ماسوا سےبےتعلق ہونے کا بیان مکتوب نمبر 18 دفتر سوم

ماسوا سےبےتعلق ہونے اور طالبان کی محبت پر ترغیب دینے کے بیان میں سيادت پناه میر محمد نعمان کی طرف صادر فرمایا ہے ۔

الحمد لله رب العلمين دائما على كل حال في السراء والضراء (رنج و خوشی میں ہر حال میں اللہ رب العالمین کی حمد ہے) آپ کا صحیفہ شریفہ معہ ہدیہ کے جوسلیمان کے ہمراہ ارسال کیا تھا پہنچا۔ اللہ تعالی آپ کو جزائےخیر دے آپ نے لکھا تھا کہ اس سفرسے مقصود بعض ان مقاصد کا حاصل ہوتا تھا۔ جن کا حاصل ہونا مشکل تھا۔ آپ امیدوار ہیں فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا  إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًاکیونکہ تنگی کے ساتھ آسانی ہےبیشک تنگی کے ساتھ آسانی ہے) ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں۔ لن يغلب عسر یسرين (دو آسانیوں پر ایک تنگی کبھی غالب نہیں آ سکتی)۔ فقیر اپنے احوال پر ملال کو کیا لکھے اور کیا دوستوں کو بے مزہ کرے تا ہم اللہ تعالی کا ہزار ہزار شکر ہے کہ عین بلا میں عافیت حاصل ہے۔ فسبحان الله من جمع بين الضدين و قرن بين المتنافيين (پاک ہے وہ ذات جس نے دوضدوں کو جمع کردیا اور دو مخالف چیزوں کو ملا دیا ) ایک دن فقیر قرآن مجید کی تلاوت کر رہا ۔ 

تھا کہ یہ آیت آئی۔ قُلۡ إِن كَانَ ءَابَآؤُكُمۡ وَأَبۡنَآؤُكُمۡ وَإِخۡوَٰنُكُمۡ وَأَزۡوَٰجُكُمۡ وَعَشِيرَتُكُمۡ وَأَمۡوَٰلٌ ٱقۡتَرَفۡتُمُوهَا وَتِجَٰرَةٞ تَخۡشَوۡنَ كَسَادَهَا وَمَسَٰكِنُ تَرۡضَوۡنَهَآ أَحَبَّ إِلَيۡكُم مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَجِهَادٖ فِي سَبِيلِهِۦ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّىٰ يَأۡتِيَ ٱللَّهُ بِأَمۡرِهِۦۗ وَٱللَّهُ لَا يَهۡدِي ٱلۡقَوۡمَ ٱلۡفَٰسِقِينَ ( کہ اگر تمہارے باپ، بیٹے، بھائی، بیویاں، کنبہ اور وہ مال جو تم نے جمع کیے ہیں اور تجارت جس کے نقصان سے تم ڈرتے ہو اور مکان جن کو پسند کرتے ہو اللہ اور اس کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ کی نسبت تم کو عزیز ہیں۔ توپھرمنتظر رہو کہ الله تعالی کا امر آ جائے اور اللہ تعالی فاسقوں کوکبھی ہدایت نہیں دیتا) اس آیت کریمہ کے پڑھنے سے بہت گریہ اور خوف غالب آیا۔ اسی اثناء میں اپنے حال کا مطالعہ کیا۔ دیکھا کہ ان تعلقات میں سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ اگر سب کے سب تلف و ناچیز ہو جائیں تو کوئی ایسا امر پسند نہ کرے گا جس کا کرنا شریعت میں برا معلوم ہو اور ان امور کو اس امر پر اختیار نہ کرے گا ۔

باقی التماس یہ ہے کہ جب یار ہمارے ساتھ خدا کے لیےصحبت رکھتے ہیں تو ہمیں بھی چاہئے کہ ان کو آزردہ نہ کریں بلکہ ناز کے ساتھ رکھیں اور ان کے ظاہری باطنی احوال کی خبر تھیں۔ حدیث قدسی مشہور ہے يَا دَاودُ إِذَا ‌رَأَيْتَ ‌لِيَ ‌طَالِبًا فَكُنْ لَهُ خَادِمًا (اے داؤد جب تو کوئی میرا طالب ویکھے تو اس کی خدمت کر ان کے حال پر پہلے کی نسبت زیادہ توجہ رکھیں اور لاپروائی اور تغافل کودور کریں اور لکھیں کہ اقربیت والا مکتوب آپ کی سمجھ میں آیا ہے یا نہیں۔ اگرسمجھ میں آ گیا ہو تو بہتر ورنہ شک و تردد کے مقامات کوتشخیص کر کے لکھیں۔ اس سے زیادہ کیا لکھا جائے ۔ الله تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کو سلامت و عافیت اور ثبات و استقامت عطا کرے اور زیادہ زیادہ توفیق بخشے اور آپ کا خاتمہ نیک کرے۔ والسلام 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفترسوم صفحہ68 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں