروں میں نہ ڈالا اور سنت کی متابعت کے سوا اور کوئی راستہ نہ بتایا اور صاحب شریعت علیہ الصلوة والسلام کی اتباع اورعزیمت پر عمل کرنے کے سوا کچھ ہدایت فرمائی۔ اس واسطے ان بزرگواروں کا کارخانه بلند ہو گیا اور ان کے وصول کا ایوان سب سے اعلی بن گیا۔ 

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے سماع ور قص پر پشت پاماری ہے اور وجد و تواجد کو  شہادت سے دوپارہ کر دیا ہے۔ دوسروں کا مکشوف  ومشہود(مشاہدہ) ان بزرگواروں کے نزدیک ماسوامیں داخل ہے اور اوروں کا متخیل ومعلوم نفی کے قابل ہے۔ 

ان بزرگواروں کا معاملہ دیدو دانش اور معلوم ومتخیل اور تجلیات اور ظہورات اور مکاشفات اور معاینات سے وراءالوراء ہے۔

دوسروں کا اہتمام اثبات میں ہے اور ان بزرگواروں کی ہمت ماسوا کی نفی میں۔ 

دوسرے لوگ کلمہ نفی اثبات کا تکرار اس واسطے کرتے ہیں کہ دائرہ اثبات وسعت پیدا کرے اور تمام عالم جو غیرت کے طریق پرظاہروپیدا ہےکلمہ توحید کے تکرارسے حقیقت کے طور پر منکشف ہو جائے اور سب کو دیکھیں اورحق معلوم کریں۔ 

برخلاف ان بزرگواروں کے کہ ان کا مقصورد کلمہ طیبہ لا إله إلا الله کے تکرار سے دائر نفی کی وسعت ہے تا کہ جو کچھ مکشوف ومشہود اور معلوم و متخیل ہوا ہے، سب لا کے تحت میں داخل ہو جائے اور اثبات کی جانب میں کچھ بھی ملحوظ و منظور نہ ہو۔ اگر فرضاً اثبات کی جانب میں کوئی امر ظاہر ہو بھی جائے تو اس کو بھی نفی کی طرف راجع کرتے ہیں اور مقام اثبات مبتدیوں کے حال کے مناسب ہے اور ذکر اللہ جومحض اثبات کا کلمہ ہے۔ اس کے بعد مناسب ہے تا کہ مثبت مکشوف اس کے اثبات کے تکرار سے استقرار استمرار پیدا کرلے۔ برخلاف ان بزرگواروں کے طریق کے جو اس کے برعکس ہے یعنی اول اثبات ہے، پھر اس اثبات کی نفی۔ پس اس طریق میں ذکر اسم الله ابتداء میں مناسب ہے اور ذکرنفی اثبات اس کے بعد۔ 

اگر کوئی ناقص سوال کرے اور کہے کہ اس صورت میں اس طریقت کے بزرگواروں کو مقام اثبات سے کچھ حصہ نہ ہو گا اور نفی کے سوا ان کے ہاتھ کچھ نہ ہوگا تو اس کا جواب یہ ہے کہ دوسروں کا اثبات ابتدائی حال میں ان بزرگواروں کو حاصل ہوتا ہے لیکن بلند ہمتی کے باعث اس کی طرف التفات نہیں کرتے بلکہ نفی کے لائق سمجھ کر اس کی بھی نفی کر دیتے ہیں اور مطلوب کو اس کے ماورا میں جانتے ہیں۔ پس دوسروں کا اثبات بھی ان کو میسر ہے اور اس اثبات کی نفی بھی جو مقام کبریا کے مناسب ہے۔ انہی کو مسلم ہے۔ ہر ایک ناقص و بےسرانجام ان کے کام کا پتہ نہیں لگا سکتا اور ہر ایک بوالہوس ان کے معاملہ کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہوسکتا۔ ان بزرگواروں کے عدم حصول کا تھوڑا سا بیان جو اس مقام میں نفس حصول ہے، کہا گیا ہے۔ اگر ان کے بزرگان بزرگ کے حصول کا بیان کیا جائے تو خواص عوام سے مل جائیں اورمنتہی مبتدیوں کی طرح الف و با کاسبق اختیار کریں۔ بیت 

فریاد حافظ ایں ہمہ از بہرزه نیست ہم قصہ غریب حدیث عجیب ہست ترجمہ: نہیں بے فائدہ حافظ کی فریاد بہت دلچسپ اس کا اجرا ہے 

حق تعالی کی ذات کا وہ مراقبہ جو دوسروں نے اختیار کیا ہوا ہے، ان کے نزدیک اعتبار سے ساقط اور بے اصل ہے۔ یہ مراقبہ حق تعالی   کے ظلال میں کسی ظل کا ہے اور کچھ نہیں۔ تعالی الله عما يقولون علؤا كبيرة (اللہ تعالی بہت بڑا ہے اس بات سے جو لوگ کہتے ہیں) حق تعالی   کی ذات بلکہ اس کے اسماء و صفات بھی ہمارے فردمراقبہ کے احاطہ سے باہر ہیں۔ اس مقام سے سوائے جہل اور حیرت کے کچھ نصیب نہیں۔ نہ وہ جہل و حیرت کہ جس کو لوگ جہل وحیرت جانتے ہیں کیونکہ یہ مذموم ہے بلکہ اس مقام کی جہل و حیرت میں معرفت و اطمینان ہے نہ وہ معرفت و اطمینان جولوگوں کی سمجھ میں آ سکے کیونکہ یہ چون کی قسم  سے ہے اور بیچونی سے بے نصیب ہے۔ اس مقام میں جو کچھ ہم ثابت کریں، بیچون ہوگا۔ خواہ اس کی تعبیر جہل سے کریں خواہ معرفت سے۔ من لم يذقه لم يدر جس نے مزہ چکھاہی نہیں وہ کیا جانے۔ 

نیز ان بزرگواروں کی توجہ احدیت ذات کی طرف ہے اور اسم صفت سے سوائے ذات کے کچھ نہیں چاہتے اور دوسروں کی طرح ذات سے صفات کی طرح نہیں اترتے اور بلندی سے پستی کی طرف نہیں آتے۔ عجب معاملہ ہے۔ اس گروہ میں سے بعض لوگ اسم الله کا ذکر اختیار کرتے ہیں اور اس پر کفایت نہ کرکے صفات کی طرف اتر آتے ہیں اور سميع وعلیم و بصیر(کی صفات) کا ملاحظہ کرتے ہیں اور پھر عروج کے طور پر علیم و بصیر وسمیع سے اسم اللہ کی طرف جاتے ہیں۔ صرف اسم اللہ پر کیوں کفایت نہیں کرتے اور احد یت ذات کو توجہ کا قبلہ کیوں نہیں بناتے۔ أَلَيْسَ اللَّهُ ‌بِكافٍ ‌عَبْدَهُ   کیا اللہ اپنے بندہ کو کافی نہیں ہے  نص قاطع ہے اور آیت کریمه قُلِ اللَّهُ ثُمَّ ‌ذَرْهُمْ کہہ دو اللہ پر ان کو چھوڑ دے اس مضمون کی تائید کرتی ہے۔ 

غرض اس طریقہ علیا کے بزرگواروں کی نظر ہمت بہت بلند ہے۔ ہر زراق اور رقاص یعنی مکار اور ناچنے والے سے نسبت نہیں رکھتے۔ اس واسطے دوسروں کی نہایت ان کی بدایت میں مندرج ہے اور اس طریقہ کا مبتدی دوسرے طریقوں کے منتہی کا علم رکھتا ہے۔ ابتداء ہی سے ان کا سفر وطن میں مقرر ہوا ہے اور خلوت در انجمن حاصل  ہو چکی ہے اور دوام حضور ان کا نقد وقت ہے۔ 

یہ وہ لوگ ہیں کہ طالبوں کی تربیت ان کی صحبت علیہ پر موقوف ہے اور ناقصوں کی تکمیل ان کی شریف توجہ پرمنحصر ہے۔ ان کی نظر امراض قلبی کو شفا بخشتی ہے اور ان کی توجہ باطنی بیماریوں کو دور کرتی ہے۔ ان کی ایک توجہ سوچلوں کا کام کر جاتی ہے اور ان کی ایک التفات کئی سالوں کی ریاضتوں اور مجاہدوں کے برابر ہے۔ بیت

 نقشبندیہ عجب قافلہ سالار انند    کہ برند از رہ پنہان بحرم قافلہ را

 ترجمہ: نقشبندی عجیب ہی قافلہ سالار ہیں جو قافلے کو خفیہ راستے سے حرم پہنچا دیتے ہیں ۔

اے سعادت کے نشان والے۔ اس بیان سے کوئی یہ وہم نہ کرے کہ یہ اوصاف وطریقہ علیہ نقشبندیہ کے تمام اساتذوں(پیروں) اور شاگردوں(مریدوں) کو حاصل ہوتے ہیں، ہرگز نہیں بلکہ یہ شمائل و خصائل اس طریقہ علیہ کے ان بزرگواروں کے ساتھ مخصوص ہیں جنہوں نے کام کو نہایت النہایت تک پہنچایا ہے اور وہ مبتدی رشید (سمجھدار)جنہوں نے ان بزرگوں کے ساتھ نسبت ارادت درست کی ہے اور آداب کو مدنظر رکھا ہے، ان کے حق میں اندراج نہایت در بدایت ثابت ہے۔ برخلاف اس طریق کے اسی مبتدی کے جو اس طریق کے شیخ ناقص کا مرید ہو، اندراج نہایت دربدایت کے حق میں متصور نہیں کیونکہ جب اس کا شیخ نہایت تک نہیں پہنچاتو مبتدی کے حق میں نہایت کیونکر متصور ہوسکتا ہے۔ 

از کوزه بروں ہماں تراود که در دست            ترجمه  نکلتا ہے وہی برتن سے جو کچھ اس میں ہوتا ہے ۔

اے نجابت و شرافت کے نشان والے۔ ان بزرگوں کا طریق بعينہ اصحاب کرام علیہم الرضوان کا طریق ہے اور یہ اندراج نہایت در بدایت اس اندراج نہایت در بدایت کا اثر ہے جو حضرت خیر البشر علیہ الصلوة والسلام کی صحبت میں میسر ہو جاتا تھا کیونکہ آنحضرت  کی پہلی ہی صحبت میں وہ کچھ میسر ہو جاتا تھا جو دوسروں کو انتہا میں بھی جا کر بمشكل حاصل ہو سکے اور یہ فیوض و برکات وہی فیوض و برکات ہیں جو قرن اول میں ظاہر ہوتے تھے۔ اگر چہ ظاہر میں  آخر اول سے وسط کی نسبت دور ہے لیکن حقیقت میں آخر وسط کی نسبت اول کے زیادہ نزدیک ہے اور اسی رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ متوسطین اس کو یاد رکھیں یا نہ رکھیں بلکہ متاخرین میں سے آخر کو بھی معلوم نہیں کہ اس معاملہ کی حقیقت کو پاسکیں۔ والسلام على من اتبع الهدى والتزم متابعة المصطفى عليه وعليهم من الصلوة والتسليمات اتمها وادومها

 اور سلام ہو آپ پر اوران  لوگوں پر جو ہدایت کے رستہ پر چلے اور جنہوں نے حضرت محمدﷺکی متابعت کو لازم پکڑا۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ80 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں