قصیدہ ابوانوار تطوانی (پہلا مراسلہ)

قصیدہ ابوانوار تطوانی کے عنوان سے پہلے مراسلے کا چھٹا حصہ ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ حضرت ابوانوار تطوانی کا ایک قصیدہ اسی مفہوم کے بارے میں ہے جس کے بعض اشعار میں انہوں نے فرمایا ہے:۔

وَمَنْ كَانَ قَصْدُهُ فِي نَيْلِ مَا                              يُرِيدُ فَمَا قَامَ بِالْحُجَّةِ

جس شخص کا ارادہ اس شے کے حاصل کرنے کا ہے جس کو وہ چاہتا ہے تو وہ کسی دلیل پر قائم نہیں  ہے۔

وَاصِلْ طَرِيْقَنَا وَارْفُضِ الْعِلَلْ               مَعَ الصَّبْرِ وَارْفَعُ لِلْهِمَّة

تم ہمارے طریقے میں شامل ہو جاؤ اور اسباب کو صبر کے ساتھ چھوڑ دو اور ہمت کو بلند کر لو

وَحَسْبُ الْمُحِبُّ مُشَاهَدَةٌ                                    يَقِينَا لِمَ يَبْدُو مِنْ حَضْرَةِ

اور محبت کرنے والے کیلئے یقیناً اس تجلی کا مشاہدہ کافی ہے جو بارگاہ الہٰی سے ظاہر ہوتی ہے  ۔

وَفَهُمُكَ عَنْهُ جَدِيرٌ بِانْ یُعَوٍ ضَكَ الْمَنْعَ بِالْمَنْحَةِ

اور اللہ تعالیٰ سے تمہاری   سمجھ اس لائق ہے کہ وہ تمہاری   محرومی کو بخشش سے بدل دے۔

حضرت ابو الانوار ، سیدی حضرت ابو المحاسن یوسف فاسی کے شاگرد ہیں۔ ان کا مزار شریف تطوان میں پرانی مسجد کے قریب قصبہ کے کنارے واقع ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو ان کے ذکر سے فائدہ پہنچائے۔ اور جس شخص نے دنیا سے منہ پھیر لیا، تو دنیا میں اس کا کوئی وطن نہیں ہے بلکہ اس کا وطن اسکے مولائے حقیقی کے پاس ہے۔ جیسا کہ اس کو مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے۔

فَلَمْ يَتَّخِذْهَا وَطَنًا، وَلَا جَعَلَهَا سَكَنا             پھر اس نے دنیا کو اپنا وطن اور اپنے آرام کا ذریعہ نہیں بنایا۔

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ اس لیے کہ جوشخص کسی جگہ کو وطن بناتا ہے تو وہاں قیام کرتا ہے اور سائر کیلئے کوئی مقام نہیں ہے، مگر اس کے رب کے پاس۔ سید نا حضرت عیسے علیہ السلام دنیا کی شان  میں فرمایا کرتے تھے :۔ تم لوگ دنیا سے گزر جاؤ اور اس کو آباد نہ کرو ۔

حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے :-

مَالَى وَلِلدُّنْيَا إِنَّمَا مَثَلِى وَمَثَلُ الدُّنْيَا كَرَاكِبٍ سَافَرَ فِي يَوْمٍ صَائِفٍ فَاسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ ثُمَّ رَاحَ عَنْهَا وَتَرَكَهَا

مجھ کو دنیا سے کیا واسطہ ، میری مثال اور دنیا کی مثال اس سوار کی طرح ہے جو گرم دن میں سفر کرتا ہے پھر وہ کسی درخت کے سایہ میں کچھ دیرٹھہر کر آرام کرتا ہے، پھر اس کو چھوڑ کر اپنا راستہ لیتا ہے۔

لہذا دنیا ٹھہر نے اور آرام کرنے کا گھر نہیں ہے بلکہ وہ در حقیقت ایک جگہ سے دوسرے جگہ پہنچنے کیلئے صرف ایک پل ہے۔ بلکہ اس نے اس دنیا میں اپنی ہمت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سیر کرنے کیلئے مضبوط کیا اور اس نے پس عارف باللہ کو غیر اللہ کے ساتھ قرار نہیں ہوتا ہے کیونکہ اس کی کل ہمت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتی ہے جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا:-

بَلْ انْهَضَ الْهِمَّةَ فِيهَا إِلَى اللَّهِ وَسَارَ فِيهَا مُسْتَعِیْنًا بِهِ فِى الْقُدُوْمِ عَلَيْهِ

بلکہ اس نے اس دنیا میں   اپنی ہمت کو اللہ تعالیٰ کی طرف  سیر کرنے کیلئے مضبوط کیا  اور اس نےاس تک پہنچے کیلئے اس سے مدد طلب کرتے ہوئے سیر کی۔

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سیر کرنے والا اس عالم سے عالم ملکوت میں داخل ہونے کا ارادہ کر کے اپنی ہمت کو مضبوطی سے قائم کرتا ہے۔ اور ہمت کا مضبوطی سے قائم کرنا اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرنے اور اس کے قہر کے سامنے سرنگوں، رہنے اور اپنے سفر میں اس سے مدد طلب کرنے کے ساتھ ہوتا ہے۔

اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے اس قول کا یہی معنی ہے ۔ اور اس نے اس تک پہنچنے کیلئے اس سے مدوطلب کرتے ہوئے سیر کی۔

اور اللہ تعالیٰ تک پہنچنا ۔ اس کی معرفت اور اس کے علم کی تحقیق تک پہنچنا ہے اور یہ صرف اس وقت تک صحیح ہوتا ہے جب اپنے اختیار اور قوت سے بری ہو جائے۔ کیونکہ جس شخص نے یہ گمان کیا کہ اس کی محنت اور کوشش اس کو اللہ تعالیٰ تک پہنچادے گی ۔ اس نے جہالت کی اور جس شخص کا اعتماد اللہ تعالیٰ پر درست ہو گیا، وہ منزل تک پہنچ گیا۔ پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کا راز بیان کرتے ہوئے فرمایا :- فَمَا زَالَتْ مَطِيَّةٌ عَزْمِهِ لَا يَقِرُّ قَرَارُهَا             لہذا اس کے عزم ارادہ) کی سواری کو بھی قرار نہیں ہوتا ہے

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ مطیہ :- سواری کو کہتے ہیں ، یہاں مضبوط ارادہ کیلئے بطور استعارہ استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی ہمیشہ اس کا ارادہ مضبوط رہتا، اور اس کی روح شائق رہتی ہے۔ اس کو بھی قرار وسکون نہیں ہوتا یعنی اس کو اپنے مولائے حقیقی تک پہنچے بغیر کسی جگہ سکون نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ شوق اس کو بیقرار رکھتا ہے اور وصول کے فوت ہو جانے کا خوف اس کو تھر تھراتا رہتا ہے۔ لہذا وہ ہمیشہ سیر کرتا رہتا ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا ۔

دَائِمًا تِسْيَا رُها   اس کی سیر ہمیشہ جاری رہتی ہے

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ اس کی سیر اس کے مانعات کی کمی کی وجہ سے ہمیشہ جاری رہتی ہے اس لیے کہ جب اس نے دنیا سے کنارہ کشی کر لی تو اس کے مانعات کم ہو گئے کیونکہ دنیا ہی مانعات کا جال ، اور تعلقات کی جڑہے۔ لہذا جس شخص نے اپنے قلب سے دنیا کی رگوں کو کاٹ دیا اس سے دنیا کے  تعلقات ختم ہو گئے ۔ جیسا کہ شیطان جو دنیا کا باپ ہے تو جب اس نے اس کی لڑ کی دنیا کو طلاق دی دی تو شیطان نے اس کو چھوڑ دیا ۔

اور جیسا کرنفس، چونکہ اس کی اصل اور روح دنیا ہے۔ لہذا جب  دنیا ختم ہوگئی تو ہ بھی مر گیا۔ اور جیسا کہ لوگ تو چونکہ دنیا مردار ہے اور لوگ اس کے کتے ہیں لہذا جب اس نے ان کےمردار کو ان کیلئے چھوڑ دیا تو ان سے محفوظ ہو گیا ۔لہذا اس کی سیر اس وقت تک برابر جاری رہتی ہے کہ وہ اپنے اصلی وطن میں پہنچ جائے اور اس کا اصلی وطن بارگا ہ الہٰی ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے۔ إلى أَنْ أنَاخَتْ بِحَضْرَةِ الْقُدْسِ وَبِسَاطِ الْأُنْسِ    یہاں تک کہ وہ بارگاہ قدس میں انسیت کے فرش پر بیٹھ جاتی ہے

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں : اناخت کے معنی اتر نا اور بوجھ گرادینا ہیں ۔ لہذا جب روح احباب کے مشاہدے تک پہنچ جاتی ہے اور اس کیلئے دروازہ کھل جاتا ہے تو اس پر جو کچھ بوجھ ہے اس کو اتار دیتی ہے اور پاکیزگی اور کمال کے فرش پر بیٹھ جاتی ہے۔ اور یہی بارگا ہ  قدس ہے، جس کو ولایت کا دائرہ کہتے ہیں جو بندے سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنے مولائے حقیقی کو ہر ایسے وصف سے جو اس کی شان کے لائق نہیں ہے، پاک اور مقدس یقین کرے۔ یہاں تک کہ وہ یہ پہچان لے کہ اللہ تعالیٰ اس سے بہت بلند ہے کہ اس کو پہچانا جا سکے اور اس کی شان اس سے بہت اعلیٰ ہے کہ اس کی تعریف کی جا سکے۔ پھر وہ اپنی عاجزی کا اعتراف کرتے ہوئے کہے۔

لَا أُحْصِي ثَنَاءٌ عَلَيْكَ میں تیری تعریف کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ہوں

پھر وہ تعظیم میں ڈوب جاتا ہے اور تقدیس میں مضبوطی سے قائم ہو جاتا ہے۔ تو اس کی تقدیس کا عکس اس پر اس طرح پڑتا ہے کہ اس کا مولائے حقیقی اس کی حفاظت کرتا ہے۔ لہذا وہ کوئی نافرمانی نہیں کرتا ہے بلکہ اس کے اللہ تعالیٰ کے پاک بنانے کی وجہ سے وہ مقدس ہو جاتا ہے ۔ چونکہ اس نے اپنے مولائے حقیقی کے مقدس ہونے کا یقین کیا ، اس لیے اس کے مولائے حقیقی نے اس کو مقدس بنا یا دیا ہے ۔ ہرشی اسی پر قائم رہتی ہے جو اس کے وصف کے لائق ہوتا ہے اور اسی تقدیس کی بنا پر وہ اپنے مولائے حقیقی کے ساتھ ہرشے کو بھول جاتا ہے پھر وہ اس کے ماسوا کو ترک کر کے ، اس کے عین جلال اور اس سے محبت میں تعظیم کے طریقے پر ، نہ کہ فرق یا عین ذلیل کرنے میں ذلیل ہونے کے طریقے پر ، اس سے مانوس ہو جاتا ہے۔ تم اس کو بخوبی سمجھو۔ یہ حضرت شیخ زروق   نےفرمایا ہے۔

اور انسیت کا فرش : دوست کے قرب اور قریب کی سرگوشی سے خوشی کا مقام ہے۔ یہاں تک کہ وہ ہرشے سے غائب ہو جائے اور ہرشے میں اس سے مانوس ہو جائے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں